جنرل باجوہ کے اگلے تین سال

جاسم محمد

محفلین
جنرل باجوہ کے اگلے تین سال
عمران خان نئے سیاسی اور انتظامی گر سیکھنے سے قاصر ہیں۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ان کی ہٹ دھرمیوں نے سیاسی بحران کو جنم دیا ہے۔ ان کی کابینہ کے ممبران ان کی سیاسی سوچ اور فہم کے نمائندہ ہیں۔ وہ حکومت ایسے ہی چلائیں گے جیسے چلا رہے ہیں۔
سید طلعت حسین تجزیہ کار @TalatHussain12
سوموار 27 جنوری 2020 8:15

66541-1474502948.jpg

اصل معاملہ اس سوچ کا ہے جو جنرل باجوہ اور ان کے قریبی ساتھی موجودہ حالات کے تحت اپنائیں گے اور جس کے تحت وہ اگلے چند ماہ میں فیصلے کریں گے۔(تصویر:آئی ایس پی آر)

پاکستان فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اپنی مدت ملازمت کی دوسری قسط کے آغاز کے ساتھ ہی ایک ایسے چوراہے پر آن کھڑے ہوئے ہیں جہاں سے نکلنے والے مختلف راستوں میں سے کسی ایک کا انتخاب لازم ہو گیا ہے۔ یہ راستے پاکستان کو مختلف اور متضاد سمتوں میں لے جا سکتے ہیں۔ پاکستان کا کل کیا ہو گا؟ اس کا تعین آج کرے گا۔

پاکستان کی مخصوص تاریخ کے پیش نظر فوج کے کمان دار کے فیصلے عموماً طویل المدت اثرات کا باعث بنتے ہیں لیکن جنرل باجوہ کی ترجیحات اور ان کی روشنی میں اٹھائے گئے اقدامات بالخصوص اس وجہ سے اہم ہیں کہ پاکستان کی معیشت، معاشرت اور سیاست اور ان سے جڑا ہوا ہر شعبہ اس وقت آر یا پار کی صورت حال سے دوچار ہے۔ فی الحال کوئی تیسرا امکان یا کیفیت منظر پر نہیں ہے۔

دوسرے الفاظ میں یہاں سے قوم کی کشتی یا تو منجھدار کے بیچ گہرے پانیوں کی طرف گھومتی چلی جائے گی، یا گرداب سے آہستہ آہستہ دور ہوتی ہوئی امید کے ساحل کو روانہ ہو گی۔ اگرچہ بات رسوائی کی ہے مگر سچ یہی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اس وقت ایک خالی برتن کی طرح ہیں۔ شور زیادہ ہے اور شوربا کم۔

اصل معاملہ اس سوچ کا ہے جو جنرل باجوہ اور ان کے قریبی ساتھی موجودہ حالات کے تحت اپنائیں گے اور جس کے تحت وہ اگلے چند ماہ میں فیصلے کریں گے۔ یہ سوچ کیا ہو سکتی ہے؟ اس پر بحث کی بڑی گنجائش ہے۔ عمران خان کہتے ہیں کہ فوج ان کے پیچھے کھڑی ہے۔ اپوزیشن کا خیال ہے کہ پیچھے تو کھڑی ہے لیکن اتنی دور جا چکی ہے کہ وہاں سے حکومت کو سہارا دینا عملاً ممکن نہیں۔

ان متضاد آرا سے قطع نظر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جنرل باجوہ کے پہلے تین سال سیاسی تنازعات کی گہری دھند میں پھنسے رہے ہیں۔ ملکی سیاست میں ایک طوفان مچا جو 2018 کے متنازع انتخابات پر منتج ہوا اور پھر احتساب کے نام پر حزب اختلاف کی غیر معمولی درگت کا بندوبست کیا گیا۔ ان تبدیلیوں کا فائدہ اٹھانے والی جماعت یعنی تحریک انصاف اور ان کے اتحادی اس دوران جنرل باجوہ اور ان کے ادارے پر اتنے نچھاور ہوئے کہ ہر روز ثابت کرنے لگے کہ ان کو چلانے والی قوت پنڈی اور آبپارہ میں ہے۔ دوسری طرف تبدیلی کا نشانہ بننے والوں کے واویلوں نے عوامی رائے کی منڈی میں یہ تصور ہرطرف پھیلا دیا کہ ان کو گرانے والی قوت بھی وہی ہے جس نے عمران خان کو بنایا۔ ان قربتوں، الفتوں، نفرتوں اور زیادتیوں نے پاکستانی قوم کے ذہن کچھ ایسے تراش دیے ہیں کہ آج 2020 میں کوئی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ عمران خان کی کرسی ڈنڈے کے سہارے نہیں چل رہی۔

جنرل باجوہ اور فوج اس سیاسی پارٹی بازی میں پھنسے ہوئے کسی طور ایسے فیصلے نہیں کر سکتی جن کو ہر کوئی گہرے شک یا شوق کی عینک کےبغیر دیکھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قومی مفادات کے تحفظ کے لیے جن اقدامات کی ضرورت اور اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے جو قومی وحدت درکار ہے وہ موجودہ حالات میں میسر نہیں ہو سکتی۔

معیشت میں بحران یا ٹھہراؤ سے متعلق قومی بحث اس بری طرح بٹ گئی ہے کہ کوئی قومی معاشی ایجنڈہ بن ہی نہیں سکتا۔ اگر معاشی ایجنڈہ نہیں بنے گا تو اگلے دس سال شب و روز کی اسی بےفائدہ بحث میں گزر جائیں گے کہ کون صحیح ہے اور کون غلط۔

یہی حال اہم دفاعی امور کا ہے۔ بھارت کے ساتھ تعلقات کو کشمیر پر دہلی کی واردات کے بعد ہم نے کیسے چلانا ہے؟ بھارت سے جنگ کیسے لڑنی ہے؟ لڑنی بھی چاہیے یا نہیں؟ حالت یہ ہے کہ اس ملک کا وزیر اعظم خود یہ طے کرنے سے قاصر ہے کہ اس کو بھارت کے بارے میں کیا بیان دینا ہے۔ ملک میں رہتے ہوئے عمران خان دنیا کو نیوکلیئر جنگ کے گہرے ہوتے ہوئے بادلوں سے ڈراتے ہیں۔ ٹوئٹر کے ذریعے دہلی کی جانب توپ کا یہ گولہ داغتے ہیں کہ اگر لائن آف کنٹرول پر شرپسندی جاری رہی تو پاکستان اس کا منہ توڑ جواب دے گا۔ لیکن سوئٹزرلینڈ میں کھڑے ہو کر فوری جنگ کے امکان کو خارج کرتے ہوئے امن کی سفید جھنڈی بلند کرتے ہیں۔

جس ملک کے وزیر اعظم کا ذہن امن اور جنگ کے حوالے سے یکسو نہ ہو وہاں پر قومی مفادات پر مبنی خارجہ پالیسی کے اہداف قومی بحث کے ذریعے کیسے متعین کیے جا سکتے ہیں۔ فوج کا سربراہ لاکھ زور لگا لے اس ملک میں اس وقت سیاسی تنازعے اتنے گہرے ہیں اور قیادت کے اذہان اتنے بٹ چکے ہیں کہ قومی ایجنڈے کا کوئی آئٹم حتمی شکل اختیار نہیں کر سکتا۔

ان گہری سیاسی دشمنیوں اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی قومی زندگی کو ایک قومی حکومت جوڑ سکتی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایسی کسی بھی حکومت کو بنانے کے لیے موجودہ نظام کو توڑے بغیر دوبارہ سے ڈھالنا ہو گا۔ عام زبان میں اس کو ان ہاؤس تبدیلی کہتے ہیں۔ یہ سننے میں تو بھلا محسوس ہوتا ہے مگر عملی طور پر اس کی افادیت نہ ہونے کے برابر ہے۔

پنجاب سے شروع کریں۔ یہاں پر ن لیگ کے پاس اسمبلی میں عددی ہتھیار موجود ہے۔ اگر پندرہ، بیس ایم پی ایز آگے پیچھے ہو جائیں تو ایوان کے اندر تبدیلی آ سکتی ہے۔ مگر ن لیگ کی قیادت کسی طور پنجاب میں حکومت لینے کی غلطی نہیں کرے گی۔ اس وقت جو حال اس صوبے کا بن گیا ہے اور جو وسائل کی قدغنیں آئی ایم ایف نے لگا دی ہیں ان کے پیش نظر جلدی سے کوئی انقلابی تبدیلی نہیں آ سکتی۔ لہذا ن لیگ عثمان بزدار کو گرتے ہوئے تو دیکھنا چاہے گی لیکن صوبے کی کمان سے دور ہی رہے گی۔

پنجاب میں ان ہاؤس تبدیلی کے نتیجے میں اگر پی ٹی آئی یا ان کے اتحادیوں کا کوئی نمائندہ بھی آ جائے تو بھی ملک کی آدھی آبادی پر مبنی اس صوبے کے حالات یہی رہیں گے۔ پی ٹی آئی کا ہر دوسرا لیڈر پنجاب کا چیف منسٹر بننے کی خواہش رکھتا ہے اور ہر تیسرا رہنما دوسرے لیڈر کی اس خواہش کو ناکارہ کرنے پر کمر باندھے ہوئے ہے۔ عثمان بزدار انتظامی طور پر ایک ناکام وزیراعلی ہیں۔ ان کے بعد آنے والے اپنے ساتھ لائے ہوئے سیاسی فساد کے باعث غیر فعال رہیں گے۔

خیبر پختونخوا میں بظاہر ان ہاؤس تبدیلی بہتر نتائج کا باعث بن سکتی ہے لیکن یہاں پر اندرونی سیاسی لڑائی پنجاب سے بھی کہیں بڑی اور وسیع ہے۔ نیا چیف منسٹر موجودہ طاقتور دھڑوں کے سیاسی لاشوں پر سے گزر کر ہی یہ مسند سنبھالے گا۔ بعد میں ہونے والا کشت و خون اس صوبے میں کسی اور قسم کا فساد برپا کر دے گا۔ یہ تصور کہ نئے فساد کو ’مینج‘ کرنا آسان ہے، ایک حماقت کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

بلوچستان سے زیادہ سیاسی طور پر ’مینج‘ کیا ہوا صوبہ اور کوئی نہیں۔ وہاں کی سیاسی لڑائیاں بھی بے قابو ہو رہی ہیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کا کوئی متبادل نہیں۔ تحریک انصاف سیاسی رنگیلوں سے بھری ہوئی ہے اور ایم کیو ایم کے مختلف دھڑے ایک دوسرے سے پرانے بدلے لے رہے ہیں۔ یہاں پر ان ہاؤس تبدیلی کا امکان یا اس کی افادیت دونوں پر ایک سوالیہ نشان ہے۔

مرکز میں عمران خان کے بغیر پی ٹی آئی کی حکومت قائم نہیں رہ سکتی۔ یہ سوچنا کہ عمران کی جگہ کوئی اور آ جائے گا اور موجودہ نظام قائم رہے گا ایک فضول خیال ہے۔ عمران خان کے ہٹتے ہی مرکز میں حکومت سازی ایک بے فائدہ کھیل بن جائے گا۔ لہذا ان ہاؤس تبدیلی صوبوں اور مرکز کی حد تک کسی قومی مسئلے کا حل نہیں ہے۔

دوسرا آپشن موجودہ نظام کو موجودہ حالت میں قائم رکھنے کا ہے۔ جنرل باجوہ نے دیکھ لیا ہے کہ ایک وزیر اعظم کو گھر بھجوانے کی قیمت قوم کو کیسے چکانی پڑتی ہے۔ وہ دوسرے وزیر اعظم کو وقت سے پہلے گھر بھیجنے والا ماحول بنوانے میں کیوں کوئی کردار ادا کریں گے؟ لہذا جو ہے، جیسا ہے، جہاں ہے یہ فارمولا لگا کر وقت گزرنے دیں اور یہ امید بنائے رکھیں کہ کوئی معاشی کرشمہ، کوئی ترقیاتی منصوبے، کچھ مہنگائی میں کمی اور اس طرح کے درجنوں دوسرے اتفاقات اکٹھے ہو جائیں اور پی ٹی آئی کی حکومتیں سنبھل جائیں۔ یہ ایک ناقص امید ہے۔

عمران خان نئے سیاسی اور انتظامی گر سیکھنے سے قاصر ہیں۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ان کی ہٹ دھرمیوں نے سیاسی بحران کو جنم دیا ہے۔ ان کی کابینہ کے ممبران ان کی سیاسی سوچ اور فہم کے نمائندہ ہیں۔ وہ حکومت ایسے ہی چلائیں گے جیسے چلا رہے ہیں۔

جنرل قمر باجوہ اور ان کے ساتھیوں کو سوچنا یہ ہے کہ ان ہاؤس تبدیلی کے بے فائدہ پن اور موجودہ حکومت کے ثابت شدہ نکمے پن کے پیش نظر وہ قومی مسائل کے حل کے لیے سازگار ماحول کیسے بنا سکتے ہیں؟ شاید نئے انتخابات کے علاوہ کوئی اور ایسا راستہ موجود نہیں ہے جس کو اپنا کر یہ ملک بڑھتے ہوئے خلفشار اور پھیلتے ہوئے ہنگامے سے جان چھڑا سکے۔

یہ راستہ بھی کوئی آسان نہیں۔ لیکن باقی تمام آپشنز اس سے بھی زیادہ مشکل اور نقصان دہ ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
دوسرا آپشن موجودہ نظام کو موجودہ حالت میں قائم رکھنے کا ہے۔ جنرل باجوہ نے دیکھ لیا ہے کہ ایک وزیر اعظم کو گھر بھجوانے کی قیمت قوم کو کیسے چکانی پڑتی ہے۔ وہ دوسرے وزیر اعظم کو وقت سے پہلے گھر بھیجنے والا ماحول بنوانے میں کیوں کوئی کردار ادا کریں گے؟ لہذا جو ہے، جیسا ہے، جہاں ہے یہ فارمولا لگا کر وقت گزرنے دیں اور یہ امید بنائے رکھیں کہ کوئی معاشی کرشمہ، کوئی ترقیاتی منصوبے، کچھ مہنگائی میں کمی اور اس طرح کے درجنوں دوسرے اتفاقات اکٹھے ہو جائیں اور پی ٹی آئی کی حکومتیں سنبھل جائیں۔ یہ ایک ناقص امید ہے۔
جب تک مجھے لفافہ نہیں مل جاتا میں نا امیدی اور مایوسی پھیلاتا رہوں گا، طلعت حسین
 

فرقان احمد

محفلین
تبصرہ اس لیے کہ کہیں آپ یہ نہ سمجھ لیں کہ ہمیں آپ کا ٹیگ موصول نہیں ہوا۔ ویسے ہمارے ناقص خیال کے مطابق یہ اپوزیشن حد درجہ نکمی اور بدعنوانی میں لتھڑی ہوئی ہے۔ حکومتی صفوں میں شامل افراد کا بھی قریب قریب یہی حال ہے۔ اور، جن کو ہم مسیحا سمجھتے ہیں، وہ تو غالباََ سر کڑاھی میں ڈالے بیٹھے ہیں۔ اس لیے، ہمیں تو کچھ ہرا ہرا دکھائی نہیں دیتا ہے اور یہ بدقسمتی کی بات ہے۔ خان حکومت چاہے بھی تو عوام کو فی الوقت ریلیف فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ لگتا تو یہی ہے کہ آنے والے مہینوں میں حکومت مزید غیر مقبول ہو گی۔اپوزیشن اسٹیبلشمنٹ بالآخر ایک پیج پر آ سکتے ہیں کیونکہ حکومت کی غیر مقبولیت کا فائدہ اپوزیشن اٹھاتی ہے اور اسٹیبلشمنٹ بھی اپنے معاملات ان کے ساتھ سیٹ کرنے لگ جاتی ہے۔ ہم بھی یہی کہیں گے کہ شہباز شریف پر نظر رکھیں۔
 
Top