کورونا وائرس؛ اُمید افزا خبریں اور مواد!

عرفان سعید

محفلین
ورلڈ ہیلتھ آرگنائیزیشن نے کورونا وائرس کے خلاف ناروے اور اسپین میں ملیریا اور ایبولا وائرس کی دوائیں بطور ٹیسٹ استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
WHO officials enroll first patients from Norway and Spain in 'historic' coronavirus drug trial
چائنا میں جو تدابیر بھی اختیار کی گئیں ان کی حیثیت اس وقت داستانوں سے زیادہ نہیں ہے۔کلوروکوئن، کچھ اور اینٹی وائرل ادویات، بلڈ پلازما انفیوژن کی کہانیاں تو منظرِ عام پر آئیں لیکن کوئی ٹھوس ڈیٹا موجود نہ ہونے کی وجہ سے ان پر مکمل اعتبار اس وقت تک نہیں کیا جاسکتا جب تک انہیں طبی تحقیق کے تمام مراحل سے نہ گزارا جائے۔
اس لحاظ سے ٹرائل کی بنیادوں پر کلوروکوئن کو آزمانا خوش آئند ہے۔
 

عرفان سعید

محفلین
0
 

فرقان احمد

محفلین
ورلڈ ہیلتھ آرگنائیزیشن نے ناروے اور اسپین کو کورونا وائرس کے خلاف ملیریا اور ایبولا وائرس کی دوائیں بطور ڈرگ ٹرائل استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
World health officials are testing four of the most promising drugs to fight COVID-19, including malaria medications chloroquine and hydroxychloroquine, an antiviral compound called Remdesivir, a combination of HIV drugs Lopinavir and Ritonavir and a combination of those drugs plus interferon-beta
WHO officials enroll first patients from Norway and Spain in 'historic' coronavirus drug trial
اہم خبر ہے!
 

arshadmm

محفلین
یہ تو کسی طور امید افزا خبر نہیں ہے
امید افزاء سے مراد اگر ویکسین ہے تو اس کا تو پتہ نہیں ، مگر جب پوری دنیا خوف و ہراس میں مبتلا ہے تو خوشی اور امید تازہ ہوئی کہ نہیں اسی دنیا میں کچھ لوگ ہیں جو اس سے فی الحال بالکل خوفزدہ نہیں ، احتیاطی تدابیر کر رہے ہیں اور معمولات زندگی اسی طرح رواں دواں ہیں۔
 

arshadmm

محفلین
ویسے مجلس کا نستعلیق چہرہ دیکھ کر مزہ آ رہا ہے ، لکھنے میں بھی اور دکھنے میں بھی۔۔۔۔۔۔۔۔
 

جاسم محمد

محفلین
کووڈ 19 کے سنگین کیسز کے علاج کے لیے نئی رپورٹ سے مثبت پیشرفت کی توقع پیدا ہوگئی
بیماری سے سب سے زیادہ متاثر ریاست نیویارک میں رواں ہفتے پلازما ٹرانسفیوژن کو سنگین کیسز کے لیے آزمانے کا اعلان کیا گیا چین کے شینزن ہاسپٹل میں اس تحقیق کے لیے ڈاکٹروں نے 20 جنوری سے 25 مارچ تک 36 سے 73 سال کے 5 مریضوں پر بلڈپلازما استعمال کیا جب تک کووڈ 19 کے حوالے سے مخصوص ادویات اور ویکسین تیار کریں گے، یہ طریقہ کار اس وقت تک زندگیاں بچانے میں مدد دے سکے گا، حکام
ہفتہ 28 مارچ 2020 22:56

pic_ad41b_1585226929.jpg._3


واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 28 مارچ2020ء) نئے نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے سنگین کیسز کے علاج کے لیے ایک نئی رپورٹ سے مثبت پیشرفت کی توقع پیدا ہوئی ہے۔طبی جریدے جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن شائع تحقیق میں چین کے ہسپتال میں قریب المرگ مریضوں پر اس طریقہ کار کے استعمال کے بارے میں بتایا گیا۔کووڈ 19 کے ان مریضوں کو تجرباتی بلڈ پلازما ٹرانسفیوژن کا تجربہ کیا گیا اور ان کی حالت میں کافی حد تک بہتری دیکھی گئی۔اگرچہ یہ تحقیق محدود اور بہت چھوٹے پیمانے پر ہوئی اور حتمی طور پر کچھ طے کرنا مشکل ہے مگر نتائج سے اس طریقہ کار کی افادیت کے خیال کو مزید تقویت ملتی ہے۔امریکا میں اس بیماری سے سب سے زیادہ متاثر ریاست نیویارک میں رواں ہفتے اس پلازما ٹرانسفیوژن کو سنگین کیسز کے لیے آزمانے کا اعلان کیا گیا۔

چین کے شینزن ہاسپٹل میں اس تحقیق کے لیے ڈاکٹروں نے 20 جنوری سے 25 مارچ تک 36 سے 73 سال کے 5 مریضوں پر بلڈپلازما استعمال کیا۔ان مریضوں کو یہ پلازما ہسپتال میں داخل ہونے کے 10 سے 22 دن کے دوران دیا گیا۔پلازما ٹرانسفیوژن کے بعد 3 دن کے اندر 5 میں سے 4 مریضوں کا جسمانی درجہ حرارت معمول پر آگیا، 5 میں 4 مریضوں میں 12 دن کے اندر سانس کی شدید تکلیف بھی ختم ہوگئی۔شائع ہونے والی تحقیق کے نتاجج میں بتایا گیا کہ 3 مریضوں کو ہسپتال سے ڈسچارج کردیا گیا ،2 کی حالت مستحکم تھی، مگر فی الحال انہیں وینٹی لیٹر کی ضرورت محسوس ہورہی تھی۔تحقیق پر دیگر طبی ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ محدود تھی، ان مریضوں کو تجرباتی اینٹی وائرل ادویات اور اسٹرائیڈز بھی استعمال کرائے جارہے تھے، جس سے بھی پلازما ٹرانسفیوژن کی افادیت کے بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے۔تحقیق میں شامل چینی سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ نتائئج سے پلازما تھراپی کے لیے صحت یاب افراد کے اینٹی باڈیز کے استعمال کے امکان پر روشنی ڈالی گئی جو کہ زیادہ بیمار افراد کو وائرس سے نجات دلانے کے ساتھ ان کی حالت بہتر بناسکتا ہے،اس قسم کا طریقہ کار 2002 سارز وائرس کی وبا اور 2009 میں سوائن فلو کی وبا کے دوران بھی استعمال کیا گیا تھا۔اس نئی تحقیق میں کووڈ 19 کے صحت یاد افراد سے خون کے عطیات حاصل کرکے یہ تجرباتی طریقہ کار آزمایا گیا تھا اور ان کے خون سے حاصل پلازما حاصل کرکے اسی روز سنگین حد تک بیمار مریضوں میں منتقل کیا گیا۔اگر یہ طریقہ کار بڑے ہیمانے پر موثر ثابت ہوا تو اس کے لیے بڑا چیلنج صحت یاب افراد سے خون کے عطیات کا حصول ہوگا۔ابھی رواں ہفتے امریکا کی واشنگٹن یونیورسٹی اسکول آف میڈیسین کی تحقیق میں کہا گیا تھا کہ کووڈ 19 سے صحت یاب ہونے والے افراد کا خون سنگین حد تک بیمار مریضوں کے علاج بلکہ دیگر کو اس کا شکار ہونے سے بچا سکے گا۔اس طریقہ کار کو 1918 کے اسپینش فلو کی وبا کے دوران ویکسین یا اینٹی وائرل ادویات کی دستیابی سے پہلے استعمال کیا گیا تھا۔اس طریقہ کار میں اس حقیقت کو مدنظر رکھا جاتا ہے کہ صحت مند مریضوں کے خون میں ایسے طاقتور اینٹی باڈیز ہوتے ہیں جو وائرس کو لڑنے کی تربیت رکھتے ہیں۔خیال رہے کہ اس وقت نئے نوول کورونا وائرس کا کوئی علاج موجود نہیں جبکہ ویکسین کی دستیابی اس سال کے آخر یا اگلے سال کی پہلی ششماہی تک ممکن نظر نہیں آتی۔واشنگٹن یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر جیفری ہینڈرسن کے مطابق 'حال ہی میں صحت یاب ہونے والے مریضوں کے خون سے حاصل کیے گیے سیرم کا استعمال بہت پرانی سوچ محسوس ہوتی ہے، مگر تاریخی طور پر یہ کارآمد طریقہ ہے۔انہوں نے کہا کہ اسے استعمال کرکے ہم وائرس انفیکشن جیسے خسرہ، پولیو اور انفلوئنزا کی روک تھام اور علاج میں کامیاب رہے، مگر جب ایک بار ویکسین تیار ہوگئی تو یہ تیکنیک فراموش کردی گئی۔ان کا کہنا تھا جب تک کووڈ 19 کے حوالے سے مخصوص ادویات اور ویکسین تیار کریں گے، یہ طریقہ کار اس وقت تک زندگیاں بچانے میں مدد دے سکے گا۔اسپینش فلو کی عالمی وبا کے دوران ڈاکٹروں کے پاس کوئی علاج موجود نہیں تھا تو انہوں نے صحت یاب ہونے والے مریضوں کا بلڈ سیرم استعمال کرکے متعدد افراد کو صحت یابی میں مدد دی۔بلڈ پلازما اور سیرم خون کے شفاف سیال پر مشتمل ہوتے ہیں اور دونوں اینٹی باڈیز سے لیس ہوتے ہہیں، مگر پلازما میں چند ایسے دیگر مددگار پروٹینز بھی ہوتے ہیں جو سیرم میں نہیں ہوتے۔واشنگٹن یونیورسٹی سے قبل جونز ہوپکنز یونیورسٹی اور مایو کلینک بھی کووڈ 19 کے حوالے سے اس طریقہ کار پر ٹرائل شروع کیے تھے۔ان کی جانب سے امریکا کے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کو 18 مارچ کو سفارشات جمع کرائی گئی تھیں اور وہ انسانوں پر اس کی آزمائش کے لیے اجازت کے منتظر ہیں۔ڈاکٹر جیفری اینڈرسن نے بتایا کہ یہ ایسا قدم ہے جس پر فوری عمل کرنے کی ضرورت ہے، یہ ادویات کی تیاری سے زیادہ تیز ہے کیونکہ اس کے لیے بس پلازما کے عطیے اور پیوندکاری کی ضرورت ہوگی۔ان کا کہنا تھا جیسے ہی کوئی فرد کووڈ 19 سے صحت یاب ہوکر ہمارے ارگرد گھومے گا، تو وہ ہمارے کے لیے ممکنہ ڈونر ہوگا اور ہم بلڈبینک سسٹم کو پلازما کے حصول کے لیے استعمال کرکے اسے ضرورت مند مریضوں میں تقسیم کیا جاسکے گا، اگر یہ طریقہ کارآمد ہوا، یہ اس وبا کے ابتدائی مرحلے میں لائف لائن فراہم کرسکے گا۔تحقیقی ٹیم اب صحت مند مریضوں سے خون کے عطیے کی درخواست کرنے والے ہیں جس میں سے پلازما کو الگ کیا جائے گا اور زہریلے مواد اور وائرس کی اسکریننگ کے بعد اسے بیمار افراد میں منتقل کیا جائے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
کرونا وائرس: ٹرمپ نے بحری اسپتال نیویارک بھیج دیا
2 hours ago update 1 hour ago
7E2EA309-5670-4281-BD0F-91F0DAB23472_w1023_r1_s.jpg

صدر ٹرمپ 'یوایس این ایس کمفرٹ' سمندری جہاز نیو یارک روانہ کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے۔
ویب ڈیسک —
کرونا وائرس کی وبا پھیلنے کے نتیجے میں نیو یارک کے صحت عامہ کے نظام پر پڑنے والے بوجھ کو بانٹنے میں مدد کے لیے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہفتے کے روز نورفوک سے ایک خصوصی سمندری جہاز، 'نیوی ہاسپیٹل' کو نیویارک روانہ کیا۔

اس موقع پر اپنے کلمات میں، ٹرمپ نے کہا کہ 70000 ٹن وزنی، 'یو ایس این ایس کمفرٹ' اسپتال کی تمام سہولیات سے آراستہ ہے، جو امید اور یکجہتی کی علامت ہے، جس کا مقصد نیویارک کے لوگوں کی خدمت کرنا ہے، جہاں میری زندگی کا کافی وقت گزرا، اور جس شہر سے مجھے خاص لگاؤ ہے''۔

ٹرمپ نے مزید کہا کہ ''ہم آپ کے لیے حاضر ہیں۔ ہم آپ کے مفاد کے لیے لڑتے رہیں گے''۔

صدر نے کہا کہ ''ہمیں ہمیشہ آپ ہی کی فکر رہتی ہے۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ آپ کو ساری قوم، پوری حکومت اور سارے امریکی عوام کی غیر متزلزل حمایت حاصل ہے''۔

نیویارک میں کرونا کے تقریباً 26700 تصدیق شدہ مریض ہیں۔ یہ شہر امریکہ میں اس وبا کا گڑھ بن چکا ہے۔ جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے اعداد و شمار کے مطابق، ہفتے کی صبح تک ملک میں وائرس کے تقریباً 105000 متاثرین بتائے جاتے ہیں۔ جب کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق اب یہ تعداد ایک لاکھ 20 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔

'یو ایس این ایس کمفرٹ' پیر کو نیویارک لنگرانداز ہو گا۔ اس میں کرونا وائرس کے مریضوں کے علاوہ 1000 بستر موجود ہوں گے، جس سے اسپتال کو اضافی بستر دستیاب ہو جائیں گے؛ اور طبی عملے کو کرونا کے پھیلتے مرض سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، انتونیو گئیترز نے ہفتے کے روز نیویارک کے طبی پیشے سے وابستہ کارکنوں کے لیے 250000 اضافی حفاظتی ماسک کا عطیہ دینے کا اعلان کیا۔ اس شعبے کو ہمت اور بے لوث خدمت کی علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

ایسے میں جب کہ نیویارک کرونا رائرس پر کنٹرول کی انتھک کوششیں کر رہا ہے، ہفتے کے دن گورنر اینڈریو کومو نے کہا کہ 28 اپریل کو ہونے والی صدارتی پرائمری کو 23 جون تک موخر کیا گیا ہے۔

تقریب کے دوران، صحافیوں کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے، صدر نےکہا کہ ان کی مختلف ریاستوں کے گورنروں سے روزانہ کی بنیاد پر بات ہوتی ہے؛ جن میں سے کچھ چاہتے ہیں کہ نیویارک اور نیو جرسی کے وہ مقامات جہاں کرونا تیزی سے پھیل رہا ہے، انھیں قرنطینہ کا علاقہ قرار دیا جائے۔

انھوں نے کہا کہ ان مقامات کےعلاوہ ''ایک یا دو مزید مقامات ہو سکتے ہیں، جن میں کنیٹی کٹ شامل ہو سکتا ہے''۔

ٹرمپ نے کہا کہ وہ اس بارے میں سوچ رہے ہیں؛ جب کہ ''یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کی ضرورت ہی نہ پڑے''۔

ساتھ ہی، انھوں نے کہا کہ ''اس بات کا امکان ہو سکتا ہے کہ مختصر دورانیئے کے لیے، شاید دو ہفتے کے لیے، نیو یارک؛ شاید نیو جرسی یا کنیٹی کٹ کے کچھ علاقوں میں قرنطینہ کی پابندی عائد کی جائے''۔

جب ان سے پوچھا گیا آیا ان مقامات سے لوگوں کے سفر پر پابندی لگائی جائے گی، صدر ٹرمپ نے کہا کہ ''نہیں۔ اس طرح کی کوئی پابندی زیر غور نہیں''۔
 

زیک

مسافر
امید افزاء سے مراد اگر ویکسین ہے تو اس کا تو پتہ نہیں ، مگر جب پوری دنیا خوف و ہراس میں مبتلا ہے تو خوشی اور امید تازہ ہوئی کہ نہیں اسی دنیا میں کچھ لوگ ہیں جو اس سے فی الحال بالکل خوفزدہ نہیں ، احتیاطی تدابیر کر رہے ہیں اور معمولات زندگی اسی طرح رواں دواں ہیں۔
یہ بیلاروس کا ذکر ہے وہاں کے حالات ویسے ہی ہمیشہ سے مخدوش ہیں
 
Top