چند شعر

عباد اللہ

محفلین
محیط کر کے ذات کو قیامتوں کے سیل کا
ستم گری تو دیکھئے شباب کہہ دیا گیا
مثالیہ، بہ اہتمام جو محالِ محض ہو
تراش کر اسے ہمارا خواب کہہ دیا گیا
کوئی بھی حرفِ پائمال پیشِ کلکِ معنی جو
رکھا تو پھر اسی کو باریاب کہہ دیا گیا
ہماری سرسری نگاہ گر کسی پہ پڑ گئی
اسے جہان بھر کا انتخاب کہہ دیا گیا
یہ کور باطنی و کج نگاہیِ زمانہ ہے
کہ تشنگی کے صدق کو سراب کہہ دیا گیا
عباد اللہ
 

عاطف ملک

محفلین

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اچھے شعر ہیں عباداللہ! بہت خوب! واہ!

محیط کر کے ذات کو قیامتوں کے سیل کا: عباداللہ بھائی ، اس مصرع کو دیکھ لیجئے ۔ یہاں "سیل کا" کے بجائے " سیل پر" ہونا چاہئے ۔ کوئی چیز کسی پر محیط ہوتی ہے کسی کا محیط نہیں ہوتی ۔
 
Top