وفائیں ہار گئیں بے وفائی جیِت گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اصلاح طلب

زنیرہ عقیل

محفلین
وفائیں ہار گئیں بے وفائی جیِت گئی
جو زندگی تھی وہ ان کے غم میں بیِت گئی


وہ کیسے بھول گئے ہیں مجھے تو حیرت ہے
کسی کے دل سے یوں کیسےمگر وہ پیِت گئی


خدا کرے کہ اسے درد وہ نہ سہناپڑے
کہ جس کو سہتے مری ہنستی بستی زیست گئی


وہ ایک شرم و حیا جو کبھی نگاہ میں تھی
کسی کو لاتے جو خاطر میں تو وہ ریِت گئی


صنم کی آنکھ سے چشمہ جو اشک کا پھوٹا
کہ جیسے پاس سے گلؔ گا کے کوئی گیت گئی


زنیرہ گلؔ
 

الف عین

لائبریرین
وفائیں ہار گئیں بے وفائی جیِت گئی
جو زندگی تھی وہ ان کے غم میں بیِت گئی
.. دوسرا مصرع وزن میں نہیں
جو زندگی تھی بچی، ان کے....
ایک تجویز


وہ کیسے بھول گئے ہیں مجھے تو حیرت ہے
کسی کے دل سے یوں کیسےمگر وہ پیِت گئی
... قافیہ کچھ عجیب ضرور ہے، 'یوں کیسے مگر' میں روانی کی کمی ہے اس کی جگہ 'بھلا کس طرح' کر دو

خدا کرے کہ اسے درد وہ نہ سہناپڑے
کہ جس کو سہتے مری ہنستی بستی زیست گئی
.. یہ قافیہ تو بہر حال غلط ہے

وہ ایک شرم و حیا جو کبھی نگاہ میں تھی
کسی کو لاتے جو خاطر میں تو وہ ریِت گئی
... لاتے کی بہ نسبت 'لائے' بہتر ہو گا، 'تو' کا مکمل کھنچنا ناگوار لگتا ہے، اس کی بجائے 'ہم، وہ' کر دیں

صنم کی آنکھ سے چشمہ جو اشک کا پھوٹا
کہ جیسے پاس سے گلؔ گا کے کوئی گیت گئی
... گل گا میں صوتی تنافر کی کیفیت ہے، الفاظ کی ترتیب بدل دو
 

زنیرہ عقیل

محفلین
بہت بہت شکریہ محترم
اب ترامیم کے ساتھ دوبارہ حاضر ہے

وفائیں ہار گئیں بے وفائی جیِت گئی
جو زندگی تھی بچی، ان کے غم میں بیِت گئی

وہ کیسے بھول گئے ہیں مجھے تو حیرت ہے
کسی کے دل سے بھلا کس طرح وہ پیِت گئی

خدا کرے کہ اسے درد وہ نہ سہناپڑے
کہ جس کو سہتے ہوئے عمر اپنی بیت گئی

وہ ایک شرم و حیا جو کبھی نگاہ میں تھی
کسی کو لائے جو خاطر میں ہم وہ ریِت گئی

صنم کی آنکھ سے چشمہ جو اشک کا پھوٹا
کہ گا کے پاس سے گلؔ جیسے کوئی گیت گئی

زنیرہ گلؔ
 
Top