دیوانے کی آواز

دیوانے کی آواز
عاجز ؔ ہوشیارپوری

اگر ستا ر کے غمناک تاروں کی دلکش آواز، سرنگی کی البیلی صدا، بانسری کا پرسوز سر، گویا ساز کی مستانہ دھن عالم وجود میں آکر آنکھ کی شکل اختیار کرلے تو وہ اس کی آنکھیں تھیں۔

تمام ستاروں کی کرنیں مل کر اگر ایک حسین ماتھا بن جائیں تو وہ اس کی پیشانی، اور اگر شفق کی پھیلتی سرخی سمٹ کر پہلی رات کے چاند کی صورت بدل لے تو وہ اس کے ہونٹ اور رخسار تھے۔

یہ تمام چیزیں ایک مرمریں مجسمے میں جڑیں جائیں اور اس احمریں مجسمہ پر رو پہلی چاندنی کو کسی خاص طاقت سے سفوف بنا کر مل دیا جائے تو یہ صبیحہ کے پیکر کی ایک جھلک بن جاتا ہے۔

٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭

مجھے اب بھی وہ دن یاد آتے ہیں۔۔۔

رات کی خاموشی میں دریاکا بہنا۔ مینڈکوں کا بولنا۔ اور کبھی کبھی کتوں کے بھونکنے کی مدھم مدھم آوازیں۔

گاؤں کا عجیب سماں۔ہر طرف معصومیت و سادگی کے مدہوش ترانے اور بھولے پن وحیا کے مدھر گیت۔ طویل و حسین خطوں میں لہلہاتے ہوئے سر سبز کھیتوں کے پیچھے ، الفت و انس کی ہنستی، بولتی ، اور گاتی ہوئی دلکش چراگاہیں اور ان میں ناچتے، کودتے ، چگتے ہوئے پرندوں کی حسین قطاریں۔

مجھے یہاں آئے ایک ہفتہ بیت چکاتھا۔ ۔۔

٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭

بھیگی ہوئی رات، دریا کا کنارہ ، باجرے کا کھیت۔۔۔

حسن وجمال کی حسین جھلک، شباب و جوانی کا اچھوتا عکس، رعنائی و دلکشی کا دل آویز مجسم، دلبستگی و رنگینی کا سحرانگیز ہجوم، عشق کی بلندیاں، حسن کی تجلیاں، نگاہ کا شوق۔ نقاب کی نوازشیں۔

پہلی ملاقات!

”کیا راہ بھول گئے ہو راہی“ تحکم حسن

”جی نہیں“۔ التجائے عشق

”تو پھر؟“۔ فرمان جمال

”یونہی“! معروض جنوں

ہوا کے ایک لطیف جھونکے نے باجرے کی ہریالی میں مدھم سی راگنیاں چھیڑ دیں۔حسین پودے مستانہ انداز سے جھوم جھوم کر اس طرح سے ایک دوسرے کی طرف چوری چوری اشارے کرنے لگے جیسے کوئی لاج کی پری حیا کے گھونگھٹ کی آڑ سے جھانک رہی ہو۔ فضا میں ایک ہلکا سا رومانی شور بلند ہو کر چمکتے ہوئے بے ترتیب تاروں کی لرزتی ہوئی شعاؤں میں تحلیل ہو کر داستانوں کی دنیا بسا رہا تھا۔

بیتاب دل بے خود ہو کر نیند و خواب کی بستیوں میں یوں مچل رہے تھے جیسے مصری ستا ر سے مست سر دھوئیں کی صورت میں اوپر کو اٹھ رہے ہوں ۔ اور پھر یہ دھواں مستی میں دلفریب پیچ و خم کھاتا بتدریج اوپر کو اٹھتا ہوا آہستہ آہستہ ایک سائے کی صورت اختیار کر کے ایک پروں والی حسین دوشیزہ اور ایک ایسے ہی خوبرو نوجوان کا خاکہ بن جائے۔ جو عشق و محبت میں ڈوبے ہوئے ایک دوسرے کی گردن میں گوری گوری اور نرم و گداز باہیں ڈالے بادلوں کے سینوں کو چیرتے ہوئے دھیرے دھیرے پرواز کر رہے ہوں۔

”ہاں میں شہر میں رہتا ہوں“۔ میں نے جواب دیا۔

”تبھی بڑے ہوشیار نظر آتے ہو“۔ وہ ہنسنے لگی۔

اچانک قہقہوں کو چیرتی ہوئی ایک دہشت ناک آواز اٹھی۔ اور کھیت کے اس پار سے اس تک خوف و ہراس پھیلاتی ہوئی رات کی خاموشی میں دب گئی۔ میں سہم گیا۔ ایک نہایت ڈراؤنی آواز تھی۔

”سب دھوکا ہے ۔ سب فریب ہے۔۔۔“

”یہ کس کی آواز تھی؟“

”دیوانے کی“

”وہ کون ہے“

”ایک آوارہ جو دن رات گاؤں میں پھرتا رہتا ہے۔ “

٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭


مجھے ماضی کے وہ دن اب بھی گاہے گاہے یاد آتے ہیں۔۔۔

کسی کے تصور میں چپکے چپکے مسکرانا۔ خواب میں آ کر کسی نے میٹھے میٹھے گیت سنانا۔ خیالوں میں کسی نے شہد سا سمونا۔ اور میں نے دور کسی دیس میں مہکے ہوئے گیسوؤں کی چھاؤں میں سو جانا۔ محبت کے دیپ جلنے۔ اور میں نے پہروں ان کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے رہنا۔ صبیحہ کی نگاہوں میں شراب تھی۔ اور میری آنکھوں میں مہ خانے ۔ وہ میری ہو چکی تھی۔ اور میں اس کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ ۔۔

وہ ہنستی ہوئی میرے قریب آ کر بیٹھ گئی۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے کوئی پیار کی بھٹکی ہوئی بات مدھر تانوں میں سما رہی ہو۔ یا جیسے کوئی محبوبہ تجسس حبیب میں صحراؤں ، جنگلوں اور دریاؤں کو عبور کرتی منزل پر پہنچ کر اپنے ماہی کے قدموں پرجھک کر رہ گئی ہو۔

”سب دھوکا ہے۔ سب فریب ہے۔۔۔“

دیوانے کی دہشتناک آواز فضا میں ہراس پھیلاتی بلند ہوئی۔ اب میں اس آواز سے مانوس ہو چکا تھا۔ اور اسے سنکر اب مجھ پر کوئی خوف وغیرہ طاری نہ ہوتا تھا۔ روزانہ ہی ہماری ملاقات کا اختتام اسی آواز پر ہوا کرتا تھا۔ ہاں البتہ کبھی کبھی دیوانے کےالفاظ پر غور ضرور کیا کرتا تھا۔ ”سب دھوکا ہے۔ سب فریب ہے“۔ یہ کیوں ان الفاظ کی ہر وقت رٹ لگاتا پھرتا ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے۔ یہ کسے کہتا ہے۔ مگر کچھ سمجھ نہیں آتا تھا۔ کیونکہ جلد ہی ایسے خیالات کو صبیحہ کا نازک خیال ذہن سے خارج کر دیتا تھا۔

ایک دن میرے کہنے پر صبیحہ نے مجھے یہ دیوانہ دکھایا تھا۔ مگر اب تو وہ مجھے دن میں ایک دو مرتبہ آوارہ گردی کرتا ہوا کہیں نہ کہیں ضرور نظر آ جاتا ہے۔ وہی کھلے ہوئے گرد آلود لمبے لمبے بال جن میں شاید تیل لگے برسوں بیت گئے تھے۔

اندر کو دھنسی ہوئی تیز تیز آنکھیں۔ بڑھی ہوئی بے ترتیب داڑھی۔ جگہ جگہ سے پھٹے ہوئے کپڑے۔ نہایت عجیب حالت بنا رکھی تھی اس دیوانے نے۔ بس ہر وقت ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر بیکا ر پھرنا اس کا محبوب مشغلہ تھا۔ نہ کسی کو کچھ کہتا تھا۔ اور نہ ہی کسی کی کوئی سنتا تھا۔ اپنی ہی دھن میں مست تھا۔ ان الفاظ کے علاوہ کبھی اس کے منہ سے دوسرا لفظ سننے میں نہ آیا تھا۔ ”سب دھوکا ہے ۔ سب فریب ہے۔۔۔“

نصف شب کے وقت آنکھ کھل جانے پر میں نے کئی مرتبہ اس کی آوا ز کو سنا تھا۔ رات کو اس کی آواز نہایت ہی ڈراؤنی بن جاتی تھی۔ جسے اگر کوئی اجنبی سن لے تو ڈر کر لحاف میں ہی کانپنے لگ جائے۔ رات کے گہرے سکوت میں اس کی آواز یوں صبا کے دوش پر سواری کیا کرتی تھی جیسے کسی کچلی ہوئی گنہگار روح پر ہنٹروں کی بھیانک ضربیں پڑ رہی ہوں ۔

”سب دھوکا ہے ۔ سب فریب ہے۔۔۔“

فضا میں خوف و ہراس کے ساتھ ساتھ ایک دکھ، بے چینی و بیقراری سی سسکیاں لیتی معلوم ہوتی تھی۔ آواز کے شور کے بعدفضا پر ایک خاموشی چھا جاتی تھی۔ مگر یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ہزاروں سینوں کی دبی ہوئی خاموش حسرتیں دھیرے دھیرے آنسو بہا رہی ہوں ۔ ہولے ہولے خون کے آنسو رو رہی ہوں ۔

٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭

دریا کے کنارے پر سورج اس طرح جھک گیا تھا جیسے قرص خورشید اپنے پر تپش ہونٹ آبی حسینہ کے ٹھنڈے ہونٹوں سے پیوست کرنے پر بضد ہو۔ دلفریب سرخی کسی وحشی حسینہ کی طرح جنگلی ناچ دکھا رہی تھی۔ گردونواح ایک سرخ سی بستی بس کر رہ گئی تھی۔

دریا کے اس پار سرخ جنت میں ایک حور سی گھوم رہی تھی۔ ایک نازک سی خیالی پری ، پیکر شعر و ادب ، کسی فلسفی کا حسین خیال۔ ایک مصور کا انوکھا شاہکار۔

جی چاہتا تھا کہ شفق کے گلابی پردوں کو چیر کر جلدی اس حسینہ رنگ و بو کے پاس پہنچ جاؤں۔ مگر ایک جولانی مادہ مجھے روک رہا تھا۔ کیونکہ جو لطف مجھے صبیحہ کو دور سے دیکھ کر حاصل ہو رہا تھا۔ وہ قرابت میں نہ تھا۔ وہ سنہری کرنوں والا تاج سر پر رکھے ہوئے ملکہ حسن و جمال معلوم ہو رہی تھی۔ اس کی سفید سفید جلد پر شفق کا دلفریب رنگ ایک نئی دلکشی پیدا کر رہا تھا۔ ایک ایسا عشقیہ نظارہ پیش کر رہا تھا جس کے دیکھنے کی تاب بہت کم لوگوں میں ہوا کرتی ہے۔ قدرت کے اس پر عظمت راز کو بے نقاب کرنے کی مقدس کوشش میں مصروف تھا۔ فطرت کے ان پرہیبت پردوں کو اٹھانے کی طلسمی فکر میں مبتلا تھا۔ جن کے پیچھے تصوف و رموز کی بے پایاں موجیں ایک ساتھ اٹھ کر اکٹھی بہنے لگتی ہیں ۔

کتنا رومانی تھا یہ سماں ۔ جسے اگر سراپا متصور کیا جائے تو انسانی ذہن تڑپ کر رہ جائے۔ قدرت کے مسکراتے ہوئے سنہرے نور کی گلابی پھوار میں نہاتے ہوئے مشک بیز و عطر پاس گھنیرے گیسوؤں والی الہڑ رانی۔ احساس حلقہ خمریات و جمالیات میں یوں ہلکورے لے رہا تھا۔ جیسے گاؤں جاتی کنواریوں کے سادہ زیورات کی معصوم جھنکار، گرجے کے عبادتی سازوں میں مل رہی ہو۔ اور ایک شفیق ماں کی صورت میں آسمان سے اترتی ہوئی کنواری چاندنی کی مست لوری کی آواز ان میں سما کر رہ گئی ہو۔ تھرکتا ہو سورج ایک آخری ہچکی کے ساتھ ڈوب گیا۔

”سب دھوکا ہے ۔ سب فریب ہے۔۔۔“

دیوانے کی ڈراؤنی سنسناتی ہوئی آواز اندھیرے کے پردوں کو چیرتی ہوئی دور نکل گئی، سماں یاس و حسرت سے بھر گیا۔ جھاڑیوں میں خرگوشوں کے دوڑنے کی آوازوں نے اس پر اور بھی مایوسی برسا دی۔

٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭

جب ٹوٹتی ہوئی راتوں میں پہاڑی بانسریا کی متوالی آواز سنائی دیتی ہے تو بھولی بسری یادیں مردہ مچھلیوں کی طرح ذہن کی سطح پر ابھر آتی ہیں۔ اور کئی بچھڑے ساتھیوں کی یاد یک لخت ایک ہوک سی بن کر دل سے اٹھتی ہے۔ اور دل بے قرار ہو کر جلد ہی ان سے ملنے کے لیے تڑپنے لگتا ہے۔ بالکل یہی حالت میری تھی۔تین ماہ کے مختصر عرصے کے بعد دوبارہ گاؤں جا رہا تھا۔ گاؤں شہر سے زیادہ دور بھی نہ تھا۔ صرف آدھے گھنٹے کا راستہ تھا۔ مگر میری طبیعت چاہتی تھی کہ ایک لمحہ میں صبیحہ کے پاس پہنچ جاؤں۔ اس کی پیاری صورت آنکھوں کے سامنے پھر رہی تھی۔ اور ایک آدھ گھنٹہ کی تاخیر بھی میرے لیے ناقابل برداشت ہو رہی تھی۔

دیہہ کے بچے مٹی کے گھروندے بنانے کے دلچسپ کھیل میں مشغول تھے۔ کسان کھلے کھیتوں میں بدستور تپتے ہوئے گرم سورج تلے ہل چلانے میں مصروف نظر آتے تھے۔ گندم و جوار کے ہرے ہرے پودے ہوا کے جھونکوں کے ساتھ جھوم رہے تھے۔ آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے والی ہریالی ہر طرف احاطہ کئے ہوئے تھی۔

راہٹوں کے سادہ گیتوں اور چکیوں کی میٹھی تالوں نے میرا استقبال کیا۔ گاؤں کی معصومیت مجھے دیکھ کر مسکرائی۔ دیہہ کی راحت بار فضاؤں نے میرا منہ چوما اور میں شرما کر رہ گیا۔

گاؤں میں داخل ہوتے ہی چچا سے سامنا ہوا۔ گھر لے جانے کی بجائے وہ مجھے اپنے ساتھ ایک تقریب پر لے گئے۔ ان کے پڑوس میں کسی کے ہاں شادی تھی۔ گاؤں کی رسم کے مطابق دلہن نے اپنے ہونے والے شوہر کے گلے میں بیلے کا ہار پہنانا تھا۔ گاؤں کے سب لوگ جمع تھے ۔ ہر کوئی اجلے لباس میں نظر آ رہا تھا۔ محفل پر خوشی و شادمانی طاری تھی۔ لوگوں سے تھوڑے سے فاصلے پر دولہا میاں جھکی ہوئی نگاہوں کے ساتھ ایک چٹائی پر بیٹھے تھے۔

نقارے بجنے لگے۔ اب وہ وقت قریب آ گیا تھا کہ دلہن اپنی سہیلیوں کے جمگھٹ میں جلوہ گر ہو کر دولہے کے گلے میں ہار ڈال دے۔ نقارے والے زور زور سے نقارے بجا رہے تھے۔ ان کی بھدی بھدی آوازیں بھی ایک عجیب سماں باندھ رہی تھیں۔ اور سننے والوں پر ایک محویت طاری ہو رہی تھی۔ یوں معلوم ہو رہا تھا جیسے کوئی نازک اندام شہزادی کسی غیبی دروازے سے داخل ہو کر ہزاروں نازواداؤں کے ساتھ خوش نصیب دولہے کے پہلو میں بیٹھ جائے گی۔

وسیع کمرے کے عقب سے گیتوں کی مدھم سی آواز بلند ہوئی، اور لحظہ بہ لحظہ اونچی ہونے لگی۔ راگنیوں اور نقاروں کے ملے جلے خوبصورت شور میں سامنے والا دروازہ کھلا۔ تما م لوگوں کی نظریں فطرتی طور پر اس طرف مرکوز ہو گئیں ۔ چند ہمجولیوں کے جمگھٹ میں دلہن لجاتی، حیا سے سمٹتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی۔ ہمجولیاں گیت گاتی ہوئیں اس سے ذرا پیچھے ہٹ گئیں۔ وہ حیا میں لرزتی اور شرماتی ہوئی آہستہ آہستہ دلہے کی طرف بڑھنے لگی۔ دولہے کی نگاہیں بدستور زمین میں گڑھی ہوئی تھیں۔ دلہن نے قریب پہنچ کر اس کے گلے میں ہار ڈالنے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔

یہ صبیحہ تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔

میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ اور ہر چیز مجھے سیاہ نظر آنے لگی۔ ہر شے میری نظر میں سیاہ تھی۔ کمرے کی دیواریں سیاہ۔ کالی کالی۔ لوگوں کی پگڑیاں سیاہ۔ چہرے سیاہ۔ کپڑے سیاہ۔ اور میں خود سیاہ تھا۔

اس سیاہ دنیا میں ایک سیاہ بخت آواز بلند ہوئی۔

”سب دھوکا ہے۔ سب فریب ہے۔ ۔ ۔“

آج خودبخود اس آواز کا مفہوم میری سمجھ میں آ گیا۔ میں خاموشی سے اٹھ کر باہر چلا آیا۔ اور سر جھکائے گھر کو چلنے لگا۔ ایک بار پھر دیوانے کی پرشور آواز بلند ہوئی۔

”سب دھوکا ہے۔ سب فریب ہے۔ ۔۔۔۔“


٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
 
پیش کردہ افسانے کے متعلق آپ کے خیالات اور آپکی رائے کا منتظر ہوں تاکہ اپنی ادبی کوتاہیوں کا ادراک ہو سکے۔ اس لیے اپنے قیمتی وقت کا کچھ حصہ اس ضمن میں عنایت کریں تو بہت مشکور ہوں گا۔ شکریہ
 
چند ہمجولیوں کے جمگھٹ میں دلہن لجاتی، حیا سے سمٹتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی۔ ہمجولیاں گیت گاتی ہوئیں اس سے ذرا پیچھے ہٹ گئیں۔ وہ حیا میں لرزتی اور شرماتی ہوئی آہستہ آہستہ دلہے کی طرف بڑھنے لگی۔ دولہے کی نگاہیں بدستور زمین میں گڑھی ہوئی تھیں۔ دلہن نے قریب پہنچ کر اس کے گلے میں ہار ڈالنے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔
یہ صبیحہ تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔

مسلمانوں میں یہ رسم نہیں ہے کہ دلہا دلہن ایک دوسرے کے گلے میں ہار ڈالیں۔
 
محترم خلیل الرحمن ٰصاحب!
میں تہہ دل سےآپکا مشکور ہوں کہ آپ نے اپنا قیمتی وقت میری تحریر کے مطالعے پر صرف کیا اور ایک اہم معاملے کی نشان دھی کی۔
جیسا کہ میرے تخلص کے ساتھ جڑے ہوشیارپوری کے الفاظ اس بات کے غماز ہیں کہ میرا ہوشیار پور سے پرانا تعلق ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ مذکورہ شادی کی رسم تقسیم پاکستان سے پہلے برصغیر میں عام تھی۔ ہاں یہ بات درست ہے کہ یہ مسلمانوں کی رسم نہیں، ہندوؤں کی ہے۔
دراصل میرے افسانے کی اساس تقسیم پاکستان سے پہلے کا ایک واقعہ ہے جو میری یادداشت میں حنوط ہو چکا ہے۔ میرے لیے یہ بہت آسان تھا کہ صرف دو لائنیں افسانے سے حذف کر دیتا مگر مجھے لگا کہ یہ واقعے کے کرداروں اور گزرے وقت کے ساتھ ناانصافی ہو گی۔ اور پھر پورے افسانے میں میں نے یہ کہیں نہیں لکھا کہ اس کے کرداروں کا مذھب کیا ہے۔ افسانے کے کردار تو کسی بھی مذھب اور معاشرے سے تعلق رکھ سکتے ہیں۔
مگر محترم!۔۔۔۔۔اگر آپ پھر بھی یہ سمجھتے ہیں کہ میرے چند جملے ناگواری طبع کے موجب ہیں اور مجموعی طور پر یہ افسانہ آپ کے مجلے کے لیے قابل اشاعت ہو سکتا ہے تو آپ اس کی تصحیح کر دیجیے مجھے خوشی ہو گی۔ آپکے جواب اور مزید رہنمائی کا منتظر رہوں گا۔ شکریہ۔
 

الف عین

لائبریرین
مسلمانوں میں یہ رسم شاذ ہو تو ہو، عام تو کبھی نہیں رہی۔ نام تو اردو فارسی عربی میں ہی ہیں جو نام مسلمان ہی رکھتے ہیں بر صغیر میں۔ ہاں کرداروں کے نام ایسے ہوں جن سے مذہبی شناخت نہ ہوتی ہو تو چل سکتے ہیں۔ کرن، مہک، مسکان جیسے نام پاکستانی مسلمانوں میں عام ہونے لگے ہیں آج کل!
 
مسلمانوں میں یہ رسم شاذ ہو تو ہو، عام تو کبھی نہیں رہی۔ نام تو اردو فارسی عربی میں ہی ہیں جو نام مسلمان ہی رکھتے ہیں بر صغیر میں۔ ہاں کرداروں کے نام ایسے ہوں جن سے مذہبی شناخت نہ ہوتی ہو تو چل سکتے ہیں۔ کرن، مہک، مسکان جیسے نام پاکستانی مسلمانوں میں عام ہونے لگے ہیں آج کل!
متفق! یہی وجہ ہے کہ ہم نے اعتراض کیا۔
 
محترم صاحبان!
میں بالکل آپ سے متفق ہوں کہ یہ رسم مسلمانوں میں عام نہیں تھی کیونکہ درحقیقت یہ ہندوؤں کی رسم ہے۔ میں نے اوپر برصغیر کی بات کی تھی۔ چونکہ ہندوستان میں ہندو اکژیت تھی اور پھر ہندو اکژیتی علاقوں میں بسنے والے مسلمان بھی زیادہ تر ممتاز مفتی کے رام دین تھے۔ اس وجہ سے میں نے کہا کہ یہ رسم ہندوستان میں عام تھی نہ کہ مسلمانوں میں۔ ممتاز مفتی کا کردار رام دین دھرم سالا کے ایک نواحی گاؤں کا رہنے والا تھا جو ہندو اکژیتی علاقہ تھا۔ (ممتاز مفتی کا افسانہ رام دین اس وقت کے مسلمانوں کی سماجی زندگی کا بہترین عکاس ہے)۔
میری کہانی کے کردار (صبیحہ) کا تعلق بھی دیہی زندگی سے تھا (جیسا کہ افسانے میں لکھا گیا) اور یہ کہانی قیام پاکستان سے پہلے کے ہندوستان کی ثقافتی زندگی کے پس منظرمیں لکھی گئی ہے۔
 
Top