سید احسان

محفلین
دو اشعار برائے اصلاح

پھر تو خوشبو سے ہوں معمور مرے دیدہ و دل
پھول گر خوشبو لئے آج مہکنے آئے
درِ خورشید کرو وا کہ اندھیرا ہے بہت
روشنی کم ہی سہی گھر میں ٹہلنے آئے

سید احسان
 
جزاک اللہ استاد محترم، میں یہ لکھتے ہوئے ڈر رہا تھا کہ کہیں چوک نہ ہوجائے :)

دو اشعار برائے اصلاح

پھر تو خوشبو سے ہوں معمور مرے دیدہ و دل
پھول گر خوشبو لئے آج مہکنے آئے
درِ خورشید کرو وا کہ اندھیرا ہے بہت
روشنی کم ہی سہی گھر میں ٹہلنے آئے

سید احسان
مکرمی احسانؔ صاحب، آداب
مرشدی و استاذی جناب اعجازؔ صاحب نے جو اجمالاً بیان کیا اس کی ذرا سی تفصیل بیان کردوں۔
ویسے مجھ سمیت، جدید شعرا کے یہاں یہ مسئلہ عام ہے، اور اکثر لوگ یہ غلطی کربیٹھتے ہیں، اس لئے پریشان نہ ہوں :)
میں نے امجد اسلام امجدؔ اور پروینؔ شاکر کے کلام میں بھی ایسی مثالیں دیکھی ہیں۔ امجد اسلام امجدؔ کی ایک مشہور غزل کا مطلع ہے
بھیڑ میں اک اجنبی کا سامنا اچھا لگا
سب سے چھپ کر وہ کسی کا دیکھنا اچھا لگا۔
اب دیکھئے، سامنا اور اور دیکھنا تو واضح طور پر صوتی اعتبار سے بھی میل نہیں کھاتے، اس کو امجدؔ صاحب نے مطلع میں قافیہ لے لیا ہے۔
بہرحال، مشاہیر کے کلام میں ایسی مثالوں کو تفردات قرار دیا جاتا ہے، اس سے سند پکڑنا مناسب نہیں ہوگا۔
علم قافیہ کا ایک اصول یہ ہے (اللہ کرے کہ میں درست بیان کرپاؤں) کہ اگر فوافی کسی مصدر سے بنائے جائیں تو ان کے مشترک حروف کو حذف کرکے کے فعل امر کے صیغوں کا باہم موازنہ کیا جائے گا کہ آیا وہ ہم صوت ہیں یا نہیں!
آپ کے اشعار کی مثال دیکھیں تو یہاں مہکنا اور ٹہلنا مصادر ہیں، جن کے صیغہ ہائے امر بالترتیب ’’مہک‘‘ اور ’’ٹہل‘‘ ہوں گے۔
آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں کہ یہ دونوں الفاظ ہم صوت نہیں۔ اگر پوری غزل میں ایسے ہی قوافی باندھے جائیں گے تو ان کا مشترک ’’نا‘‘ دراصل ردیف کا حصہ قرار پائے گا، اور قافیہ سرے سے قائم ہی نہیں ہوگا کیونکہ یہاں حرف روی کا تعین ناممکن ہے۔
یہاں یہ بات ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ آپ کے قوافی میں مطلقاً معیوب نہیں ہیں۔ چونکہ آپ نے محض دو اشعار قطعہ بند کہے ہیں، اس لئے اس میں ایطاء کا عیب در آیا ہے۔
اگر یہ غزل کے اشعار ہوتے، جس کے مطلعے میں قوافی کچھ اس طرح کے ہوتے کہ ایک ’’کے، سے، لے‘‘ وغیرہ پر ختم ہورہا ہوتا اور دوسرا ’’نے‘‘ پر، تو غزل کے دیگر اشعار میں مہکنے اور ٹہلنے کو بطور قافیہ لایا جاسکتا تھا۔
امید ہے کہ میں تفصیل درست بیان کرپایا ہوں گا، اور آپ نے اس تفصیل سے استفادہ کیا ہوگا۔
مزید تفصیل کے لئے ہمارے بزرگ استاد جناب سرور عالم راز سرورؔ صاحب کے درج ذیل مضمون کا مطالعہ مفید رہے گا۔
Sarwar Alam Raz Sarwar -- Articles | ادبی مضامین

جناب استادِ محترم الف عین سے گزارش ہے کہ ایک نظر دیکھ لیں، اور اگر میں نے کہیں کوئی غلطی کی ہو تو متنبہ فرمادیں۔ جزاک اللہ۔

دعاگو،
راحلؔ
 
آخری تدوین:
اور میں اس تفصیل کا پھر سے بانداز دگر اجمال کردوں ( :) ) کہ مہکنے کا قافیہ بہکنا ہو گا اور ٹہلنے کا قافیہ بہلنا ہو سکتا ہے ۔ باقی اوزان کا کچھ مسئلہ نہیں اشعار اچھے ہیں ۔
عاطف بھائی، لگے ہاتھوں یہ بھی بتا دیجئے کہ میں نے تفصیل میں کوئی غلطی تو نہیں کی؟ :)
 

سید احسان

محفلین
دل
جزاک اللہ استاد محترم، میں یہ لکھتے ہوئے ڈر رہا تھا کہ کہیں چوک نہ ہوجائے :)


مکرمی احسانؔ صاحب، آداب
مرشدی و استاذی جناب اعجازؔ صاحب نے جو اجمالاً بیان کیا اس کی ذرا سی تفصیل بیان کردوں۔
ویسے مجھ سمیت، جدید شعرا کے یہاں یہ مسئلہ عام ہے، اور اکثر لوگ یہ غلطی کربیٹھتے ہیں، اس لئے پریشان نہ ہوں :)
میں نے امجد اسلام امجدؔ اور پروینؔ شاکر کے کلام میں بھی ایسی مثالیں دیکھی ہیں۔ امجد اسلام امجدؔ کی ایک مشہور غزل کا مطلع ہے
بھیڑ میں اک اجنبی کا سامنا اچھا لگا
سب سے چھپ کر وہ کسی کا دیکھنا اچھا لگا۔
اب دیکھئے، سامنا اور اور دیکھنا تو واضح طور پر صوتی اعتبار سے بھی میل نہیں کھاتے، اس کو امجدؔ صاحب نے مطلع میں قافیہ لے لیا ہے۔
بہرحال، مشاہیر کے کلام میں ایسی مثالوں کو تفردات قرار دیا جاتا ہے، اس سے سند پکڑنا مناسب نہیں ہوگا۔
علم قافیہ کا ایک اصول یہ ہے (اللہ کرے کہ میں درست بیان کرپاؤں) کہ اگر فوافی کسی مصدر سے بنائے جائیں تو ان کے مشترک حروف کو حذف کرکے کے فعل امر کے صیغوں کا باہم موازنہ کیا جائے گا کہ آیا وہ ہم صوت ہیں یا نہیں!
آپ کے اشعار کی مثال دیکھیں تو یہاں مہکنا اور ٹہلنا مصادر ہیں، جن کے صیغہ ہائے امر بالترتیب ’’مہک‘‘ اور ’’ٹہل‘‘ ہوں گے۔
آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں کہ یہ دونوں الفاظ ہم صوت نہیں۔ اگر پوری غزل میں ایسے ہی قوافی باندھے جائیں گے تو ان کا مشترک ’’نا‘‘ دراصل ردیف کا حصہ قرار پائے گا، اور قافیہ سرے سے قائم ہی نہیں ہوگا کیونکہ یہاں حرف روی کا تعین ناممکن ہے۔
یہاں یہ بات ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ آپ کے قوافی میں مطلقاً معیوب نہیں ہیں۔ چونکہ آپ نے محض دو اشعار قطعہ بند کہے ہیں، اس لئے اس میں ایطاء کا عیب در آیا ہے۔
اگر یہ غزل کے اشعار ہوتے، جس کے مطلعے میں قوافی کچھ اس طرح کے ہوتے کہ ایک ’’کے، سے، لے‘‘ وغیرہ پر ختم ہورہا ہوتا اور دوسرا ’’نے‘‘ پر، تو غزل کے دیگر اشعار میں مہکنے اور ٹہلنے کو بطور قافیہ لایا جاسکتا تھا۔
امید ہے کہ میں تفصیل درست بیان کرپایا ہوں گا، اور آپ نے اس تفصیل سے استفادہ کیا ہوگا۔
مزید تفصیل کے لئے ہمارے بزرگ استاد جناب سرور عالم راز سرورؔ صاحب کے درج ذیل مضمون کا مطالعہ مفید رہے گا۔
Sarwar Alam Raz Sarwar -- Articles | ادبی مضامین

جناب استادِ محترم الف عین سے گزارش ہے کہ ایک نظر دیکھ لیں، اور اگر میں نے کہیں کوئی غلطی کی ہو تو متنبہ فرمادیں۔ جزاک اللہ۔

دعاگو،
راحلؔ
سر! دل سے ممنون ہوں اور استفادہ کیا ۔۔ نوازش
 
Top