ہندو انتہا پسندوں کا دہلی میں مسجد پر حملہ، مینار پر چڑھ گئے

جاسم محمد

محفلین
ہندو انتہا پسندوں کا دہلی میں مسجد پر حملہ، مینار پر چڑھ گئے
215087_3150066_updates.jpg

جنونی مظاہرین نے مسجد پر بھارتی ترنگا اور ہندوؤں کی مذہبی علامت سمجھا جانے والا پرچم لہرایا— فوٹو: اسکرین گریب

بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی کے علاقے اشوک نگر میں ہندو انتہا پسندوں نے مسجد پر دھاوا بول دیا۔

گزشتہ روز نئی دہلی میں اُس وقت فسادات پھوٹ پڑے جب شمال مشرقی علاقوں میں متنازع شہریت کے قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر ہندو انتہا پسندوں نے حملے کیے تھے۔

گزشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ بھارت کے باوجود شمال مشرقی دہلی میدان جنگ بنا رہا اور انتہاپسند ہندو بلوائیوں نے کئی مکانات، دکانوں اور گاڑیوں کو جلا ڈالا۔

گزشتہ روز سے جاری فسادات میں پولیس اہلکار سمیت 11 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ 130 سے زائد افراد زخمی ہیں۔

انہی فسادات کی آڑ میں ہندو بلوائی آپے سے باہر ہوگئے اور دہلی کے علاقے اشوک نگر کی مسجد پر دھاوا بول دیا۔

سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ہندو بلوائیوں کا جتھہ اشوک نگر کی جامع مسجد کے مینار پر چڑھ دوڑا۔

کئی افراد نے مینار پر چڑھ کر ہلال کے نشان کو اکھاڑنے کوشش کی جبکہ ساتھ ہی مسجد کے لاؤڈ اسپیکر اتار کر زمین پر پھینک دیے۔

اس دوران انتہا پسندوں نے مسجد پر بھارتی ترنگا اور ہندوؤں کی مذہبی علامت سمجھے جانے والا پرچم لہرایا جبکہ اس دوران مسجد میں توڑ پھوڑ بھی کی گئی۔

دوسری جانب سوشل میڈیا صارفین کی بڑی تعداد نے مسجد پر حملے کی مذمت کی ہے اور اسے ’بابری مسجد‘ جیسا سانحہ قرار دیا ہے۔

صدر مملکت عارف علوی کی شدید مذمت
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بھی اشوک نگر مسجد پر ہندو انتہاپسندوں کے حملے کی مذمت کی اور کہا کہ اس غارت گری سے بابری مسجد پر حملے کی یاد تازہ ہوگئی۔

خیال رہے کہ بھارتی اپوزیشن کی جانب سے دہلی فسادات کا ذمہ دار مقامی پولیس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما کپل مشرا کے اشتعال انگیز بیانات کو ٹھہرایا گیا ہے۔

متنازع شہریت کا قانون
11 دسمبر 2019 کو بھارتی پارلیمنٹ نے شہریت کا متنازع قانون منظور کیا تھا جس کے تحت پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان سے بھارت جانے والے غیر مسلموں کو شہریت دی جائے گی لیکن مسلمانوں کو نہیں۔

اس قانون کے ذریعے بھارت میں موجود بڑی تعداد میں آباد بنگلا دیشی مہاجرین کی بے دخلی کا بھی خدشہ ہے۔

بھارت میں شہریت کے اس متنازع قانون کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور ہر مکتبہ فکر کے لوگ احتجاج میں شریک ہیں۔

پنجاب، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش سمیت کئی بھارتی ریاستیں شہریت کے متنازع قانون کے نفاذ سے انکار کرچکی ہیں جب کہ بھارتی ریاست کیرالہ اس قانون کو سپریم کورٹ لے گئی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
مسلم کش فسادات: سونیا گاندھی کا بھارتی وزیر داخلہ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ
215144_4349182_updates.jpg

فوٹو: فائل

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں مسلم کش فسادات کے بعد کانگریس کی سربراہ سونیا گاندھی نے وزیر داخلہ امیت شاہ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا۔

دو روز قبل نئی دہلی میں اُس وقت فسادات پھوٹ پڑے جب شمال مشرقی علاقوں میں متنازع شہریت کے قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر ہندو انتہا پسندوں نے حملے کیے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ بھارت کے باوجود شمال مشرقی دہلی میدان جنگ بنا رہا اور انتہاپسند ہندو بلوائیوں نے کئی مکانات، دکانوں اور گاڑیوں کو جلا ڈالا۔ اس کے علاوہ ہندو انتہا پسندوں نے مساجد پر بھی حملے کیے جن کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی ہے۔

ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے ہونے والے مسلم کش فسادات میں اب تک 21 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو چکے ہیں جب کہ مودی سرکار نے مسلم کش فسادات کی خبروں کو روکنے کے لیے میڈیا بلیک آؤٹ کر دیا ہے۔

نئی دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے کشیدہ حالات کے پیش نظر مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پولیس حالات کو کنٹرول کرنے سے قاصر ہے لہذا فوج کو طلب کیا جائے۔

ادھر بھارتی دارالحکومت میں کانگریس ہیڈکوارٹر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سونیا گاندھی نے مودی سرکار خصوصا وزیر داخلہ امیت شاہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

سونیا گاندھی نے کہا کہ وزیر داخلہ ایک ہفتے سے کیا کر رہے تھے؟ جب حالات خراب ہو رہے تھے تو پیرا ملٹری فورسز کو کیوں نہیں بلایا گیا؟

انہوں نے کہا کہ حالات خراب ہونے کی ذمہ داری مرکزی حکومت اور وزیر داخلہ پر عائد ہوتی ہے، کانگریس مطالبہ کرتی ہے کہ وزیر داخلہ امیت شاہ فوری طور پر مستعفی ہوں۔

نئی دہلی کی انتظامیہ کو بھی آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کانگریس پارٹی کی سربراہ کا کہنا تھا کہ اروند کیجریوال کی حکومت نے بھی معاملے کو سنبھالنے کے لیے مناسب انتظامات نہیں کیے۔

سونیا گاندھی کا کہنا تھا نئی دہلی کے وزیراعلیٰ کو متاثرہ علاقوں میں جا کر لوگوں سے براہ راست رابطے میں ہونا چاہیے تھا لیکن انہوں نے ایسا مناسب نہ سمجھا۔
 

زیدی

محفلین
انتہا پسندی کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ یہ ایک ناسور ہے اور ہر معاشرے میں اسے پروان چڑھانے والے عناصر اور عوامل کا سدباب ضروری ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
بھیا دعا ہی کرو اب تو۔ خبیثوں نے جینا حرام کر رکھا ہے۔
کیا آپ کے ملک کی عدالتیں اس سارے دنگا فساد میں خاموش تماشائی بنی رہتی ہے؟ پاکستان میں دو بندے بھی حکومت کی غفلت سے ہلاک ہو جائیں تو اگلے ہی دن عدالت میں طلب کر لیا جاتا ہے۔

'بلوائیوں نے میرے اور بیٹیوں کے کپڑے پھاڑ دیے': دہلی فسادات میں زندہ بچنے والے مسلمانوں کی کہانیاں
215304_8687294_updates.JPG

—رائٹرز فوٹو

"ہم نے دوپٹے اپنے جسم کے گرد لپیٹے اور جان بچانے کے لیے پہلی منزل سے نیچے چھلانگ لگائی"۔ دہلی کے شمال مشرق میں واقع الہند اسپتال میں ایک 45 سالہ خاتون بدھ کی رات پیش آنے والے اس ڈراؤنے واقعے کو یاد کرتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ کیسے انہوں نے اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ اس وقت جان پچائی جب بلوائی ان کے گھر میں داخل ہوئے اور انہیں جنسی استحصال کا نشانہ بنایا۔

خاتون بتاتی ہیں کہ ان کی جان اس وقت بچی جب وہ ایک مسلم اکثریتی علاقے کی گلی میں داخل ہوئیں۔

پُرنم آنکھوں کے ساتھ انہوں نے بتایا کہ 'میں اپنے گھر میں تھی جب مشتعل لوگ میں گھر میں گھسے۔ مجھے اور میری بیٹیوں کو جنسی استحصال کا نشانہ بنایا گیا اور ہمارے کپڑے پھاڑ دیے گئے۔'

وہ بتاتی ہیں کہ ہجوم نے ان کا مسلسل پیچھا کیا مگر جب انہیں ایک جاننے والے دکاندار ایوب احمد کے گھرمیں پناہ مل گئی تو وہ [ہجوم] مایوس ہو کر وہاں سے چلا گیا۔

'جب ہم احمد کے گھر میں پہنچے تو انہوں نے ہمیں کھانا فراہم کیا اور دیگر ضرورت کی چیزیں دیں اور پھر بعد میں الہند اسپتال پہنچایا۔۔۔وہ لوگ ہماری کی گلی کے تھے، میں انہیں پہنچاتی ہوں۔'

215304_9382637_updates.JPG

— رائٹرز فوٹو

ان خاتون کی طرح دہلی کے الہند اسپتال میں اور بھی کئی خواتین ہیں اورہر ایک کی کہانی ایسے ہی دل دہلا دینے والی ہے۔

دہلی کے کراول نگر کے رہائشی 20 سالہ سلمان خان بتاتے ہیں کہ جب وہ منگل کے روز اپنے گھر کے قریب موجود تھے تو ایک ہجوم نے ان کے جسم پر کچھ کیمیکل پھینکا جس سے ان کی جِلد جل گئی۔

ان کا کہنا ہے کہ 'مجے کچھ نامعلوم افراد نے گھر کے قریب پکڑا اور میری پیٹھ پر تیزاب کی طرح کا محلول ڈالا۔۔مجھے نہیں معلوم کہ وہ کیا چیز تھی ۔ وہ گرم تھی اور جیسے ہی اسے مجھ پر ڈالا گیا تو میری جلد جلنے لگی۔

سلمان کے مطابق انہیں رات 11 بجے پولیس نے اسپتال پہنچایا۔

30 سالہ عقیل سیفی جو ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازم ہیں، بتاتے ہیں کہ انہیں کچھ لوگوں نے گوکل پری کے علاقے میں تشدد کا نشانہ بنایا۔'جب میں منگل کی رات ساڑھے 8 بجے دفتر سے گھر آرہا تھا تو کچھ نامعلوم افراد نے میری موٹرسائیکل کو روکا اور جیسے ہی انہوں نے پیچھے بیٹھے میرے دوست کے سر پر ٹوپی دیکھی تو انہوں نے ہمیں تشدد کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔۔میرے دوست کا نام بلال ہے اور وہ معذور ہے۔'

عقیل کے مطابق تشدد سےان کے بائیں ہاتھ میں فریکچر ہوا جب کہ بلال کو بھی معمولی زخم آئے۔

یاد رہے کہ بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں شہریت کے نئے قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے مسلمانوں پر انتہاپسند ہندؤں کے حملوں میں کم از کم 39 افراد ہلاک اور 200 سے زائد زخمی ہوئے۔
 
Top