مہ جبین

محفلین
واہ واہ بہت زبردست کلام
اور اس پر شروع کے تعارف اور تمہید اور پھر ترجمے نے تو سانے پر سہاگے کا کام کیا ہے
واقعی جب میں فارسی کلام کا اردو ترجمہ پڑھتی ہوں تو بے اختیار ترجمہ کرنے والے کے لئے دل سے دعائیں نکلتی ہیں

جزاک اللہ خیراً کثیراً محمد وارث بھائی ، سدا خوش رہیں
 

حسان خان

لائبریرین
ایک توضیح لازم ہے کہ یہاں شیخ فخرالدین عراقی کی نسبت 'عراقی' میں جس عراق کی جانب اشارہ ہے وہ سرزمینِ بین النہرین یا دجلہ و فرات کا مُلک 'عراقِ عرب' نہیں ہے، بلکہ اِس سے 'عراقِ عجم' کا خطہ مراد ہے جو موجودہ ایران میں واقع ہے اور جس کے اہم شہروں میں ہمَدان، کاشان، اصفہان، رَے اور قُم وغیرہ شامل ہیں۔ شیخ فخرالدین کا تعلق عراقِ عجم کے شہر ہمدان سے تھا، اِسی لیے اُنہِیں 'عراقی' کہا جاتا ہے۔
فارسی شاعری کا تاریخی سَبکِ ثانی 'سبکِ عراقی' بھی اِسی خطے سے منسوب ہے۔
ابتدائی اسلامی دور میں اِس خطے کو 'جِبال' کہا جاتا تھا اور اموی و عباسی خلافتوں میں یہ ایک صوبہ تھا، لیکن سلجوقی دور سے اِسے 'عراقِ عجم' کہا جانے لگا تھا، اور نامِ 'جِبال' متروک ہو گیا تھا۔


دانش نامۂ ایرانیکا میں 'عراقِ عجم' کے بارے میں پڑھیے:
ʿERĀQ-E ʿAJAM(Ī) – Encyclopaedia Iranica

مندرجۂ ذیل نقشے میں نارنگی حصہ 'عراقِ عجم' ہے۔

619px-Lagekarte_Dschibal.jpg
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
کیا یہاں قوت کو بے تشدید نہیں ہونا چاہیے؟
جی آپ نے درست فرمایا عباد اللہ صاحب، یہ میری غلطی ہے۔

یہاں لفظ "قوت" واؤ کی تشدید کے ساتھ بمعنی طاقت استعمال نہیں ہوا بلکہ "قُوت" واؤ کی تشدید کے بغیر بمعنی خوراک استعمال ہوا ہے، جیسے 'قوت لا یموت' محاورے میں استعمال ہوتا ہے بمعنی اتنی خوراک جس سے انسان موت سے بچا رہے۔ اسی طرح نظیری کےدرج ذیل شعر میں ہے۔ (نظیری کی اس غزل کا میں نے ترجمہ کیا تھا اور تبھی اس لفظ کا مجھے علم ہوا تھا، عراقی کی غزل کا ترجمہ کرتے ہوئے غلطی کر گیا تھا)۔ :)

لختِ دل قُوت کُن و شکّرِ احباب مخواہ
دُودِ دل سُرمہ کُن و کُحلِ صفاہاں مَطَلب
اپنے دل کے ٹکڑوں کو ہی اپنی خوارک بنا اور دوسروں کی شکر نہ چاہ، اپنے دل کے دھویں کو سرمہ بنا لے اور اصفاہانی سرمے کی خواہش نہ رکھ۔
 
دخل در معقولات کی معافی چاہتے ہوئے۔

ایک مصرع یاد آگیا جس میں دوسرا قوت اسی دوسرے ہجا کے ساتھ تھا۔ اس وقت حیرت ہوئی تھی۔ اب سمجھ میں آگیا۔

اپنی قوّت سے قُوت حاصل کر​
 
Top