غزل برائے اصلاح : ہم بہاروں سے پہلے مر جائیں

ہم بہاروں سے پہلے مر جائیں
کاش! اس بار پُھول ڈر جائیں

تم زمانوں سے دُور جاؤ کہیں
ہم بھی شاموں کو اپنے گھر جائیں

اُس نے بانہوں میں بھر لیا ہے ہمیں
یار کیسے ؟ کہاں ؟ مُکَر جائیں

کیوں سمندر کے درمیاں سوچیں
ہے ہی مرنا تو چل گزر جائیں

عشق وحشت ہے یار سمجھو اسے
کیوں نہ پہلے سے ہم بکھر جائیں

تیری محفل میں روشنی ہے بہت
اب بتاؤ کہ ہم کدھر جائیں

(حُسین ہاشمی)
 
Top