پھول، بہار اور گلستان پر اشعار

جاسمن

لائبریرین
نظر عذابوں میں گھر گئی ہے سخن سرابوں میں آ گیا ہے
سنا ہے اب کے بہار موسم خزاں کی باتوں میں آ گیا ہے

یہ کیا غضب ہے کہ جس نے عہد بہار چاہا نہ عشق دیکھا
نظام ہجر و وصال سارا اسی کے ہاتھوں میں آ گیا ہے

بہار تو اک مغالطہ ہے خزاں کی روپوش حیرتوں کا
جو اس طلسم جہاں سے گزرا وہ داستانوں میں آ گیا ہے

وہ جس کے دامن میں شاعری تھی بہار لہجے کی لٹ لٹا کر
اے رب لفظ و بیاں وہ شاعر تری پناہوں میں آ گیا ہے

بہار کیا اب خزاں بھی دیکھے غرور حسن سخنوری میں
جو آسمانوں میں جا بسا تھا زمیں کے قدموں میں آ گیا ہے

بہار رت میں بچھڑ کے تجھ سے جو دل پہ گزری وہ دل ہی جانے
ہمیں تو اتنا پتا ہے یارو لہو تک آنکھوں میں آ گیا ہے

منور جمیل
 

سیما علی

لائبریرین
اگرچہ پھول یہ اپنے لیے خریدے ہیں
کوئی جو پوچھے تو کہہ دوں گا اس نے بھیجے ہیں
افتخار نسیم
 

سیما علی

لائبریرین
یہ جو آنکھیں مَیں کسی پھول پہ رکھ دیتا ھُون
مُجھے کُچھ اور سُجھائی نہیں دیتا سائیں
رفیع رضا
 

جاسمن

لائبریرین
کہیں کاغذوں میں شاید وہ بہار سو رہی ہو
اسی موسمِ خزاں میں اسے ڈھونڈنا پڑے گا
اعتبار ساجد
 
Top