محمد بلال اعظم

لائبریرین
علامہ اقبال اور قصۂ نصف شب
حضرت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا ایک واقعہ نصف شب بہت ہی مشہور ہے جس کی تصدیق مولانا عبدالستار نیازی مرحوم و مغفور نے بھی کی۔ واقعہ اس طرح ہے کہ ایک روز نصف شب علامہ اقبال اپنے بستر پر لیٹے ہوئے نہایت ہی مضطرب حالت میں تھے۔ بالآخر اٹھے اور کوٹھی (میکلوڈ روڈ) کے باہر گیٹ پر تشریف لے گئے۔ علی بخش، خادم خاص بھی ساتھ تھے۔ اتنے میں ایک بزرگ کامل و اکمل سفید لباس میں تشریف لائے۔ حضرت علامہ نے انہیں پلنگ پر بٹھایا اور خود نیچے بیٹھ گئے اور اس بزرگ کے پاؤں دبانے لگ گئے پھر ان سے حضرت علامہ نے دریافت کیا کہ آپ کی خدمت میں کیا پیش کروں۔ موصوف ممدوح نے فرمایا: دہی کی لسّی۔ اس پر حضرت اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے علی بخش کو جگ لے کر باہر سے لسّی لانے کے لئے کہا۔

علی بخش کہتا ہے کہ میں نے سوچا اس وقت دہی کی لسی یا تو بھاٹی سے یا لاہور اسٹیشن سے ملے گی۔ لیکن جب میں کوٹھی سے باہر نکلا تو میری حیرانگی کی حد ہوگئی کہ کوٹھی کے سامنے ایک بازار ہے اور وہاں ایک لسّی کی دکان ہے جہاں ایک سفید ریش بزرگ بیٹھے ہوئے ہیں، میں وہاں گیا۔ انہوں نے مجھے لسّی بنا کر دے دی۔ جب میں نے پیسے پوچھے تو اس سفید ریش بزرگ کامل دکاندار نے جواب دیا کہ علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ہمارا حساب چلتا رہتا ہے۔ میں نے وہ لسّی کا جگ علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت اقدس میں پیش کر دیا۔ علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے ایک گلاس بھر کر اس بزرگ کی خدمت میں پیش کیا۔ انہوں نے پی لیا۔ پھر دوسرا گلاس پیش کیا تو انہوں نے علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کو فرمایا: خود پی لو۔ کافی وقت تک علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ ان کے قدم دباتے رہے اور محو گفتگو رہے۔ کچھ دیر کے بعد وہ بزرگ کوٹھی سے باہر آئے اور پھر نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ میں (علی بخش) حیران و ششدر تھا کہ وہ ہستی کامل کہاں چلی گئی اور اب نہ ہی باہر کوئی بازار تھا۔ میں نے اس کے بارے حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ سے استفسار کیا تو انہوں نے فرمایا:

’’علی بخش جو بزرگ کوٹھی کے اندر تشریف فرما ہوئے تھے وہ خواجہ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ تھے اور جس بزرگ نے لسّی بنا کر دی وہ سید مخدوم علی ہجویری رضی اللہ عنہ تھے‘‘۔

لیکن علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے علی بخش سے مزید فرمایا کہ ان ناموں کا انکشاف میری حیات میں نہ کرنا۔ میں سمجھتا ہوں حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ جہاں آخری عمر میں صحیح معنوں میں عاشق رسول مقبول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم تھے وہاں فنا فی الگنج بخش رحمۃ اللہ علیہ بھی تھے۔ (سہ ماہی معارف اولیاء 2003ء)

علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے ہر جگہ اس تصوف کے بارے میں فرمایا ہے جو جمود و تعطل کا شکار نہ ہو اور نہ ہی گوشہ تنہائی میں آرام کرنے کا نام ہے۔ بلکہ وہ اس تصوف کے قائل تھے جو اسوہ شبیری کا درس دیتا ہے۔

فقر گریاں گرمئی بدر و حنین
فقر عریاں بانگ تکبیر حسین (ع)

آج ہم محبت اقبال کے ببانگِ دہل دعوے کرتے ہیں، فکر اقبال سے رہنمائی بھی حاصل کرتے ہیں، سرکاری طور پر یوم اقبال رحمۃ اللہ علیہ بھی مناتے ہیں لیکن ستم ظریفی اس حد تک ہے کہ ہنوز ’’فقر اقبال‘‘ ہمارا وظیفہ نہیں ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم اس ’’فقر‘‘ کو اپنائیں بلکہ حرز جاں بنائیں جو ہمیں نہ صرف غیور و صبور بنا دے بلکہ یہ ہمارا اٹھنا، بیٹھنا، اوڑھنا، بچھونا، چلنا، پھرنا، جاگنا اور سونا ہو۔

ابھی وقت ہے کچھ باقی سنبھل جا
چھوڑ کر جام و سبو ساقی سنبھل جا

کرکے ترک سرود و رنگ ساتھی سنبھل جا
کرنا ہے تجھے سفر کافی سنبھل جا

حقیقت حال یہ ہے کہ آج تصوف بے حقیقت نام ہو کر رہ گیا ہے۔ حالانکہ اس سے قبل یہ حقیقت ہی حقیقت تھی، جس کا کوئی نام نہ تھا۔ یعنی عہد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور سلف صالحین رحمہم اللہ میں تصوف نام کا نہ تھا اس کا معنی مفہوم ہر شخص میں پایا جاتا تھا۔ اِس دور میں نام موجود ہے مگر معنی عنقا ہے۔ اُس وقت افعال و اعمال انتہائی پسندیدہ تھے مگر کسی قسم کا دعویٰ یا نام موجود نہ تھا۔ اِس زمانے میں دعویٰ اور نام کی بڑی شہرت ہے مگر اعمال و افعال کا کچھ علم نہیں۔ عارف کے لئے عالم ہونا ضروری ہے لیکن ہر عالم عارف نہیں ہوسکتا۔ یہی تصوف عین اسلام بلکہ حقیقت اسلام ہے۔ حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی زبان مبارک کا ایک ایک لفظ گنجینہ حکمت و معرفت ہے اور تصوف کی تعلیمات کا نچوڑ ہے۔

(سہ ماہی معارف اولیاء)
 

نایاب

لائبریرین
دنیا جنہیں آزاد مرد کہتی ہے وہ عجب حکایتوں کے کردار ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت خوب شراکت
 

Usama Kamran

محفلین
استغفراللہ ، سفید جھوٹ!
سید علی بن عثمان ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کو گزرے ہوئے کم و بیش ایک ہزار سال ہو چکے ہیں ہیں اور خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کو گزرے ہوئے ہیں تقریبا آٹھ سو سال کا عرصہ بیت چکا ہے تو ان دو ہستیوں کی کی آپس میں ملاقات متوقع نہیں ہے فوت ہونے کے ایک ہزار سال بعد ان کی علامہ اقبال سے کیسے ملاقات ہوگئ ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 
Top