وبا کے دنوں میں محبت

با ادب

محفلین
وباء کے دنوں میں محبت

مستنصر حسین تارڑ نے قُربتِ مرگ میں محبت لکھی تو ہمیں دنوں اسکا نام ہی مسحور کیے رکھتا ۔ کہ خدا جانے کیسی محبت ہوا کرے گی جب بندہ گوڈے گوڈے قبر میں ہو اور دل عجب لے پہ دھڑکتا ہوا پایا جائے ۔

کہتے ہیں کچھ خواہشات دنیا میں ہی پوری ہو جایا کرتی ہیں ۔
تمام عالمِ اسلام و کفر پہ وباء کی چادر تنی ہوئی تھی اور ہمارے میاں ایسے عالم میں روز ہماری سانسیں گنا کرتے ۔

ایک روز چھینک آئی تو خوشی سے بلبلا اٹھے ۔
اری بیگم ! آپ چھینکی ہیں کیا ؟؟
جی شاید ہوا لگ گئی ۔

خوشی سے دوہرے ہوتے ہوئے گویا ہوئے ہوا نہیں وبا لگ گئی ۔

موبائل فون کے دوسری جانب انکے خوشی سے تمتماتے چہرے کا تصور کر کے ہم نے بھی ٹھان لی ۔ وبا کو تو کبھی لگنے نہیں دیں گے اور اگر لگ گئی تو دنیا سے جاتے سمے فرطِ جذبات سے مجبور ہو کے ایک مرتبہ ان سے گلے لگ کے ہی دنیا سے رخصت ہوویں گے ۔

تاریخ گواہ ہے کہ ایسے جذبات سے زندگی بھر ہمارا واسطہ نہیں پڑا ۔ لیکن جن شوہروں کو بیویوں کو اللہ کے حضور بھیجنے کی جلدی ہو کیا وہ اتنے عظیم نہیں ہیں کہ ان کا ہاتھ تھام کے آنکھوں سے لگایا جائے ؟؟

اگلے دن شام کو دوبارہ موبائل فون کی پر ترنم گھنٹی بجی ۔ اسلام آباد میں موسم بارش کے سبب رومانوی اور وبا کے سبب المیہ تھا ۔
رومانوی المیے شیکسپئیر کے ہاں تخلیق ہوں تو شاہکار کہلائے جا سکتے ہیں لیکن اسلام آبادیوں کے مذہب میں اسکی ہرگز گنجائش موجود نہیں ہے ۔

بعدازسلام دعا ہمیں آج پھر ذرا سی کھانسی ہوئی ۔
فوراً ارشاد ہوا ۔
بیگم برطانوی سامراج کے ہاں وباء کے دنوں میں کھانسنے پہ ہی وباء کے معائنے کے لیے لے جایا جاتا ہے ۔ لیکن ہمارے ایسے نصیب کہاں ؟

ہم چیں بہ جبیں ہوئے اور جزبز ہوتے ہوئے عرض گزاری ۔
دیکھیے صاحب آپکو مدتوں سے شہادت کا شوق تھا بس سمجھیے پورا ہوا ہی چاہتا ہے ۔
لیکن صاحب مطمئن و مسرور تھے ۔ وفاق سے کراچی تک بیگم کی آمدورفت کے سبھی راستے مسدود تھے ۔ جو بیویاں جس مقام پہ تھیں وہیں قیدکر دی گئی تھیں ۔
اس روز ہمیں یقین آیا کہ مواء وائرس یقیناً مرد جاتی سے تعلق رکھتا ہے ۔ کیسے کیسے آزار میں مبتلا کر دیا خواتینِ عالم کو ۔
مردوں کا کیا گیا ۔انھیں تو دفاتر سے آرام کا بہانہ مل گیا ۔
خواتین کے بازاروں کے چکر بند ہوئے نہ اب نئی سرخی خریدی جا سکتی ہے نہ پاؤڈر ۔
گورا کرنے والی کریمیں جلد ہی اختتام پا جائیں گی پھر یا قسمت یا نصیب اپنے ہی ذاتی میاں پہچان پائیں گے یا باجی آپ قرنطینہ کے دنوں میں ہمارے گھر میں رہ سکتی ہیں کہہ کے پاس سے گزر جائیں گے ۔
ہمرے میاں قائد کے دیس میں آزاد ہرن کی طرح قلانچیں بھر رہے تھے اور اس امید پہ زندہ تھے کہ ایک دن پرانی بیگم وبا کے دنوں میں رخصت ہونگی اور امی جان نیا سہرا بازار سے خرید لائیں گی ۔

ہم نے بھی ٹھان لی جب تک زندہ ہیں نہ کھانسیں گے نہ چھینکیں گے ۔ کھانسی آتی تو موبائل فون دو فٹ کے فاصلے پہ رکھتے اور چھینک کے ہاتھ فون پہ جھاڑ دیتے کہ وائرس ہوا کے دوش پہ چلتا ہوا سیدھا میاں کے کان میں جائے ۔

کچھ دن کھانسنے چھینکنے کی آوازنہ سنی تو تشویش میں مبتلا ہو کے پوچھنے لگے ۔

اری بیگم ! کیا ذائقہ محسوس ہوتا ہے ؟

جی بالکل ہوتا ہے ( اور نہ بھی ہوتا تو انکو بتاتے کیا ۔۔۔ہونہہ )

خوشبوبدبو بھی سونگھ لیتی ہیں نا ؟؟

بالکل سونگھ لیتی ہوں ۔بھلی چنگی ہوں۔پورا دن بھاپ لیتی ہوں ۔گرم پانی کے غرارے اور گرم پانی کے پینے کو خود پہ لازم کر رکھا ہے ۔

اگر اس چکر میں ہیں کہ بیگم کووبالگ گئی تو میرے پیارے !
وہ دن گئے جب نوجوانی کے زمانے میں ہم آپکے ہاتھوں بے وقوف بن جایا کرتے تھے ۔
اب تو عزم کر رکھا ہے ۔ وہ بیوی ہی کیا جو میاں کوسکھ کاسانس لینے دے اور خود مر جائے ۔
کیوں سہیلیو ؟
تیار ہو کیا ؟؟

وباء کی شکست میاں کی ہار ۔
بس بغیر ہاتھ ملائے ہو جاؤ تیار

آپکی خیر خواہ
سمیراامام
 
آخری تدوین:
Top