کبوتر بازی از ایس ایس ساگر

ایس ایس ساگر

لائبریرین
محترم محفلین، لائبریرین اور مدیران کرام!
آداب
اپنی پہلی تحریر آپ کو پیش کر رہا ہوں۔ تحریر اچھی ہے یا بری ہے اس بارے آپ کی رائے درکار ہے۔ نژ پر میں نے زیادہ لوگوں کے کمنٹس نہیں دیکھے۔ اس کی وجہ نہیں جانتا۔ مگر پھر بھی آپ سب لوگوں سے التماس ہے کہ کچھ نہ کچھ اپنی رائے ضرور دیں۔ آپ کی رائے میرے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ تحریر نیچے دی گئی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبوتر بازی از ایس ایس ساگر
ہماری شامت اعمال کا آغاز اس وقت ہوا جب ہمیں کبوتر بازی جیسا منحوس شوق چرایا۔ اس شوق کے جراثیم تو کافی عرصے سے ہمارے اندر پل رہے تھے مگر کبوتربازی کا بخار ہمیں اس دن چڑھا جب ہمارے ہمسایوں کی چھت پر ایک عدد چھتری اور درجن بھر کبوتر نمودار ہوئے۔ بس پھر کیا تھا۔ ہم نے ضد کر کے گھر والوں سے پیسے لیے اور دوسرے ہی دن کبوتروں کا ایک جوڑا گھر لے آئے۔ اس وقت ہمیں بالکل بھی یہ اندازہ نہیں تھا کہ ہماری شامت اسی شوق کی بنا پر آئے گی۔ خیر ہم نے ایک لمبا سا بانس لیاجس کا دوسراسرا دیکھنے کے لیے حقیقتا زمین پر لیٹنا پڑتا تھا۔ اور اس پر فیکے کباڑیے سے خریدی ہوئی وہ چھتری لگا دی جسے فروخت کرتے ہوئے اس نے بڑے فخریہ انداز سے اپنی پتلی سی گردن اکڑا کر کہا تھا کہ یہ چھتری مغلیہ دور کی ہے اور اس پرکئی مغل شہزادے اپنے کبوتر بٹھا چکے ہیں۔ ویسےحالت سے بھی وہ چھتری مغلیہ دور کی ہی لگتی تھی۔ بلکہ ہمیں تو وہ اس سے بھی پہلے کے کسی دور کی لگتی تھی۔
خیر ہم نے چھتری لگا کر کبوتروں کو اس پر بٹھایا اور خود ان کے لیے دانہ پانی کا بندوبست کرنے نیچے چلے آئے۔ پھر جب ہم کبوتروں کے لیے دانہ لے کر دوبارہ چھت پر پہنچے تو ہمیں حیرت کا ایک شدید جھٹکا لگا۔ دانہ تو ہمارے ہاتھ میں ہی رہ گیا جبکہ ہم آنکھیں پھاڑےوہیں کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔کبوتروں کی جوجوڑی ہم اپنی چھتری پر بٹھا کر گئے تھے وہ اب ہمسایوں کی چھتری پر جا بیٹھی تھی۔ شایدفقیرانہ ذہنیت رکھنے والے کبوتروں کو ہماری شاہی چھتری پسند نہ آئی تھی۔ غلطی ہم سےیہ ہوئی کہ ہم ان کے پر کاٹنا بھول گئے تھے۔ غصے سے پیچ و تاب کھاتے ہم فورا سیڑھیاں اتر کر نیچے آئے اور تیزی سے ہمسائے کے گھر کی طرف بھاگے ۔ جیسے ہی ہم دروازہ کھول کر گلی میں آئے ایک بڑے میاں سے ٹکر ہو گئی۔ وہ لاٹھی کو یوں زمین پر مارمار کر چل رہے تھے جیسے اسے زمین میں گاڑنا چاہتے ہوں ۔ لاٹھی کی حالت سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ یہ یقینا بڑے میاں کو ورثے میں ملی ہو گی۔ لاٹھی کو چھوڑ کر خود بڑے میاں کی حالت ایسی تھی جیسے وہ ابھی جیل سے فرار ہو کر آئے ہوں۔ خیر ایک زبردست دھماکے سے ہم بڑے میاں سے ٹکر ا ئے،بڑے میاں تو بعد میں گرے ہم ان سے پہلے ہی زمین پرسیدھے لیٹ چکے تھے۔ ابھی اٹھنے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ بڑے میاں کی لاٹھی ہمارے سر پر زور سے پڑی اور ہمارے منہ سے ایسی آواز نکلی جیسی ذبح ہوتے وقت مرغی کے حلق سے نکلتی ہے۔ خیر ہمت کر کے اٹھے ۔ بڑے میاں سے جلدی جلدی معذرت کی اور پھر تیزی سے ہمسایوں کے گھر کی طرف بھاگ پڑے۔ ہمیں تو اپنے کبوتروں کی فکر کھائے جا رہی تھی۔ ہم نے پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا کہ بڑے میاں جن کی شاید ٹکرانے سے عینک گر پڑی تھی اس کی تلاش میں گندی نالی میں ہاتھ مار رہے تھے۔
جاتے ہی ہم نے ہمسایوں کا دروازہ اس طرح کھٹکھٹایا جیسے ڈھول پیٹا جاتا ہے۔ دوسرے لمحے دروازہ کھلا اور ہم یوں اندر داخل ہوئے جیسے ڈاکہ ڈالنے کا ارادہ ہو۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہم اپنی ہمسائی کواندر تک گھسیٹتے ہوئے لے گئے۔ پہلے تو وہ گھبرائیں مگر پھر جیسے ہی ہمیں پہچانا فورا چلا اٹھیں۔ ارے رشید میاں ! کیا ہو گیا تمہیں؟ ۔ کہیں کسی باؤلےکتے نے تو نہیں کاٹ لیا؟۔ ان کے چلانے پر ہمیں مجبورا بریک لگانے پڑے ۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے خالہ جان۔ ہم تو اپنے کبوتروں کے پیچھے آئے ہیں۔ ہم نے جھٹ کہا اور پھر جیسے ہی ہمیں اپنے کبوتروں کا خیال آیا۔ ہم تیزی سے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے چھت پر پہنچے ۔ اور یوں پہنچے کہ پہلے تو چھت کو فرشی سلام کیا اور پھر اٹھ کر کپڑے جھاڑتے ہوئے چھتری کی طرف بڑھے۔ لیکن یہ کیا !چھتری تو خالی پڑی تھی۔ ہم نے ادھر ادھر نگاہ دوڑائی۔ ہمارے کبوتر تو کہیں بھی نہیں تھے۔ چھتری یوں خالی پڑی تھی جیسے مٹر سے دانے غائب ہوں ۔ اچانک کہیں قریب سے غٹر غوں کی آواز سنائی دی اور ہم یوں اچھلے جیسے چھت میں ہزاروں وولٹ کا کرنٹ دوڑ گیا ہو۔ پہلے تو ہم نے اپنی جیبوں کو ٹٹولا جیسے گمان ہو کہ آواز کہیں جیبوں کے اندر سے تو نہیں آئی۔ پھر جیسے ہی ہماری نظر سامنے چھت سے ملحقہ گلی میں اگے ہوئے درخت پر پڑی تو یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ ہمار ی وہ جوڑی وہاں بیٹھی ہمار ا منہ چڑا رہی تھی ۔ ہم نے کچھ دیر سوچا اور پھر چھت پر آئی ہوئی درٖخت کی چند شاخوں کو پکڑ لیا اور آہستہ آہستہ کبوتروں کی طرف کھسکنا شروع کر دیا ۔ تھو ڑا قریب جا کر ہم نےاپنے ہاتھ کو کبوتروں کے آگے یوں پھیلا دیا جیسےکہ اس میں دانے ہوں ۔ اور منہ سے آ آ کی آوازیں نکالنے لگے ۔ اب شاید یہ ہماری آواز کی خرابی تھی کہ انہوں نے ہمارے الفاظ کو جا جا کے مفہوم میں لیا اور زور سے اپنے پر پھڑپھڑائے ۔ ہم گرتے گرتے بچے اور کبوتروں نے درخت سے جمپ لگائی اور پرواز کر گئے۔ ہم ان کو دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے۔
اب کیا تھا شدید غصے کے عالم میں ہم نے اپناہاتھ درخت کی شاخ پر دے مارا۔ ہماری بدقسمتی کہ ہم اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکے اور فضا میں کسی پرندے کی طرح ہاتھ پاؤں مارتے ہوئے نیچے آ گرے۔ اب ہماری شامت یوں آئی کہ نیچے گلی میں ایک پہلوان نما آدمی جا رہا تھا۔ ہم نے اس کے گنجے سر کو رن وے سمجھ کر سیدھا اس پر لینڈ کیا اور پہلوان کو بھی اپنے ساتھ لے کر زمیں بوس ہوئے۔ پہلوان کے منہ سے مغلظات کا ایک طوفان امنڈ آیا۔ اس کی سرخ سرخ آنکھوں اور مو نچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے ہاتھ کو دیکھ کر ہم اپنی چوٹیں بھول گئے۔ ہم نے فورا کپڑوں کو جھاڑا اور سر پر یوں پاؤں رکھ کر بھاگے جیسےریس کے عالمی مقابلے میں اول انعام جیتنے کا تہیہ کر لیا ہو۔ پہلوان نے بھی ٹارزن کی طرح ایک فلک شگاف نعرہ مارا اور پکڑو پکڑو چلاتا ہوا ہمارے پیچھے بھاگ کھڑا ہوا۔ ابے سالے! اب تو بچ کر کہاں جائے گا۔ پہلوان نے ہمیں پیچھے سے کسی فلمی ہیرو کی طرح للکارا اور ہم اور تیز دوڑنے لگے۔
ہماری حالت بڑی عجیب ہوتی جا رہی تھی۔ کپڑے بار بار زمین پر قیام فرمانے سے دھول اور مٹی سے اٹ گئے تھے اور کہیں کہیں سے پھٹ بھی گئے تھے۔ ہم تیزی سے بھاگ رہے تھے۔ سانس پھول رہا تھا کہ اچانک ہماری نظر اپنے کبوتروں پر پڑی اور ہم ایک دفعہ پھر جوش میں آکر ان کی طرف بھاگ پڑے ۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو پہلوان مسلسل تعاقب میں تھا۔ اس نے تو جیسے قسم کھا لی تھی ہمیں پکڑنے کی۔ وہ اپنی سفید دھوتی کو دونوں ہاتھوں سے سنبھالتا ہوا ہمارے پیچھے یوں بھاگ رہا تھا جیسے خطرہ ہو کہ کہیں دھوتی گر نہ جائے۔ اس وقت ہم بہت زیادہ بھیڑ والی سڑک پربھاگ رہے تھے اور خدانخواستہ کسی وقت بھی کوئی حادثہ پیش آ سکتا تھا۔
پھر اچانک ہمارے کبوتروں نے دائیں طرف ٹرن لے لیا۔ ہم نے بھی دائیں طرف ایک تنگ سی گلی میں شارٹ کٹ مارا اور گلی میں بھاگنے لگے۔ پیچھے نگاہ دوڑائی تو کمبخت پہلوان بھی گلی میں ہمارے پیچھے ہی بھاگ رہا تھا۔ اب مارے گئے ہم نے دل میں سوچا اور گلی میں بھا گنے لگے۔ اب تو ہماری ہمت بھی جواب دے رہی تھی۔ مسلسل بھاگنے سے حلق میں جیسے کانٹے چبھ رہے تھے۔ اچانک ہماری آنکھیں خوف سے پھیل گئیں کیونکہ سامنے گلی کی نکڑکو ایک ریڑھی والے نے گھیر رکھا تھا۔ گلی تنگ تھی اس لیے اب ریڑھی والے سے بچ کر نکلنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ ہم رکتے تو پیچھے سے پہلوان آ کر پکڑ لیتا۔ اب ہم نے دل میں یہ فیصلہ کر لیا کہ سلطان راہی کی طرح ہم بھی ایک جمپ میں ریڑھی پا ر کر یں گے ورنہ ہم بچ نہیں سکتے۔ سلطان راہی کا خیال آتے ہی ہمارے دل کو ایک تسلی مل گئی اور ہم نے تیزی سے ریڑھی کی طرف بھاگنا شروع کر دیا۔ ہم اپنے خیال کوعملی جامہ پہنانے جا رہے تھے۔ جیسے ہی ریڑھی قریب آئی اور ریڑھی والے نے چونک کر ہماری طرف دیکھا۔ ہم جمپ لگا چکے تھے۔ ریڑھی والے کی نگاہ پہلی بار ہم پر پڑی تھی اس سے پہلے وہ سبزی دینے میں مصروف تھا۔ خیر ہم نے جمپ لگا ئی، ریڑھی کو پار تو نہ کر سکے الٹا ایک دھماکے سے اس پر جا گرے ۔کچھ سبزیاں ہمارے نیچے آ کر فوت ہو گئیں۔ ریڑھی نے ایک جھٹکا کھایا اور پھر ہمارے ساتھ ہی دوسری جانب الٹ گئی۔ اب ہم سبزیوں کی چادر اوڑھ چکے تھے۔ ریڑھی والا اپنی ریڑھی کو الٹتے دیکھ کر جیسے ہی اسے بچانے کی غرض سے آ گے بڑھا وہ بھی سبزیوں کے اوپر سے پھسل کرہمارے پاس آ گرا ۔ پکڑو پکڑو جانے نہ پائے۔ پہلوان کی آواز ہمارے کانوں میں پڑی تو ہم یوں اچھل کر سبزیوں سے باہر آ گئے جیسے اب تک ہم بھڑوں کے چھتے میں رہے ہوں۔ پہلوان بہت قریب آ چکا تھا۔ ہم نے ایک بار پھر اپنی قوت کو جمع کیا جو ریڑھی پر گرنے سے مائینس ہو چکی تھی اور ایک دفعہ پھر بھاگ پڑے۔ اب تو یوں محسوس ہونے لگا تھا جیسے باقی ماندہ عمر بھاگنے میں ہی گزرے گی۔
گلی پار کرکے جیسے ہی ہم سڑک پر آئے۔ قریب ہی بندھے ہوئے ایک گھوڑے کی دم ہمارے منہ پر آ لگی۔ شاید وہ خدائی خدمتگار بنتے ہوئے ہماری صفائی کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ ہم نے گھوڑے کو ایک موٹی سی گالی دی اور سڑک کے کنارے کنارے بھا گ کھڑے ہوئے۔ پیچھے نگاہ ڈالی تو خوف سے ہمارے رونگھٹے کھڑے ہو گئے۔اب پہلوان کے ہمراہ سبزی والا بھی غصے سے بل کھاتا بھاگا چلا آ رہا تھا۔ ہم نے پھر سے ایک گلی میں گھسنا چاہالیکن سامنے کھڑی ایک گائے نے اپنا منہ پھاڑ کر مخصوص آواز میں گاں گاں کہا تو ہم نے گلی میں گھسنے کا ارادہ ترک کر دیا۔ ہمیں گائے پر بڑا غصہ آیا جو یوں ہمارے سامنے ڈٹ گئی تھی۔
خیر ہم سڑک کے کنارے بھاگتے رہے۔ دور آسمان کی طرف نظر گئی تو دیکھا ہمارے کبوتر اب بھی اڑ رہے تھے۔ کبوتروں کو دیکھ کر ہمیں اتنا غصہ آیاکہ دل چاہا کہ انہیں پکڑ کر ذبح کر دیں ۔ انہیں کی وجہ سے آج ہم اس حال کو پہنچے تھے۔ اب سین یہ تھا کہ کبوتر آگے آگے اڑ رہے تھے۔ ہم ان کے پیچھے بھاگ رہے تھے اور ہمارے پیچھے پہلوان اور سبزی والے کے علاوہ بھی کئی لوگ دوڑے چلے آ رہے تھے۔ وہ شاید ہمیں پاگل خانے سے فرار ہونے والا کوئی پاگل سمجھ کر پکڑنے کے لیے پہلوان اور سبزی والے کے ساتھ ہو لیے تھے۔ اس وقت ہماری حالت پاگلوں سے چندا ں مختلف نہ تھی۔ دھول سے اٹے بال ،پھٹے ہوئے کپڑے جو مٹی اور سبزیوں کے گودے سے لتھڑچکے تھے۔ اوپر سے ہمارے بھاگنے کا انداز۔ یہ سب چیزیں ہمیں پاگل ثابت کرنے کے لیے کافی تھیں۔
قصہ مختصر، کبوتر تو اس دن ہمارے ہاتھ نہیں آئے لیکن ہم کسی کے ہاتھوں میں ضرور آ گئے۔ اس کے بعد جو ہوا اس کو جانے دیں آپ خود سمجھ سکتے ہیں۔ ہاں! یہ بات ضرور آپ کو بتائی جا سکتی ہے کہ اس کے بعد ہم نے کبوتر بازی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے توبہ کر لی تھی۔
 
آخری تدوین:

عدنان عمر

محفلین
واہ بھئی واہ! لطف آگیا۔
ہم پڑھتے جا رہے تھے اور محظوظ ہوتے جا رہے تھے...
مزاح کا اچھا رنگ جمایا آپ نے، لیکن اچانک کہانی ختم ہو گئی، اور کچھ تشنگی سی رہ گئی۔
کہانی پڑھتے ہوئے مجھے معروف ادیب اور مزاح نگار جناب احمد اقبال کے کردار کالے خاں اور بھورے خاں یاد آگئے۔ کالے خاں اور بھورے خاں کی کہانیوں میں کچھ اسی قسم کی سچویشنل کامیڈی ہوتی ہے لیکن مکالمے غضب کے ہوتے ہیں۔
آپ کی تحریر اچھی لگی۔ اگلے مزاح پارے کا انتظار رہے گا ساگر صاحب۔
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
کہانی پسند کرنے کا بہت شکریہ عدنان بھائی!
آپ کے کمنٹس نے مجھے مزید لکھنے کا حوصلہ دیا ہے۔ ایک شاعر یا رائٹر کے لیے حوصلہ افزائی ہی اس کی کمائی ہے۔ بہت شکریہ۔
 
محترم محفلین، لائبریرین اور مدیران کرام!
آداب
اپنی پہلی تحریر آپ کو پیش کر رہا ہوں۔ تحریر اچھی ہے یا بری ہے اس بارے آپ کی رائے درکار ہے۔ نژ پر میں نے زیادہ لوگوں کے کمنٹس نہیں دیکھے۔ اس کی وجہ نہیں جانتا۔ مگر پھر بھی آپ سب لوگوں سے التماس ہے کہ کچھ نہ کچھ اپنی رائے ضرور دیں۔ آپ کی رائے میرے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ تحریر نیچے دی گئی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبوتر بازی از ایس ایس ساگر
ہماری شامت اعمال کا آغاز اس وقت ہوا جب ہمیں کبوتر بازی جیسا منحوس شوق چُرایا۔ بس پھر کیا تھا۔ ہم نے ضد کر کے گھر والوں سے پیسے لیے اور دوسرے ہی دن کبوتروں کا ایک جوڑا گھر میں لے آئے۔ اس وقت ہمیں بالکل بھی یہ اندازہ نہیں تھا کہ ہماری شامت اسی شوق کی وجہ سے آئے گی۔ خیر ہم نے ایک لمبا سا بانس لیاجس کا دوسراسرا دیکھنے کے لیے حقیقتا زمین پر لیٹنا پڑتا تھا۔ اور اس پر کباڑیے سے خریدی ہوئی وہ چھتری لگا دی جسے فروخت کرتے ہوئے نتھوُ کباڑیے نے بڑے فخریہ انداز سے اپنی پتلی سی گردن اکڑا کر کہا تھا کہ یہ چھتری مغلیہ دور کی ہے اور اس پرکئی مغل شہزادے اپنے کبوتر بٹھا چکے ہیں۔ ویسےحالت سے بھی وہ چھتری مغلیہ دور کی ہی لگتی تھی۔ بلکہ ہمیں تو وہ اس سے بھی پہلے کے کسی دور کی لگتی تھی۔
خیر ہم نے چھتری لگا کر کبوتروں کو اس پر بٹھا دیا اور خود ان کے کھانے پینے کا بندوبست کرنے نیچے چلے آئے۔ پھر جب ہم کبوتروں کے لیے دانہ لے کر دوبارہ چھت پر پہنچے تو ہمیں حیرت کا ایک شدید جھٹکا لگا۔ دانے تو ہمارے ہاتھ سے فرار ہو گئےجبکہ ہم آنکھیں پھاڑےوہیں کھڑے رہ گئے۔ ہم کبوتروں کی جس جوڑی کو اپنی چھتری پر بٹھا کر گئے تھے وہ اب ہمسایوں کی چھتری پر جا بیٹھی تھی۔ شایدفقیرانہ ذہنیت رکھنے والے کبوتروں کو ہماری شاہی چھتری پسند نہ آئی تھی۔ غلطی ہم سےیہ ہوئی کہ ہم ان کے پر کاٹنا بھول گئے تھے۔ غصے سے پیچ و تاب کھاتے ہم فورا سیڑھیاں اتر کر نیچے آئے اور تیزی سے ہمسائے کے گھر کی طرف بھاگے ۔ جیسے ہی ہم دروازہ کھول کر گلی میں آئے ایک بڑے میاں سے ٹکر ہو گئی۔ وہ لاٹھی کو یوں زمین پر مارمار کر چل رہے تھے جیسے اسے زمین میں گاڑنا چاہتے ہوں ۔ لاٹھی کی حالت سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ یہ یقینا بڑے میاں کو ورثے میں ملی ہو گی۔ لاٹھی کو چھوڑ کر خود بڑے میاں کی حالت ایسی تھی جیسے وہ ابھی جیل سے فرار ہو کر آئے ہوں۔ خیر ایک زبردست دھماکے سے ہم بڑے میاں سے ٹکر ا گئے اور بڑے میاں تو بعد میں گرے ہم ان سے پہلے ہی زمین پرسیدھے لیٹ چکے تھے۔ ابھی اٹھنے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ بڑے میاں کی لاٹھی ہمارے سر پر زور سے پڑی اور ہمارے منہ سے ایسی آواز نکلی جیسی ذبح ہوتے وقت مرغی کے حلق سے نکلتی ہے۔ خیر ہمت کر کے ہم اٹھے ۔ بڑے میاں سے جلدی جلدی معذرت کی اور پھر تیزی سے ہمسایوں کے گھر کی طرف بھاگ پڑے۔ ہمیں تو اپنے کبوتروں کی فکر کھائے جا رہی تھی۔ ہم نے پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا کہ بڑے میاں جن کی شاید ٹکرانے سے عینک گر پڑی تھی اس کی تلاش میں گندی نالی میں ہاتھ مار رہے تھے۔
جاتے ہی ہم نے ہمسایوں کا دروازہ اس طرح کھٹکھٹایا جیسے ڈھول پیٹا جاتا ہے۔ دوسرے لمحے دروازہ کھلا اور ہم یوں اندر داخل ہوئے جیسے ڈاکہ ڈالنے کا ارادہ ہو۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہم اپنی ہمسائی کوجسے ہم خالہ جان کہتے تھے اندر تک گھسیٹتے ہوئے لے گئے۔ پہلے تو وہ گھبرا گئیں مگر پھر جیسے ہی ہمیں پہچانا فورا چلا اٹھیں۔ ارے رشید میاں ! کیا ہو گیا تمہیں؟ ۔ کہیں کسی باؤلےکتے نے تو نہیں کاٹ لیا؟۔ ان کے چلانے پر ہمیں مجبورا بریک لگانے پڑے ۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے خالہ جان۔ ہم تو اپنے کبوتروں کے پیچھے آئے ہیں۔ ہم نے جھٹ کہا اور پھر جیسے ہی ہمیں اپنے کبوتروں کا خیال آیا۔ ہم تیزی سے سیڑھیاں ہائی جمپ لگاتے ہوئے پار کر کے چھت پر پہنچے ۔ اور یوں پہنچے کہ پہلے تو چھت کو فرشی سلام کیا اور پھر اٹھ کر کپڑے جھاڑتے ہوئے چھتری کی طرف بڑھے۔ لیکن یہ کیا !چھتری تو خالی پڑی تھی۔ ہم نے ادھر ادھر نگاہ دوڑائی۔ ہمارے کبوتر تو کہیں بھی نہیں تھے۔ چھتری یوں خالی پڑی تھی جیسے مٹر سے دانے غائب ہوں ۔ اچانک کہیں قریب سے غٹر غوں کی آواز سنائی دی اور ہم یوں اچھلے جیسے چھت میں ہزاروں وولٹ کا کرنٹ دوڑ گیا ہو۔ پہلے تو ہم نے اپنی جیبوں کو ٹٹولا جیسے گمان ہو کہ آواز کہیں جیبوں کے اندر سے تو نہیں آئی۔ پھر جیسے ہی ہماری نظر سامنے چھت سے ملحقہ گلی میں اگے ہوئے درخت پر پڑی تو یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ ہمار ا جوڑا وہاں بیٹھا ہمار ا منہ چڑھا رہا تھا۔ ہم نے کچھ دیر سوچا اور پھر چھت پر آئی ہوئی درٖخت کی چند شاخوں کو پکڑ لیا اور آہستہ آہستہ کبوتروں کی طرف کھسکنا شروع کر دیا ۔ تھو ڑا قریب جا کر ہم نےاپنے ہاتھ کو کبوتروں کے آگے یوں پھیلا دیا جیسےکہ اس میں دانے ہوں ۔ اور منہ سے آ آ کی آوازیں نکالنے لگے ۔ اب شاید یہ ہماری آواز کی خرابی تھی کہ انہوں نے ہمارے الفاظ کو جا جا کے مفہوم میں لیا اور زور سے اپنے پر پھڑپھڑائے ۔ ہم گرتے گرتے بچے اور کبوتروں نے درخت سے جمپ لگایا اور پرواز کر گئے۔ ہم ان کو دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے۔
اب کیا تھا شدید غصے کے عالم میں ہم نے اپنا مکہ جو بقول ہمارے سہراب کے گرز سے بھی مضبوط تھا گھما کر شاخ پر دے مارا۔ ہماری بدقسمتی کہ ہم اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکے اور فضا میں کسی پرندے کی طرح ہاتھ پاؤں مارتے ہوئے دھڑام سے نیچے آ گرے۔ اب ہماری شامت یوں آئی کہ نیچے گلی میں ایک پہلوان نما آدمی چلا جا رہا تھا۔ ہم نے اس کے گنجے سر کو رن وے سمجھ کر سیدھا اس پر لینڈ کیا اور پہلوان کو بھی اپنے ساتھ لے کر زمیں بوس ہوئے۔ پہلوان کے منہ سے مغلظات کا ایک طوفان امنڈ پڑا۔ اس کی سرخ سرخ آنکھوں اور مو نچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے ہاتھ کو دیکھ کر ہم اپنی چوٹیں بھول گئے۔ ہم نے فورا کپڑوں کو جھاڑا اور سر پر یوں پاؤں رکھ کر بھاگے جیسےریس کے عالمی مقابلے میں اول انعام جیتنے کا تہیہ کر لیا ہو۔ پہلوان نے بھی ٹارزن کی طرح ایک فلک شگاف نعرہ مارا اور پکڑو پکڑو چلاتا ہوا ہمارے پیچھے بھاگ کھڑا ہوا۔ ابے سالے بندر کی اولاد! اب تو بچ کر کہاں جائے گا۔ پہلوان نے ہمیں پیچھے سے کسی فلمی ہیرو کی طرح للکارا اور ہم اور تیز ہو گئے۔
ہماری حالت بڑی عجیب ہو رہی تھی۔ کپڑے بار بار زمین پر قیام فرمانے سے دھول اور مٹی سے اٹ گئے تھے اور کہیں کہیں سے پھٹ بھی گئے تھے۔ ہم تیزی سے بھاگے جا رہے تھے۔ سانس پھول رہا تھا کہ اچانک ہماری نظر دور اڑتے ہوئے اپنے کبوتروں پر پڑی اور ہم ایک دفعہ پھر جوش میں آکر ان کی طرف بھاگ پڑے ۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو پہلوان مسلسل تعاقب میں تھا۔ اس نے تو جیسے قسم کھا لی تھی ہمیں پکڑنے کی۔ وہ اپنی سفید دھوتی کو دونوں ہاتھوں سے سنبھالتا ہوا ہمارے پیچھے یوں بھاگ رہا تھا جیسے خطرہ ہو کہ کہیں دھوتی گر نہ جائے۔ اس وقت ہم بہت زیادہ بھیڑ بھاڑ والی سڑک پربھاگ رہے تھے اور خدانخواستہ کسی وقت بھی کوئی حادثہ پیش آ سکتا تھا۔
پھر اچانک ہمارے کبوتروں نے دائیں طرف ٹرن لے لیا۔ ہم نے بھی دائیں طرف ایک تنگ سی گلی میں شارٹ کٹ مارا اور گلی میں بھاگنے لگے۔ پیچھے نگاہ دوڑائی تو کمبخت پہلوان بھی گلی میں ہمارے پیچھے ہی بھاگ رہا تھا۔ اب مارے گئے ہم نے دل میں سوچا اور بے تحا شا گلی میں بھا گنے لگے۔ اب تو ہماری ہمت بھی جواب دے رہی تھی۔ مسلسل بھاگنے سے حلق میں جیسے کانٹے چبھ رہے تھے۔ اچانک ہماری آنکھیں خوف سے پھیل گئیں کیونکہ سامنے گلی کی نکڑکو ایک ریڑھی والے نے گھیر رکھا تھا۔ گلی تنگ تھی اس لیے اب ریڑھی والے سے بچ کر نکلنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ ہم رکتے تو پیچھے سے منحوس پہلوان آ کر پکڑ لیتا۔ اب ہم نے دل میں یہ فیصلہ کر لیا کہ سلطان راہی کی طرح ہم بھی ایک جمپ میں ریڑھی پا ر کر یں گے ورنہ ہم بچ نہیں سکتے۔ سلطان راہی کا خیال آتے ہی ہمارے دل کو ایک تسلی مل گئی اور ہم نے تیزی سے ریڑھی کی طرف بھاگنا شروع کر دیا۔ ہم اپنے خیال کوعملی جامہ پہنانے جا رہے تھے۔ جیسے ہی ریڑھی قریب آئی اور ریڑھی والے نے چونک کر ہماری طرف دیکھا۔ ہم جمپ لگا چکے تھے۔ ریڑھی والے کی نگاہ پہلی بار ہم پر پڑی تھی اس سے پہلے وہ سبزی دینے میں مصروف تھا۔ خیر ہم نے جمپ لگایا ، ریڑھی کو پار تو نہ کر سکے البتہ ایک دھماکے سے اس پر جا گرے ۔کچھ سبزیاں ہمارے نیچے آ کر فوت ہو گئیں۔ ریڑھی نے ایک جھٹکا کھایا اور پھر ہمارے ساتھ ہی دوسری جانب الٹ گئی۔ اب ہم سبزیوں کی چادر اوڑھ چکے تھے۔ ریڑھی والا اپنی ریڑھی کو الٹتے دیکھ کر جیسے ہی اسے بچانے کی غرض سے آ گے بڑھا وہ بھی سبزیوں کے اوپر سے پھسل کرہمارے پاس آ گرا ۔ پکڑو پکڑو جانے نہ پائے۔ پہلوان کی آواز ہمارے کانوں میں پڑی تو ہم یوں اچھل کر سبزیوں سے باہر آ گئے جیسے اب تک ہم بھڑوں کے چھتے میں رہے ہوں۔ پہلوان بہت قریب آ چکا تھا۔ ہم نے ایک بار پھر اپنی قوت کو جمع کیا جو ریڑھی پر گرنے سے مائینس ہو چکی تھی اور ایک دفعہ پھر بھاگ پڑے۔ اب تو یوں محسوس ہونے لگا تھا جیسے باقی ماندہ عمر بھاگنے میں ہی گزرے گی۔
گلی پار کرکے جیسے ہی ہم سڑک پر آئے۔ قریب ہی بندھے ہوئے ایک گھوڑے کی پونچھ ہمارے منہ پر آ لگی۔ شاید وہ خدائی خدمتگار بنتے ہوئے ہماری صفائی کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ ہم نے گھوڑے کو ایک موٹی سی گالی دی اور سڑک کے کنارے کنارے بھا گ کھڑے ہوئے۔ پیچھے نگاہ ڈالی تو خوف سے ہمارے رونگھٹے کھڑے ہو گئے۔اب پہلوان کے ہمراہ وہ خبیث سبزی والا بھی غصے سے بل کھاتا بھاگا چلا آ رہا تھا۔ ہم نے پھر سے ایک گلی میں گھسنا چاہالیکن سامنے کھڑی ایک گائے نے اپنا منہ پھاڑ کر مخصوص آواز میں گاں گاں کہا تو ہم نے گلی میں گھسنے کا ارادہ ترک کر دیا۔ ہمیں گائے پر بڑا غصہ آیا جو یوں ہمارے سامنے ڈٹ گئی تھی۔
خیر ہم سڑک کے کنارے بھاگتے رہے۔ دور آسمان کی طرف نظر گئی تو دیکھا ہمارے کبوتر اب بھی دور اڑ رہے تھے۔ کبوتروں کو دیکھ کر ہمیں اتنا غصہ آیاکہ دل چاہا کہ انہیں پکڑ کر ذبح کر دیں ۔ انہیں کی وجہ سے آج ہم اس حال کو پہنچے تھے۔ اب سین یہ تھا کہ کبوتر آگے آگے اڑتے ہوئے جا رہے تھے۔ ہم ان کے پیچھے بھاگ رہے تھے اور ہمارے پیچھے پہلوان اور سبزی والے کے علاوہ بھی کئی لوگ دوڑے چلے آ رہے تھے۔ وہ شاید ہمیں پاگل خانے سے فرار ہونے والا کوئی پاگل سمجھ کر پکڑنے کے لیے پہلوان اور سبزی والے کے ساتھ ہو لیے تھے۔ اس وقت ہماری حالت پاگلوں سے چندا مختلف نہ تھی۔ دھول سے اٹے بال ،پھٹے ہوئے کپڑے جو مٹی اور سبزیوں کے گودے سے لتھڑچکے تھے۔ اوپر سے ہمارے بھاگنے کا انداز۔ یہ سب چیزیں ہمیں پاگل ثابت کرنے کے لیے کافی تھیں۔
قصہ مختصر، کبوتر تو اس دن ہمارے ہاتھ نہیں آئے لیکن ہم کسی کے ہاتھوں میں ضرور آ گئے۔ اس کے بعد جو ہوا اس کو جانے دیں آپ خود سمجھ سکتے ہیں۔ ہاں! یہ بات ضرور آپ کو بتائی جا سکتی ہے کہ اس کے بعد ہم نے کبوتر بازی سے ہمیشہ کے لیے توبہ کر لی۔

واہ بھائی واہ ، مزہ آ گیا۔۔ اللہ تعالٰی آپ کو اور زیادہ زور قلم عطا فرمائے
آمین ، ثم آمین
 

سید عاطف علی

لائبریرین
کچھ فقرے ،روز مرہ جات اور محاورات ایسے ہوتے ہیں جن کے استعمال سے پہلے ان کی فضا بنائی جاتی ہے تاکہ وہ برمحل اور تحریر کے اندازبیان سے موافق ہوں اور تسلسل کا تاثر قائم کریں ۔ مندرجہ بالا جملہ اس مختصر سے آغاز کے ساتھ استعمال نہیں ہونا چاہیئے ۔ بلکہ اس سے پہلے کچھ "خاص" بات ہونی چاہیئے جو اسے بر محل بنا سکے۔مثلاََ یہ کہ ۔۔۔۔ہمیں شوق ہوا اور پھر ہم نے یہ سوچا یہ ہوا وہ ہوا ۔۔۔۔ایک دن جب ہم نے فلاں کے ہاتھ میں کبوتر دیکھا تو ہم بے چین ہو کر رہ گئے ۔ پھر کیا تھا ۔۔۔۔۔
دوسری زبان کے الفاظ استعمال میں لانا چاہیں تو ایسا انداز اختیار کریں جو تحریر میں خلل کا سبب نہ بنے ۔ جمپ لگائی ہونا چاہیئے ۔ کیوں کہ یہ جست یا چھلانگ کے قائم مقام ہے جو دونوں ہی اصلاََ مؤنث ہیں ۔

ایک گھوڑے کی پونچھ ہمارے منہ پر آ لگی
دم کے لیے پونچھ کا لفظ اردو میں اچھا نہیں
ہمراہ وہ خبیث سبزی والا بھی غصے سے بل کھاتا بھاگا چلا آ رہا تھا
سبزی والے کو خبیث کہنا بیجا بھی ہے اور نامناسب بھی ۔ اس کی جگہ خشمگیں کر دیں ۔
ریڑھی کو پار تو نہ کر سکے البتہ ایک دھماکے سے اس پر جا گرے
جب کچھ منظر نگاری کریں تو حروف جار وغیرہ کو کھل کر استعمال کریں کہ خوبی سے منظر کے نقوش واضح ہوں ۔
ریڑھی کو پار تو نہ کر سکے الٹا ایک دھماکے سے اس کے اوپر جا گرے۔۔۔۔۔وغیرہ ۔
 
آخری تدوین:

ایس ایس ساگر

لائبریرین
عاطف بھائی!
اصلاح کرنے کے لیے آپ کا بہت بہت شکریہ۔ آپ کے مشورے بہت قیمتی ہیں۔ انشاءاللہ ان کو پلے باندھ لوں گا۔ بہت نوازش۔
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
محترم آپ کی پیش کردہ تحریر کافی سے زیادہ بہتر ہے۔ آغاز تو انتہائی خوبصورت تھا۔ انجام کی بجائے اگر آپ جاری لِکھ دیتے تو زیادہ بہتر تھا۔

مزید برآں اللہ تعالیٰ آپ کو ضمیر کی سچائی اور روح کی طاقت عطا فرمائے۔ آمین۔
 
اچھی کوشش ہے، ماشااللہ، کوئی سکہ بند مصنف تو نہیں ہوں کہ باقاعدہ اصلاح کر سکوں مگر ایک بات محسوس ہوئی، جو بیان کر رہا ہوں

منظر نگاری میں کچھ بے ساختہ پن کی کمی محسوس ہوئی، جیسے جب کسی نئے کردار کی آمد ہوتی ہے تو اس کے تعارفی کلمات سے تحریر میں تھوڑا خلل پڑتا ہے، کوشش کریں کہ ایسے موقع پر تعارفی جملہ منظر کشی کی روانی متاثر کئے بغیر شامل ہوں۔ مثلاََ یہ فقرہ
نتیجہ یہ نکلا کہ ہم اپنی ہمسائی کوجسے ہم خالہ جان کہتے تھے اندر تک گھسیٹتے ہوئے لے گئے۔
یہاں درمیان میں " جسے ہم خالہ جان کہتے تھے" رکاوٹ ڈال رہاہے، یہ جملہ یہاں نہ بھی ہو تو آگے جہاں آپ مکالمے میں انہیں خالہ ضان کہہ رہے ہیں وہاں تعارف ہو جاتا ہے۔
باقی انداز اچھا ہے، تسلسل بھی درست ہے، انشااللہ مشق کے ساتھ مزید نکھار آئے گا
 

الف عین

لائبریرین
اچھی تحریر ہے، دوستوں کے مشورے قبول کرتے ہوئے ترمیم کر کے مجھے بھیج دیں، ان شاء اللہ 'سمت' میں شائع کر دوں گا
 
Top