صد سالہ دورِ چرخ تھا ساغر کا ایک دور ۔ ریاض خیر آبادی

فرخ منظور

لائبریرین
کچھ آگے قتل گاہ میں ہم سے اجل گئی
جانے سے پہلے جان ہماری نکل گئی

صد سالہ دورِ چرخ تھا ساغر کا ایک دور
نکلے جو مے کدے سے تو دنیا بدل گئی

رکھتے نہ کوئی نام جوانی کو اے ریاض
مہمان ایک رات کی آج آئی کل گئی

پروانہ آگ کا تھا بنا شمع موم کی
دیکھا جو بیقرار اسے یہ پگھل گئی

لطفِ شباب جام چھلکنے سے آ گیا
ڈھلنے لگی شراب، جوانی جو ڈھل گئی

(ریاض خیر آبادی)



 
Top