کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا

La Alma

لائبریرین

اس طرح کے پروگرامز آن ائیر کرنے سے خدا جانے کس دین کی خدمت ہو رہی ہے۔ ایسے شعبدہ باز مفتیوں اور عالموں سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے جواپنی ہوس پرستی کو دین کا لبادہ پہنا کر سادہ لوح مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کا موجب بنتے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ایسے لوگ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے قرآنی آیات اور احادیث کا سہارا لیتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا بھی نہیں۔ یعنی اب نکاح کے لیے چار کی بھی کوئی حد مقرر نہیں۔
یہ کس قسم کے اسلامی معاشرے کا تصور پیش کیا جا رہا ہے جہاں ایک طرف تو مرد کو اتنا بے باک اور آزاد دکھایا جا رہا ہے کہ اسے جہاں بھی خوبصورتی اور حسن نظر آئے، کہیں بھی کوئی عورت پسند آ جائے وہ نکاح در نکاح کرتا چلا جائے،اس پر تو کوئی قدغن نہیں بلکہ ایسا کرنا عین دینی سعادت اور اسلام ہے۔ اور دوسری طرف اسی نام نہاد اسلامی معاشرے میں ایک عورت اپنے سگے والدین سے ملنے کے لیے بھی شریعت کی رو سے شوہر کی اجازت کی محتاج ہو۔
جس معاشرےمیں ذہنی پسماندگی اور مذہبی انتہاپسندی کا یہ عالم ہو، وہاں اپنے نام کے ساتھ مفتی یا مذہبی سکالر لگانے کی اجازت کسی شخص کو اس وقت تک نہیں ہونی چاہیے، جب تک اس نے کسی مستند یونیورسٹی سے دینی علوم میں کم از کم پی ایچ ڈی نہ کر رکھی ہو۔ اور وہ صرف انہی موضوعات سے متعلق فتاوی دینے کا اہل ہونا چاہیے جس میں اس نے ریسرچ پیپر مکمل کیا ہو اور پھر کڑی شرائط کے ساتھ پروبیشن پیریڈ گزارنے کے بعد اس کا باضابطہ اجازت نامہ حاصل کیا ہو۔ یونیورسٹیز میں ان کا ایڈمیشن بھی ڈاکٹرز اور انجینئرز کی طرح اعلی ترین میرٹ کی بنیاد پر ہونا چاہیے تاکہ دین کی خدمت کے لیے صرف لائق اور قابل افراد ہی منتخب ہوسکیں۔ وگرنہ ایسے نام نہاد مفتیوں اور سکالرز سے تو ایک عام آدمی کا انٹیلیکٹ ہزار درجے بہتر ہوتا ہے۔
 
Top