پاکستان میں کورونا کیسز کی تعداد

ٹرومین

محفلین

image.png
بہت شکریہ:)
 

جاسم محمد

محفلین
سندھ میں نالائق مراد علی شاہ اور بلاول گٹھ جوڑ کے نتیجے میں بر وقت اور برمحل اقدامات شاید رنگ لارہے ہیں، ادھر پنجاب میں سیلیکٹڈ اور وسیم اکرم پلس کے کھوکھلے دعوؤں کے برخلاف آج پنجاب کے متاثرین کی تعداد سندھ سے بڑھ چکی ہے۔ وزیراعظم کے منہ سے سندھ حکومت کے اقدامات پر شاید اب بھی ایک لفظ تک نہ نکلے لیکن آنے والا کل شاید اس صورت حال کو مزید نمایاں کردے گا۔
محترم خلیل صاحب کا کمنٹ تھا کہ پنجاب میں کرونا کیسز سندھ سے بڑھ گئے ہیں۔ جس کے جواب میں، میں نے کہا کہ آبادی کا فرق بھی ملحوظ خاطر رہے کہ اس سے وائرس کے پھیلاؤ میں بہت زیادہ فرق پڑتا ہے۔ ثبوت کے طور پر میں نے اٹلی اور امریکہ کی مثال پیش کی، جس کے اعدادوشمار آپ کے پاس موجود ہیں۔
چین کی مثال اس لیے نہیں دی کہ وہاں پرآمریت ہے، وہاں لوگوں پر بہت زیادہ قدغنیں ہیں اور حکومت کا کنٹرول انتہائی سخت ہے، جس کا تصور یہاں مغرب میں نہیں کیا جا سکتا۔
اٹلی اور امریکہ دونوں مغربی جمہوریتیں ہیں، دونوں کے حالات میں بہت زیادہ بُعد نہیں ہے، تو کیا وجہ ہے کہ امریکہ میں کیسز بہت بڑھ گئے ہیں؟؟؟
آبادی کے فرق کے علاوہ آپ کے پاس کوئی دلیل یا شواہد ہیں تو پیش کریں کہ جائزہ لیا جا سکے۔
میں شاید اپنی بات آپ کو سمجھا نہیں سکا۔ آپ اٹلی اور امریکہ کے ہی موازنے پہ ہی کیوں مصر ہیں حالانکہ دونوں نے ہی بر وقت اقدامات نہیں اٹھائے؟ آپ چائنہ اور امریکہ کی آبادی اور کیسز کا فرق دیکھ لیں یہیں سے ثابت ہو جاتا ہے کہ صرف بروقت اقدامات ہی مسئلے کا حل ہیں۔ آپ اٹلی اور چائنہ کا ہی بلحاظ آبادی اور رپورٹڈ کیسز کا موازنہ کر لیں تو بھی بات واضح ہے۔ محض آبادی ہی کو ملحوظ خاطر رکھنا درست نہیں جو چیز درست ہے وہ ہے احتیاط اور بر وقت اقدامات۔ یہی بات میں نے اپنے اول مراسلے میں کی ہے۔
میں آپ کی جمہوریت اور آمریت والی دلیل سے بھی کلی متفق نہیں اسے محض فیس سیونگ یا اٹریبیوشن کے لیے ہی استعمال کیا جا سکتا ہے کہ وہاں جمہوریت تھی تو یہ ہوا اور وہاں آمریت تھی تو یہ ہوا۔ لیڈرشپ دکھانے کا جب وقت آتا ہے تو اس کے لیے جواز نہیں ڈھونڈھے جاتے۔ جمہوریت اور آمریت سے قطع نظر خان صاحب تو لاک ڈاؤن کے حق میں ہی نہیں تھے حالانکہ ہمارے ہاں بھی جمہوریت آمریت کی ہی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ انکمپیٹینسی کو مختلف جواز کے ذریعے ڈیفنڈ کرنا میں درست نہیں سمجھتا۔
کون اس قومی ایشو کو سیاسی ایشو بنا رہا ہے؟ نیچے شہلا رضا کی ٹویٹ میں دیکھ لیں
 

جاسم محمد

محفلین
پاکستان میں اپوزیشن، لبرل، لفافے ، بھارتیوں کے ساتھ مل کر وزیر اعظم عمران خان کے کورونا وائرس فنڈ کا مذاق اڑا رہے تھے کہ یہ بھکاری پھر کشکول لے کر آگیا ہے۔ اب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ریلیف فنڈ میں یہ سب بڑھ چڑھ کر اپنا حصہ ڈالیں گے۔
 

سید عمران

محفلین
اگر پندرہ روزہ لاک ڈاؤن کا مطلب یہ ہے کہ سب اپنے گھروں میں محصور رہیں. اتنے عرصہ میں جو بیمار ہیں وہ صحت مند ہوجائیں اور مزید دوسرے کو بیماری منتقل نہ ہو تب تو یہ لاک ڈاؤن کامیاب رہے گا.
لیکن اگر اس دوران عوامی میل جول برقرار رہا چاہے مساجد میں یا بازار میں تو پندرہ دن بعد بھی صورتحال جوں کی توں رہے گی.
 

جاسم محمد

محفلین
سندھ میں نالائق مراد علی شاہ اور بلاول گٹھ جوڑ کے نتیجے میں بر وقت اور برمحل اقدامات شاید رنگ لارہے ہیں، ادھر پنجاب میں سیلیکٹڈ اور وسیم اکرم پلس کے کھوکھلے دعوؤں کے برخلاف آج پنجاب کے متاثرین کی تعداد سندھ سے بڑھ چکی ہے۔ وزیراعظم کے منہ سے سندھ حکومت کے اقدامات پر شاید اب بھی ایک لفظ تک نہ نکلے لیکن آنے والا کل شاید اس صورت حال کو مزید نمایاں کردے گا۔
محترم خلیل صاحب کا کمنٹ تھا کہ پنجاب میں کرونا کیسز سندھ سے بڑھ گئے ہیں۔ جس کے جواب میں، میں نے کہا کہ آبادی کا فرق بھی ملحوظ خاطر رہے کہ اس سے وائرس کے پھیلاؤ میں بہت زیادہ فرق پڑتا ہے۔ ثبوت کے طور پر میں نے اٹلی اور امریکہ کی مثال پیش کی، جس کے اعدادوشمار آپ کے پاس موجود ہیں۔
چین کی مثال اس لیے نہیں دی کہ وہاں پرآمریت ہے، وہاں لوگوں پر بہت زیادہ قدغنیں ہیں اور حکومت کا کنٹرول انتہائی سخت ہے، جس کا تصور یہاں مغرب میں نہیں کیا جا سکتا۔
اٹلی اور امریکہ دونوں مغربی جمہوریتیں ہیں، دونوں کے حالات میں بہت زیادہ بُعد نہیں ہے، تو کیا وجہ ہے کہ امریکہ میں کیسز بہت بڑھ گئے ہیں؟؟؟
آبادی کے فرق کے علاوہ آپ کے پاس کوئی دلیل یا شواہد ہیں تو پیش کریں کہ جائزہ لیا جا سکے۔
میں شاید اپنی بات آپ کو سمجھا نہیں سکا۔ آپ اٹلی اور امریکہ کے ہی موازنے پہ ہی کیوں مصر ہیں حالانکہ دونوں نے ہی بر وقت اقدامات نہیں اٹھائے؟ آپ چائنہ اور امریکہ کی آبادی اور کیسز کا فرق دیکھ لیں یہیں سے ثابت ہو جاتا ہے کہ صرف بروقت اقدامات ہی مسئلے کا حل ہیں۔ آپ اٹلی اور چائنہ کا ہی بلحاظ آبادی اور رپورٹڈ کیسز کا موازنہ کر لیں تو بھی بات واضح ہے۔ محض آبادی ہی کو ملحوظ خاطر رکھنا درست نہیں جو چیز درست ہے وہ ہے احتیاط اور بر وقت اقدامات۔ یہی بات میں نے اپنے اول مراسلے میں کی ہے۔
میں آپ کی جمہوریت اور آمریت والی دلیل سے بھی کلی متفق نہیں اسے محض فیس سیونگ یا اٹریبیوشن کے لیے ہی استعمال کیا جا سکتا ہے کہ وہاں جمہوریت تھی تو یہ ہوا اور وہاں آمریت تھی تو یہ ہوا۔ لیڈرشپ دکھانے کا جب وقت آتا ہے تو اس کے لیے جواز نہیں ڈھونڈھے جاتے۔ جمہوریت اور آمریت سے قطع نظر خان صاحب تو لاک ڈاؤن کے حق میں ہی نہیں تھے حالانکہ ہمارے ہاں بھی جمہوریت آمریت کی ہی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ انکمپیٹینسی کو مختلف جواز کے ذریعے ڈیفنڈ کرنا میں درست نہیں سمجھتا۔
سندھ کی مثالی حکومت: غریب کورونا وائرس سے مرے نہ مرے لیکن غربت سے ضرور مر جائے گا۔ :(

سندھ حکومت نشہ کر کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر سو رہی ہے، ہمیں راشن دو یا موت، خاتون کامطالبہ
By ویب ڈیسک اتوار 29 مارچ 2020 2
سندھ میں کرونا وائرس کے بڑھتے کیسز کے باعث سندھ حکومت کی جانب سے سندھ کو لاک ڈاون کا فیصلہ کیا گیا تھا اور ساتھ میں غریب اور مزدور طبقے کی مالی امداد کرنے کا دعوی بھی کیا گیا تھا۔ تاہم سندھ میں جگہ جگہ ہوتے احتجاج سندھ حکومت کے بلندوبانگ دعووں کی نفی کر رہے ہیں۔

سندھ کو لاک ڈاؤن کرنے کے بعد سندھ حکومت کی جانب سے کئے گئے انتظامات کی قلعی کھولتے ہوئے غربت کی ستائی خاتون کا حکومت کو کوستے ہوئے اپنی گفتگو میں کہنا تھا کہ ” میں اپنی اس معصوم بچی کے ساتھ دس دنوں سے دھکے کھا رہی ہوں کہیں سے ایک کلوچینی تک نہیں ملی، جبکہ میرا خاوند مجھے چھوڑ کر بھاگ گیا ہے”

ایک سوال کے جواب میں غربت اور تنگدستی کی ماری خاتون کاکہنا تھاکہ ” میں اپنے گھر کا گزارا بچوں کو قرآن پاک پڑھا کر کر رہی تھی لیکن جب گزارا کرنا نا ممکن ہوا تو میں سڑک پر نکل آئی تاکہ کسی کی غیرت جاگے اور میرے اور میری بیٹی کے لیے راشن کا انتظام کر دے”

سندھ حکومت پر تنقید کرتے ہوئے غریب خاتون کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھرے اور نشہ میں ٹن ہو کر سو رہی ہے۔ وزیراعلی سندھ سو رہا ہے جب اس کا اے سی جل جائے گا تو وہ اسی وقت ٹھیک کرنے والے کو بلائے گا اور ٹھیک کروا کر پھر سے سو جائے گا غریب مرتا ہے تو مر جائے کسی کو کوئی پرواہ نہیں۔ تاہم اب حکومت سے ہمارا ایک ہی مطالبہ ہے کہ ہمیں موت دے دی جائے یا راشن دیا جائے
 

جاسم محمد

محفلین
واہ کیا قومی اتحاد ہے!

کراچی میں دودھ کی قیمت 60 روپے تک کم، فارمرز نے لاکھوں لیٹر نالی میں بہادیا
ویب ڈیسک 3 گھنٹے پہلے
2027017-milk-1585503722-167-640x480.jpg

کراچی کی مرکزی ہول سیل مارکیٹ میں دودھ کی تھوک قیمت 32 روپے لیٹر کی سطح پر آگئی (فوٹو: فائل)

کراچی: لاک ڈاؤن کی وجہ سے کراچی سمیت سندھ بھر میں ڈیری انڈسٹری بحران کا شکار ہوگئی، کراچی میں دودھ کی قیمت 50 تا 60 روپے لیٹر کم ہوگئی تاہم ڈیری فارمرز نے دودھ بیچنے کے بجائے لاکھوں لیٹر دودھ نالیوں میں بہادیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے خدشے کے باعث کراچی اور صوبے میں جاری لاک ڈاؤن کی وجہ سے دودھ کی فروخت 60 فیصد کم ہوگئی ، شہر کے بیشتر علاقوں میں دودھ کی قیمت 50 سے 60 روپے فی لیٹر کم ہوگئی، قیمت کم ہونے سے جہاں صارفین کو ریلیف ملا ہے وہیں دکان دار اور ڈیری فارمرز کی مشکلات بڑھ گئیں۔

دوسری جانب بے حس اور منافع خور دکان داروں اور ڈیری فارمرز نے عوام کو سستا دودھ فراہم کرنے کے بجائے لاکھوں لیٹر دودھ نالیوں میں بہادیا، دکان داروں نے سندھ حکومت اور کمشنر کراچی سے اپیل کی ہے کہ ہول سیلرز اور دکان داروں کے درمیان دودھ کی خریداری (سالانہ بندھی) کا معاہدہ کورونا وباء کے پیش نظر موخر کرایا جائے۔

ڈیڑی فارمرز ایسوسی ایشن نے دودھ فروشوں اور ڈیری فارمرز سے درخواست کی ہے کہ اضافی دودھ ضائع کرنے کے بجائے مستحق اور بے روزگار شہریوں میں تقسیم کردیا جائے۔

واضح رہے کہ کراچی میں دودھ کی یومیہ گھریلو کھپت 50 لاکھ لیٹر ہے، شادی بیاہ پر پابندی، ریسٹورنٹ چائے اور مٹھائی کی دکانیں بند ہونے کی وجہ سے لاکھوں لیٹر دودھ فروخت نہیں ہورہا، شہر کے مختلف علاقوں میں دودھ 50 سے 60 روپے لیٹر فروخت ہورہا ہے اور بعض علاقوں میں گاڑیوں پر چلتی پھرتی دکانوں کے ذریعے بھی دودھ سستے داموں فروخت ہورہا ہے تاہم بڑی دکانوں نے تاحال نرخ کم نہیں کیے۔

دودھ کی فروخت میں کمی کی وجہ سے کراچی کی مرکزی ہول سیل مارکیٹ میں دودھ کی تھوک قیمت 32 روپے لیٹر کی سطح پر آگئی ہول سیل مارکیٹ میں دودھ 1200 روپے من قیمت پر فروخت ہورہا ہے جس میں آئندہ دنوں میں مزید کمی کا امکان ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
وائرس سے زیادہ خطرناک جہالت ہے۔

تبلیغی جماعت کے 27 اراکین میں کورونا وائرس کی تصدیق

عمران گبول | فریداللہ چوہدری30 مارچ 2020
5e816f6d43df6.jpg

لاہور/لیہ: رائیونڈ کے تبلیغی مرکز میں تبلیغی جماعت کے 35 افراد کی اسکریننگ کرنے پر 27 افراد میں کورونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت آیا جبکہ لیہ کے قرنطینہ میں رکھے گئے اسی جماعت کے رکن نے فرار ہونے کی کوشش میں پولیس افسر کو چاقو مار کر زخمی کردیا۔

خیال رہے کہ 3 روزہ، 40 روزہ یا 4 ماہ کے تبلیغی مشن پر روانہ ہونے سے قبل 500 غیر ملکیوں سمیت 12 سو افراد 5 روزہ اجتماع میں شریک تھے اور انہوں نے مرکز کے بالمقابل ایک خالی جگہ پر کیمپ لگایا ہوا تھا۔

قبل ازیں حکومت پنجاب کے عہدیداروں نے وائرس کے خطرے کے پیشِ نظر منتظمین سے اجتماع ملتوی کرنے کی درخواست کی تھی لیکن انہوں نے اس پر توجہ نہیں دی۔

چنانچہ جب 4 روز قبل منتظمین کا ارادہ تبدیل ہوا اور انہوں نےاجتماع روکا تو صوبائی حکومت کی جانب سے اعلان کردہ لاک ڈاؤن نافذ ہوچکا تھا اور شرکا کو گھر لے جانے کے لیے کوئی ٹرانسپورٹ یا فضائی سروس دستیاب نہیں تھی۔

دوسری جانب لیہ میں تبلیغی جماعت کے ایک رکن نے فرار ہونے کی کوشش میں اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) پر چاقو سے حملہ کردیا جس سے وہ زخمی ہوگیا۔

بعدازاں پولیس اور ضلعی انتظامیہ نے منتظمین سے ملاقات کی جن کی اجازت سے مرکز کو گھیرے میں لے لیا اور وہاں 3 روز تک کسی کو جانے کی یا باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے۔

دوسری جانب اسلام آباد میں موجود تھائی لینڈ کے سفارتخانے نے تبلیغی مرکز میں موجود اپنے 50 شہریوں کو نکلوانے کے لیے وزارت خارجہ کے ذریعے حکام سے رابطہ کیا۔

جس کے بعد محکمہ صحت کے حکام نے تھائی شہریوں کی اسکریننگ کی اور نتیجہ منفی آنے پر انہیں اسلام آباد منتقل کیا گیا جہاں سے وہ ایک نجی طیارے کے ذریعے اپنے وطن روانہ ہوگئے۔

لاہور کے ڈپٹی کمشنر دانش افضال نے ڈان کو بتایا کہ انہوں نے 3 روز قبل تبلیغی مرکز سیل کر کے وہاں موجود لوگوں کی اسکریننگ کی تھی اور صحت کے حکام کے مطابق اب تک اسکرینڈ کیے گئے 35 افراد میں سے 27 کے نتائج مثبت آئے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ہم نے تبلیغی مرکز میں قرنطینہ مرکز بنادیا ہے اور اگر مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا تو انہیں کالاشاہ کاکو قرنطینہ مرکز منتقل کردیا جائے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کالاشاہ کاکو میں مشتبہ مریضوں کو تنہائی میں رکھا جائے گا اور جن کا ٹیسٹ مثبت آیا انہیں جوہر ٹاؤن میں قائم ایکسپو سینٹر کے فیلڈ ہسپتال میں منتقل کردیا جائے گا۔

دوسری جانب لیہ کی انتظامیہ نے ضلع میں تبلیغی مشن پر موجود تمام ٹیمز کو اکٹھا کرنے کے بعد مقامی مرکز کو قرنطینہ مرکز قرار دے دیا تھا جس میں 235 افراد موجود ہیں۔

گزشتہ روز پولیس کو اطلاع ملی کے کچھ افراد مرکز سے فرار ہونے کی کوشش کررہے ہیں جس پر ایس ایچ او محمد اشرف ماکھی اپنی ٹیم کے ہمراہ اس جگہ پہنچے تو تبلیغی جماعت کا ایک رکن انہیں چاقو مار کر فرار ہوگیا۔

ترجمان پولیس سب انسپکٹر ندیم نے بتایا کہ ایس ایچ او کو زخم آئے ہیں جنہہیں لیہ میں ڈسٹرک ہیڈ کوارٹر ہسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں ان کی حالت بہتر ہے۔

بعد ازاں پولیس نے ملزم کو خیبرپختونخوا کے ضلع صوابی سے گرفتار کرلیا۔
 
Top