شرط از ایس ایس ساگر

ایس ایس ساگر

لائبریرین
جمعرات کے روزشام ڈھلتے ہی اختر قینچی کی بیٹھک دوستوں سےآباد ہونے لگتی تھی۔ سب دوست یار مقررہ وقت پراس کی بیٹھک میں یوں نمودارہونے لگتے جیسے برسات میں کھمبیاں نکل آتی ہیں۔چونکہ اگلے روزسکول سےچھٹی ہوتی اس لیےرات دیر تک دوستوں کی محفل جمتی ۔ کہنے کویار لوگوں نے اس کا نام ادبی محفل رکھا تھامگر حقیقت میں وہاں ہر چیز کی بے ادبی ہوتی تھی۔شرکاءمحفل بھانت بھانت کی بولیاں بولتے تھے۔ اصغر زخمؔی وہ سارےغیرمعیاری شعر پورے ترنم کیساتھ سناتا جنہیں اس نےدوران سفر کسی رکشہ ، بس یا ٹرک کے پیچھے سے پڑھا ہوتا۔منیر فلسفیؔ قصہ خوانی میں دروغ گوئی کا تڑکہ لگاتا تو بھولا پریمؔی اپنے عشق کی داستان بڑھا چڑھا کر پیش کرتا۔مارکٹائی کے واقعات سناتے ہوئے اچھو گجراپنی بہادری کی ڈھینگیں مارتا یا پھر کبھی کبھار کسی بات پر دوستوں میں شرط لگ جاتی۔ ہارنےوالےکو بھاری جرمانہ ہوتااور محفلین کے لنگرپانی کا انتظام اسی جرمانے سےحاصل شدہ رقم سےکیا جاتا۔
اختر قینچیؔ مذکورہ ادبی محفل کا صدر اور روح رواں تھاجس کے بے ترتیب بڑھے ہوئے لمبے بال حجام کی قینچی دیکھنے کو ترس گئے تھے ۔ اپنے قینچی فوبیے کی وجہ سے ہی وہ سکول میں اختر قینچی کے نام سےمشہور ہو گیاتھا۔ اس محفل کے سیکرٹری کی خدمات اصغر زخمیؔ انجام دیتا تھا۔ جس کواوائل عمری میں ہی رکشوں اور ٹرکوں پر لکھے سارے شعرازبر یاد ہو گئےتھے اور وہ آج کل ان شعروں پر مشتمل اپنا دیوان چھپوانے کی فکر میں لگا تھا۔ منیر فلسفی ؔمحفل کا منتظم اعلٰی تھا کیونکہ انتظامی سرگرمیوں کے لیے اس کے پاس وقت بہت وافرمقدار میں تھا۔ سکول کے بارےمیں اس کافلسفہ یہ تھا کہ علم پانے کے لیے سکول جانا ضروری نہیں ۔علم تو پوری کائنات میں بکھر ا پڑا ہے۔ اس نظریے کی وجہ سےوہ سکول سے اکثر غائب رہتاتھااور زیادہ تر گلیوں، بازاروں میں گھومتا ہوا پایا جاتا۔ محفل کی ایک اورقابل ذکر شخصیت بھولاپریمیؔ تھاجس کی ہر دلعزیزی کسی تعارف کی محتاج نہیں تھی ۔کیونکہ محا ورتا یہ کہنا بے جا نہ ہوگاکہ اس کے متعلق تو گلی کے کتے بھی یہ جانتے تھے کہ اگر ان سے زیادہ گلیوں سے کسی کو پیارہے تو وہ بھولے پریمیؔ کی ذات ہے۔ اچھو گجر کی پہچان اس کی مخصوص تہمد سے جڑی تھی۔ وہ سکو ل سے آتے ہی یونیفارم اتارتا اور تہمد باندھ کر پھرتا رہتا۔ شایدایک لحاظ سے تہمد اس کی ضرورت بن چکی تھی جس کو پہن کر وہ اپنی درجن بھربھینسوں کا دودھ دوہنے میں آسانی محسوس کرتا تھا۔
اس دن بھی ہمیشہ کی طرح محفل سجی تھی ۔سب دوست یار جمع تھے ۔ سوائےمنیر فلسفیؔ کے۔ دوستوں کو اس کی فکر لاحق ہوئی مگر اتنی دیر میں وہ گلی میں آتا ہوا دکھائی دیا۔ اس دن اس کا چہرہ کچھ اترا اتراسا تھا ۔اختر کے پوچھنےپر اس نے بتایا کہ سکول سے مسلسل غیر حاضر رہنے کی وجہ سے ماسڑ عبدالغفور نے اس کے ابا کو اس کی شکایت لگا دی تھی ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ابا نے جوا ہارنے کے غم کو بھی ناخلف اولاد کےغم میں شامل کر لیا اوراس کوکئی گھنٹے تک مرغا بنائے رکھا ۔ منیر کو مرغا بننے کا اتنا دکھ نہیں تھا جتنا اس بات کا صدمہ تھا کہ ابا نے اسے حقیقتا مرغا سمجھ کر اپنے ڈربے نما گھر میں بند رہنے کا حکم سنا دیا تھا ۔ اس دن بھی وہ ابا کو اس کے لیے سگریٹ لانے کا چکمہ دے کر نکلاتھا اور سیدھامحفل میں آگیاتھا۔ اس کی دکھ بھری روئداد سن کر محفلین پر بھی افسردگی چھا گئی ۔ منیر فلسفی کو ماسٹر صاحب پر بڑا غصہ تھا ۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی طرح سب دوست مل کر اس کے سینے میں جلتی ہوئی انتقام کی آگ ٹھنڈی کرنے میں اس کی مدد کریں۔ منیر فلسفی ؔکو اس قدرسنجیدہ اور رنجیدہ دیکھ کر اس کی ممکنہ دادرسی کے لیے دوستوں کی طرف سے مختلف تجاویز پیش کی جانے لگیں۔ اسی اثناء میں بھولے پریمیؔ نے یہ راز کھولا کہ ماسٹر صاحب شام کو بچوں کو ہوم ٹیوشن پڑھا نے جاتے ہیں اورواپسی پران کا گزر قریبی قبرستان سے ہوتا ہے۔یہ سننا تھا کہ اچھو ُگجر کےذہن میں ایک شیطانی خیال لہرانے لگا۔ اس نے اپنا منصوبہ منیرفلسفی ؔکے سامنے پیش کیا تو وہ بہت خوش ہوا۔ شروع میں چند دوستوں کو اچھو گجر کے پلان پر کچھ تحفظات تھے مگر منیر فلسفی ؔکے چہرے کی اداسی کافور ہوتے دیکھ کر وہ بھی اچھو کے ساتھ متفق ہو گئے اور پھر منصوبےکو عملی جامہ پہنانے کےمتعلق سوچ بچار ہونے لگی ۔
دوسرے دن شام کے وقت سب دوست قبرستان میں جمع ہو گئے۔ یہ قبرستان بہت بڑا تھا ۔ روشنی کا مناسب انتظام نہ ہونے اور گھنے درختوں کی موجودگی کے باعث اس کے بیشتر حصے سورج غروب ہوتے ہی اندھیرے میں ڈوب جاتے تھے ۔ماسٹر صاحب کے آنے کا وقت قریب تھا۔ سب دوست دو دو کی ٹولیوں میں بٹ کرقبرستان کے بیچوں بیچ بنی کچی گزرگاہ کے دونوں اطراف پکی قبروں کے اونچے کتبوں کے پیچھے جاچھپے اور ماسٹر صاحب کا انتظار کرنے لگے۔ تھوڑی دیرہی گزری تھی کہ ماسٹر صاحب اپنی سائیکل سمیت قبرستان کے گیٹ پر نمودار ہوئے۔ سب دوست سانس روکے تیا ر بیٹھے تھے ۔ماسٹر صاحب سائیکل دونوں ہاتھوں میں تھامے گزرگاہ پر خراماں خراماں چلے آ رہے تھے۔ وہ چلتے چلتے تھوڑی دیر بعدرکتے ،قبروں کی طرف منہ کر تے اور بلند آواز میں کہتے ۔ السلام علیکم! یا اہل القبور۔ اورپھر کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد یہی الفاظ دوبارہ دوھراتے ۔ان کی اس عادت کے متعلق بھولا پریمی ؔپہلے ہی محفل میں بتا چکا تھا۔ ماسٹر صاحب کی اس عادت کا ذکرسن کرہی تو اچھوگجرنے اس کا فائدہ اٹھانے کا منصوبہ تیارکیاتھا۔
ماسٹر صاحب اب اس جگہ کے قریب ہوتے جا رہے تھے جہاں سب دوست چھپے ہوئے تھے۔ پھر جونہی ماسٹر صاحب نے قبروں کی طرف منہ کرکے اونچی آواز میں پکارا۔ السلام علیکم !یا اہل القبور۔ سب دوستوں نے بیک زبان ہو کر اونچی اور قدرے ڈراؤنی آواز میں جواب دیا۔ وعلیکم السلام !ماسٹر عبدالغفور۔ یہ سننا تھا کہ ماسٹر صاحب کی سٹی گم ہوگئی۔ ان کےتو وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ سنسان قبرستان میں کوئی ان کے سلام کا جواب یوں دے گا۔ ماسٹر صاحب کے ہاتھوں سے سائیکل گر چکی تھی۔ انہوں نے ایک دفعہ سہمی ہوئی نظروں سے ادھر ادھر دیکھا اور پھر اونچی آواز میں لاحول پڑھتے ہوئے یوں سر پر پاؤں رکھ کے بھاگے جیسے انہیں ڈر ہو کہ اگر وہ ذرا بھی رکے تو پیچھے سے کوئی مردہ ان کی گردن دبوچ لے گا۔ جب ماسٹر صاحب قبرستان کے گیٹ سے نکل کر غائب ہو گئے تو پیچھے اتنے زوردار قہقہے گونجے کہ درختوں پر سوئے کوّوں نے ڈر کر آنکھیں کھول دیں۔وہ حیرت سے قبروں کے پیچھے سے نکلتے ہوئے زور زور سے ہنستے لڑکوں کو دیکھ رہے تھے جیسے انہیں یقین نہ آ رہا ہو کہ قبرستان میں کوئی آدم زاد اس طرح بھی ہنس سکتا ہے۔
اس واقعے کے چند دن بعد محفل میں اچھو گجرتہمد باندھے بیٹھا تھا اور ماسٹر عبدالغفور کی قبرستان والی حالت پرہنس رہا تھا ۔ اس کی یہ حرکت بھولے پریمی ؔکو اس دن بہت بری لگی۔ اس نے اچھوکو فوراٹوک دیا۔
یاراچھو۔ ماسٹر صاحب کی جگہ اگر ہم میں سے کوئی ہوتا تو وہ بھی اس سچوئشن میں ڈر جاتا کیونکہ قبرستان ہے ہی ایسی جگہ ۔ہم تو اکٹھے ہو کر قبرستان میں گئے تھے ورنہ ہم میں سے کوئی بھی وہاں اکیلا جاتے ہوئے گھبرائے گا۔ بھولےکی بات پر اچھو گجر نے عادتا ایک قہقہہ مارا ور بولا۔ بھولے یا ر ۔ تم بھی بڑے ڈرپوک ہو۔ مجھے تو ایسا کوئی خوف کبھی محسو س نہیں ہوا۔ اچھو گجر کے بزدلی کے طعنے پر بھولے کو اس دن غصہ آ گیا اور اس نے اچھوکو ایک شرط پیش کر دی۔ اچھونے فورا شرط قبول کرلی۔ طے یہ پایاکہ اچھو آدھی رات کے وقت اکیلا قبرستان میں جا کر اس کے وسط میں ایک اندھیری جگہ پر کیل ٹھونک کر آئے گا۔ اگر اچھو کامیاب لوٹاتو اسے بہادری کی سند پیش کی جائے گی بصورت دیگر ہارنے والاسب کو ایک پرتکلف دعوت کھلائے گا۔ اس دن محفل جلدی برخاست کر دی گئی۔ پلان کے مطابق اچھونے اکیلے قبرستان میں داخل ہونا تھا جبکہ باقی دوستوں نے باہر رک کر اس کا انتظار کرنا تھا۔
رات کے تقریبا دو بجے ایک بار پھرسب دوست قبرستان کے دروازے کے سامنے جمع ہو گئے ۔ اچھو گجر نے حسب معمول گہرے نیلے رنگ کا تہمد باندھ رکھا تھا ۔ اس کے ایک ہاتھ میں ہتھوڑی اور دوسرے میں ایک لمبی اور موٹی سی کیل تھی۔ اس کے چہرے پر ہلکے سے بھی خوف کے تاثرات نہیں تھے۔ بھولے پریمی نے اس کی طر ف دیکھا تو اس کادل بجھ ساگیا ۔ وہ نفسیاتی طور پر ہار نے لگا تھا۔ اس کا دل چاہا کہ ابھی اسی وقت اپنی شکست کا اعلان کر دے مگر پھر نجانے کیا سوچ کر وہ رک گیا۔اچھو نے مسکراتے ہوئے بھولے پر نگاہ ڈالی اور پھر قبرستان کے دروازےسے اندر داخل ہو گیا۔
اندر قدم دھرتےہی اچھو نےاپنے پیچھے قبرستان کا گیٹ بند کرلیا ۔ اندر چاروں طرف ہُو کا عالم تھا ۔ اس گہرے سناٹے میں آسمان پر چمکتے چاند کی روشنی میں وہ اونچی نیچی قبریں پھلانگتا ہوا قبرستان کے وسط کی طرف بڑھنے لگا۔ اچانک کسی درخت پر بیٹھا ہو ا کوئی پہاڑی کوا چیخا اور اس کی تیز اور مہیب آواز قبرستان کی گہری خاموشی میں گونج اٹھی۔ ایک پل کواچھو کے بڑھتے قدم رک گئے۔ اس کا دل اچھل کر حلق میں آ گیا تھا۔پھر اگلے لمحے اس نے خود کو سنبھال لیا اور اپنے ڈر پر ہنس پڑا۔ اس نے ماتھے کو چھواتو وہ پسینے سے تر تھا۔ اس نے غیر ارادی طور پر ادھر ادھر دیکھا کہ کوئی اسے اس حالت میں دیکھ تو نہیں رہا۔ پھرتسلی ہونے پر وہ دوبارہ آگے بڑھنے لگا۔ وہ پرسکون رہنے کی پوری کوشش کر رہا تھا مگر اب ایک نادیدہ قوت کا خوف اس کے اعصاب پر سوار ہو چکا تھا۔ کسی انہونی کے ڈرکا بیج اس کے اندر پرورش پانے لگا تھا۔ اس نے سر جھٹکا اور آگے بڑھنے لگا۔
اب وہ قبرستان کے وسط میں پہنچ چکا تھا۔ وہاں ارد گرد اُگے گھنے درختوں کی وجہ سے چاند کی روشنی بھی نہیں پہنچ پا رہی تھی اور اتنا اندھیرا تھا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا۔ اس نے جلدی سے ایک قبر کے پاس پاؤں کے بل بیٹھتے ہوئے کیل ٹھونکنا شروع کردیا۔
دوسری طرف قبرستان کے باہرکھڑے بھولے پریمی کے چہرے پر افسردگی کے بادل گہرے ہوتے جا رہے تھے ۔
ارے بھولے۔ تیرے منہ پہ بارہ کیوں بج رہے ہیں ۔ توشرط ہار گیا تو کوئی بات نہیں میں دعوت کھلا دوں گا ۔ اصغر زخمی نے ہنستے ہوئے بھولے پر چوٹ کی۔
نہیں یار۔ دعوت کی بات نہیں ۔ میں سوچ رہا تھا کہ اچھو اب تک لوٹا کیوں نہیں۔
۔ بھولے نے بہانہ بنایا۔ اسی وقت قبرستان کے اندر سے کسی انسانی چیخ کی آواز سنائی دی ۔
ارے یہ تو اچھوکی آواز ہے۔ کیا ہوا اسے؟۔ اخترحیرت سے چلایا۔
اب چیخنے کی آوازیں مسلسل قبرستان سے آ رہی تھیں۔ سب دوستوں کے دل خوف سے تیز تیز دھڑکنا شروع ہو گئے تھے۔ کسی کو ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ قبرستان کے اندر جا کر صورتحال کا جائزہ لے۔ پھر چیخوں کی آواز اچانک رک گئی اور دوبارہ سناٹا چھا گیا۔
چلو یار ۔ اندر جا کر دیکھتے ہیں۔ لگتا ہے اچھو کو کوئی حادثہ پیش آ گیا ہے۔ اخترقینچی نے ہمت پکڑی اور ہاتھ میں پکڑی ٹارچ جلا لی ۔ سب دوست اس کے پیچھے پیچھے اندر کی طرف بھاگے۔ اندر گہراسناٹا چھایاتھا اور کوئی ذی روح دکھائی نہ دیتا تھا۔ سب دوست قبرستان کے وسط کی طرف دوڑے۔ وہاں پہنچے تو دیکھا اچھوایک قبر کے پاس بے ہوش پڑا تھا۔ منیرفلسفی نے ہاتھ میں پکڑی پانی کی بوتل سے اچھوکے چہرے پر چھینٹے مارے تو وہ تھوڑی دیر میں ہوش میں آ گیا۔ وہ شدید ڈرا ہوا تھا۔ طبیعت سنبھلنے پر اس نے بتایا کہ کیل ٹھونکنے کے بعد وہ اٹھنے لگا تو اس سے اٹھا نہیں گیا۔ یوں لگا کسی نے اس کی تہمد پکڑ لی ہو ۔ اس نے خود کو چھڑانے کی کوشش کی مگر بے سود۔ پھر اس نے ڈر کر چلانا شروع کر دیا تھا۔
بھولے نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کو سہارا دیا تو اچھو نے اٹھنے کی کوشش کی مگر وہ لڑ کھڑا گیا۔ اس کے چہرے پر پھر سے خوف کے آثار نمودار ہونے لگے۔
ارے یہ کیا یار۔ اچھا !تو یہ ماجراتھا۔ بھولے کے منہ سے ایک قہقہ نکلا تو سب دوستوں نے اسکی نظروں کا تعاقب کرتے ہوئے اچھو کی تہمد کی طرف دیکھا ۔ اس کی تہمد کے پلو میں ایک کیل مضبوطی سے ٹھُکی ہوئی تھی۔ قبرستان کے کوّے ایک بار پھر زور زور سے ہنستے ہوئے لڑکوں کو حیرت سے تک رہے تھے۔
+++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++​
 
آخری تدوین:

فاخر رضا

محفلین
جمعرات کے روزشام ڈھلتے ہی اختر قینچی کی بیٹھک دوستوں سےآباد ہونے لگتی تھی۔ سب دوست یار مقررہ وقت پراس کی بیٹھک میں یوں نمودارہونے لگتے جیسے برسات میں کھمبیاں نکل آتی ہیں۔چونکہ اگلے روزسکول سےچھٹی ہوتی اس لیےرات دیر تک دوستوں کی محفل جمتی ۔ کہنے کویار لوگوں نے اس کا نام ادبی محفل رکھا تھامگر حقیقت میں وہاں ہر چیز کی بے ادبی ہوتی تھی۔شرکاءمحفل بھانت بھانت کی بولیاں بولتے تھے۔ اصغر زخمؔی وہ سارےغیرمعیاری شعر پورے ترنم کیساتھ سناتا جنہیں اس نےدوران سفر کسی رکشہ ، بس یا ٹرک کے پیچھے سے پڑھا ہوتا۔منیر فلسفیؔ قصہ خوانی میں دروغ گوئی کا تڑکہ لگاتا تو بھولا پریمؔی اپنے عشق کی داستان بڑھا چڑھا کر پیش کرتا۔مارکٹائی کے واقعات سناتے ہوئے اچھو گجراپنی بہادری کی ڈھینگیں مارتا یا پھر کبھی کبھار کسی بات پر دوستوں میں شرط لگ جاتی۔ ہارنےوالےکو بھاری جرمانہ ہوتااور محفلین کے لنگرپانی کا انتظام اسی جرمانے سےحاصل شدہ رقم سےکیا جاتا۔

اختر قینچیؔ مذکورہ ادبی محفل کا صدر اور روح رواں تھاجس کے بے ترتیب بڑھے ہوئے لمبے بال حجام کی قینچی دیکھنے کو ترس گئے تھے ۔ اپنے قینچی فوبیے کی وجہ سے ہی وہ سکول میں اختر قینچی کے نام سےمشہور ہو گیاتھا۔ اس محفل کے سیکرٹری کی خدمات اصغر زخمیؔ انجام دیتا تھا۔ جس کواوائل عمری میں ہی رکشوں اور ٹرکوں پر لکھے سارے شعرازبر یاد ہو گئےتھے اور وہ آج کل ان شعروں پر مشتمل اپنا دیوان چھپوانے کی فکر میں لگا تھا۔ منیر فلسفی ؔمحفل کا منتظم اعلٰی تھا کیونکہ انتظامی سرگرمیوں کے لیے اس کے پاس وقت بہت وافرمقدار میں تھا۔ سکول کے بارےمیں اس کافلسفہ یہ تھا کہ علم پانے کے لیے سکول جانا ضروری نہیں ۔علم تو پوری کائنات میں بکھر ا پڑا ہے۔ اس نظریے کی وجہ سےوہ سکول سے اکثر غائب رہتاتھااور زیادہ تر گلیوں، بازاروں میں گھومتا ہوا پایا جاتا۔ محفل کی ایک اورقابل ذکر شخصیت بھولاپریمیؔ تھاجس کی ہر دلعزیزی کسی تعارف کی محتاج نہیں تھی ۔کیونکہ محا ورتا یہ کہنا بے جا نہ ہوگاکہ اس کے متعلق تو گلی کے کتے بھی یہ جانتے تھے کہ اگر ان سے زیادہ گلیوں سے کسی کو پیارہے تو وہ بھولے پریمیؔ کی ذات ہے۔ اچھو گجر کی پہچان اس کی مخصوص تہمند سے جڑی تھی۔ وہ سکو ل سے آتے ہی یونیفارم اتارتا اور تہمند باندھ کر پھرتا رہتا۔ شایدایک لحاظ سے تہمند اس کی ضرورت بن چکی تھی جس کو پہن کر وہ اپنی درجن بھربھینسوں کا دودھ دھونے میں آسانی محسوس کرتا تھا۔

اس دن بھی ہمیشہ کی طرح محفل سجی تھی ۔سب دوست یار جمع تھے ۔ سوائےمنیر فلسفیؔ کے۔ دوستوں کو اس کی فکر لاحق ہوئی مگر اتنی دیر میں وہ گلی میں آتا ہوا دکھائی دیا۔ اس دن اس کا چہرہ کچھ اترا اتراسا تھا ۔اختر کے پوچھنےپر اس نے بتایا کہ سکول سے مسلسل غیر حاضر رہنے کی وجہ سے ماسڑ عبدالغفور نے اس کے ابا کو اس کی شکایت لگا دی تھی ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ابا نے جوا ہارنے کے غم کو بھی ناخلف اولاد کےغم میں شامل کر لیا اوراس کوکئی گھنٹے تک مرغا بنائے رکھا ۔ منیر کو مرغا بننے کا اتنا دکھ نہیں تھا جتنا اس بات کا صدمہ تھا کہ ابا نے اسے حقیقتا مرغا سمجھ کر اپنے ڈربے نما گھر میں بند رہنے کا حکم سنا دیا تھا ۔ اس دن بھی وہ ابا کو اس کے لیے سگریٹ لانے کا چکمہ دے کر نکلاتھا اور سیدھامحفل میں آگیاتھا۔ اس کی دکھ بھری روئداد سن کر محفلین پر بھی افسردگی چھا گئی ۔ منیر فلسفی کو ماسٹر صاحب پر بڑا غصہ تھا ۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی طرح سب دوست مل کر اس کے سینے میں جلتی ہوئی انتقام کی آگ ٹھنڈی کرنے میں اس کی مدد کریں۔ منیر فلسفی ؔکو اس قدرسنجیدہ اور رنجیدہ دیکھ کر اس کی ممکنہ دادرسی کے لیے دوستوں کی طرف سے مختلف تجاویز پیش کی جانے لگیں۔ اسی اثناء میں بھولے پریمیؔ نے یہ راز کھولا کہ ماسٹر صاحب شام کو بچوں کو ہوم ٹیوشن پڑھا نے جاتے ہیں اورواپسی پران کا گزر قریبی قبرستان سے ہوتا ہے۔یہ سننا تھا کہ اچھو ُگجر کےذہن میں ایک شیطانی خیال لہرانے لگا۔ اس نے اپنا منصوبہ منیرفلسفی ؔکے سامنے پیش کیا تو وہ بہت خوش ہوا۔ شروع میں چند دوستوں کو اچھو گجر کے پلان پر کچھ تحفظات تھے مگر منیر فلسفی ؔکے چہرے کی اداسی کافور ہوتے دیکھ کر وہ بھی اچھو کے ساتھ متفق ہو گئے اور پھر منصوبےکو عملی جامہ پہنانے کےمتعلق سوچ بچار ہونے لگی ۔

دوسرے دن شام کے وقت سب دوست قبرستان میں جمع ہو گئے۔ یہ قبرستان بہت بڑا تھا ۔ روشنی کا مناسب انتظام نہ ہونے اور گھنے درختوں کی موجودگی کے باعث اس کے بیشتر حصے سورج غروب ہوتے ہی اندھیرے میں ڈوب جاتے تھے ۔ماسٹر صاحب کے آنے کا وقت قریب تھا۔ سب دوست دو دو کی ٹولیوں میں بٹ کرقبرستان کے بیچوں بیچ بنی کچی گزرگاہ کے دونوں اطراف پکی قبروں کے اونچے کتبوں کے پیچھے جاچھپے اور ماسٹر صاحب کا انتظار کرنے لگے۔ تھوڑی دیرہی گزری تھی کہ ماسٹر صاحب اپنی سائیکل سمیت قبرستان کے گیٹ پر نمودار ہوئے۔ سب دوست سانس روکے تیا ر بیٹھے تھے ۔ماسٹر صاحب سائیکل دونوں ہاتھوں میں تھامے گزرگاہ پر خراماں خراماں چلے آ رہے تھے۔ وہ چلتے چلتے تھوڑی دیر بعدرکتے ،قبروں کی طرف منہ کر تے اور بلند آواز میں کہتے ۔ السلام علیکم! یا اہل القبور۔ اورپھر کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد یہی الفاظ دوبارہ دوھراتے ۔ان کی اس عادت کے متعلق بھولا پریمی ؔپہلے ہی محفل میں بتا چکا تھا۔ ماسٹر صاحب کی اس عادت کا ذکرسن کرہی تو اچھوگجرنے اس کا فائدہ اٹھانے کا منصوبہ تیارکیاتھا۔

ماسٹر صاحب اب اس جگہ کے قریب ہوتے جا رہے تھے جہاں سب دوست چھپے ہوئے تھے۔ پھر جونہی ماسٹر صاحب نے قبروں کی طرف منہ کرکے اونچی آواز میں پکارا۔ السلام علیکم !یا اہل القبور۔ سب دوستوں نے بیک زبان ہو کر اونچی اور قدرے ڈراؤنی آواز میں جواب دیا۔ وعلیکم السلام !ماسٹر عبدالغفور۔ یہ سننا تھا کہ ماسٹر صاحب کی چھٹی گم ہوگئی۔ ان کےتو وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ سنسان قبرستان میں کوئی ان کے سلام کا جواب یوں دے گا۔ ماسٹر صاحب کے ہاتھوں سے سائیکل گر چکی تھی۔ انہوں نے ایک دفعہ سہمی ہوئی نظروں سے ادھر ادھر دیکھا اور پھر اونچی آواز میں لاحول پڑھتے ہوئے یوں سر پر پاؤں رکھ کے بھاگے جیسے انہیں ڈر ہو کہ اگر وہ ذرا بھی رکے تو پیچھے سے کوئی مردہ ان کی گردن دبوچ لے گا۔ جب ماسٹر صاحب قبرستان کے گیٹ سے نکل کر غائب ہو گئے تو پیچھے اتنے زوردار قہقہے گونجے کہ درختوں پر سوئے کوّوں نے ڈر کر آنکھیں کھول دیں۔وہ حیرت سے قبروں کے پیچھے سے نکلتے ہوئے زور زور سے ہنستے لڑکوں کو دیکھ رہے تھے جیسے انہیں یقین نہ آ رہا ہو کہ قبرستان میں کوئی آدم زاد اس طرح بھی ہنس سکتا ہے۔

اس واقعے کے چند دن بعد محفل میں اچھو گجرتہمند باندھے بیٹھا تھا اور ماسٹر عبدالغفور کی قبرستان والی حالت پرہنس رہا تھا ۔ اس کی یہ حرکت بھولے پریمی ؔکو اس دن بہت بری لگی۔ اس نے اچھوکو فوراٹوک دیا۔

یاراچھو۔ ماسٹر صاحب کی جگہ اگر ہم میں سے کوئی ہوتا تو وہ بھی اس سچوئشن میں ڈر جاتا کیونکہ قبرستان ہے ہی ایسی جگہ ۔ہم تو اکٹھے ہو کر قبرستان میں گئے تھے ورنہ ہم میں سے کوئی بھی وہاں اکیلا جاتے ہوئے گھبرائے گا۔ بھولےکی بات پر اچھو گجر نے عادتا ایک قہقہہ مارا ور بولا۔ بھولے یا ر ۔ تم بھی بڑے ڈرپوک ہو۔ مجھے تو ایسا کوئی خوف کبھی محسو س نہیں ہوا۔ اچھو گجر کے بزدلی کے طعنے پر بھولے کو اس دن غصہ آ گیا اور اس نے اچھوکو ایک شرط پیش کر دی۔ اچھونے فورا شرط قبول کرلی۔ طے یہ پایاکہ اچھو آدھی رات کے وقت اکیلا قبرستان میں جا کر اس کے وسط میں ایک اندھیری جگہ پر کیل ٹھونک کر آئے گا۔ اگر اچھو کامیاب لوٹاتو اسے بہادری کی سند پیش کی جائے گی بصورت دیگر ہارنے والاسب کو ایک پرتکلف دعوت کھلائے گا۔ اس دن محفل جلدی برخاست کر دی گئی۔ پلان کے مطابق اچھونے اکیلے قبرستان میں داخل ہونا تھا جبکہ باقی دوستوں نے باہر رک کر اس کا انتظار کرنا تھا۔

رات کے تقریبا دو بجے ایک بار پھرسب دوست قبرستان کے دروازے کے سامنے جمع ہو گئے ۔ اچھو گجر نے حسب معمول گہرے نیلے رنگ کا تہمند باندھ رکھا تھا ۔ اس کے ایک ہاتھ میں ہتھوڑی اور دوسرے میں ایک لمبا اور موٹا ساکیل تھا۔ اس کے چہرے پر ہلکے سے بھی خوف کے تاثرات نہیں تھے۔ بھولے پریمی نے اس کی طر ف دیکھا تو اس کادل بجھ ساگیا ۔ وہ نفسیاتی طور پر ہار نے لگا تھا۔ اس کا دل چاہا کہ ابھی اسی وقت اپنی شکست کا اعلان کر دے مگر پھر نجانے کیا سوچ کر وہ رک گیا۔اچھو نے مسکراتے ہوئے بھولے پر نگاہ ڈالی اور پھر قبرستان کے دروازےسے اندر داخل ہو گیا۔

اندر قدم دھرتےہی اچھو نےاپنے پیچھے قبرستان کا گیٹ بند کرلیا ۔ اندر چاروں طرف ہُو کا عالم تھا ۔ اس گہرے سناٹے میں آسمان پر چمکتے چاند کی روشنی میں وہ اونچی نیچی قبریں پھلانگتا ہوا قبرستان کے وسط کی طرف بڑھنے لگا۔ اچانک کسی درخت پر بیٹھا ہو ا کوئی پہاڑی کوا چیخا اور اس کی تیز اور مہیب آواز قبرستان کی گہری خاموشی میں گونج اٹھی۔ ایک پل کواچھو کے بڑھتے قدم رک گئے۔ اس کا دل اچھل کر حلق میں آ گیا تھا۔پھر اگلے لمحے اس نے خود کو سنبھال لیا اور اپنے ڈر پر ہنس پڑا۔ اس نے ماتھے کو چھواتو وہ پسینے سے تر تھا۔ اس نے غیر ارادی طور پر ادھر ادھر دیکھا کہ کوئی اسے اس حالت میں دیکھ تو نہیں رہا۔ پھرتسلی ہونے پر وہ دوبارہ آگے بڑھنے لگا۔ وہ پرسکون رہنے کی پوری کوشش کر رہا تھا مگر اب ایک نادیدہ قوت کا خوف اس کے اعصاب پر سوار ہو چکا تھا۔ کسی انہونی کے ڈرکا بیج اس کے اندر پرورش پانے لگا تھا۔ اس نے سر جھٹکا اور آگے بڑھنے لگا۔

اب وہ قبرستان کے وسط میں پہنچ چکا تھا۔ وہاں ارد گرد اُگے گھنے درختوں کی وجہ سے چاند کی روشنی بھی نہیں پہنچ پا رہی تھی اور اتنا اندھیرا تھا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا۔ اس نے جلدی سے ایک قبر کے پاس پاؤں کے بل بیٹھتے ہوئے کیل ٹھونکنا شروع کردیا۔

دوسری طرف قبرستان کے باہرکھڑے بھولے پریمی کے چہرے پر افسردگی کے بادل گہرے ہوتے جا رہے تھے ۔

ارے بھولے۔ تیرے منہ پہ بارہ کیوں بج رہے ہیں ۔ توشرط ہار گیا تو کوئی بات نہیں میں دعوت کھلا دوں گا ۔ اصغر زخمی نے ہنستے ہوئے بھولے پر چوٹ کی۔

نہیں یار۔ دعوت کی بات نہیں ۔ میں سوچ رہا تھا کہ اچھو اب تک لوٹا کیوں نہیں۔

۔ بھولے نے بہانہ بنایا۔ اسی وقت قبرستان کے اندر سے کسی انسانی چیخ کی آواز سنائی دی ۔

ارے یہ تو اچھوکی آواز ہے۔ کیا ہوا اسے؟۔ اخترحیرت سے چلایا۔

اب چیخنے کی آوازیں مسلسل قبرستان سے آ رہی تھیں۔ سب دوستوں کے دل خوف سے تیز تیز دھڑکنا شروع ہو گئے تھے۔ کسی کو ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ قبرستان کے اندر جا کر صورتحال کا جائزہ لے۔ پھر چیخوں کی آواز اچانک رک گئی اور دوبارہ سناٹا چھا گیا۔

چلو یار ۔ اندر جا کر دیکھتے ہیں۔ لگتا ہے اچھو کو کوئی حادثہ پیش آ گیا ہے۔ اخترقینچی نے ہمت پکڑی اور ہاتھ میں پکڑی ٹارچ جلا لی ۔ سب دوست اس کے پیچھے پیچھے اندر کی طرف بھاگے۔ اندر گہراسناٹا چھایاتھا اور کوئی ذی روح دکھائی نہ دیتا تھا۔ سب دوست قبرستان کے وسط کی طرف دوڑے۔ وہاں پہنچے تو دیکھا اچھوایک قبر کے پاس بے ہوش پڑا تھا۔ منیرفلسفی نے ہاتھ میں پکڑی پانی کی بوتل سے اچھوکے چہرے پر چھینٹے مارے تو وہ تھوڑی دیر میں ہوش میں آ گیا۔ وہ شدید ڈرا ہوا تھا۔ طبیعت سنبھلنے پر اس نے بتایا کہ کیل ٹھونکنے کے بعد وہ اٹھنے لگا تو اس سے اٹھا نہیں گیا۔ یوں لگا کسی نے اس کی تہمند پکڑ لی ہو ۔ اس نے خود کو چھڑانے کی کوشش کی مگر بے سود۔ پھر اس نے ڈر کر چلانا شروع کر دیا تھا۔

بھولے نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کو سہارا دیا تو اچھو نے اٹھنے کی کوشش کی مگر وہ لڑ کھڑا گیا۔ اس کے چہرے پر پھر سے خوف کے آثار نمودار ہونے لگے۔

ارے یہ کیا یار۔ اچھا !تو یہ ماجراتھا۔ بھولے کے منہ سے ایک قہقہ نکلا تو سب دوستوں نے اسکی نظروں کا تعاقب کرتے ہوئے اچھو کی تہمند کی طرف دیکھا ۔ اس کی تہمند کے پلو میں ایک کیل مضبوطی سے ٹھُکا ہوا تھا۔ قبرستان کے کوّے ایک بار پھر زور زور سے ہنستے ہوئے لڑکوں کو حیرت سے تک رہے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت اعلیٰ
 

عدنان عمر

محفلین
بہت خوب۔اچھی تحریر ہے۔ آپ اچھا مزاح لکھتے ہیں۔
ہو سکے تو انھی کرداروں پر مبنی ایک اور کہانی لکھیے۔
 
Top