اردو جملہ کشید Urdu Sentence Splitter

سید عاطف علی

لائبریرین
رموز و اقاف یعنی پنکچویشن کے معیارات کو متعین کر کے اس کام کو آسان کیا جاسکتا ہے ۔البتہ ان کا حتمی تعین بجائے خود ایک مفصل مساعی کا متقاضی ہے ۔
 

الف نظامی

لائبریرین
رموز و اقاف یعنی پنکچویشن کے معیارات کو متعین کر کے اس کام کو آسان کیا جاسکتا ہے ۔البتہ ان کا حتمی تعین بجائے خود ایک مفصل مساعی کا متقاضی ہے ۔
جملے کا اختتام کا تعین کرنے کے لیے کیا اس سے کام چل سکتا ہے؟
کوڈ:
delimiters = ("!",".", "?", u"۔" ,u"؟")
 

دوست

محفلین
اردو ہیک کی گٹ ہب پر اس فنکشن کی اپڈیٹ (پُل ریکوئسٹ؟) کرنی چاہیئے۔ یہ جملوں کی کشید کا درست طریقہ نہیں ہے، اور ان کے کوڈ کی درستی ضروری ہے۔ کم از کم اس معاملے پر ایک گٹ ہب ایشو شروع کیا جائے؟
 

دوست

محفلین
اردوہیک والوں نے جو کوڈ لاگو کیا ہے وہ جملے الگ کرنے کی معیاری پریکٹس نہیں ہے۔ ان کا فنکشن جو ماحاصل فراہم کرتا ہے وہ جملے نہیں بلکہ ذیلی جملے ہیں، جنہیں انگریزی میں کلاز کہتے ہیں۔ یہ یقیناً کسی معاملے میں قابل استعمال ہوگا لیکن عمومی طور پر ایسی پریکٹس نہیں کی جاتی۔ اور اس کے لئے یا تو فنکشن میں پہلے سے ہی کوئی آرگیومنٹ ہونا چاہیے جو دو طرح کی حاصلات دے (کلاز اور املاء کی بنیاد پر جملے)، یا پھر مندرجہ بالا ایشو شروع کرنے کے بعد اب اس میں تبدیلی آنی چاہیے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
اس مسئلہ کا حل مل گیا ہے
مندرجہ ذیل فائل کی سطر 6 میں یہ چار الفاظ ( 'جنہیں','جس','جن','جو' ) شامل کرنے سے مسئلہ حل ہو جاتا ہے
urduhack/urduhack/tokenization/eos.py

URDU_CONJUNCTIONS = ['جنہیں','جس','جن','جو','اور', 'اگر', 'اگرچہ', 'لیکن', 'مگر', 'پر', 'یا', 'تاہم', 'کہ', 'کر']​
URDU_NEWLINE_WORDS = ['کیجئے', 'گئیں', 'تھیں', 'ہوں', 'خریدا', 'گے', 'ہونگے', 'گا', 'چاہیے', 'ہوئیں', 'گی',
'تھا', 'تھی', 'تھے', 'ہیں', 'ہے',
]
 
آخری تدوین:

دوست

محفلین
اس اے پی آئی کو اپڈیٹ ہونا چاہیئے، اوپن سورس اور گٹ ہب کا یہی فائدہ ہے۔ پُل ریکوئسٹ اور مرج؟
 

الف نظامی

لائبریرین
ایک خراب حال متن جس میں عربی ، اعراب ، وائٹ سپیسز ، تطویل اور متعدد ختمہ کے نشان موجود ہیں
" ﻭﻩ ﺟﻨﮕﻞ ﺑﯿﺎﺑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺳﻮﺍﺭﯼ ﭘﺮ ﺳﻔﺮ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﭘﯿﻨﺎ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ ۔۔۔۔ اِن شَاء اللہ آن۔۔۔ا جَان۔۔۔ا لَ۔۔۔گا رہے گا\n\n\t"
اس متن پر مندرجہ ذیل پائتھون سکرپٹ چلایا گیا
کوڈ:
from urduhack.normalization import normalize
from urduhack.preprocess import normalize_whitespace
from urduhack.tokenization import sentence_tokenizer

text=" ﻭﻩ ﺟﻨﮕﻞ ﺑﯿﺎﺑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺳﻮﺍﺭﯼ ﭘﺮ ﺳﻔﺮ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﭘﯿﻨﺎ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ ۔۔۔۔ اِن شَاء اللہ آن۔۔۔ا جَان۔۔۔ا   لَ۔۔۔گا        رہے گا\n\n\t"
# normalize function does not removes whitespace from text , so explicitly call to normalize_whitespace after normaliz
normalized_text = normalize_whitespace(normalize(text))
# remove tatweel from text
translation_table = dict.fromkeys(map(ord, '۔'), None)
normalized_text = normalized_text.translate(translation_table)
print('normalized text is:')
print(normalized_text)
# after sentencet tokenization multiple "۔۔۔۔" are eliminated
sentences=sentence_tokenizer(normalized_text)
print(sentences)
output:
وہ جنگل بیابان میں اپنی سواری پر سفر کر رہا تھا اس پر اس کا کھانا پینا بھی تھا۔۔۔۔ ان شاء اللہ آن۔۔۔ا جان۔۔۔ا ل۔۔۔گا رہے گا
['وہ جنگل بیابان میں اپنی سواری پر سفر کر رہا تھا۔', 'اس پر اس کا کھانا پینا بھی تھا۔', 'ان شاء اللہ آنا جانا لگا رہے گا']
>>>
 
اس مسئلہ کا حل مل گیا ہے
مندرجہ ذیل فائل کی سطر 6 میں یہ چار الفاظ ( 'جنہیں','جس','جن','جو' ) شامل کرنے سے مسئلہ حل ہو جاتا ہے
urduhack/urduhack/tokenization/eos.py

URDU_CONJUNCTIONS = ['جنہیں','جس','جن','جو','اور', 'اگر', 'اگرچہ', 'لیکن', 'مگر', 'پر', 'یا', 'تاہم', 'کہ', 'کر']​
URDU_NEWLINE_WORDS = ['کیجئے', 'گئیں', 'تھیں', 'ہوں', 'خریدا', 'گے', 'ہونگے', 'گا', 'چاہیے', 'ہوئیں', 'گی',
'تھا', 'تھی', 'تھے', 'ہیں', 'ہے',
]

یہی مسئلے کی جڑ ہے ، اس کے علاوہ سٹاپ ورڈز پر میں نے بھی ایک فائل بنائی تھی اور اس پر ایک مفصل نظرثانی ہونی چاہیے کیونکہ سٹاپ ورڈز تحریری ڈیٹا کی تجزے میں بہت اہم ہیں۔ اردو ہیک والوں نے بھی علیحدہ سٹاپ ورڈذ (زائد الفاظ) کی فائل بنائی ہے اسی طرح میں نے بھی ایک صارف کی بنائی فائل میں تدوین کی تھی۔
 
اس جگہ پر نئے جملے کا تعین ہو رہا ہے اس پر بھی غور کی ضرورت ہے
PHP:
for index, word in enumerate(sentence):
                    if word in URDU_NEWLINE_WORDS and index + 1 < len(
                            sentence) and \
                            sentence[index + 1] not in URDU_CONJUNCTIONS:

                        new_sent += " " + word + "۔"
 

الف نظامی

لائبریرین
مندرجہ ذیل جملے کو دیکھیے:
چند دن پہلے ایک دوست سے ملاقات ہوئی، وہ رنجیدہ دکھائی دئیے، معلوم ہوا کہ ان کے ایک محلے دار کا نوجوان لڑکا انتقال کر گیا ہے، وہ کینسر کا مریض تھا۔
source of text
ہم کہاں جا رہے ہیں؟ ۔ محمد عامر خاکوانی - ادارہ انذار

اس میں سے مندرجہ ذیل جملے نکالے جا سکتے ہیں؟ جب کہ اردو ھیک اس کو ایک جملہ دکھا رہا ہے

  • چند دن پہلے ایک دوست سے ملاقات ہوئی
  • وہ رنجیدہ دکھائی دئیے
  • معلوم ہوا کہ ان کے ایک محلے دار کا نوجوان لڑکا انتقال کر گیا ہے
  • وہ کینسر کا مریض تھا

PHP:
from urduhack.normalization import normalize
from urduhack.preprocess import normalize_whitespace
from urduhack.tokenization import *

text='چند دن پہلے ایک دوست سے ملاقات ہوئی، وہ رنجیدہ دکھائی دئیے، معلوم ہوا کہ ان کے ایک محلے دار کا نوجوان لڑکا انتقال کر گیا ہے، وہ کینسر کا مریض تھا۔'
normalized_text = normalize_whitespace(normalize(text))
sentences=sentence_tokenizer(normalized_text)
print(sentences)
 

الف نظامی

لائبریرین
آج کچھ متن سے جملوں کو علیحدہ کیا تو ان میں سے لمبے ترین جملوں کی چند مثالیں یہاں درج کرتا ہوں

  1. عوام کی سہولت کیلئے انڈر پاسز اور فلائی اوورز بھی ہوتے ہیں‘ لیکن یہ معرکہ کہیں نہیں ملتا کہ صاف پانی میسر نہ ہو، سرکاری سکول اور ہسپتال برباد حالت میں ہوں اور محدود صوبائی وسائل غیر ضروری چیزوں پہ صرف ہو رہے ہوں‘ یہ یقین دلانے کیلئے کہ شیر شاہ سوری کے بعد اگر کوئی منتظم آیا ہے۔
  2. اس سے پہلے مغل اور سکھ دور کا پرانا لاہور دیوار کے اندر اکبر کے شاہی قلعے اور اورنگ زیب کی پرشکوہ بادشاہی مسجد کے قریب واقع تھا؛ تاہم وقت بدل گیا، ٹیمپل روڈ اور جیل روڈ پر کاروں کے شو رومز آن دھمکے، مال کے کیفے اور ریستوران غائب ہو گئے اور ان کی جگہ جوتوں اور کپڑوں کی دکانوںنے لی لے۔
  3. کچھ روز ہوئے مشہور مصنف مستنصر حسین تارڑ کے پاس حاضری دی اور جب پرانے لاہور کے قصے چھڑے تو انہوں نے کہا کہ کالج میں تھے‘ جب مشہور امریکی ایکٹر سٹیورٹ گرینجر ( ) اور لا زوال حسن رکھنے والی اداکارہ ایوا گارڈنر ( ) فلم بھووانی جنکشن کی شوٹنگ کے سلسلے میں لاہور آئے۔
  4. کچھ لوگ کہتے سنائی دیے کہ یہ پندرہ مارچ کو آئے گا، لیکن وسط مارچ گزر گیا، تو پھر کہا گیا کہ محترم جج صاحبان یوم پاکستان، تئیس مارچ کی فضا کو مکدّر نہیں کرنا چاہتے تھے، جبکہ میرا خیال ہے کہ اگر فیصلہ اس سے پہلے آ جاتا تو یہ ایک یادگار یوم پاکستان بن کر تاریخ کی کتب میں نمایاں حیثیت پاتا۔
  5. ذرا تصور کریں، اگر ایک یا دو دنوں کے لیے مال کو ٹریفک کے لیے بند کر دیا جائے، اس پر کوئی کار یا موٹر سائیکل نہ آئے، صرف سائیکل یا وزیر اعلی کی حال ہی میں متعارف کرائی گئی سرخ بسوں (یہ اقدام تمام اوورہیڈ میٹرو منصوبوں سے زیادہ فائدہ مند ہے) کو آنے کی اجازت ہو، تو اس سے ہر کسی کا بھلا ہو گا۔
  6. اپنی نوجوانی میں، میں راولپنڈی جانے والی بس پکڑتا، چند گھنٹے صدر میں گزارتا، لندن بک کمپنی جاتا اور اگر جیب میں پیسے ہوتے تو چند ایک کتابیں خریدتا، صدر کے سینمائوں اوڈین، پلازہ اور سیروز میں سے کسی ایک میں لگی ہوئی کوئی اچھی سی انگلش فلم دیکھتا، اور رات گئے بس میں بیٹھ کر واپس چکوال آ جاتا۔
  7. کیونکہ ہم نے ماضی میں دیکھا کہ ہمارے وزرائے اعظم نے کبھی امریکہ دورہ کرنے کا بہانہ ہاتھ سے نہ جانے دیا‘ جب یہ واضح بھی ہوتا تھا کہ ہمارے کسی وزیر اعظم کا نیویارک میں کوئی کام نہیں اور اسے تھوڑی سی پذیرائی ملنے کی توقع نہیں‘ پھر بھی پورا پورا جہاز بھر کے ہمارے وزرائے اعظم نیویارک جایا کرتے تھے۔
  8. آئے روز اخبارات میں خبر آتی کہ فلاں خان صاحب، سردار صاحب یا مخدوم صاحب اپنے لاکھوں ساتھیوں سمیت پیپلز پارٹی میںشامل ہو گئے ہیں‘ اور جب 1977ء کے الیکشن قریب آئے تو بھٹو صاحب نے ٹکٹوں کی تقسیم سیاسی لوگوں کی بجائے اپنے معتمد خاص بیوروکریٹوں کے ذمہ کر دی اور انہوں نے وہی کیا جو ان کی سمجھ میں آیا۔
  9. جو کے دئیے ہوئے پیسے اتنی آسانی سے بھول سکتے ہیں، جو اس بات سے مکر سکتے ہیں کہ مشرف دور میں دس سالہ معاہدے کے تحت سعودی عرب گئے، جو وزیر اعظم ہوتے ہوئے عرب امارات کا ورک پرمٹ اپنی جیب میں رکھ سکتے ہیں، جو قطر سے الف لیلوی داستانیں لا سکتے ہیں، جن کی اولادیں یہ کہیں کہ باہر تو دور کی بات ہے۔
  10. وہ گلیوں میں نکلتے، اپنے نظریات کی خاطر پولیس کی لاٹھیاں اور گولیاں کھاتے، انھوں نے ایوب خان کے خلاف احتجاج کیا، اور پھر انتہائی دائیں بازو کے حامل افراد نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک چلائی، 1983 ء میں اندرونی سندھ جنرل ضیا ء کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا، لیکن آج صولت کردار کا واحد مظاہرہ پیہم گفتار ہے۔
  11. پرانے سینما ختم ہو چکے، کتابیں قصہ ٔ پارینہ بن چکیں، پرانا شیزان ریستوران غائب ہے، آج کا پی سی (پرل کانٹی نینٹل) کبھی انٹر کانٹی نینٹل ہوا کرتا تھا اور پرانے لغزش آمیز لیکن پرمسرت دنوں میں اس کے بار کے گرد کھڑے ہونے کی بھی جگہ نہیں ہوتی تھی، خاص طور پر جب '' ‘‘ میں نرخ نصف کم کر دیے جاتے تھے۔
  12. ایک طویل عرصے تک کشمیریوں کے مصائب سے بڑی حد تک بیگانہ رہنے کے بعد اب اچانک دنیا کی آنکھیں کھل گئی ہیں‘ یا شاید یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ بھارتی سفاکیت کے سامنے کشمیری مزاحمت، اور کشمیر کے زمینی حقائق کے بارے میں دنیا کو کسی حد تک آگاہ کرنے کی سوشل میڈیا کی صلاحیت اب کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کر رہی ہے۔
  13. اس کے برعکس یہ دیکھیں کہ ہمارے سابق آرمی چیف، جنرل راحیل شریف، جنہوں نے پاکستانی طالبان کے خلاف کامیاب جنگ کی قیادت کرکے نام کمایا، اس فورس کی قیادت کرنے پہنچ چکے ہیں جو ابھی تو صرف کاغذ پر موجود ہے، لیکن اگر یہ واقعتا قائم بھی ہوگئی تو اس کا بنیادی ہدف داعش کو ختم کرنے کی بجائے سعودی عرب کا تحفظ ہو گا۔
  14. اگلے انتخابات پہ کیا اثرات پڑیں گے، احتساب عدالتوں میں شریف لوگوں کا کیا بنے گا، شریف خاندان کے اندرون خانہ حالات کیا ہیں، چوہدری نثار علی خان کا تازہ ترین ارشاد کیا ہے، گھر درست کرنے کی بات کے معنی کیا ہیں... یہ تو اب ایسی بیکار کی باتیں لگتی ہیں کہ کوئی ان پہ گفتگو چھیڑنے کی کوشش کرے تو جی چاہتا ہے۔
  15. پاکستان کی تاریخ اتنے وزرائے اعظم کو آتے اور جاتے دیکھ چکی ہے کہ ایک مرتبہ مولانا کوثر نیازی مرحوم نے کہا تھا کہ اسلام آباد میں وزرائے اعظموں کے لیے ایک الگ قبرستان ہونا چاہیے؛ تاہم بنیادی سوال اپنی جگہ پر موجود کہ نواز شریف صاحب نے اپنی اور اپنی فیملی کی دولت میں بے پناہ اضافہ کرنے کے سوا حاصل کیا کیا ہے؟
  16. افغانستان کی شورش میں ہم نے بھرپور خدمت گاری کی انتہا کر دی‘ لیکن ہمیشہ کی طرح تابعداری کی صحیح قیمت نہ لگوا سکے کیونکہ نام نہاد افغان جہاد امریکہ کے لئے بہت اہم تھا‘ ہم اپنی خدمات کے عوض کچھ بھی مانگ سکتے تھے‘ لیکن چند بلین ڈالر پہ اکتفا کیا اور 16 کا مسئلہ آیا تو ہم نے کہا کہ با غیرت قوم ہیں، جہاز لیں گے۔
  17. کئی ایک نے عروج انگریزوں کے زمانے میں پایا لیکن جو بھی ان کا سیاسی کردار تھا، بڑے نام تو تھے: سر فضل حسین، سر سکندر حیات اور 1947ء کے بعد افتخار حسین خان ممدوٹ، میاں ممتاز محمد خان دولتانہ اور پھر ایوبی دور میں نواب آف کالا باغ اور بھٹو صاحب کے زمانے میں مصطفی کھر (وہ مصطفی کھر جو مائی فیوڈل لارڈ کے پہلے سے تھے)۔
  18. ہمیں یقین دلایا گیا ہے کہ اس میچ کے نتیجے میں قومی اتحاد پروان چڑھا اور دہشت گردی پر کاری ضرب لگی، یا پھر یہ کہ پاکستان کی جیت اور دہشت گردی کو شکست ہوئی وغیرہ وغیرہ، لیکن ابھی قذافی سٹیڈیم کی لائٹس بند ہوئی ہی تھیں کہ مہمند ایجنسی میں ہماری تین فوجی چوکیوں پر ڈیونڈر لائن کے دوسری طرف سے دہشت گردوں نے حملہ کر دیا۔
  19. نواز شریف جیسے سوداگر اور سرمایہ دار انقلاب کی بات کریں‘ اور راتوں رات نظریاتی ہو جائیں‘ اس پختہ یقین کے ساتھ کہ بیوقوف عوام ان کی بات پہ فورا ایمان لے آئیں گے، شہباز شریف بانہیں ہلاتے ہوئے مترنم حبیب جالب کے اشعار گائیں اور آصف علی زرداری جمہوریت کی بقاء اور تسلسل کا درس دیں تو دیوار میں سر پھوڑنے کو دل نہیں چاہتا؟
  20. لہذا ایسے طبقات کے نوجوان پیروکاروں کا یہ عزم ہوتا ہے کہ کہیں ایسی تقریبات منعقد نہ ہوں‘ اور اگر کسی نے غلطی سے خوشی یا فکر کا اظہار کر لیا تو نوجوان پیروکار اپنا مشن سمجھتے ہیں کہ ایسی تقریبات کا حشر نشر کر دیا جائے‘ چاہے اس اعلی مقصد کے حصول کے لئے ڈنڈوں اور دیگر اسی قسم کی اشیا کا بھرپور استعمال ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
  21. اس کے باوجود ابھی تک قیاس کی دنیا آباد ہے کہ کچھ بھی ہو سکتا ہے، خاص طور پر جب اس جے آئی ٹی میں ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی کے نمائندے شامل ہیں‘ جو نہ صرف موثر بلکہ نمایاں کردار ادا کرتے ہوئے وزیر اعظم اور ان کی فیملی کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کر سکتے ہیں؛ چنانچہ دیکھنا اب یہ ہے کہ یہ جے آئی ٹی کیسے کام کرتی ہے۔
  22. ادائیگیوں کا توازن پہلے سے کہیں برہم، بیرونی ممالک سے زر مبادلہ کی ترسیل، جو قومی آمدنی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، میں نمایاں کمی، جبکہ اس دوران پی ایم ایل (ن) کے معاشی جادوگر، جناب اسحاق ڈار قومی قرضے میں ریکارڈ اضافہ کرتے ہوئے، اور اگر انہیں پانچ مزید سال مل گئے پاکستان کو یونان کی سی صورت حا ل کا سامنا ہو گا۔
  23. اگر امریکی صدر ہمیں متنبہ کرتا ہے کہ دہشت گرد تنظیموں کی پناہ گاہیں ہماری سرزمین پہ ہیں‘ تو ہم اس کا جواب بپھری ہوئی حب الوطنی سے دے سکتے ہیں‘ لیکن جب چین بھی دوسرے برکس ممالک کے ساتھ تقریبا یہی بات کہے اور انگلی لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسی تنظیموں پہ اٹھائے تو کیا یہ ہمارے لئے گریبان میں جھانکنے اور سوچنے کا مقام نہیں؟
  24. وہ جو تصویریں آئی ہیں کہ عمران خان ٹرمپ اور ان کی اہلیہ کے ساتھ کھڑے ہیں اور ملانیا بڑے خوشگوار موڈ میں مسکرا رہی ہیں، چاہے کسی پاکستانی کا تعلق نون لیگ سے ہو، پی پی پی سے یا پی ٹی آئی سے‘ یہ اقرار کرنا پڑے گا کہ امریکی خاتون اول اس انداز سے نہ آصف زرداری کے ہوتے ہوئے نہ نواز شریف کے نزدیک کھڑے ہوئے ایسا مسکرا سکتی تھیں۔
  25. دوسری طرف کشمیری نوجوان، عورتیں اور بچے بھارتی گولیوں کا نشانہ بن رہے ہیں، ان پر ایسا ایسا ظلم ڈھایا جا رہا ہے جس کا اپنے مقبوضہ علاقوں میں ارتکاب کرنے سے اسرائیلی بھی ہچکچاتے ہیں، لیکن ہمارے رہنما خاموش، ''جیسے تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ‘‘، اور ہمارے مذہبی رہنمائوں کا دیگر مبہم معاملات پر شعلہ بار جوش برف کی طرح سرد۔
  26. اس وقت کراچی میں ایم کیو ایم کو فقیدالمثال طاقت حاصل تھی، اور صحافتی برادری کے لوگ ذاتی تحفظ کے احساس سے پھوٹنے والی دانائی سے راہنمائی حاصل کرتے ہوئے اس کے خلاف کوئی لفظ نہیں لکھتے تھے‘ بلکہ تنقید کرتے ہوئے ایم کیو ایم کا نام لینے سے بھی پرہیز کرتے‘ لیکن یہی صحافت مشرف پر تنقید کے نشتر چلانے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کرتی۔
  27. اسلامی ہیرو انہوں نے کیا بننا تھا یا انہیں کون تسلیم کرتا ‘ جب 1977ء میں الیکشن دھاندلی کے نام پہ ان کے خلاف تحریک اٹھی تواس کی قیادت نام نہاد اسلام پسند قوتیں کررہی تھیں‘پھر جب اس تحریک کی پاداش میں ان کی حکومت کو الٹایا گیا اورفوج نے اقتدار پہ قبضہ کیا تو نئے بندوبست کے سربراہ جنرل ضیاء الحق نے اپنا منشور ہی اسلام کو بنایا۔
  28. ہمارے دوست جمیل یوسف‘ جو جانے پہچانے شاعر اور اس سے بڑھ کے زندہ دل شخصیت کے مالک ہیں... یہ ہرگز لازم نہیں کہ ہر شاعر زندہ دل ہو اور ہر زندہ دل شاعر ہو، کئی شاعروں کو دیکھ کے تو ہاتھ پستول یا ڈنڈے کی طرف جاتا ہے...‘ یہ کہتے ہیں کہ چکوال کالج کا یہ سٹیٹس مشہور مسلم لیگی رہنما اور قائد اعظم کے ساتھی راجہ غضنفر علی کے مرہون منت ہے۔
  29. چکوال کو چھوڑئیے، لاہور کے بیشتر علاقوں میں ماڈرن طبقے کی کوئی لڑکی نمودار ہو تو تمام راہگیروں اور دکانداروں کی نظریں وہاں گھوم جاتی ہیں؛ البتہ یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ لاہور کے جس سرائے میں میرا قیام ہوتا ہے اور مال کے جس کلب میں کبھی کبھار جاتا ہوں‘ کوئی ماڈرن خاتون گزر جائے تو وہاں کے کام کرنے والے اس طرف دھیان نہیں دیتے۔
  30. سازش بننے کی غرض سے بیگم عابدہ حسین کو میاں صاحبان نے اپنی مری کی رہائش گاہ پہ مدعو کیا اور جب وہ آئیں تو میاں محمد شریف نے بیگم عابدہ حسین کے والد کرنل عابد حسین کی تعریفوں کے پل باندھ دئیے اور کہا کہ میں وہ دن کبھی نہیں بھول سکتا جب کرنل عابد حسین ہماری برانڈرتھ روڈ والی دکان پر آئے اور کہا کہ میں نے اپنی زمینوں پہ ایک ٹیوب ویل لگوانا ہے۔
  31. لیاقت علی خان کی موت کے بعد فیصلہ کن سیاسی طاقت چار ہاتھوں میں رہی : گورنر جنرل غلام محمد ‘ بیوروکریٹ چوہدری محمد علی ‘ ڈیفنس سیکرٹری سکندر مرزا‘ جو بعد میں صدر جمہوریہ بن گئے اور جنرل ایوب خان جوفوج کی کمان کے ساتھ ساتھ وزیردفاع بھی بنادئیے گئے (ا ن ابتدائی سالوں کے بارے میں ڈاکٹر ناظر محمود کاانتہائی عمدہ مضمون ایک انگریزی معاصرمیں چھپا ہے)۔
  32. میرا خیال ہے کہ ان چیزوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، کیونکہ اگر آپ ٹیکسیوں میں میٹر نصب نہیں کرا سکتے، شہروں اور قصبوں میں چلنے والے رکشوں کو کسی قانون کے تحت نہیں لا سکتے، گلیوں سے کوڑا کرکٹ نہیں اٹھا سکتے یا کوڑے کے ڈھیروں سے پلاسٹک بیگ کی موجودگی کو کم نہیں کر سکتے، اور ہمیں اپنے شہروں کی صفائی کے لیے ترک یا چینی کمپنیوں کی خدمات حاصل کرنا پڑتی ہیں۔
  33. دستر خوان پرتکلف ہوتا اور کیونکہ خود سے کسی چیز کا مطالعہ کرنے کی سردردی کبھی نہیں لی تو نماز مغرب کے بعد پاکستانی پریس میں شائع ہونے والے اس دن کے وہ مضامین باآواز بلند پڑھ کر سنائے جاتے جن میں فوجی حکومت پر تنقید اور نواز شریف کی توصیف کی گئی ہوتی لیکن تمام تر سعودی آسائشوں کے باوجود دونوں شریف بھائی مقدس سرزمین کی بجائے گناہ گار مغرب کی فضا میں سانس لینا چاہتے تھے۔
  34. پرانا پاکستان ہی بہتر نیا پاکستان ہوتا! پلاسٹک کے شاپروں سے پہلے والا پاکستان‘ جب ندی نالے نسبتا صاف ستھرے ہوا کرتے تھے‘ انہیں نام نہاد ترقی کی وبا نہیں لگی تھی‘ حدود آرڈیننس سے پہلے کا پاکستان جب شب کی کارروائیوں پہ وہ قدغنیں نہ تھیں جو اب مملکت خدا داد کی روایات بن چکی ہیں‘ وہ پاکستان جب کسی مقدار میں منافقت تو تھی لیکن اس قدر وسیع پیمانے پہ نہیں تھی‘ جو اب معمول بن چکی ہے۔
  35. اس کے بعد ماڈل ٹائون کیس ہے، جس میں پولیس فائرنگ سے چودہ افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے تھے، اور ساری قوم نے وہ واقعہ ٹیلی وژن سکرین پر دیکھا تھا، لیکن تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کو کچھ دکھائی نہ دیا، یا کم از کم وہ افراد دکھائی نہ دیے جو اس واقعے کے ذمہ دار تھے؛ چنانچہ اگر ہم اپنی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو موجودہ جے آئی ٹی کی کارکردگی پر شک کرنے والوں کو دلائل اور جواز مل جاتے ہیں۔
  36. اب ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ تمام قوم، جسے اور بھی بہت سی پریشانیاں لاحق ہیں، دم سادھے اس کیس کے فیصلے کی منتظر ہے، اور اس کیس پر بہت سی چیزوں کا دارومدار ہے، جیسا کہ نواز شریف فیملی کی سیاسی قسمت، پی ایم ایل (ن) کا مستقبل اور بے شک، قومی سیاست کی سمت، لیکن کم از کم سیاسی طبقے اور سیاسی معاملات پر محو سخن رہنے والے گفتار کے غازیوں کی نگاہ اس سنسنی خیز ڈرامے کا پردہ اٹھنے کی منتظر ضرور ہے۔
  37. اور پھر منی لانڈرنگ پر محترم اسحاق ڈار کا طویل اعترافی بیان موجود ہے کہ وہ شریف فیملی کی ایما پر کیا کیا کچھ کرتے رہے، لیکن جب بنچ نے چیئرمین نیب سے پوچھا کہ کیا وہ یہ معاملہ از سر نو سپریم کورٹ کے سامنے اٹھاتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کرنا چاہتے ہیں، جس میں یک رکنی بنچ نے مسٹر ڈار کے اعترافی بیان کے بارے میں کہا تھا کہ اس ثبوت کی کوئی اہمیت نہیں ہے، تو چیئرمین نیب نے دوٹوک انداز میں انکار کردیا۔
  38. اس سے پہلے بھی ہمارے بھارت کے ساتھ مسائل تھے، خاص طور پر وہ جن کی جڑیں تقسیم ہند میں گڑی ہوئی تھیں، لیکن 1965ء کے بعد دونوں ممالک کے درمیان دیواریں بلند ہونے لگیں اور ان کے تعلقات پر دشمنی اور ایک دوسرے سے خوف کے سائے گہرے ہونے لگے، لیکن پھر بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر ابتدائی دور کے ان رہنمائوں کو ہم یاد کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ وہ بہت سے معاملات میں سطحی دانش کے مالک تھے، لیکن وہ کم از کم آج کے رہنمائوں کی طرح بدعنوان نہ تھے۔
  39. پاکستان میں مارشل لاء لگے، بڑی عدالتوں نے کیا کیا حیران کر دینے والے فیصلے نہ سنائے، جنگیں لڑی گئیں، ملکہ ترنم نور جہاں نے نہ بھولنے والے ترانے گائے، آدھا ملک چلا گیا، قومی سطح پہ عجیب عجیب افسانے گھڑے گئے، یہ آوازیں بھی آئیں کہ چونکہ جنرل یحیی خان اور ان کا ٹولہ شراب میں ڈوبا رہتا‘ اس لئے پاکستان کو مشرقی محاذ پہ شرمناک شکست ہوئی، لیکن اس سب اتار چڑھاؤ کے باوجود کسی دانشور یا مبلغ قوم کے ذہن میں یہ خیال نہ اٹھا کہ اس نازک مسئلے کو چھیڑا جائے۔
  40. جسٹس منیر، جنہوں نے سب سے پہلے ''نظریہ ٔ ضرورت‘‘ اختراع کیا، سے لے کر چیف جسٹس انوارالحق، جنہوں نے بھٹو کی سزائے موت کے حکم کو برقرار رکھا، اور چیف جسٹس ارشاد حسن خان تک، جنھوں نے جنرل مشرف کے جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کی کارروائی کی توثیق کر دی، اعلی عدلیہ یا تو مفاد پرستی کا شکار ہو گئی، یا پھر اس نے طاقتور کا ساتھ دینے میں ہی عافیت گردانی؛ تاہم چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کے لیے عدالت عالیہ نے آزادی کا شاندار مظاہرہ کیا، لیکن اس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔
 
آخری تدوین:
Top