چاند پر جانے کا امریکی دعویٰ جھوٹ نکلا ۔۔۔۔!

زاہد لطیف

محفلین
لیکن یہاں ہماری کامیابی کا دعوی تو شاہد کسی نے نہیں کیا۔
البتہ بہت سے دوسرے بھی اس میں شامل ہو سکتے ہیں ۔۔۔ صرف '' ہم '' ہی نہیں ۔:unsure:
یہ تو ایک سوال ہے کسی پہ الزام نہیں۔ میرے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ ہماری نظریں دوسروں کی خامیاں تلاش کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ اپنے گھر کی طرف کوئی توجہ نہیں۔ چونکہ صاحب مضمون اسی ملک سے وابستہ معلوم ہوتے ہیں تو ہمارے کا لفظ اسی تناظر میں ہے۔ باقی ملکوں کی کامیابی اور ناکامی کے ذمہ دار ہم نہیں ہیں۔
 
آخری تدوین:

سید ذیشان

محفلین
ہمارے لیے تو چاند کے وہ خلا نورد جنگل کے مور تھے اتنی خراب وڈیو میں ان کا ناچ بالکل بیکار نظر آیا ۔ امید ہے کہ اب کے خلا نورد مور اچھا ناچ ناچیں گے اور کیمرے بھی چار کے والے ہوں گے ۔ اب ہو گا اصل تماشا تو !!!
اس زمانے میں بھی 70mm کی فلم پر وڈیوز بنائی تھیں انہوں نے۔ اس پر ایک ڈاکیومنٹری بھی حال میں آئی ہے۔ ٹی وی پر تو ظاہری بات ہے کوالٹی اتنی اچھی نہیں ہو گی۔ :)

Apollo 11 (2019) - IMDb
 
یہ خبر پہلی دفعہ چاند پر جانے کے بارے میں ہے۔اس وقت واقعئ روس سے مقابلہ میں سبقت لے جانے کے چکر میں جعلی طور پر فلمایا گیا تھا۔ بعد میں روس اور امریکا دونوں اپنے اپنے مشن میں کامیاب ہو گئے تھے
 

سید ذیشان

محفلین
یہ خبر پہلی دفعہ چاند پر جانے کے بارے میں ہے۔اس وقت واقعئ روس سے مقابلہ میں سبقت لے جانے کے چکر میں جعلی طور پر فلمایا گیا تھا۔ بعد میں روس اور امریکا دونوں اپنے اپنے مشن میں کامیاب ہو گئے تھے
امریکہ کا تو سب کو معلوم ہے کہ 1969 میں گئے یا اس دھاگے میں کچھ لوگوں کے مطابق اس کا دعوا کیا۔ روسیوں نے کب چاند پر پہلا قدم رکھا تھا اور اس خلا باز کا کیا نام تھا۔ کچھ اس پر روشنی ڈالنا پسند کریں گے؟
 
انسان کے چاند پر اترنے سے متعلق اختلافی نظریات
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
Jump to navigationJump to search
21 جولائی 1969ء کو دنیا کے کئی ممالک میں live TV پر امریکا نے اپنے دو خلانوردوں کو چاند کی سطح پر اترتے ہوئے دکھایا اور 50 کروڑ لوگوں نے اسے دیکھا۔ لیکن کچھ ہی سالوں میں خود امریکا میں اس بات پر شک و شبہ ظاہر کیا جانے لگا کہ کیا واقعی انسان چاند پر اترا تھا؟ [1][2]
15 فروری 2001ء کو Fox TV Network سے نشر ہونے والے ایک ایسے ہی پروگرام کا نام تھا ?Conspiracy Theory: Did We Land on the Moon۔ یہ نشریات 19 مارچ کو دوبارہ نشر کی گئی۔

وجوہات[ترمیم]
امریکا کے ایٹمی ہتھیار روس کے ایٹمی ہتھیاروں سے زیادہ بہتر اور چھوٹے سائز کے تھے اس لیے انہیں میزائلوں میں استعمال کرنے کے لیے چھوٹے راکٹوں کی ضرورت پڑتی تھی۔ اس کے برعکس روسیوں کو اپنے بھاری ایٹمی ہتھیاروں کے لیے بہت بڑے راکٹوں کی ضرورت تھی اور اس وجہ سے روسی راکٹ سازی میں امریکا سے کہیں آگے نکل گئے۔ امریکا کو شدید خطرہ تھا کہ نہ صرف اس کے علاقے روسی ایٹمی ہتھیاروں کی زد میں ہیں بلکہ سرد جنگ کی وجہ سے شروع ہونے والی خلائی دوڑ میں بھی انہیں مات ہونے والی ہے۔ جنگ ویتنام میں ناکامی کی وجہ سے امریکیوں کا مورال بہت نچلی سطح تک آ چکا تھا۔

روسی خلائی برتری[ترمیم]
پہلا مصنوعی سیارہ خلا میں بھیجنے کے معاملے میں روس کو سبقت حاصل ہو چکی تھی جب اس نے 4 اکتوبر 1957ء کو Sputnik 1 کو کامیابی کے ساتھ زمین کے مدار میں بھیجا۔ روس 1959ء میں بغیر انسان والے خلائی جہاز چاند تک پہنچا چکا تھا۔ 12 اپریل 1961ء کو روسی خلا نورد یوری گاگرین نے 108 منٹ خلا میں زمیں کے گرد چکر کاٹ کر خلا میں جانے والے پہلے انسان کا اعزاز حاصل کیا۔ 23 دن بعد امریکی خلا نورد Alan Shepard خلا میں گیا مگر وہ مدار تک نہیں پہنچ سکا۔ ان حالات میں قوم کا مورال بڑھانے کے لیے صدر کینڈی نے 25 مئی 1961ء میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ ہم اس دہائی میں چاند پر اتر کر بخیریت واپس بھی آجائیں گے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ دہائی کے اختتام پر بھی اسے پورا کرنا امریکا کے لیے ممکن نہ تھا اس لیے عزت بچانے اور برتری جتانے کے لیے جھوٹ کا سہارا لینا پڑا۔ امریکا کے ایک راکٹ ساز ادارے میں کام کرنے والے شخص Bill Kaysing کے مطابق اس وقت انسان بردار خلائی جہاز کے چاند سے بہ سلامت واپسی کے امکانات صرف 0.017% تھے۔ اس نے اپولو مشن کے اختتام کے صرف دو سال بعد یعنی 1974ء میں ایک کتاب شائع کی جس کا نام تھا We Never Went to the Moon: America's Thirty Billion Dollar Swindle
3 اپریل 1966ء کو روسی خلائی جہاز Luna 10 نے چاند کے مدار میں مصنوعی سیارہ چھوڑ کر امریکیوں پر مزید برتری ثابت کر دی۔

ڈراما[ترمیم]
21 دسمبر 1968ء میں NASA نے Apollo 8 کے ذریعے تین خلا نورد چاند کے مدار میں بھیجے جو چاند کی سطح پر نہیں اترے۔ غالباً یہ NASA کا پہلا جھوٹ تھا اور جب کسی نے اس پر شک نہیں کیا تو امریکا نے پوری دنیا کو بے وقوف بناتے ہوئے انسان کے چاند پر اترنے کا یہ ڈراما رچایا اور لندن کے ایک اسٹوڈیو میں جعلی فلمیں بنا کر دنیا کو دکھا دیں۔ آپولو 11 جو 16جولائی 1969ء کو روانہ ہوا تھا درحقیقت آٹھ دن زمین کے مدار میں گردش کر کے واپس آ گیا۔
1994ء میں Andrew Chaikin کی چھپنے والی ایک کتاب A Man on the Moon میں بتایا گیا ہے کہ ایسا ایک ڈراما رچانے کی بازگشت دسمبر 1968ء میں سنی گئی تھی۔
اعتراضات
چاند تک پہنچنے کے لیے انسانوں کو وان ایلن ریڈیئشن بیلٹ (Van Allen radiation belts) سے گزرنا پڑتا ہے جو صحت کے لیے سخت خطرہ بن سکتی ہیں۔ زمین کے قریبی مداروں میں جانے کے لیے ان خطرناک تابکار بیلٹ میں سے نہیں گزرنا پڑتا۔ اس کے باوجود زمین کے بہت نزدیک خلائی مداروں میں جانے کے لیے انسان سے پہلے جانوروں کو بھیجا گیا تھا اور پوری تسلی ہونے کے بعد انسان مدار میں گئے۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ چاند جیسی دور دراز جگہ تک پہنچنے کے لیے پہلے جانوروں کو نہیں بھیجا گیا اور انسانوں نے براہ راست یہ خطرہ مول لے لیا۔
کچھ لوگ یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ اگر انسان چاند پر پہنچ چکا تھا تو اب تک تو وہاں مستقل قیام گاہ بن چکی ہوتی مگر معاملہ برعکس ہے اور چاند پر جانے کا سلسلہ عرصہ دراز سے کسی معقول وجہ کے بغیر بند پڑا ہے۔ اگر 1969ء میں انسان چاند پر اتر سکتا ہے تو اب ٹیکنولوجی کی اتنی ترقی کے بعد اسے مریخ پر ہونا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہے۔ ناسا کے مطابق دسمبر 1972ء میں اپولو 17 چاند پر جانے والا آخری انسان بردار خلائی جہاز تھا۔
ناسا نے انسان کی چاند پر جو تصویریں اور ویڈیو دکھائی تھیں ان میں کبھی آسمان پر کوئی ستارہ نظر نہیں آیا۔ چونکہ چاند پر کرہ ہوائی نہیں ہے اس لیے وہاں دن کو بھی تارے نظر آنے چاہیئں۔
گمشدہ ٹیپ[ترمیم]
چاند پر انسان کی پہلی چہل قدمی کی فلم کا سگنل دنیا تک ترسیل کے بعد slow scan television -SSTV فارمیٹ پر اینالوگ Analog ٹیپ پر ریکارڈ کیا گیا تھا۔ ان ٹیپ پر ٹیلی میٹری کا ڈیٹا بھی ریکارڈ تھا۔ عام گھریلو TV اس فارمیٹ پر کام نہیں کرتے اس لیے 1969ء میں اس سگنل کو نہایت بھونڈے طریقے سے عام TV پر دیکھے جانے کے قابل بنایا گیا تھا۔ اب ٹیکنولوجی اتنی ترقی کر چکی ہے کہ ایسے سگنل کو صاف ستھری اور عام TV پر دیکھنے کے قابل تصویروں میں بدل دے۔ جب ناسا سے SSTV کے اصلی ٹیپ مانگے گئے تو پتہ چلا کہ وہ ٹیپ دوبارہ استعمال میں لانے کے لیے مٹائے جا چکے ہیں اور Nasa آج تک اصلی ٹیپ پیش نہیں کر سکا ہے۔
گمشدہ ڈرائنگ[ترمیم]
چاند پر جانے اور وہاں استعمال ہونے والی مشینوں کے بلیو پرنٹ اور تفصیلی ڈرائنگز بھی غائب ہیں۔

ناسا کی تردید[ترمیم]
ناسا ہمیشہ ایسے اعتراضات کی تردید کرتی آئی ہے۔
2002ء میں ناسا نے James Oberg نامی شخص کو پندرہ ہزار ڈالر اس بات پر انعام دیے کہ اس نے چاند پر پہنچنے کو ناسا کا ڈراما کہنے والوں کے اعتراضات کا نقطہ بہ نقطہ جواب دیا۔
غالباً ایسی ہی کسی وجہ سے Myth Busters کی سیریل میں ایسے اعتراضات کو غلط ثابت کیا گیا ہے۔
 
بعد میں روس اور امریکا دونوں اپنے اپنے مشن میں کامیاب ہو گئے تھے

امریکہ کا تو سب کو معلوم ہے کہ 1969 میں گئے یا اس دھاگے میں کچھ لوگوں کے مطابق اس کا دعوا کیا۔ روسیوں نے کب چاند پر پہلا قدم رکھا تھا اور اس خلا باز کا کیا نام تھا۔ کچھ اس پر روشنی ڈالنا پسند کریں گے؟

جواب نہیں ملا
 

فہد مقصود

محفلین
کون سے مضمون کا ذکر کر رہے ہیں آپ تھوڑا واضح کریں تاکہ ہمیں بھی سعادت نصیب ہو۔ مجھے اس بارے بالکل نہیں معلوم کہ صاحب کی علمی قابلیت کیا ہے۔ میری داںست میں ذہنی قابلیت ہی علمی قابلیت پرکھنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ کوئی بھی بندہ ذہن کتنا استعمال کرتا ہے اس سے کافی کچھ اندازہ ہو جاتا ہے۔

حُبِّ اہلِ بیت جزوِ ایمان ہے

بھائی بالکل پڑتا ہے۔ ان صاحب نے اپنے علماء اور بزرگوں کا دفاع کرنے میں یہ الفاظ استعمال کئے کہ توحید میں اچھائی اور برائی دونوں ہوسکتی ہے۔ اگر تو یہ صرف پیروکار ہیں تو کوئی اتنا بڑا ایشو نہیں ہے لیکن اگر یہ عالم ہو کر ایسی باتیں کر رہے ہیں تو انتہائی تشویشناک بات ہے۔ جب اہلِ علم ایسی باتیں کرنے لگ جائیں تو پھر دین میں کیا باقی رہ جائے گا؟
 

فہد مقصود

محفلین
میرا سوال آپ نے غور سے نہیں پڑھا یا صرف اپنے تناظر میں پڑھا ہے۔ میں نے ان آیات کا کہا ہے جو صاحب نے اپنے مراسلے میں درج کی ہیں۔

قران کی سورت آل عمران میں اللہ عزوجل فرماتے ہیں۔

هُوَ الَّ۔ذِىٓ اَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ اٰيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ اُمُّ الْكِتَابِ وَاُخَرُ مُتَشَابِ۔هَاتٌ ۖ فَاَمَّا الَّ۔ذِيْنَ فِىْ قُلُوْبِ۔هِ۔مْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَآءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَآءَ تَاْوِيْلِهٖ ۗ وَمَا يَعْلَمُ تَاْوِيلَهٝٓ اِلَّا اللّ۔ٰهُ ۗ وَالرَّاسِخُوْنَ فِى الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّآ اُولُو الْاَلْبَابِ (7)
وہی ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری اُس میں بعض آیتیں محکم ہیں وہ کتاب کی اصل ہیں اور دوسری مشابہ ہیں، سو جن لوگوں کے دل ٹیڑھے ہیں وہ گمراہی پھیلانے کی غرض سے اور مطلب معلوم کرنے کی غرض سے متشابہات کے پیچھے لگتے ہیں، اور حالانکہ ان کا مطلب سوائے اللہ کے اور کوئی نہیں جانتا اور مضبوط علم والے کہتے ہیں ہمارا ان چیزوں پر ایمان ہے یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہی ہیں، اور نصیحت وہی لوگ مانتے ہیں جو عقلمند ہیں۔
(سورہ آل عمران - آیت نمبر 7 کا اردو ترجمہ)

سورۃ القمر کی آیت 17، 22، 32، 40 میں اللہ عزو جل فرماتے ہیں۔

وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِل۔ذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ (17)
اور البتہ ہم نے تو سمجھنے کے لیے قرآن کو آسان کر دیا پھر کوئی ہے کہ سمجھے۔
(سورہ القمر - عربی متن اور اردو ترجمہ)

اب جس آیت کا آپ تذکرہ کر رہے ہیں اس کی تائید میں مستند احادیث موجود ہیں۔ اس لیے اگر کوئی قادیانی خاتم النبین کا اپنی مرضی کا مفہوم اخذ کرے تو یہ خیانت ہو گی۔ اس کا گواہ تو خود مرزا کا کردار ہے۔ ایک سچے نبی کے کردار اور مرزا کے کردار میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ قادیانیوں نے اپنی ایک الگ سے برانچ کھول لی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ ظلم صرف قادیانیوں نے ہی نہیں کیا۔ اگر قادیانیوں نے ایک الگ نبی (نعوذ باللہ) بنا کر اس کی اتباع کر شروع کر دی تو کم و بیش اسی طرح کے کام تو برصغیر پاک و ہند کے سنیوں اور شیعوں نے بھی کیے ہیں۔ ان کی کتابیں پڑھیں تو آپ کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔ جعل سازی صرف قادیانیوں نے نہیں کی بلکہ یہ سارے ہی ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی دوڑ میں ہیں۔ بلکہ میں تو یہ بھی کہوں گا کہ ہماری مذہبی ٹریڈ مارکہ برادری نے شخصیت اور علماء پرستی اس قدر پھیلا دی کہ لوگوں نے جعلی نبی کو بھی نبی مان لیا۔ قادیانی سنیوں سے ہی نکلی ہوئی برانچ ہے کوئی یورپ سے نہیں آئی۔ اس میں دیسی علماء کا قصور اول ہے۔ شخصیت پرستی سے جس طرح کے مسائل ابھرتے ہیں وہ آج قوم کے سامنے ہیں۔ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینے سے یا دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانے سے وہ مسائل حل نہیں ہو جاتے یا وہ غیر کی ذمہ داری نہیں بن جاتے۔

جزاکم اللہ خیر واحسن الجزاء فی الدنیا والاخرۃ

بہت اچھا لکھا ہے بھائی اور سچ لکھا ہے۔ مرزا قادیانی کی باطل تعلیمات اور قادیانی اور برصغیر کے دیگر علماء کی تعلیمات میں مماثلت پر بات کرنے کا ارادہ ہے اور انشاء اللہ جلد ہی کی جائے گی۔ آپ نے اختصار سے کام لیتے ہوئے بڑا جامع لکھا ہے۔ آپ کے اس مراسلے کا لنک کاپی کر کے رکھ لیا ہے اور جب اس موضوع پر لکھنا شروع کروں گا تو آپ کے اس مراسلے کو بھی کاپی کرنا چاہوں گا۔
 

محمد سعد

محفلین
امریکہ کا تو سب کو معلوم ہے کہ 1969 میں گئے یا اس دھاگے میں کچھ لوگوں کے مطابق اس کا دعوا کیا۔ روسیوں نے کب چاند پر پہلا قدم رکھا تھا اور اس خلا باز کا کیا نام تھا۔ کچھ اس پر روشنی ڈالنا پسند کریں گے؟
Fun fact: Luna 15 Accompanied Apollo 11 to the Moon
روس نے امریکہ کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے انہیں یقین دہانی کرائی تھی کہ ان کا Luna 15 مشن، اپولو 11 کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنے گا۔ یہ وعدہ انہوں نے پورا بھی کیا۔
روس جیسا شدید روایتی حریف، امریکی مشن کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار تھا اور یہاں بیٹھے جغادری، بغیر کسی سائنس و انجنئیرنگ کے علم کے، یہ ماننے کو تیار نہیں کہ امریکہ وہاں پہنچنے میں کامیاب ہو پایا ہے۔ حد ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
69 میں کس کس کے پاس ٹی وی تھا ۔ اس بحث میں تو "عمر رسیدہ" محفلین کو دعوت دینی پڑے گی ۔ :)
میری والدہ نے کنونشن سینٹر جا کر لائیو دیکھا تھا۔ امریکیوں نے ہر اتحادی ملک میں اسے لائیو دکھانے کا انتظام کیا ہوا تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
Fun fact: Luna 15 Accompanied Apollo 11 to the Moon
روس نے امریکہ کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے انہیں یقین دہانی کرائی تھی کہ ان کا Luna 15 مشن، اپولو 11 کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنے گا۔ یہ وعدہ انہوں نے پورا بھی کیا۔
روس جیسا شدید روایتی حریف، امریکی مشن کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار تھا اور یہاں بیٹھے جغادری، بغیر کسی سائنس و انجنئیرنگ کے علم کے، یہ ماننے کو تیار نہیں کہ امریکہ وہاں پہنچنے میں کامیاب ہو پایا ہے۔ حد ہے۔
اگر امریکہ چاند پر نہ گیا ہوتا تو اس کا سب سے پہلے بھانڈا اس کا سب سے بڑا حریف روس پھوڑ چکا ہوتا۔ جبکہ روس نے آج تک اسے جھوٹ نہیں کہا!
1989 میں روس نے اقرار کیا کہ وہ امریکہ سے چاند پر پہلے پہنچنے کی جنگ ہار چکے ہیں۔
Russians Finally Admit They Lost Race to Moon
 

دوست

محفلین
انسان کبھی چاند پر نہیں گیا- ناسا کا اعتراف

ترجمہ و تلخیص: قدیر قریشی
یکم اپریل، 2020

ناسا کے سابق چیئرمین جارج میولر نے ایک بیان میں اعتراف کیا ہے کہ انسان چاند پر نہیں گیا اور چاند پر انسان کے اترنے کا دعویٰ جھوٹا ہے- جارج میولر 1963 سے 1969 تک اپالو پروگرام کے چیئرمین تھے- ان کی عمر 89 سال ہے اور انہیں حال ہی میں کورونا وائرس کے حملے کی وجہ سے ہسپتال میں داخل کیا گیا ہے- جارج میولر نے ہسپتال سے بیان جاری کیا ہے کہ وہ پچاس سال سے اس احساس جرم کے ساتھ جی رہے ہیں کہ وہ تمام دنیا سے جھوٹ بولتے رہے ہیں- لیکن اب جب کہ وہ چند دنوں کے مہمان ہیں، ان کا ضمیر انہیں اس بات پر مجبور کر رہا ہے کہ وہ مرنے سے پہلے اپنے گناہوں کا اعتراف کریں اور تمام دنیا کے سامنے اقرار کریں کہ انہوں نے اپنے رفقاء کے ساتھ مل کر چاند پر اترنے کا ڈرامہ رچایا تھا

ان کے بیان کے مطابق اس ڈرامے کی منظوری امریکی حکام نے کیبینٹ لیول پر دی تھی- اس پلان کی منظوری 1967 میں صدر نکسن کے سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر جیمز شیلیسینجر نے دی تھی لیکن صدر نکسن کو اس بارے میں کوئی خبر نہیں تھی- 1967 تک ناسا کا پلان یہی تھا کہ انسانوں کو اپالو پروگرام کے راکٹ کے ذریعے چاند پر اتارا جائے گا اور پھر انہیں بحفاظت واپس زمین پر لایا جائے گا- لیکن جنوری 1967 میں ناسا کے حکام نے جیمز شیلیسینجر کو ایک خفیہ بریفنگ دی جس میں انہیں مطلع کیا گیا کہ ناسا کے انجینیئرز نے آٹھ سال کی محنت کے بعد اپنی شکست تسلیم کر لی ہے اور یہ تسلیم کر لیا ہے کہ موجودہ ٹیکنالوجی اس قابل نہیں ہے کہ وہ انسان کو چاند پر لے جا سکے- اس بریفنگ میں ان نکات کو اجاگر کیا گیا تھا:

1۔ زمین کی فضا سے باہر نکلنا ممکن نہیں ہے- بائبل میں صاف طور پر لکھا ہے کہ زمین کی فضا سے کوئی انسان باہر نہیں جا سکتا
2- وین ہیلن بیلٹ انسانوں کے لیے جان لیوا ہے- اگر کوئی خلاباز اس بیلٹ سے گذرے گا تو خطرناک شعاعوں سے جل کر بھسم ہو جائے گا- خلانوردوں کو ان شعاعوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اب تک جو بھی ٹیکنالوجی ٹیسٹ کی گئی ہے وہ سب فیل ہو گئی ہے
3- چاند پر گریویٹی نہیں ہے اس لیے چاند پر اترنا ہی ممکن نہیں ہے
4- ہمارے پاس کوئی راکٹ ایسا نہیں ہے جو خلا نوردوں کو چاند سے واپس لا سکے- چاند سے واپس لانے کے لیے اتنا ہی بڑا راکٹ درکار ہے جتنا زمین سے چاند پر جانے کے لیے (کیونکہ دونوں طرف کا فاصلہ برابر ہے)- چاند تک وہ راکٹ پہنچایا کیسے جائے گا جس سے خلا نوردوں کو واپس لایا جائے
5- خلا میں راکٹ کا ایندھن نہیں جلے گا کیونکہ خلا میں آکسیجن نہیں ہے- اس لیے زمین کی کشش سے باہر نکلتے ہی راکٹ ٹھس ہو جائے گا اور واپس زمین پر آ گرے گا
6- کچھ سائنس دان (جن میں خلا نورد ورجل گرس گریسن، اور سیفٹی انسپکٹر ٹامس رائل بیرن شامل ہیں) اس بات پر مائل نظر آتے ہیں کہ عوام کے سامنے اپنی شکست تسلیم کر لی جائے- ان سائنس دانوں کو اپنے راستے سے ہٹانا ضروری ہو گیا ہے

چنانچہ اس میٹنگ میں فیصلہ کیا گیا کہ اپالو کے پروگرام پر کام بند کر دیا جائے اور اس رقم سے ہالی ووڈ کی ایک ٹیم کے ساتھ معاہدہ کیا جائے تاکہ چاند پر اترنے کی فیک فلمیں بنا کر جاری کی جائیں- اس کے علاوہ خلا نورد ورجل گرس گریسن، اور سیفٹی انسپکٹر ٹامس رائل بیرن سمیت ان تمام لوگوں کو غائب کر دیا جائے جو اس پلان کا بھانڈا پھوڑ سکتے ہیں

چاند پر اترنے کی جعلی فلم بنانے کے لیے ہالی ووڈ کے مشہور ڈائرکٹر سٹینلی ملر کے ساتھ کروڑوں ڈالر کا معاہدہ کیا گیا اور انہیں یہ فلم بنانے کا کام سونپا گیا- اس کام کے لیے ایریا 51 سے ملحقہ علاقے کو چنا گیا- اگرچہ سٹینلی ملر دنیا کے بہترین ڈائرکٹر ہیں لیکن ان کے پاس اس وقت نہ تو کمپیوٹر ٹیکنالوجی تھی اور نہ ہی انہیں سائنس کا کوئی گہرا علم تھا- اس وجہ سے ان کے سٹاف نے جو فلم بنائی اس میں بہت سی غلطیاں موجود تھیں- مثال کے طور پر:

1۔ چاند پر اترنے والی شٹل کے نیچے اسکے طاقتور انجن سے نکلنے والے بلاسٹ کا کوئی نشان تک موجود نہیں ہے۔ حالانکہ وہ نیچے سب کچھ اڑا دیتی ہے۔
2- اس فوٹیج میں ستارے کہیں نظر نہیں آرہے جبکہ آسمان بلکل سیاہ ہے۔
3- لائٹ صرف چند سو گز کے علاقے میں ہی نظر آرہی ہے اور اسکے باہر اندھیرا جیسے کوئی سٹیج تیار کی گئی ہو۔
4- اس فوٹیج میں امریکی پرچم ہوا سے پھڑپھڑا رہا ہے جبکہ چاند پر ہوا کا کوئی وجود نہیں ہے۔
5- راکٹ کے بلاسٹ کا شور 150 سے 160 ڈیسابل ہوتا ہے جو کان پھاڑ دیتا ہے۔ اس فوٹیج میں اتنے شور کے ساتھ اترنے والے شٹل کے اندر خلابازوں کی بات چیت صاف سنائی دے رہی ہے اور ایک سرسراہٹ کے سوا کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی۔
6-ویڈیو کو دگنی رفتار سے چلایا جائے تو اس میں چہل قدمی کرنے والے خلاباز اور چاند گاڑی بلکل نارمل انداز میں چلتے پھرتے محسوس ہوتے ہیں جیسے زمین پر۔
7- چاند کی سطح پاؤڈر کی طرح ہے۔ تب شٹل کی دوبارہ پرواز کے بعد اس کے نیچے آنے والے طوفان سے " چاند پر انسانی قدموں کے نشانات " مٹ کیوں نیہں گئے؟
8- شٹل کا واپس اڑنا تو لگتا ہی نہیں کہ دھماکے کے زور پر اڑی بلکہ یوں لگتا ہے کہ اس کو اوپر کسی چیز سے باندھ کر کھینچا گیا ہے۔

سٹینلی ملر نے اس دوران جو سینکڑوں ہزاروں تصاویر لیں ان پر اٹھنے والے سوالات اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہیں مثلاً:

1- بڑے بڑے کیمرے خلابازوں کے سینوں پر بندھے ہوئے تھے جن کی وجہ سے ان کے لیے جھکنا تک مشکل تھا۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے " محض تکے " سے ہزاروں تصویریں لیں جنکی فریمنگ بلکل پرفیکٹ ہے۔
2- بہت ساری تصاویر ایسی ہیں جن میں مختلف چیزوں کے سائے بلکل مختلف زاویے پر ہیں گویا سورج کے بجائے روشنی کا منبع کہیں نزدیک ہی تھا۔
3- بعض تصاویر ایسی ہیں جن میں سورج یا روشنی خلاباز کے عین پیچھے ہے لیکن اس کے باوجود سامنے سے اس خلاباز کی ساری جزئیات بلکل واضح نظر آرہی ہیں جیسے سامنے سے بھی روشنی کا بندوبست کیا گیا ہو۔
4- کچھ تصاویر ایسی بھی ہیں جن کا پس منظر ایک جیسا ہے لیکن کچھ میں خلائی شٹل ہی موجود نہیں۔ وہ تصاویر کب لی گئیں؟
5- ان ساری تصاویر کی کوالٹی زیادہ اچھی نہیں جبکہ اس دور میں بہت اچھے کیمرے موجود تھے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ملر نے جان بوجھ کر ذرا غیر واضح تصاویر بنوائیں۔

چونکہ ناسا کے جنرل سٹاف کو اس ڈرامے سے مکمل طور پر بے خبر رکھا گیا تھا اس لیے ان فلموں کو صرف جارج میولر اور چند دوسرے حکام کو منظوری کے لیے پیش کیا گیا- چونکہ جارج میولر خود سائنس دان نہیں ہیں اس لیے وہ ان فلموں میں ان غلطیوں کی نشاندہی نہیں کر پائے جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے- چنانچہ ان کی منظوری سے ان فلموں کو ریلیز کر دیا گیا- بعد میں لوگوں نے ان غلطیوں کی نشاندہی کی لیکن اس وقت تک تیر کمان سے نکل چکا تھا-

جارج میولر کے اس بیان سے ناسا کے ہیڈکواٹرز میں کھلبلی مچ گئی ہے اور اب انہیں سمجھ نہیں آ رہا کہ اس بیان کو پھیلنے سے کیسے روکا جائے- حکومت امریکہ نے تمام نیوز چینلز اور تمام اخباروں کو نوٹس جاری کیا ہے کہ جارج میولر کا یہ بیان شائع کیا گیا تو ان کے خلاف نہ صرف قانونی کاروائی کی جائے گی بلکہ ان کے سربراہان کو خفیہ پولیس گرفتار کر کے عقوبت خانوں میں ڈال دے گی جس کے بعد کسی کو ان کا نام و نشان بھی نہیں ملے گا- اس وجہ سے یہ خبر کسی بڑے اخبار یا نیٹ ورک نے نشر نہیں کی

اصل مضمون
 

سید ذیشان

محفلین
انسان کبھی چاند پر نہیں گیا- ناسا کا اعتراف

ترجمہ و تلخیص: قدیر قریشی
یکم اپریل، 2020

ناسا کے سابق چیئرمین جارج میولر نے ایک بیان میں اعتراف کیا ہے کہ انسان چاند پر نہیں گیا اور چاند پر انسان کے اترنے کا دعویٰ جھوٹا ہے- جارج میولر 1963 سے 1969 تک اپالو پروگرام کے چیئرمین تھے- ان کی عمر 89 سال ہے اور انہیں حال ہی میں کورونا وائرس کے حملے کی وجہ سے ہسپتال میں داخل کیا گیا ہے- جارج میولر نے ہسپتال سے بیان جاری کیا ہے کہ وہ پچاس سال سے اس احساس جرم کے ساتھ جی رہے ہیں کہ وہ تمام دنیا سے جھوٹ بولتے رہے ہیں- لیکن اب جب کہ وہ چند دنوں کے مہمان ہیں، ان کا ضمیر انہیں اس بات پر مجبور کر رہا ہے کہ وہ مرنے سے پہلے اپنے گناہوں کا اعتراف کریں اور تمام دنیا کے سامنے اقرار کریں کہ انہوں نے اپنے رفقاء کے ساتھ مل کر چاند پر اترنے کا ڈرامہ رچایا تھا

ان کے بیان کے مطابق اس ڈرامے کی منظوری امریکی حکام نے کیبینٹ لیول پر دی تھی- اس پلان کی منظوری 1967 میں صدر نکسن کے سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر جیمز شیلیسینجر نے دی تھی لیکن صدر نکسن کو اس بارے میں کوئی خبر نہیں تھی- 1967 تک ناسا کا پلان یہی تھا کہ انسانوں کو اپالو پروگرام کے راکٹ کے ذریعے چاند پر اتارا جائے گا اور پھر انہیں بحفاظت واپس زمین پر لایا جائے گا- لیکن جنوری 1967 میں ناسا کے حکام نے جیمز شیلیسینجر کو ایک خفیہ بریفنگ دی جس میں انہیں مطلع کیا گیا کہ ناسا کے انجینیئرز نے آٹھ سال کی محنت کے بعد اپنی شکست تسلیم کر لی ہے اور یہ تسلیم کر لیا ہے کہ موجودہ ٹیکنالوجی اس قابل نہیں ہے کہ وہ انسان کو چاند پر لے جا سکے- اس بریفنگ میں ان نکات کو اجاگر کیا گیا تھا:

1۔ زمین کی فضا سے باہر نکلنا ممکن نہیں ہے- بائبل میں صاف طور پر لکھا ہے کہ زمین کی فضا سے کوئی انسان باہر نہیں جا سکتا
2- وین ہیلن بیلٹ انسانوں کے لیے جان لیوا ہے- اگر کوئی خلاباز اس بیلٹ سے گذرے گا تو خطرناک شعاعوں سے جل کر بھسم ہو جائے گا- خلانوردوں کو ان شعاعوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اب تک جو بھی ٹیکنالوجی ٹیسٹ کی گئی ہے وہ سب فیل ہو گئی ہے
3- چاند پر گریویٹی نہیں ہے اس لیے چاند پر اترنا ہی ممکن نہیں ہے
4- ہمارے پاس کوئی راکٹ ایسا نہیں ہے جو خلا نوردوں کو چاند سے واپس لا سکے- چاند سے واپس لانے کے لیے اتنا ہی بڑا راکٹ درکار ہے جتنا زمین سے چاند پر جانے کے لیے (کیونکہ دونوں طرف کا فاصلہ برابر ہے)- چاند تک وہ راکٹ پہنچایا کیسے جائے گا جس سے خلا نوردوں کو واپس لایا جائے
5- خلا میں راکٹ کا ایندھن نہیں جلے گا کیونکہ خلا میں آکسیجن نہیں ہے- اس لیے زمین کی کشش سے باہر نکلتے ہی راکٹ ٹھس ہو جائے گا اور واپس زمین پر آ گرے گا
6- کچھ سائنس دان (جن میں خلا نورد ورجل گرس گریسن، اور سیفٹی انسپکٹر ٹامس رائل بیرن شامل ہیں) اس بات پر مائل نظر آتے ہیں کہ عوام کے سامنے اپنی شکست تسلیم کر لی جائے- ان سائنس دانوں کو اپنے راستے سے ہٹانا ضروری ہو گیا ہے

چنانچہ اس میٹنگ میں فیصلہ کیا گیا کہ اپالو کے پروگرام پر کام بند کر دیا جائے اور اس رقم سے ہالی ووڈ کی ایک ٹیم کے ساتھ معاہدہ کیا جائے تاکہ چاند پر اترنے کی فیک فلمیں بنا کر جاری کی جائیں- اس کے علاوہ خلا نورد ورجل گرس گریسن، اور سیفٹی انسپکٹر ٹامس رائل بیرن سمیت ان تمام لوگوں کو غائب کر دیا جائے جو اس پلان کا بھانڈا پھوڑ سکتے ہیں

چاند پر اترنے کی جعلی فلم بنانے کے لیے ہالی ووڈ کے مشہور ڈائرکٹر سٹینلی ملر کے ساتھ کروڑوں ڈالر کا معاہدہ کیا گیا اور انہیں یہ فلم بنانے کا کام سونپا گیا- اس کام کے لیے ایریا 51 سے ملحقہ علاقے کو چنا گیا- اگرچہ سٹینلی ملر دنیا کے بہترین ڈائرکٹر ہیں لیکن ان کے پاس اس وقت نہ تو کمپیوٹر ٹیکنالوجی تھی اور نہ ہی انہیں سائنس کا کوئی گہرا علم تھا- اس وجہ سے ان کے سٹاف نے جو فلم بنائی اس میں بہت سی غلطیاں موجود تھیں- مثال کے طور پر:

1۔ چاند پر اترنے والی شٹل کے نیچے اسکے طاقتور انجن سے نکلنے والے بلاسٹ کا کوئی نشان تک موجود نہیں ہے۔ حالانکہ وہ نیچے سب کچھ اڑا دیتی ہے۔
2- اس فوٹیج میں ستارے کہیں نظر نہیں آرہے جبکہ آسمان بلکل سیاہ ہے۔
3- لائٹ صرف چند سو گز کے علاقے میں ہی نظر آرہی ہے اور اسکے باہر اندھیرا جیسے کوئی سٹیج تیار کی گئی ہو۔
4- اس فوٹیج میں امریکی پرچم ہوا سے پھڑپھڑا رہا ہے جبکہ چاند پر ہوا کا کوئی وجود نہیں ہے۔
5- راکٹ کے بلاسٹ کا شور 150 سے 160 ڈیسابل ہوتا ہے جو کان پھاڑ دیتا ہے۔ اس فوٹیج میں اتنے شور کے ساتھ اترنے والے شٹل کے اندر خلابازوں کی بات چیت صاف سنائی دے رہی ہے اور ایک سرسراہٹ کے سوا کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی۔
6-ویڈیو کو دگنی رفتار سے چلایا جائے تو اس میں چہل قدمی کرنے والے خلاباز اور چاند گاڑی بلکل نارمل انداز میں چلتے پھرتے محسوس ہوتے ہیں جیسے زمین پر۔
7- چاند کی سطح پاؤڈر کی طرح ہے۔ تب شٹل کی دوبارہ پرواز کے بعد اس کے نیچے آنے والے طوفان سے " چاند پر انسانی قدموں کے نشانات " مٹ کیوں نیہں گئے؟
8- شٹل کا واپس اڑنا تو لگتا ہی نہیں کہ دھماکے کے زور پر اڑی بلکہ یوں لگتا ہے کہ اس کو اوپر کسی چیز سے باندھ کر کھینچا گیا ہے۔

سٹینلی ملر نے اس دوران جو سینکڑوں ہزاروں تصاویر لیں ان پر اٹھنے والے سوالات اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہیں مثلاً:

1- بڑے بڑے کیمرے خلابازوں کے سینوں پر بندھے ہوئے تھے جن کی وجہ سے ان کے لیے جھکنا تک مشکل تھا۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے " محض تکے " سے ہزاروں تصویریں لیں جنکی فریمنگ بلکل پرفیکٹ ہے۔
2- بہت ساری تصاویر ایسی ہیں جن میں مختلف چیزوں کے سائے بلکل مختلف زاویے پر ہیں گویا سورج کے بجائے روشنی کا منبع کہیں نزدیک ہی تھا۔
3- بعض تصاویر ایسی ہیں جن میں سورج یا روشنی خلاباز کے عین پیچھے ہے لیکن اس کے باوجود سامنے سے اس خلاباز کی ساری جزئیات بلکل واضح نظر آرہی ہیں جیسے سامنے سے بھی روشنی کا بندوبست کیا گیا ہو۔
4- کچھ تصاویر ایسی بھی ہیں جن کا پس منظر ایک جیسا ہے لیکن کچھ میں خلائی شٹل ہی موجود نہیں۔ وہ تصاویر کب لی گئیں؟
5- ان ساری تصاویر کی کوالٹی زیادہ اچھی نہیں جبکہ اس دور میں بہت اچھے کیمرے موجود تھے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ملر نے جان بوجھ کر ذرا غیر واضح تصاویر بنوائیں۔

چونکہ ناسا کے جنرل سٹاف کو اس ڈرامے سے مکمل طور پر بے خبر رکھا گیا تھا اس لیے ان فلموں کو صرف جارج میولر اور چند دوسرے حکام کو منظوری کے لیے پیش کیا گیا- چونکہ جارج میولر خود سائنس دان نہیں ہیں اس لیے وہ ان فلموں میں ان غلطیوں کی نشاندہی نہیں کر پائے جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے- چنانچہ ان کی منظوری سے ان فلموں کو ریلیز کر دیا گیا- بعد میں لوگوں نے ان غلطیوں کی نشاندہی کی لیکن اس وقت تک تیر کمان سے نکل چکا تھا-

جارج میولر کے اس بیان سے ناسا کے ہیڈکواٹرز میں کھلبلی مچ گئی ہے اور اب انہیں سمجھ نہیں آ رہا کہ اس بیان کو پھیلنے سے کیسے روکا جائے- حکومت امریکہ نے تمام نیوز چینلز اور تمام اخباروں کو نوٹس جاری کیا ہے کہ جارج میولر کا یہ بیان شائع کیا گیا تو ان کے خلاف نہ صرف قانونی کاروائی کی جائے گی بلکہ ان کے سربراہان کو خفیہ پولیس گرفتار کر کے عقوبت خانوں میں ڈال دے گی جس کے بعد کسی کو ان کا نام و نشان بھی نہیں ملے گا- اس وجہ سے یہ خبر کسی بڑے اخبار یا نیٹ ورک نے نشر نہیں کی

اصل مضمون
اس کے علاوہ موصوف نے اسلام بھی قبول کیا ہے۔ حیرت ہے اتنی بڑی بات یہ یہودی ایجنٹ رائٹر گول کر گیا ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
میری والدہ نے کنونشن سینٹر جا کر لائیو دیکھا تھا۔ امریکیوں نے ہر اتحادی ملک میں اسے لائیو دکھانے کا انتظام کیا ہوا تھا۔
گویا یہ دھوکا آپ کی والدہ کو بھی دیا گیا تھا ۔ سو آپ نے اس کے انتقام کا کچھ سوچا۔
یا یہ انتقام محفل سے لے رہے ہیں ؟
 

محمد سعد

محفلین
یہ محفل بھی اس سے باہر کی دنیا ہے...
شاید ثواب میں اضافہ کا سبب بن جائے!!!
اگر آپ چاہیں تو آپ کو کراچی فلکیاتی سوسائٹی کے افراد سے جوڑا جا سکتا ہے جو آپ کو نہ صرف حقیقت ٹی وی سے کہیں بہتر معلومات فراہم کریں گے بلکہ اپنے وسائل کے اندر جو ممکن ہوا براہ راست مشاہدہ بھی کروا دیں گے۔
 

سید عمران

محفلین
Top