آزاد نظم

منذر رضا

محفلین
نظم حذف کر دی گئی۔ بے شمار اغلاطِ عروضی کی وجہ سے۔
اور اس طفلانہ حماقت پہ اہلِ محفل سے معذرت کا طلبگار ہوں!
 
آخری تدوین:

ٕٕعاٸشہ

محفلین
السلام علیکم !
ایک آزاد نظم پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں:

ایک تازہ غزل
جو کہ تھی جابجا خون کے دھبوں سے سرخ
میں نے لاکھوں امیدوں کے بجتے ربابوں کے ساتھ
چارہ سازِ دل و جاں کے آگے سنائی
تو اس نے بہت داد دی
ایک اک شعر پر
شعر میں موتیوں کی طرح سے پروئے گئے ایک اک لفظ پر
جن کو خونِ جگر میں ڈبو کر کیا تھا زبس دیدۂ سرخ کی طرح سرخ
حرف ہا از جگر دادہ بودم توانِ فغاں
روشنی از رخِ روشنِ او بہ ہر حرف دادم
بہ خامہ ز مژگانِ او تیزی دادم
ز خامہ بہ ہر حرف دادم
مگر
سرخی و تیزی و روشنی
کچھ اثر کر نہ پائی
غزل
واہ ، کیا خوب ہے کی صداؤں کے کاکل میں گم ہو گئی

اس نے کچھ چارہ سازی نہ کی
مقصدِ شعر گوئی گیا
اس نے بیگانہ بن کر غزل کیوں سنی؟
خیر تھی؟

حسن ہی جانے یہ مصلحت
ہم کو کیا؟
لاؤ کاغذ،
غزل کہنی ہے
ایک تازہ غزل!
زبردست
 
ماشاء اللہ، بہت خوب ۔۔۔ ہم چونکہ فارسی دان نہیں سو وسطی حصہ تو مکمل نہیں سمجھ سکے :)
کچھ مقامات پر مجھے وزن کا مسئلہ محسوس ہورہا ہے۔ مثلا

ایک تازہ غزل
جو کہ تھی جابجا خون کے دھبوں سے سرخ
میں نے لاکھوں امیدوں کے بجتے ربابوں کے ساتھ
چارہ سازِ دل و جاں کے آگے سنائی
اگر مصرعے فاعلن کی تکرار پر موزوں ہیں تو دوسرے مصرعے کا محض فاع پر ختم ہونا مجھے مناسب نہیں لگ رہا۔
سے اور سرخ کے مابین تنافر بھی کھٹک رہا ہے۔
اگر دوسرے مصرعے کا سرخ اور تیسرے کا میں ایک ایک ہی رکن پر موزوں کئے گئے ہیں تو پھر آگے چل کر لاکھوں وزن میں پورا نہیں آرہا۔
دوسرے مصرعے کو یوں سوچ کر دیکھیں
جو کہ تھی جابجا، خون کے دھبوں سے احمریں
میں نے لاکھوں ۔۔۔ الخ

حرف ہا از جگر دادہ بودم توانِ فغاں
روشنی از رخِ روشنِ او بہ ہر حرف دادم
بہ خامہ ز مژگانِ او تیزی دادم
ز خامہ بہ ہر حرف دادم
ان مصارع میں بھی وزن کا مسئلہ محسوس ہوتا ہے۔ ہرگاہ کہ میں فارسی دان نہیں، مگر میرے خیال میں دادم میں دوسری دال متحرک ہوتی ہے۔ سو اگر دوسرے مصرعے کا آخری رکن فاعلان بھی رکھا جائے تو بھی مصرعہ زائد الوزن رہتا ہے۔
تیسرا اور چوتھا تو دونوں بحر سے خارج ہیں، بلکہ فعولن فعولن پر تقطیع ہورہے ہیں۔

امید ہے آپ نے میری معروضات کا برا نہیں مانا ہوگا۔
نظم زبان و بیان کے حوالے سے بہت اعلی پائے کی ہے۔ داد و مبارکباد قبول کیجئے۔

دعاگو،
راحل۔
 

منذر رضا

محفلین
شکریہ راحل صاحب، آپ نے توجہ فرمائی۔جہاں سرخ ہے وہاں میں نے مصرع ختم کر دیا، تو وہاں عروضی اجازت کے تحت فاعلن کو فاعلان باندھا۔خیر میں اس میں تدوین کر رہا ہوں، تا کہ اس کی موزونیت خراب نہ ہو۔
باقی فارسی کا حصہ بھی وزن میں ہے، ایک مرتبہ دوبارہ دیکھئے۔
شکریہ!
 
آخری تدوین:
جو کہ تی ۔۔۔ فاعلن
جا ب جا ۔۔۔ فاعلن
خو ن کے ۔۔۔ فاعلن
دب ب سے ۔۔۔ فاعلن
سر خ ۔۔۔ فاع ؟؟؟؟
مصرعے کے آخر میں فاعلان کیسے لارہے ہیں، کچھ روشنی ڈالیں۔

علاوہ ازیں، فارسی حصہ وزن میں ہے، بالکل، میں نے غور نہیں کیا کہ دادم اور بہ خامہ ایک ہی رکن پر "دم ب خا" تقطیع ہورہے ہیں۔ چونکہ دادم پر مصرعہ ختم ہورہا ہے، اس لئے لامحالہ اس مقام پر سکتہ لیا، جس کے سبب اگلے مصرعے میں وزن کے مسئلے کا اشتباہ ہوا۔
بہت معذرت اس غلطی کے لئے۔

دعاگو،
راحل۔
 

منذر رضا

محفلین
کچھ تدوین کی ہے لطفاََ دوبارہ نظر کیجئے، اصل میں تسبیغ یا ازالہ کے قانون کو یہاں استعمال کر رہا تھا!
 
اذالہ آخری فاعلن کو فاعلان بنادے گا، مگر جیسا کہ میں نے پچھلے مراسلے میں تقطیع کرنے کی کوشش کی تھی، عملا آپ کے مصرعے میں ایسا نہیں ہورہا تھا۔ اگر چوتھے رکن کو مذال کر بھی لیں تو سرخ کیسے وزن میں آئے گا؟ ممکن ہے میں کہیں غلطی کر رہا ہوں!

اب جو آپ نے بنت کی ہے، بصد معذرت عرض ہے کہ مجھے اس میں بھی مسئلہ محسوس ہورہا ہے۔
جو ک تی ۔۔۔ فاعلن
جا ب جا ۔۔۔ فاعلن
خو ک دب ۔۔۔ فاعلن
بو س سر خ ۔۔۔ فاعلان
۔۔۔۔۔۔
وہ م نے ۔۔۔ فاعلن
دیکھیئے یہاں "میں نے" ۔۔۔ "م نے" تقطیع ہورہا ہے۔ میں بطور ضمیر کی ی کا اسقاط میرے خیال میں روا نہیں ہوتا۔ واللہ اعلم
اسی طرح اس سے اگلے مصرعے میں اک روز جب کو فاعلن پر کیسے تقطیع کررہے ہیں، یہ جاننا چاہوں گا۔

دعاگو،
راحل۔
 

منذر رضا

محفلین
حضرتِ بالا!
جو کہ تھی جا بجا خوں کے دھبوں سے سرخ وہ
میں نے لاکھوں۔۔۔۔الخ
یوں تقطیع کر رہا ہوں
 
قبلہ، آپ مصرعوں کو اس طرح بیچ سے توڑتے رہیں گے تو قاری یونہی الجھتا رہے گا :) مزید برآں، آپ مکمل تقطیع کیجئے۔ لاکھوں یہاں پھر مسئلہ پیدا کر رہا ہے۔
جو ک تی ۔۔۔ فاعلن
جا ب جا ۔۔۔ فاعلن
خو ک دب ۔۔۔ فاعلن
بو س سر ۔۔۔ فاعلن
خ و مے ۔۔۔ فاعلن؟؟؟؟
ن لا ک ۔۔۔ ؟؟؟؟
 
آخری تدوین:

منذر رضا

محفلین
صاحب۔ اس نظم میں بہت غلطیاں ہیں، اس کی تصحیح کر کے دوبارہ پیش کروں گا۔ نشاندہی پہ راحل صاحب آپ کا ممنون ہوں!
 
جی، ماشاءاللہ اب سقم دور ہوگیا ہے۔
لفظ پر
جن کو خونِ جگر میں ڈبو کر کیا تھا زبس دیدۂ سرخ کی طرح سرخ اور
حرف ہا از جگر دادہ بودم توانِ فغاں
یہاں پہلے مصرعے میں سرخ کے بعد اور زائد ہے، اگر اس کو رکھیں گے تو اگلے مصرعے میں حرف ہا از کو حرف ہز تقطیع کرنا پڑے گا۔
اس کے علاوہ تو کہیں کوئی مسئلہ محسوس نہیں ہوتا۔

دعاگو،
راحل۔
 

الف عین

لائبریرین
درمیان میں فارسی گھسانے کی ضرورت؟
مجھے تو یہ مصرع اب بھی وزن میں نہیں لگ رہا ہے
جن کو خونِ جگر میں ڈبو کر کیا تھا زبس دیدۂ سرخ کی طرح احمریں
احمریں سے پہلے شاید 'سے' چھوٹ گیا ہے
 
نظم حذف کر دی گئی۔ بے شمار اغلاطِ عروضی کی وجہ سے۔
اور اس طفلانہ حماقت پہ اہلِ محفل سے معذرت کا طلبگار ہوں!
ارے بھائی اتنا جذباتی ہونے کی کیا ضرورت ہے!
جب آپ اپنا کلام ادبی محافل میں پیش کریں گے تو تھوڑے بہت نقد و نظر کا سامنا تو کرنا پڑے گا، اس میں دل چھوٹا کرنے والی کوئی بات نہیں۔
 

منذر رضا

محفلین
ارے بھائی اتنا جذباتی ہونے کی کیا ضرورت ہے!
جب آپ اپنا کلام ادبی محافل میں پیش کریں گے تو تھوڑے بہت نقد و نظر کا سامنا تو کرنا پڑے گا، اس میں دل چھوٹا کرنے والی کوئی بات نہیں۔
راحل صاحب محبت کے لئے ممنون ہوں، دل چھوٹا نہیں کیا، دراصل فحش (یعنی عروضی ) اغلاط سے مجھے خود بہت چڑ ہے، بس اسی لئے میں نے یہ نظم حذف کی( جب تک اس میں سے سقم ہائے عروضی ختم نہیں ہو جاتے اسے نظم کہنا بھی غلط ہے)۔
تو جب یہ نظم عروضی اغلاط سے پاک ہو جائے گی، تب انشا اللہ پیش کروں گا۔
مزید یہ کہ یہ حصہ پابندِ بحور شاعری کا ہے، یہاں ایسی اغلاط کرنا انتہائی نا زیبا لگتا ہے
 
Top