اسے دیکھا اسے چاہا اسے پایا اسے کھویا---برائے اصلاح

الف عین
شاہد شاہنواز
محمّد احسن سمیع راحل
------------
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
-------
اسے دیکھا اسے چاہا اسے پایا اسے کھویا
حسابِ زندگی دیکھا تو پہروں پھوٹ کر رویا
--------------
گزاری زندگی کیونکر خطاؤں میں گناہوں میں
لگے تھے داغ دامن پر تو کیوں ان کو نہیں دھویا
------------
قریبِ مرگ پہنچے ہو کرو توبہ گناہوں سے
تحمّل سے کبھی سوچو کہ کیا پایا ہے کیا کھویا
------------
دعائیں مانگتے ہیں لوگ تیری قبر پر آ کر
وہ کیا جانیں کہ پاپی تھا زمیں اوڑھے ہے جو سویا
------------
حسینوں کی محبّت ہے ترے دل میں ابھی ارشد
تمہیں نفرت گناہوں سے ہوئی اب تک نہیں گویا
-------یا
خدا کی یاد سے غافل ابھی ہے دل ترا گویا
 
مکرمی ارشدؔ صاحب، آداب!
اسے دیکھا اسے چاہا اسے پایا اسے کھویا
حسابِ زندگی دیکھا تو پہروں پھوٹ کر رویا
فاعل موجود نہیں ہے۔ کون پھوٹ کر رویا؟ یوں سوچ کردیکھیں
حسابِ زندگی کو دیکھ کر میں پھوٹ کر رویا
ویسے عموماً اس مفہوم کی ادائیگی کے لئے لفظ گوشوارہ زیاہ استعمال کیا جاتا ہے، یعنی وہ مادی یا غیر مرئی شے جس پر حسابِ زندگی لکھا ہو۔
میں اپنی زندگی کا گوشوارہ دیکھ کر رویا

گزاری زندگی کیونکر خطاؤں میں گناہوں میں
لگے تھے داغ دامن پر تو کیوں ان کو نہیں دھویا
یہاں بھی فاعل موجود نہیں۔ مزید برآں خطاؤں اور گناہوں کا متواتر آنا اتنا اچھا نہیں لگ رہا، بھرتی کا معلوم ہوتا ہے۔ اسکے علاوہ دامن کے داغ کیسے دھوئے جاتے، یہ بھی واضح نہیں ہورہا۔
فی الحال کوئی متبادل میرے ذہن میں نہیں آرہا۔

قریبِ مرگ پہنچے ہو کرو توبہ گناہوں سے
تحمّل سے کبھی سوچو کہ کیا پایا ہے کیا کھویا
میرے خیال میں قریبِ مرگ پہنچے ہو کہنا روزمرہ کے خلاف ہوگا۔ عام طور پر قریب المرگ ہونا کہا جاتا ہے۔


حسینوں کی محبّت ہے ترے دل میں ابھی ارشد
تمہیں نفرت گناہوں سے ہوئی اب تک نہیں گویا
-------یا
خدا کی یاد سے غافل ابھی ہے دل ترا گویا
میرے خیال سے موخر الذکر صورت بہتر ہے۔ بس ’’ابھی ہے‘‘ کو ’’ اب تک‘‘ کردیں۔
پہلے مصرعے کو یوں سوچ کر دیکھیں
حسینوں کی محبت آج بھی دل میں ترے ارشدؔ؟
خدا کی یاد سے غافل ہے اب تک دل ترا گویا!

دعا گو،
راحلؔ۔
 
الف عین
شاہد شاہنواز
محمّد احسن سمیع راحل
----------------------
اسے دیکھا اسے چاہا اسے پایا اسے کھویا
مآلِ زندگی دیکھا میں پہروں پھوٹ کر رویا
--------یا
کتابِ زیست کو پڑھ کر میں پہروں بیٹھ کر رویا
--------------
ندامت سے جھکی آنکھیں ، جوابِ جرم کیا ہو گا
خدا کا خوف جاگا یوں میں راتوں کو نہیں سویا
-------------
گزاری زندگی تم نے گناہوں میں خطاؤں میں
-----------یا
گزاری زندگی تم نے محبّت میں حسینوں کی
لگے تھے داغ دامن پر تو کیوں ان کو نہیں دھویا
----------
دعائیں مانگتی ہے دنیا تیری قبر پر آ کر
وہ کیا جانے کہ پاپی تھا زمیں اوڑھے ہے جو سویا
-----------
حسینوں کی محبّت ہے ابھی دل میں ترے باقی
خدا کی یاد سے غافل ابھی ہے دل ترا گویا
---------
یہ باتیں ہیں سدا ارشد دلوں میں یاد رکھنے کی
وہ کاٹو گے وہاں جا کر یہاں تم نے ہے جو بویا
-----------
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
اسے دیکھا اسے چاہا اسے پایا اسے کھویا
مآلِ زندگی دیکھا میں پہروں پھوٹ کر رویا
--------یا
کتابِ زیست کو پڑھ کر میں پہروں بیٹھ کر رویا
-------------- کتاب زیست والا شعر بہتر ہے

ندامت سے جھکی آنکھیں ، جوابِ جرم کیا ہو گا
خدا کا خوف جاگا یوں میں راتوں کو نہیں سویا
-------------' ندامت سے جھکی آنکھیں ' تو مکمل فاعل ہوا، فعل کہاں ہے؟ جملہ اس طرح ہو سکتا ہے کہ ندامت سے آنکھیں جھکی ہوئی ہیں '
جوابِ جرم بھی بے معنی لگتا ہے
اس شعر کو نکال دیا جائے

گزاری زندگی تم نے گناہوں میں خطاؤں میں
-----------یا
گزاری زندگی تم نے محبّت میں حسینوں کی
لگے تھے داغ دامن پر تو کیوں ان کو نہیں دھویا
---------- دوسرا متبادل بہتر ہے

دعائیں مانگتی ہے دنیا تیری قبر پر آ کر
وہ کیا جانے کہ پاپی تھا زمیں اوڑھے ہے جو سویا
----------- دنیا کا الف گرنا اچھا نہیں
دعائیں مانگتے ہیں سب تری تربت پہ آ آ کر
وہ کیا جانیں.....
بہتر ہو گا

حسینوں کی محبّت ہے ابھی دل میں ترے باقی
خدا کی یاد سے غافل ابھی ہے دل ترا گویا
--------- درست

یہ باتیں ہیں سدا ارشد دلوں میں یاد رکھنے کی
وہ کاٹو گے وہاں جا کر یہاں تم نے ہے جو بویا
----------- ٹھیک ہے
 

الف عین

لائبریرین

الف عین

لائبریرین
Top