اورنج لائن پر بھاری سبسڈی دیں یا اسپتال اور اسکول چلائیں، وزیراعلیٰ پنجاب

جاسم محمد

محفلین
اورنج لائن پر بھاری سبسڈی دیں یا اسپتال اور اسکول چلائیں، وزیراعلیٰ پنجاب
ویب ڈیسک منگل 18 فروری 2020
1992010-usmanbuzdar-1582019862-794-640x480.jpg

60روپےکا ٹکٹ رکھیں تو ٹرین کو چلانے کےلیے 10 ارب روپے سالانہ سبسڈی دینی پڑےگی، عثمان بزدار فوٹو:فائل

لاہور: وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے کہا ہے کہ اورنج لائن پر بھاری سبسڈی دیں یا اسپتال و اسکول چلائیں۔

وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار نے اورنج لائن ٹرین کے بارے میں ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‏اورنج لائن ٹرین کا قرض واپس کرنے کےلیے اربوں روپےسالانہ دینےپڑیں گے، اگر 60روپےکا ٹکٹ بھی رکھیں تو صرف ٹرین کو چلانے کےلیے 10 ارب روپے سالانہ سبسڈی دینی پڑےگی۔

عثمان بزدار نے سوال اٹھایا کہ کیا ہم اس رقم سے اسپتال و اسکول چلائیں یا یہ سبسڈی دیں؟، کابینہ نےفیصلہ صوبائی اسمبلی بھیجا ہےتاکہ عوامی نمائندوں کافیصلہ آئے۔

اورنج لائن پاکستان کی پہلی الیکٹرک ٹرانسپورٹ میٹروٹرین ہے جس کے آزمائشی سفر کا تجربہ کرلیا گیا ہے۔ پاکستان اورچین کے درمیان مئی 2014 میں اورنج ٹرین بنانے کا معاہدہ ہوا تھا اور یہ منصوبہ سی پیک میں شامل ہے۔

ٹرین ڈیرہ گوجراں جی ٹی روڈ سے علی ٹاؤن ٹھوکرنیازبیگ تک 27 کلومیٹر کا فاصلہ 27 اسٹیشنوں پر رُکتے ہوئے 45 منٹ میں طے کرے گی۔ اس میں روزانہ کی بنیاد پرساڑھے 3 سے 4 لاکھ لوگ سفر کریں گے۔

اس منصوبے کو دسمبر2017 میں مکمل ہونا تھا لیکن 4 سال ایک ماہ کے عرصے میں مکمل ہوا اور اس پر 264 ارب روپے کی لاگت آئی۔
 

جاسم محمد

محفلین
صاحب! یہ تو کوئی ایک فیصلہ بھی کر لیں تو اسے غنیمت اور عوام کے سر پر احسان تصور کیا جاوے!
غالبا سبسڈی دینے یا نہ دینے کا فیصلہ پارلیمان میں اسی لئے بھیجا ہے تاکہ وہاں اورنج لائن پر لیگیوں کی کھینچائی کی جائے :)
 

فرقان احمد

محفلین
غالبا سبسڈی دینے یا نہ دینے کا فیصلہ پارلیمان میں اسی لئے بھیجا ہے تاکہ وہاں اورنج لائن پر لیگیوں کی کھینچائی کی جائے :)
جی ہاں! وہ حکومت میں ہیں۔ خوب کھنچائی کیجیے۔ انصافیوں پر سات خون معاف ہیں، چاہے اپوزیشن میں ہوں یا اقتدار میں ہوں۔
 

جاسم محمد

محفلین
ویسے، آپ اس قدر سبسڈی نہ دیجیے۔ ٹکٹ کی قیمت مناسب ہی رکھیں۔ ایک حل تو یہی ہے۔
ہمارا ایک کولیگ ہوا کرتا تھا جو ہمیشہ لنچ یا ڈنر کیلئے کسی اچھے ریسٹورنٹ میں جانے کو تیار رہتا۔ دفاتر کے ایسے کھانے عام طور پر امریکن سسٹم کے تحت ہی کھائے جاتے ہیں، یعنی ٹوٹل بل کو تمام شرکا پر تقسیم کردیا جاتا ہے اور ہر شخص اپنے حصے کی رقم ادا کردیتا ہے۔ اس مد میں ماہانہ ایک سو دس کروڑ روپے صرف بجلی کی مد میں حکومت کو ادا کرنا ہوں گے۔

ہمارے اس کولیگ کا لیکن طریقہ واردات منفرد تھا۔ ہوتا یہ کہ ہم سب کھانا کھانے ریسٹورنٹ جاتے، آرڈر دے دیا جاتا، کھانا سرو ہوجاتا اور سب لوگ کھانا کھانے میں مشغول ہوجاتے ۔ ۔ ۔ جب تقریباً اختتامی مراحل پر پہنچتے تو عین اس وقت اسے ایک ضروری کال آجاتی جسے سننے کے بہانے وہ ٹیبل سے اٹھ جاتا اور اپنا موبائل کان سے لگائے آہستہ آہستہ ریسٹورنٹ کے باہر ٹہلنا شروع کردیتا۔

اس دوران کھانا ختم ہونے کے بعد ڈیزرٹ یعنی میٹھے کا راؤنڈ ہوتا، آئس کریم، رس ملائی، یا گلاب جامن وغیرہ آرڈر کردیئے جاتے ۔ ۔ ۔ ٹیبل پر بیٹھے لوگ وہ بھی کھا لیتے لیکن کال کرنے والا واپس نہ آتا ۔ ۔ ۔ پھر مجبوراً ویٹر کو بلا کر بل منگوایا جاتا، بل کو تمام لوگوں پر تقیسم کردیا جاتا ۔ ۔ ۔ سب اپنے اپنے حصے کی رقم کیش کی صورت میں دے دیتے لیکن کال سننے والا ابھی تک واپس نہیں آیا ۔ ۔ ۔ پھر کوئی ایک کہتا کہ چلو یار، اسے شامل مت کرو، ویسے بھی اس نے ڈیزرٹ تو لیا ہی نہیں ۔ ۔ ۔ چنانچہ کھانے کی رقم باقی بیٹھے لوگوں میں تقسیم کردی جاتی اور سب لوگ جونہی باہر نکلنے لگتے، وہ کال ختم کرکے واپس دروازے کی جانب لپکتا۔

پھر ہم اسے کہتے کہ ہم نے بل ادا کردیا ہے ۔ ۔ ۔ وہ کہتا کہ اس کا شئیر کیا بنا؟ ہم میں سے کوئی کہہ دیتا کہ چھوڑو یار، کوئی بات نہیں، ہم نے پیمنٹ کردی۔

یہ ٹکنیک وہ اکثر استعمال کرتا اور ہمیشہ مفتا لگانے میں کامیاب رہتا۔

ن لیگ نے اورنج ٹرین کے معاملے میں بھی کچھ ایسا ہی کیا۔

12 سو ملین ڈالر کا مہنگا ترین پراجیکٹ شروع کیا، پھر اس کی لاگت بڑھا کر تین ہزار ملین ڈالرز کردی۔ اس دوران شہبازشریف نے اپنی تصویریں لگا کر پراجیکٹ کی خوب مشہوری کی۔ وہ جانتا تھا کہ اگلا الیکشن جیتنا ناممکن ہے، چنانچہ وہ اپنا مال پہلے ہی بنا چکا تھا۔

اب یہ پراجیکٹ پایہ تکمیل کو پہنچ چکا۔ منصوبے کی کل لمبائی 27 کلومیٹر ہے ۔ ۔ ۔ اس میں کل 26 سٹیشنز ہیں جن میں سے 24 ایلیویٹڈ یعنی اونچائی پر اور دو انڈر گراؤنڈ ہیں۔

ٹرینیں بجلی سے چلیں گی جس کیلئے لیسکو 108 میگاواٹ بجیلی فراہم کرے گا جو کہ تیرہ روپے فی یونٹ کے حساب سے حکومت کو فروخت کی جائے گی۔ اس مد میں ہر مہینے حکومت ایک سو دس کروڑ روپے بجلی کے بل کی شکل میں لیسکو کو ادا کرے گی۔

ایک اندازے کے مطابق ٹرین میں روزانہ دو لاکھ افراد سفر کریں گے۔ اگر فی مسافر ساٹھ روپے بھی وصول کئے جائے تو یہ روزانہ کے ایک کروڑ بیس لاکھ بنتے ہیں، اور مہینے کے 36 کروڑ۔
110 کروڑ ماہانہ بجلی کے بل میں سے 36 کروڑ ٹکٹ انکم مائنس کریں تو یہ بنتا ہے 66 کروڑ کا ماہانہ خسارہ ۔
ابھی اس میں ملازمین کی تنخواہ، آپریشنز اینڈ مینٹیننس کے دوسرے اخراجات شامل نہیں۔ کل ملا کر اورنج ٹرین چلانے کیلئے حکومت کو سالانہ خسارہ دس ارب روپے برداشت کرنا ہوگا۔ اور یہ سب کچھ ایک شہر کے عوام کیلئے 27 کلومیٹر کا سفر آسان بنانے کیلئے۔

دس ارب میں ہر سال :
تین بہترین آؤٹ ڈور ہسپتال ، دس سٹیٹ آف دی آرٹ سکولز ، اور لاہور کے تمام بچوں کو مفت کتابیں فراہم کی جاسکتی تھیں۔

اگر یہ نہیں کرنا تو دس ارب کی خوراک پر سبسڈی دے کر پنجاب کے عوام کو سستے داموں اشیائے ضروریات فراہم کی جاسکتی تھیں۔

یاد رہے، دس ارب صرف آپریٹنگ خسارہ ہے ۔ ۔ ۔ اورنج ٹرین بنانے کیلئے تین ارب ڈالرز کا جو قرضہ لیا گیا، اس کی سالانہ قسط بمعہ سود تین سو ملین ڈالرز بنتی ہے، یعنی اضافی 46 ارب روپے۔

کل ملا کر 27 کلومیٹر کا یہ سفر پنجاب کے عوام کو سالانہ 56 ارب روپے کا پڑے گا ۔ ۔ ۔
دکھ کی بات یہ ہے کہ اس ٹرین پر سفر کرنے والے پٹواری ساٹھ روپے خرچ کرکے ائیرکنڈیشنڈ ٹرین میں ایک گھنٹے کا جھولا لینے کے بعد جب نیچے اتریں گے تو ان کا سوال پھر بھی یہی ہوگا کہ عمران خان منگیائی کم کیوں نہیں کرتا ؟ (پٹواری ہمیشہ مہنگائی کو منگیائی کہتا ہے)

جب تم قومی وسائل کو اس طرح ضائع کرو گے تو مہنگائی کیسے کم ہوگی!!! بقلم خود باباکوڈا
 

فرقان احمد

محفلین
ہمارا ایک کولیگ ہوا کرتا تھا جو ہمیشہ لنچ یا ڈنر کیلئے کسی اچھے ریسٹورنٹ میں جانے کو تیار رہتا۔ دفاتر کے ایسے کھانے عام طور پر امریکن سسٹم کے تحت ہی کھائے جاتے ہیں، یعنی ٹوٹل بل کو تمام شرکا پر تقسیم کردیا جاتا ہے اور ہر شخص اپنے حصے کی رقم ادا کردیتا ہے۔ اس مد میں ماہانہ ایک سو دس کروڑ روپے صرف بجلی کی مد میں حکومت کو ادا کرنا ہوں گے۔

ہمارے اس کولیگ کا لیکن طریقہ واردات منفرد تھا۔ ہوتا یہ کہ ہم سب کھانا کھانے ریسٹورنٹ جاتے، آرڈر دے دیا جاتا، کھانا سرو ہوجاتا اور سب لوگ کھانا کھانے میں مشغول ہوجاتے ۔ ۔ ۔ جب تقریباً اختتامی مراحل پر پہنچتے تو عین اس وقت اسے ایک ضروری کال آجاتی جسے سننے کے بہانے وہ ٹیبل سے اٹھ جاتا اور اپنا موبائل کان سے لگائے آہستہ آہستہ ریسٹورنٹ کے باہر ٹہلنا شروع کردیتا۔

اس دوران کھانا ختم ہونے کے بعد ڈیزرٹ یعنی میٹھے کا راؤنڈ ہوتا، آئس کریم، رس ملائی، یا گلاب جامن وغیرہ آرڈر کردیئے جاتے ۔ ۔ ۔ ٹیبل پر بیٹھے لوگ وہ بھی کھا لیتے لیکن کال کرنے والا واپس نہ آتا ۔ ۔ ۔ پھر مجبوراً ویٹر کو بلا کر بل منگوایا جاتا، بل کو تمام لوگوں پر تقیسم کردیا جاتا ۔ ۔ ۔ سب اپنے اپنے حصے کی رقم کیش کی صورت میں دے دیتے لیکن کال سننے والا ابھی تک واپس نہیں آیا ۔ ۔ ۔ پھر کوئی ایک کہتا کہ چلو یار، اسے شامل مت کرو، ویسے بھی اس نے ڈیزرٹ تو لیا ہی نہیں ۔ ۔ ۔ چنانچہ کھانے کی رقم باقی بیٹھے لوگوں میں تقسیم کردی جاتی اور سب لوگ جونہی باہر نکلنے لگتے، وہ کال ختم کرکے واپس دروازے کی جانب لپکتا۔

پھر ہم اسے کہتے کہ ہم نے بل ادا کردیا ہے ۔ ۔ ۔ وہ کہتا کہ اس کا شئیر کیا بنا؟ ہم میں سے کوئی کہہ دیتا کہ چھوڑو یار، کوئی بات نہیں، ہم نے پیمنٹ کردی۔

یہ ٹکنیک وہ اکثر استعمال کرتا اور ہمیشہ مفتا لگانے میں کامیاب رہتا۔

ن لیگ نے اورنج ٹرین کے معاملے میں بھی کچھ ایسا ہی کیا۔

12 سو ملین ڈالر کا مہنگا ترین پراجیکٹ شروع کیا، پھر اس کی لاگت بڑھا کر تین ہزار ملین ڈالرز کردی۔ اس دوران شہبازشریف نے اپنی تصویریں لگا کر پراجیکٹ کی خوب مشہوری کی۔ وہ جانتا تھا کہ اگلا الیکشن جیتنا ناممکن ہے، چنانچہ وہ اپنا مال پہلے ہی بنا چکا تھا۔

اب یہ پراجیکٹ پایہ تکمیل کو پہنچ چکا۔ منصوبے کی کل لمبائی 27 کلومیٹر ہے ۔ ۔ ۔ اس میں کل 26 سٹیشنز ہیں جن میں سے 24 ایلیویٹڈ یعنی اونچائی پر اور دو انڈر گراؤنڈ ہیں۔

ٹرینیں بجلی سے چلیں گی جس کیلئے لیسکو 108 میگاواٹ بجیلی فراہم کرے گا جو کہ تیرہ روپے فی یونٹ کے حساب سے حکومت کو فروخت کی جائے گی۔ اس مد میں ہر مہینے حکومت ایک سو دس کروڑ روپے بجلی کے بل کی شکل میں لیسکو کو ادا کرے گی۔

ایک اندازے کے مطابق ٹرین میں روزانہ دو لاکھ افراد سفر کریں گے۔ اگر فی مسافر ساٹھ روپے بھی وصول کئے جائے تو یہ روزانہ کے ایک کروڑ بیس لاکھ بنتے ہیں، اور مہینے کے 36 کروڑ۔
110 کروڑ ماہانہ بجلی کے بل میں سے 36 کروڑ ٹکٹ انکم مائنس کریں تو یہ بنتا ہے 66 کروڑ کا ماہانہ خسارہ ۔
ابھی اس میں ملازمین کی تنخواہ، آپریشنز اینڈ مینٹیننس کے دوسرے اخراجات شامل نہیں۔ کل ملا کر اورنج ٹرین چلانے کیلئے حکومت کو سالانہ خسارہ دس ارب روپے برداشت کرنا ہوگا۔ اور یہ سب کچھ ایک شہر کے عوام کیلئے 27 کلومیٹر کا سفر آسان بنانے کیلئے۔

دس ارب میں ہر سال :
تین بہترین آؤٹ ڈور ہسپتال ، دس سٹیٹ آف دی آرٹ سکولز ، اور لاہور کے تمام بچوں کو مفت کتابیں فراہم کی جاسکتی تھیں۔

اگر یہ نہیں کرنا تو دس ارب کی خوراک پر سبسڈی دے کر پنجاب کے عوام کو سستے داموں اشیائے ضروریات فراہم کی جاسکتی تھیں۔

یاد رہے، دس ارب صرف آپریٹنگ خسارہ ہے ۔ ۔ ۔ اورنج ٹرین بنانے کیلئے تین ارب ڈالرز کا جو قرضہ لیا گیا، اس کی سالانہ قسط بمعہ سود تین سو ملین ڈالرز بنتی ہے، یعنی اضافی 46 ارب روپے۔

کل ملا کر 27 کلومیٹر کا یہ سفر پنجاب کے عوام کو سالانہ 56 ارب روپے کا پڑے گا ۔ ۔ ۔
دکھ کی بات یہ ہے کہ اس ٹرین پر سفر کرنے والے پٹواری ساٹھ روپے خرچ کرکے ائیرکنڈیشنڈ ٹرین میں ایک گھنٹے کا جھولا لینے کے بعد جب نیچے اتریں گے تو ان کا سوال پھر بھی یہی ہوگا کہ عمران خان منگیائی کم کیوں نہیں کرتا ؟ (پٹواری ہمیشہ مہنگائی کو منگیائی کہتا ہے)

جب تم قومی وسائل کو اس طرح ضائع کرو گے تو مہنگائی کیسے کم ہوگی!!! بقلم خود باباکوڈا
اس سے صرف نقصان نہیں ہو گا، گو کہ یہ پراجیکٹ نہ بنایا جاتا تو بہتر تھا۔ جس طرح موٹر وے کا فائدہ ہو رہا ہے، میٹرو بسوں سے بھی سفری سہولیات بڑے شہروں میں بہتر ہوئی ہیں، اس طرح لاہور جیسے شہر میں اس پراجیکٹ کا لگایا جانا اچنبھے کی بات نہیں۔ کم از کم یہ بی آر ٹی جیسا منصوبہ نہیں ہے جو محض کاغذوں میں بن رہا ہے۔ کرایہ ایک سو روپیہ رکھ دیجیے۔ اب یہی ہو سکتا ہے۔ بجائے اس کے کہ اسے آپریشنل ہی نہ کیا جائے۔
 

جاسم محمد

محفلین
کم از کم یہ بی آر ٹی جیسا منصوبہ نہیں ہے جو محض کاغذوں میں بن رہا ہے۔
کوئی منصوبہ مکمل کر لینا کامیابی کی نشانی نہیں ہے۔ آپ یہ بھی دیکھیں کہ منصوبہ پر جو لاگت آئی ہے کیا وہ اس سے حاصل ہونے والی کمائی سے پوری ہو جائے گی؟ اور اگر ایسا نہ ہو سکا تو یہ سفید ہاتھی آئندہ آنے والی حکومتوں کیلئے درد سر بنا رہے گا۔
 

فرقان احمد

محفلین
کوئی منصوبہ مکمل کر لینا کامیابی کی نشانی نہیں ہے۔ آپ یہ بھی دیکھیں کہ منصوبہ پر جو لاگت آئی ہے کیا وہ اس سے حاصل ہونے والی کمائی سے پوری ہو جائے گی؟ اور اگر ایسا نہ ہو سکا تو یہ سفید ہاتھی آئندہ آنے والی حکومتوں کیلئے درد سر بنا رہے گا۔
بی آر ٹی کس رنگ کا ہاتھی ہے ویسے؟
 

یاقوت

محفلین
آہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حکومت اور اپوزیشن کے اس قانونی اور معروضی رومانس سے عوام کا کیا بنے گا؟؟؟؟ یا اللہ بس تیری پناہ ہی آخری پناہ ہے ہمیں اپنی پناہ میں رکھیں میرے اللہ۔۔۔۔
 

آورکزئی

محفلین
کوئی منصوبہ مکمل کر لینا کامیابی کی نشانی نہیں ہے۔ آپ یہ بھی دیکھیں کہ منصوبہ پر جو لاگت آئی ہے کیا وہ اس سے حاصل ہونے والی کمائی سے پوری ہو جائے گی؟ اور اگر ایسا نہ ہو سکا تو یہ سفید ہاتھی آئندہ آنے والی حکومتوں کیلئے درد سر بنا رہے گا۔

ہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔ اپ کے اکژجوابات بلکہ بیشتر جوابات بالکل فیاض چوہان ، فواد چوہدری اور عاشق اعوان کی انداز گفتگو کی عکاسی کرتی ہے۔۔۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔ کیپ گوئینگ
 
ہمارا ایک کولیگ ہوا کرتا تھا جو ہمیشہ لنچ یا ڈنر کیلئے کسی اچھے ریسٹورنٹ میں جانے کو تیار رہتا۔ دفاتر کے ایسے کھانے عام طور پر امریکن سسٹم کے تحت ہی کھائے جاتے ہیں، یعنی ٹوٹل بل کو تمام شرکا پر تقسیم کردیا جاتا ہے اور ہر شخص اپنے حصے کی رقم ادا کردیتا ہے۔ اس مد میں ماہانہ ایک سو دس کروڑ روپے صرف بجلی کی مد میں حکومت کو ادا کرنا ہوں گے۔

ہمارے اس کولیگ کا لیکن طریقہ واردات منفرد تھا۔ ہوتا یہ کہ ہم سب کھانا کھانے ریسٹورنٹ جاتے، آرڈر دے دیا جاتا، کھانا سرو ہوجاتا اور سب لوگ کھانا کھانے میں مشغول ہوجاتے ۔ ۔ ۔ جب تقریباً اختتامی مراحل پر پہنچتے تو عین اس وقت اسے ایک ضروری کال آجاتی جسے سننے کے بہانے وہ ٹیبل سے اٹھ جاتا اور اپنا موبائل کان سے لگائے آہستہ آہستہ ریسٹورنٹ کے باہر ٹہلنا شروع کردیتا۔

اس دوران کھانا ختم ہونے کے بعد ڈیزرٹ یعنی میٹھے کا راؤنڈ ہوتا، آئس کریم، رس ملائی، یا گلاب جامن وغیرہ آرڈر کردیئے جاتے ۔ ۔ ۔ ٹیبل پر بیٹھے لوگ وہ بھی کھا لیتے لیکن کال کرنے والا واپس نہ آتا ۔ ۔ ۔ پھر مجبوراً ویٹر کو بلا کر بل منگوایا جاتا، بل کو تمام لوگوں پر تقیسم کردیا جاتا ۔ ۔ ۔ سب اپنے اپنے حصے کی رقم کیش کی صورت میں دے دیتے لیکن کال سننے والا ابھی تک واپس نہیں آیا ۔ ۔ ۔ پھر کوئی ایک کہتا کہ چلو یار، اسے شامل مت کرو، ویسے بھی اس نے ڈیزرٹ تو لیا ہی نہیں ۔ ۔ ۔ چنانچہ کھانے کی رقم باقی بیٹھے لوگوں میں تقسیم کردی جاتی اور سب لوگ جونہی باہر نکلنے لگتے، وہ کال ختم کرکے واپس دروازے کی جانب لپکتا۔

پھر ہم اسے کہتے کہ ہم نے بل ادا کردیا ہے ۔ ۔ ۔ وہ کہتا کہ اس کا شئیر کیا بنا؟ ہم میں سے کوئی کہہ دیتا کہ چھوڑو یار، کوئی بات نہیں، ہم نے پیمنٹ کردی۔

یہ ٹکنیک وہ اکثر استعمال کرتا اور ہمیشہ مفتا لگانے میں کامیاب رہتا۔

ن لیگ نے اورنج ٹرین کے معاملے میں بھی کچھ ایسا ہی کیا۔

12 سو ملین ڈالر کا مہنگا ترین پراجیکٹ شروع کیا، پھر اس کی لاگت بڑھا کر تین ہزار ملین ڈالرز کردی۔ اس دوران شہبازشریف نے اپنی تصویریں لگا کر پراجیکٹ کی خوب مشہوری کی۔ وہ جانتا تھا کہ اگلا الیکشن جیتنا ناممکن ہے، چنانچہ وہ اپنا مال پہلے ہی بنا چکا تھا۔

اب یہ پراجیکٹ پایہ تکمیل کو پہنچ چکا۔ منصوبے کی کل لمبائی 27 کلومیٹر ہے ۔ ۔ ۔ اس میں کل 26 سٹیشنز ہیں جن میں سے 24 ایلیویٹڈ یعنی اونچائی پر اور دو انڈر گراؤنڈ ہیں۔

ٹرینیں بجلی سے چلیں گی جس کیلئے لیسکو 108 میگاواٹ بجیلی فراہم کرے گا جو کہ تیرہ روپے فی یونٹ کے حساب سے حکومت کو فروخت کی جائے گی۔ اس مد میں ہر مہینے حکومت ایک سو دس کروڑ روپے بجلی کے بل کی شکل میں لیسکو کو ادا کرے گی۔

ایک اندازے کے مطابق ٹرین میں روزانہ دو لاکھ افراد سفر کریں گے۔ اگر فی مسافر ساٹھ روپے بھی وصول کئے جائے تو یہ روزانہ کے ایک کروڑ بیس لاکھ بنتے ہیں، اور مہینے کے 36 کروڑ۔
110 کروڑ ماہانہ بجلی کے بل میں سے 36 کروڑ ٹکٹ انکم مائنس کریں تو یہ بنتا ہے 66 کروڑ کا ماہانہ خسارہ ۔
ابھی اس میں ملازمین کی تنخواہ، آپریشنز اینڈ مینٹیننس کے دوسرے اخراجات شامل نہیں۔ کل ملا کر اورنج ٹرین چلانے کیلئے حکومت کو سالانہ خسارہ دس ارب روپے برداشت کرنا ہوگا۔ اور یہ سب کچھ ایک شہر کے عوام کیلئے 27 کلومیٹر کا سفر آسان بنانے کیلئے۔

دس ارب میں ہر سال :
تین بہترین آؤٹ ڈور ہسپتال ، دس سٹیٹ آف دی آرٹ سکولز ، اور لاہور کے تمام بچوں کو مفت کتابیں فراہم کی جاسکتی تھیں۔

اگر یہ نہیں کرنا تو دس ارب کی خوراک پر سبسڈی دے کر پنجاب کے عوام کو سستے داموں اشیائے ضروریات فراہم کی جاسکتی تھیں۔

یاد رہے، دس ارب صرف آپریٹنگ خسارہ ہے ۔ ۔ ۔ اورنج ٹرین بنانے کیلئے تین ارب ڈالرز کا جو قرضہ لیا گیا، اس کی سالانہ قسط بمعہ سود تین سو ملین ڈالرز بنتی ہے، یعنی اضافی 46 ارب روپے۔

کل ملا کر 27 کلومیٹر کا یہ سفر پنجاب کے عوام کو سالانہ 56 ارب روپے کا پڑے گا ۔ ۔ ۔
دکھ کی بات یہ ہے کہ اس ٹرین پر سفر کرنے والے پٹواری ساٹھ روپے خرچ کرکے ائیرکنڈیشنڈ ٹرین میں ایک گھنٹے کا جھولا لینے کے بعد جب نیچے اتریں گے تو ان کا سوال پھر بھی یہی ہوگا کہ عمران خان منگیائی کم کیوں نہیں کرتا ؟ (پٹواری ہمیشہ مہنگائی کو منگیائی کہتا ہے)

جب تم قومی وسائل کو اس طرح ضائع کرو گے تو مہنگائی کیسے کم ہوگی!!! بقلم خود باباکوڈا
 

جاسم محمد

محفلین
اورنج ٹرین منصوبہ جیسا بھی ہے آخر مکمل تو ہوا پشاور کا کیا بنے گا کالیا :mad:
اگر یہ منصوبہ بھی مکمل ہونے کے بعد اورینج ٹرین کی طرح سفید ہاتھی بن گیا تو کچھ زیادہ مختلف نہیں ہوگا۔ فلاح عامہ کے منصوبے تب ہی کامیاب ہو سکتے ہیں اگر وہ منافع میں چلیں۔ اگر بھاری سبسڈی، ریکارڈ قرضے اور خسارے بھر کر ہی ان کو چلانا ہے تو بہتر ہے یہ منصوبے سرے سے لگائے ہی نہ جائیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
اگر یہ منصوبہ بھی مکمل ہونے کے بعد اورینج ٹرین کی طرح سفید ہاتھی بن گیا تو کچھ زیادہ مختلف نہیں ہوگا۔ فلاح عامہ کے منصوبے تب ہی کامیاب ہو سکتے ہیں اگر وہ منافع میں چلیں۔ اگر بھاری سبسڈی، ریکارڈ قرضے اور خسارے بھر کر ہی ان کو چلانا ہے تو بہتر ہے یہ منصوبے سرے سے لگائے ہی نہ جائیں۔
اورینج ہاتھی کو چلائیں تو سہی، جب وہ سفید ہاتھی بن جائے تو اسے تھائی لینڈ بھجوا دیں۔
 
Top