غزل---دل ہےتو دھر مرے کلام پہ کان

منذر رضا

محفلین
السلام علیکم!
اہلِ محفل کی خدمت میں ایک غزل پیش کر رہا ہوں، ملاحظہ ہو:

ایسے بن کو چمن نہ سمجھا جائے
اس زماں کا چلن نہ سمجھا جائے
دل ہے تو دھر مرے کلام پہ کان
عقل سے یہ سخن نہ سمجھا جائے
وہی الفت، وفا، نبھانے کی بات
دل کا طرزِ کہن نہ سمجھا جائے
تیری پلکیں ہیں، کوئی تیر نہیں
پھر بھی دل میں چبھن، نہ سمجھا جائے!
عشق ہے یہ، بتوں کا عشق!، اسے
عام سی اک لگن نہ سمجھا جائے
منذر اس قدر بیدلی ! توبہ!
رازِ رنج و محن نہ سمجھا جائے!
 
آخری تدوین:
ماشاء اللہ، حسبِ سابق اچھی غزل ہے۔
مجھے بس مطلع دولخت محسوس ہوا، اور پلکوں کی نرمی پر بھی متردد ہوں، پلکیں تو عموماً نازکی سے موصوف ہوتی ہیں؟ :)

وہی الفت، وفا، نبھانے کی بات
دل کا طرزِ کہن نہ سمجھا جائے
زبردست!

دعاگو،
راحلؔ
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے پسند آئی۔ لیکن
منذر اس قدر بیدلی ! توبہ!
رازِ رنج و محن نہ سمجھا جائے!
یہاں قدر کا تلفظ غلط قدر کا لگ گیا ہے
 

منذر رضا

محفلین
الف عین
حضرت میری نظر میں تو مبارک شاہ آبرو کا یہ شعر تھا:
افسوس اوں کی قدر کوں تم پوچھتے نہیں
پہچان جانتے نہیں تم دل کے دوستدار
 

الف عین

لائبریرین
الف عین
حضرت میری نظر میں تو مبارک شاہ آبرو کا یہ شعر تھا:
افسوس اوں کی قدر کوں تم پوچھتے نہیں
پہچان جانتے نہیں تم دل کے دوستدار
یہاں بھی قدر کے معنی عزت و تکریم کے ہیں جو درست ہے، لیکن کس قدر، جس قدر وغیرہ میں مقدار کے معنی میں ہے، جو مفتوح دال کے ساتھ ہوتا ہے۔
غالب
شرحِ اسبابِ گرفتاریِ خاطر مت پوچھ
اس قدر تنگ ہوا دل کہ میں زنداں سمجھا
اور قدر بمعنی تکریم، غالب :
دلِ حسرت زدہ تھا مائدۂ لذتِ درد
کام یاروں کا بہ قدرِ لب و دنداں نکلا
 

Wajih Bukhari

محفلین
یہاں بھی قدر کے معنی عزت و تکریم کے ہیں جو درست ہے، لیکن کس قدر، جس قدر وغیرہ میں مقدار کے معنی میں ہے، جو مفتوح دال کے ساتھ ہوتا ہے۔
غالب
شرحِ اسبابِ گرفتاریِ خاطر مت پوچھ
اس قدر تنگ ہوا دل کہ میں زنداں سمجھا
اور قدر بمعنی تکریم، غالب :
دلِ حسرت زدہ تھا مائدۂ لذتِ درد
کام یاروں کا بہ قدرِ لب و دنداں نکلا
شکریہ۔ یہ فرمائیے کہ کیا قدَر بمعنی مقدار ایک غلط العام تلفظ ہے اور اصل تلفظ قدر (دال ساکن) تھا؟
 

الف عین

لائبریرین
قدر، دال ساکن، بمعنی مقدار کی مثال دیں۔ اگر ' اس قدَر'، دال مفتوح، کو دال ساکن بولا جاتا یو تو تمہاری بات مانتا ہوں، ورنہ میں نے تو کبھی دال ساکن نہیں سنا اس یا کس کے ساتھ!
 

Wajih Bukhari

محفلین
قدر، دال ساکن، بمعنی مقدار کی مثال دیں۔ اگر ' اس قدَر'، دال مفتوح، کو دال ساکن بولا جاتا یو تو تمہاری بات مانتا ہوں، ورنہ میں نے تو کبھی دال ساکن نہیں سنا اس یا کس کے ساتھ!
میں نے لغت میں ایسا لکھا دیکھا کہ قدر کے دونوں تلفظات کے تحت اس کے معانی میں تکریم اور مقدار درج تھے۔ آپ اس لغت میں ملاحظہ فرمائیے۔
Urdu Lughat
 
Top