مجھ کو ہے تیرے آنے کا انتظار اب تک---برائے اصلاح

محمد خلیل الرحمٰن
الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:
شاہد شاہنواز
@سیّد عاطف علی
عظیم
------------
مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن
-----------
مجھ کو ہے تیرے آنے کا انتظار اب تک
بستا ہے میرے دل میں تیرا ہی پیار اب تک
---------------
لاکھوں حسین دیکھے گھومے جہان سارا
تجھ سا نظر نہ آیا وہ شاہکار اب تک
--------------
ہوں اجنبی جہاں میں کوئی نہیں ہے ساتھی
کوئی ملا نہیں جو ہو غمگسار اب تک
---------------
دنیا نے جو بنایا تھا بیچ میں ہمارے
ٹوٹا نہیں ہے ہم سے وہ بھی حصار اب تک
----------
وہ حسن تیرے کا جادو مجھ پہ ہو گیا جو
اُترا نہیں ہے سر سے اس کا خمار اب تک
----------------
اس بات سے میں خوش ہوں تجھ سے وفا ملی ہے
میرا یہ دل ہے تیرا ہی قرضدار اب تک
---------------
ایسا کبھی نہ ہو گا ارشد تجھے بُھلا دے
اس کے ہے دل پہ تیرا ہی اقتدار اب تک
 
آخری تدوین:
مکرمی جناب ارشد صاحب، آداب!
ایک اصول، جو استادِ محترم پہلے کسی دوسری لڑی میں بھی بیان فرما چکے ہیں، وہ ذہن نشین رکھئے۔ اگر کسی شکستہ بحر میں شعر کہا جائے (یعنی ایسی بحر جس میں افاعیل کے کسی گروپ کی تکرار ہو، جیسا کہ آپ کی اس غزل کی بحر ہے) تو اس بات کا اہتمام کرنا چاہیئے کہ افاعیل کے ہر گروپ کے مقابل ایک بامعنی فقرہ مکمل ہو رہا ہے اور بیان بیچ میں سے ٹوٹ نہ رہا ہو۔ علاوہ ازیں ایسی بحروں میں کسی لفظ کا دونوں گروپس کے درمیان تقسیم ہونا تو بالکل ہی ناجائز ہے۔ اب میں آپ کی غزل میں ایسے مقامات کی نشاندہی آپ پر ہی چھوڑتا ہوں، آپ خود دیکھئے کی کہیں کسی مصرعے میں ایسی صورتحال درپیش تو نہیں؟ میں یہاں صرف دیگر پہلوؤں کے حوالے سے کچھ تاثرات بیان کررہا ہوں۔

مجھ کو ہے تیرے آنے کا انتظار اب تک
بستا ہے میرے دل میں تیرا ہی پیار اب تک
ٹھیک ہے۔

لاکھوں حسین دیکھے گھومے جہان سارا
تجھ سا نظر نہ آیا وہ شاہکار اب تک
پہلے مصرعے میں گھومے جہان سارا کو گھوما جہان سارا کر دیں۔
دوسرے مصرعے میں ’’وہ‘‘ زائد ہے، ’’وہ‘‘ کے لئے شعر میں کوئی مشار ہے نہ ہی اس کی ضرورت، اس لئے یہ بھرتی کا معلوم ہوتا ہے۔

ہوں اجنبی جہاں میں کوئی نہیں ہے ساتھی
کوئی ملا نہیں جو ہو غمگسار اب تک
پہلے مصرعے میں غیر ضروری تعقید ہے۔ دوسرے مصرعے میں چونکہ جز اول میں بیان مکمل نہیں ہورہا ہے اس لئے آپ کا مقصود کہ ’’اب تک غمگسار نہیں مل سکا‘‘ واضح نہیں ہو پا رہا۔

دنیا نے جو بنایا تھا بیچ میں ہمارے
ٹوٹا نہیں ہے ہم سے وہ بھی حصار اب تک
حصار بیچ میں نہیں، ’’گِرد‘‘ بنایا جاتا ہے، بیچ میں دیوار بنائی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں دوسرے مصرعے میں ’’وہ بھی‘‘ حشو ہے۔

وہ حسن تیرے کا جادو مجھ پہ ہو گیا جو
اُترا نہیں ہے سر سے اس کا خمار اب تک
پہلا مصرعہ بحر سے خارج ہے (اشاراتی نظام سے تقطیع تو نہیں کر رہے؟)۔ دوسرے یہ کہ ’’حسن تیرے‘‘ کہنا غلط ہے۔ تیسرے یہ کہ خمار تو نشے کا ہوتا ہے، ’’جادو کے خمار‘‘ کا جواز مجھے معلوم نہیں، بظاہر تو یہ درست نہیں معلوم ہوتا۔

اس بات سے میں خوش ہوں تجھ سے وفا ملی ہے
میرا یہ دل ہے تیرا ہی قرضدار اب تک
الفاظ کا بھیر بدل کرکے دوبارہ فکر کرکے دیکھیں۔

ایسا کبھی نہ ہو گا ارشد تجھے بُھلا دے
اس کے ہے دل پہ تیرا ہی اقتدار اب تک
ردیف کا تقاضہ یہ ہے کہ پہلے مصرعے میں فعل ماضی قریب کا حال کا صیغہ استعمال کیا جائے۔

دعاگو،
راحلؔ
 
محمّد احسن سمیع :راحل:
(اصلاح کے کے بعد دوبارہ)
-------------
مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن
------------
مجھ کو ہے تیرے آنے کا انتظار اب تک
دل میں بسا ہے میرے تیرا ہی پیار اب تک
-------------
گھوما جہان سارا تجھ سا کہیں نہ پایا
دیکھے حسین چہرے ہیں بے شمار اب تک
--------------
ہوں اجنبی جہاں میں اپنا نہیں ہے کوئی
--------یا
پردیس میں ہوں رہتا کوئی نہیں ہے اپنا
مجھ کو ملا نہ کوئی بھی غمگسار اب تک
--------
دنیا کو دیکھتا ہوں تیری نظر سے اب میں
دل میں مرے ہے تیرا اتنا وقار اب تک
-------
تیری وفا ملی ہے میری ہے خوش نصیبی
میرا یہ دل ہے تیرا ہی قرضدار اب تک
------
دنیا نے جو بنایا چاروں طرف ہمارے
ٹُوٹا نہ ہم سے وہ بھی حصار اب تک
------------
تیری وفا ملی ہے میری ہے خوش نصیبی
---------یا
تیری وفا بُھلا دوں ایسا کبھی نہ ہو گا
میرا یہ دل ہے تیرا ہی قرضدار اب تک
--------------
اک بار یہ ہوا تھا تیرا تھا دل دُکھایا
اس بات پر میں رہتا ہوں شرمسار اب تک
--------
بچپن سے لے کے اب تک ارشد رہا ہے تیرا
اس کے ہے دل پہ تیرا ہی اقتدار اب تک
-----------
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
مجھ کو ہے تیرے آنے کا انتظار اب تک
دل میں بسا ہے میرے تیرا ہی پیار اب تک
۔۔۔۔آنے کا تیرے مجھ کو ہے انتظار اب تک ۔۔۔ یا ایسی ہی کوئی صورت شاید بہتر لگے، ویسے جو آپ نے تحریر کیا، وہ غلط نہیں۔۔۔۔

گھوما جہان سارا تجھ سا کہیں نہ پایا
دیکھے حسین چہرے ہیں بے شمار اب تک
۔۔۔ یہ بھی وہی کمزوری ہے میری نظر میں ۔۔۔ میں اسے کمزوری کہتا ہوں، کیوں؟ یہ شاید بتا نہ سکوں۔۔۔ بہرحال، دوسرے مصرعے کی دوسری صورت بھی دیکھئے:
کتنے تھے حسن والے، پایا نہ پیار اب تک ۔۔۔ یا اسی طرح کوئی دوسری صورت دیکھ سکتے ہیں۔۔۔
۔۔۔
ہوں اجنبی جہاں میں اپنا نہیں ہے کوئی
--------یا
پردیس میں ہوں رہتا کوئی نہیں ہے اپنا
مجھ کو ملا نہ کوئی بھی غمگسار اب تک
۔۔۔ اوپر کے دونوں ہی مصرعے کمزور ہیں۔۔۔ اور دوسرا بھی ۔۔ ایک نئی صورت بنا کے دیکھئے:
جب تو نہیں ہے میرا، دنیا ہی اجنبی ہے
مجھ کو نہیں ملا ہے کوئی غمگسار اب تک ۔۔۔

دنیا کو دیکھتا ہوں تیری نظر سے اب میں
دل میں مرے ہے تیرا اتنا وقار اب تک
۔۔ درست ہے ۔۔۔
تیری وفا ملی ہے میری ہے خوش نصیبی
میرا یہ دل ہے تیرا ہی قرضدار اب تک
------
دوسرے مصرعے میں وہی معاملہ نظر آتا ہے ۔۔
الفت میں میرا دل ہے ترا قرض دار اب تک
کر سکتے ہیں۔۔۔ اگر اچھا لگے
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
دنیا نے جو بنایا چاروں طرف ہمارے
ٹُوٹا نہ ہم سے وہ بھی حصار اب تک
------------دوسرا مصرع وزن میں نہیں ۔۔۔
ٹوٹا نہ ہم سے ایسا کوئی حصار اب تک
۔۔ لیکن اب آپ پر منحصر ہے، یہ مصرع آپ کے جذبات کو درست طور پر بیان کرتا ہے یا نہیں۔۔۔

تیری وفا ملی ہے میری ہے خوش نصیبی
---------یا
تیری وفا بُھلا دوں ایسا کبھی نہ ہو گا
میرا یہ دل ہے تیرا ہی قرضدار اب تک
--------------قرضدار کی بات تو ہم پہلے کر آئے ۔۔۔ یہاں اگر مصرعوں کو چننے کی بات ہے تو دوسرا انتخاب زیادہ درست لگتا ہے۔۔ تیری وفا بھلا دوں ایسا کبھی نہ ہوگا ۔۔۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں ہے جیسا کوئی لفظ دوہرایا نہیں جا رہا۔

اک بار یہ ہوا تھا تیرا تھا دل دُکھایا
اس بات پر میں رہتا ہوں شرمسار اب تک
۔۔۔ بے حد کمزور ہے ۔۔
اک بار یوں ہوا تھا، دل تیرا جب دُکھایا
رہنے لگا ہوں تب سے میں شرمسار اب تک
۔۔ میں نے اوپر آپ کے شعر کو کسی قدر بہتر بنایا، لیکن یہ مکمل طور پر آپ کے جذبات کا اظہار کرتا ہے یا نہیں، آپ جانیے۔۔۔
بچپن سے لے کے اب تک ارشد رہا ہے تیرا
اس کے ہے دل پہ تیرا ہی اقتدار اب تک
۔۔
ہے دل پہ اس کے تیرا اک اقتدار اب تک
۔۔۔ جبکہ پہلے مصرعے میں بچپن سے تا جوانی ارشد رہا ہے تیرا ۔۔۔
تاجوانی کے الفاظ اب تک کو ہٹانے کے لیے استعمال کیے گئے، ایسا ہی کچھ اور سوچئے، اگر یہ نامناسب لگے۔۔۔
 
الف عین
شاہد شاہنواز
----------------
اس غزل کو دوبارا کچھ اس طرح ترتیب دیا ہے ملاحظہ فرما لیں
---------
آنکھوں کو صرف تیرا ہے انتظار اب تک
تیرے بغیر دل ہے یہ بے قرار اب تک
-------------------
لاکھوں حسین دیکھے دنیا کی انجمن میں
لیکن نہ پایا تجھ سا جانِ بہار اب تک
---------------
اِس اجنبی جہاں میں ہمدم نہ کوئی ساتھی
دل تھا کہ بس وہی ہے اک غمگسار اب تک
----------------
دنیا نے جو اُٹھائی تھی بیچ میں ہمارے
ہم سے تو ڈھے نہ پائی وہ بھی دیوار اب تک
-----------
وہ حُسن جس کا جادو سر پر سوار تھا یاں
ہو نہ کسی سے اس کا اتار اب تک
----------------
تیرے رم پہ نازاں اور ہے بہت ہی نادم
یہ جاں کہ صرف تیری ہے قرضدار اب تک
--------------
ایسا نہیں کہ ارشد تجھ کو کبھی بھلا دے
ہے اس کے دل پہ تیرا ہی اقتدار اب تک
------------------
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
---------
آنکھوں کو صرف تیرا ہے انتظار اب تک
تیرے بغیر دل ہے یہ بے قرار اب تک
۔۔کمزور ۔۔۔ بہتری کی گنجائش موجود ہے ۔۔
لاکھوں حسین دیکھے دنیا کی انجمن میں
لیکن نہ پایا تجھ سا جانِ بہار اب تک
درست ۔۔۔
اِس اجنبی جہاں میں ہمدم نہ کوئی ساتھی
دل تھا کہ بس وہی ہے اک غمگسار اب تک
۔۔ دل تھا کہ بس وہی ہے سے ابہام پیدا ہوتا ہے میری رائے میں ،، سوچا تھا بس وہی ہے ۔۔۔ کر سکتے ہیں ۔۔
دنیا نے جو اُٹھائی تھی بیچ میں ہمارے
ہم سے تو ڈھے نہ پائی وہ بھی دیوار اب تک
۔۔ کمزور ۔۔۔ اور دیوار کا لفظ مجھے تو نہیں لگتا کہ تقطیع میں درست ہو ۔۔۔ دیوار کا دِوار کرنا درست نہیں سمجھا جائے گا۔
وہ حُسن جس کا جادو سر پر سوار تھا یاں
ہو نہ کسی سے اس کا اتار اب تک
۔۔ نہ کو نا کرنا بھی درست نہیں ۔۔۔ اتار ہونا درست محاورہ ہے یا نہیں محترم الف عین بہتر بتا سکتے ہیں۔۔۔
تیرے رم پہ نازاں اور ہے بہت ہی نادم
یہ جاں کہ صرف تیری ہے قرضدار اب تک
۔۔۔ پہلا مصرع سمجھ میں نہیں آسکا ۔۔۔ نازاں اور نادم دو متضاد جذبات لگتے ہیں، ایک ہی وقت ؟ رم سے مراد؟۔۔ دوسرا مصرع درست لگتا ہے۔۔
ایسا نہیں کہ ارشد تجھ کو کبھی بھلا دے
ہے اس کے دل پہ تیرا ہی اقتدار اب تک
۔۔۔ دوسرے مصرعے میں الفاظ کی نشست و برخاست یا تھوڑا بہت ردوبدل کرکے مزید بہتر کرسکیں تو بہتر ۔۔۔ بصورتِ دیگر چل جائے گا۔۔
 

الف عین

لائبریرین
دو ٹکڑوں میں ٹوٹنے پر میرے اعتراضات پر غور نہیں کیا گیا۔ راحل نے اس کی نشان دہی کی تھی لیکن آپ کی صوابدید پر چھوڑ دیا
دنیا نے جو اُٹھائی.... تھی بیچ میں ہمارے
اب بھی غلط ہے
 
شاہد شاہنواز
------
کتابت کی غلطی کی بنا پر آپ ٹھیک پڑھ نہیں سکے
----------
تیرے کرم پہ نازاں اور ہے بہت ہی نادم
یہ جاں کہ صرف تیری ہے قرضدار اب تک
-----------
دوسرا شعر یوں ہے
----------
وہ حُسن جس کا جادو سر پر سوار تھا یاں
ہو نہ سکا کسی سے اس کا اتار اب تک
----------
اس شعر کو یوں بھی کر سکتے ہیں
------
وہ حسن تیرے کا جادو مجھ پہ ہو گیا جو
اُترا نہیں ہے سر سے اس کا خمار اب تک
----------------
 

الف عین

لائبریرین
پہلے شعر میں اور کا اُر تقطیع ہونا درست نہیں
دوسرے شعر میںآپ سحر یا جادو کے اتار/خمار کی بات کر رہے ہیں لیکن الفاظ میں صرف حسن کی بات ہی ہے
'حسن تیرے کا' بجائے 'تیرے حسن کا' آپ کے علاوہ کسی کے ذہن میں شاید ہی آ سکے!
متبادل شعر میں جا.... دو ٹوٹ رہا ہے
 
الف عین
تیری وفا ملی ہے میری ہے خوش نصیبی
میرا یہ دل ہے تیرا ہی قرضدار اب تک
------
تیرا ہی حسن تھا وہ جس پر میں دل تھا ہارا
نکلا نہیں ہے دل سے تیرا وہ پیار اب تک
----------------
 
Top