برائے اصلاح

فیضان قیصر

محفلین
بن ترے جو بھی زندگی ہوگی

مستقل اس میں اک کمی ہوگی

تیرے دم سے ہے روشنی گھر میں

تو نہیں ہو تو تیرگی ہوگی

اس لیے سب ترے مخالف تھے

تو نے انکی نہیں سنی ہوگی

تم جو گم سم اداس رہتے ہو

اس طرح کیسے نوکری ہوگی

ایک ہی موڈ ہوگا بن تیرے

مستقل دل کو بے کلی ہوگی

ٹیس جس کی نہیں گئی اب تک

بات دل سے کہی گئی ہوگی

خاتمہ داستاں کا یوں ہوگا

وہ مرے دل میں مر چکی ہوگی

غم زدوں کو ہے جس نے مارا وہ

غم نہیں غم کی آگہی ہوگی

دل نہ بہلے گا اس تسلی سے

صبر کر اس میں بہتری ہوگی

مجھ کو فیضان خوش گمانی ہے

وہ مری راہ دیکھتی ہوگی
 
برادرم فیضان، آداب!

ماشاء اللہ اچھی غزل ہے اور میری استطاعت کے مطابق شاید زیادہ اصلاح کی ضرورت بھی نہ ہو، استاد محترم ہی بہتر بتا سکتے ہیں۔ دو ایک نکات جو ذہن میں آئے وہ بیان کئے دیتا ہوں۔

تیرے دم سے ہے روشنی گھر میں
تو نہیں ہو تو تیرگی ہوگی
مکرمی ظہیر بھائی نے کچھ عرصہ قبل بیان کیا تھا کہ کلمہ نہی کے لئے شعر میں نہ کا استعمال زیادہ مستحسن ہوتا ہے بہ نسبت نہیں کے۔ مزید برآں شعر کا اسلوب اس طرح کا ہے کہ دوسرا مصرعہ صیغہ مستقبل کا متقاضی ہے۔ اس کو یوں سوچ کر دیکھیں۔
تو نہ ہوگا تو تیرگی ہوگی۔
ویسے تو اور تیرگی کے مابین تنافر اب بھی برقرار ہے مگر مجھے یہ اتنا ناگوار محسوس نہیں ہوا۔

ایک ہی موڈ ہوگا بن تیرے
مستقل دل کو بے کلی ہوگی
"دل کو" کی بجائے "دل میں بے کلی ہوگی" کہنا شاید زیادہ مناسب ہوگا۔

غم زدوں کو ہے جس نے مارا وہ
غم نہیں غم کی آگہی ہوگی
"ہے مارا" کے بجائے "تھا مارا" شعر کے اسلوب سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے۔

ٹیس جس کی نہیں گئی اب تک
بات دل سے کہی گئی ہوگی
ٹیس کے بارے میں تو ہمیشہ یہی پڑھا سنا ہے کہ یہ اٹھتی ہے، سو اس کی ضد "دبنا" نہیں ہونی چاہیئے؟؟؟
ٹیس جس کی نہیں دبی اب تک
یا
درد جس کا نہیں گیا اب تک؟

دل نہ بہلے گا اس تسلی سے
صبر کر اس میں بہتری ہوگی
دوسرے مصرعے کو واوین میں لکھیں، کیونکہ یہاں حکایت نقل کی جارہی ہے۔

دعاگو،
راحل۔
 

فیضان قیصر

محفلین
برادرم فیضان، آداب!

ماشاء اللہ اچھی غزل ہے اور میری استطاعت کے مطابق شاید زیادہ اصلاح کی ضرورت بھی نہ ہو، استاد محترم ہی بہتر بتا سکتے ہیں۔ دو ایک نکات جو ذہن میں آئے وہ بیان کئے دیتا ہوں۔


مکرمی ظہیر بھائی نے کچھ عرصہ قبل بیان کیا تھا کہ کلمہ نہی کے لئے شعر میں نہ کا استعمال زیادہ مستحسن ہوتا ہے بہ نسبت نہیں کے۔ مزید برآں شعر کا اسلوب اس طرح کا ہے کہ دوسرا مصرعہ صیغہ مستقبل کا متقاضی ہے۔ اس کو یوں سوچ کر دیکھیں۔
تو نہ ہوگا تو تیرگی ہوگی۔
ویسے تو اور تیرگی کے مابین تنافر اب بھی برقرار ہے مگر مجھے یہ اتنا ناگوار محسوس نہیں ہوا۔


"دل کو" کی بجائے "دل میں بے کلی ہوگی" کہنا شاید زیادہ مناسب ہوگا۔


"ہے مارا" کے بجائے "تھا مارا" شعر کے اسلوب سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے۔


ٹیس کے بارے میں تو ہمیشہ یہی پڑھا سنا ہے کہ یہ اٹھتی ہے، سو اس کی ضد "دبنا" نہیں ہونی چاہیئے؟؟؟
ٹیس جس کی نہیں دبی اب تک
یا
درد جس کا نہیں گیا اب تک؟


دوسرے مصرعے کو واوین میں لکھیں، کیونکہ یہاں حکایت نقل کی جارہی ہے۔

دعاگو،
راحل۔
اپنا قیمتی وقت دینے کا بہت شکریہ راحل بھائی۔ آپ نے جن خامیوں کی طرف رہنمائی فرمائی آپ کے بتائے متبادل سے ان کو بدل دیا ہے۔
 
Top