نعیم صدیقی نعیم صدیقی کی ایک دل گداز نعت

یونس

محفلین
!اے میرے نبیٔ صدق و صفا
اے میرے نبیٔ صدق و صفا، جب دل پہ شب غم چھاتی ہے
اور دل کی شب غم میں کوئی جب برق بلا لہراتی ہے
اور برق بلا جب بن کے گھٹا باران شرر برساتی ہے
ایسے میں تڑپ اٹھتا ہے یہ دل، ایسے میں تیری یاد آتی ہے

!اے میرے نبیٔ صدق و صفا
جب چاندی کے بت خانوں میں انساں کے لہو کی بھینٹ چڑھے
نشہ ہو مہنتوں پر طاری، ہر بت کا قد کچھ اور بڑھے
ان بت خانوں میں چیخ کوئی جب گونج کے دل دہلاتی ہے
ایسے میں تڑپ اٹھتا ہے یہ دل، ایسے میں تیری یاد آتی ہے

!اے میرے نبیٔ صدق و صفا
بن باپ کے عاجز بچے جب افلاس کے گھر میں پلتے ہیں
اور ان کے افسردہ چہرے جب پیٹ کی آگ میں جلتے ہیں
کچھ جھوٹی امیدوں سے ان کو جب بیوہ ماں بہلاتی ہے
ایسے میں تڑپ اٹھتا ہے یہ دل، ایسے میں تیری یاد آتی ہے

!اے میرے نبیٔ صدق و صفا
جب تخت بچھاتے ہیں اپنا، نمرود نئے ،شداد نئے
شمشیریں جب لہراتے ہیں، مقتل میں کھڑے جلاد نئے
نازک سے ضمیر انساں پر سل جبر کی جب لد جاتی ہے
ایسے میں تڑپ اٹھتا ہے یہ دل، ایسے میں تیری یاد آتی ہے

!اے میرے نبیٔ صدق و صفا
ماحول کی چکی میں پڑ کر جذبات میرے جب پستے ہیں
ایمان کو چوٹیں لگتی ہیں، جب زخم تمنا رستے ہیں
صد ہا فتنوں کے گھیرے میں جب طبع حزیں گھبراتی ہے
ایسے میں تڑپ اٹھتا ہے یہ دل، ایسے میں تیری یاد آتی ہے

!اے میرے نبیٔ صدق و صفا
جب ساتھی سب کھو جاتے ہیں، جب میں تنہا رہ جاتا ہوں
انجانے دکھ کی لہروں میں بے بس ہو کر بہہ جاتا ہوں
جب سہمی سہمی میری خودی لہروں میں غوطے کھاتی ہے
ایسے میں تڑپ اٹھتا ہے یہ دل، ایسے میں تیری یاد آتی ہےایسے میں تڑپ اٹھتا ہے یہ دل، ایسے میں تیری یاد آتی ہے
 
سبحان اللہ کیا پاکیزہ کلام ہے ۔
بچپن سے انھیں بزرگوں کو پڑھا ،ماہر القادری ،نعیم صدیقی،شورش کاشمیری ،عامر عثمانی
وہ کیا لوگ تھے جو اس راہ گذر سے گذرے ۔۔۔۔۔
ہم کب ایسا لکھ پائیں گے ۔۔۔۔کاششششششش
 
مکمل نعت

اے میرے نبیِؐ صدق و صفا! جب دل پہ شبِ غم چھاتی ہے
اور دل کی شبِ غم میں کوئی جب برقِ بلا لہراتی ہے
اور برقِ بلا جب بن کے گھٹا بارانِ شرر برساتی ہے
ایسے میں تڑپ اٹھتا ہے یہ دل! ایسے میں تری یاد آتی ہے!

اے میرے نبیِؐ صدق و صفا!
جب چاندی کے بت خانوں میں انساں کے لہو کی بھینٹ چڑھے
نشہ ہو مہنتوں پر طاری، ہر بت کا قد کچھ اور بڑھے
ان بت خانوں میں چیخ کوئی جب گونج کے دل دہلاتی ہے
ایسے میں تڑپ اٹھتا ہے یہ دل! ایسے میں تری یاد آتی ہے!

اے میرے نبیِؐ صدق وصفا!
بازارِ گنہ کی روشنیاں جب گھور اندھیرے پھیلائیں
کمخواب کی سیجوں کی کلیاں چبھتے ہوئے کانٹے بن جائیں
جب اغوا ہو کر بکنے والی کوئی طوائف گاتی ہے
ایسے میں تڑپ اٹھتا ہے یہ دل! ایسے میں تری یاد آتی ہے!

اے میرے نبیِؐ صدق و صفا!
یاں جھوٹ گواہی دیتا ہے جب سچ کا غازہ رخ پہ ملے
کرتا ہے امامت کفر یہاں جب تقویٰ کی محراب تلے
طاغوت کی جب بے باک ہنسی غیرت کو ضرب لگاتی ہے
ایسے میں تڑپ اٹھتا ہے یہ دل! ایسے میں تری یاد آتی ہے!

اے میرے نبیِؐ صدق وصفا!
بن باپ کے عاجز بچے جب افلاس کے گھر میں پلتے ہیں
اور ان کے افسردہ چہرے جب پیٹ کی آگ میں جلتے ہیں
کچھ جھوٹی امیدوں سے ان کو جب بیوہ ماں بہلاتی ہے
ایسے میں تڑپ اٹھتا ہے یہ دل! ایسے میں تری یاد آتی ہے!

اے میرے نبیِؐ صدق وصفا!
عشرت کی پری کے غمزے جب ہر عزم کو گھائل کرتے ہیں
جب ترکِ سفر پر راہی کو، رہبر ہی مائل کرتے ہیں
تہذیبِ بشر کُش اِٹھلا کر ہر موڑ پہ جب بہکاتی ہے
ایسے میں تڑپ اٹھتا ہے یہ دل! ایسے میں تری یاد آتی ہے!

اے میرے نبیِؐ صدق و صفا!
جب مہرِ خمِ مے کھلتی ہے اور رند بہکنے لگتے ہیں
جب صندل کے ترشے ہوئے بت محفل میں تھرکنے لگتے ہیں
ہر شمع سسک کر بجھتی ہے، آہوں کا دھواں پھیلاتی ہے
ایسے میں تڑپ اٹھتا ہے یہ دل! ایسے میں تری یاد آتی ہے!

اے میرے نبیِؐ صدق و صفا!
جب تخت بچھاتے ہیں اپنا نمرود نئے، شداد نئے
شمشیریں جب لہراتے ہیں مقتل میں کھڑے جلاد نئے
نازک سے ضمیرِ انساں پر، سِل جبر کی جب لد جاتی ہے
ایسے میں تڑپ اٹھتا ہے یہ دل! ایسے میں تری یاد آتی ہے!

اے میرے نبیِؐ صدق وصفا!
جب حرفِ نگفتہ در پسِ لب، اک اخگر بن کے دہکتا ہے
قرطاس سے شعلے اٹھتے ہیں، خامہ سے خون ٹپکتا ہے
اظہار کی حسرت بھِنّا کر، اپنا ہی کلیجہ کھاتی ہے
ایسے میں تڑپ اٹھتا ہے یہ دل! ایسے میں تری یاد آتی ہے!

اے میرے نبیِؐ صدق و صفا!
جب دردِ تضاد و قول و عمل رک رک کے فزوں ہو جاتا ہے
جب زہرِ نفاقِ پنہاں سے غایات کا خوں ہو جاتا ہے
غداری کے بازاروں میں جب حبِّ وطن بِک جاتی ہے
ایسے میں تڑپ اٹھتا ہے یہ دل! ایسے میں تری یاد آتی ہے!

اے میرے نبیِؐ صدق و صفا!
ماحول کی چکی میں پڑ کر جذبات مرے جب پستے ہیں
ایمان کو چوٹیں لگتی ہیں، جب زخمِ تمنا رِستے ہیں
صد ہا فتنوں کے گھیرے میں جب طبعِ حزیں گھبراتی ہے
ایسے میں تڑپ اٹھتا ہے یہ دل! ایسےمیں تری یاد آتی ہے!

اے میرے نبیِؐ صدق وصفا!
جب ساتھی سب کھو جاتے ہیں جب میں تنہا رہ جاتا ہوں
انجانے دکھ کی لہروں میں بے بس ہو کر بہہ جاتا ہوں
جب سہمی سہمی میری خودی لہروں میں غوطے کھاتی ہے
ایسے میں تڑپ اٹھتا ہے یہ دل! ایسے میں تری یاد آتی ہے!

٭٭٭
نعیم صدیقیؒ
 
Top