غزل: خیر سے آج وہ آئے ہیں منانے کے لیے ٭ نصر اللہ خان عزیزؔ

خیر سے آج وہ آئے ہیں منانے کے لیے
آزمانے کے لیے ہو کہ بنانے کے لیے

کتنی مدت سے ہیں بے تاب خبر ہے کہ نہیں
ہاتھ میرے تمھیں آغوش میں لانے کے لیے

وضع داریِّ محبت کو نباہیں کب تک
دلِ بے تاب چلو ان کو منانے کے لیے

سرخیِ روئے حیادار نے خود بخشا ہے
اک نیا رنگ محبت کے فسانے کے لیے

ان کے کوچے میں بڑے شوق سے جاتے ہو عزیزؔ
سوچ لو بات کوئی بات بنانے کے لیے

٭٭٭
ملک نصر اللہ خان عزیزؔ
 
Top