صدر ٹرمپ کی ایران کی جانب سے کسی کارروائی کے ردعمل میں 52 مقامات پر حملوں کی دھمکی

الف نظامی

لائبریرین
پیارے بھائی! میں نے تو ایک جملہ گرہ سے باندھ لیا ہے۔ یہ جملہ بھی ہے اور فلسفہ بھی:

"تسی لنگھ جاؤ، ساڈی خیر اے۔"

دوسروں سے مقابلہ مت کریں، انھیں اوور ٹیک کرنے دیں۔ آپ اپنی دھیمی مستانہ چال چلتے رہیں۔ ہاں اپنی اصلاح سے غافل نہ ہوں۔
صورت حال اتنی سادہ نہیں۔ ٹرول نیٹ ورک کی طرف سے گزشتہ کئی سال سے ایک منظم منصوبے کے تحت پروپگنڈا مہم چلائی جا رہی ہے جس کے واضح مقاصد ہیں۔
 
امریکا نے ایران پر فضائی حملوں کا ارادہ ظاہر کیا ہے اور زمینی فوج بھیجنے سے اس لیے کترا رہا ہے کہ اس صورت میں اسے یقینی طور پر شکست ہو سکتی ہے۔
ہوائی حملوں کےلئے ایران کے پاس کچھ بھی نہیں ہے اور نا ہی ہوائی حملوں سے دفاع کا نظام ہے۔ ایران نے بہت سی نفری بھرتی کررکھی ہے ، جس کا صرف ایک کام ہے ، کہ یہ نفری ، ایرانی عوام کو دھمکاتی اور دہشت زدہ کرتی رہے، بلوچستان میں خانہ جنگی کرتی رہے اور معصوم افراد کو قتل کرتی رہے۔ امریکہ زمینی فوج اس وقت نہیں بھیجے گا جب تک اس ایرانی نفری کو برابر نا کردے ۔ یہ صرف ہوائی حملوں سے ہی ہو سکتا ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
ہوائی حملوں کےلئے ایران کے پاس کچھ بھی نہیں ہے اور نا ہی ہوائی حملوں سے دفاع کا نظام ہے۔ ایران نے بہت سی نفری بھرتی کررکھی ہے ، جس کا صرف ایک کام ہے ، کہ یہ نفری ، ایرانی عوام کو دھمکاتی اور دہشت زدہ کرتی رہے، بلوچستان میں خانہ جنگی کرتی رہے اور معصوم افراد کو قتل کرتی رہے۔ امریکہ زمینی فوج اس وقت نہیں بھیجے گا جب تک اس ایرانی نفری کو برابر نا کردے ۔ یہ صرف ہوائی حملوں سے ہی ہو سکتا ہے۔
امریکا شاید اس خطے میں کبھی زمینی فوج بھیج نہ پائےگا؛ یہ الگ بات کہ آپ کی یہ بات درست ہے کہ امریکی فضائیہ کو ایرانی فضائیہ پر یقینی طور پر انتہائی غیر معمولی سبقت حاصل ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
ہوائی حملوں کےلئے ایران کے پاس کچھ بھی نہیں ہے اور نا ہی ہوائی حملوں سے دفاع کا نظام ہے۔ ایران نے بہت سی نفری بھرتی کررکھی ہے ، جس کا صرف ایک کام ہے ، کہ یہ نفری ، ایرانی عوام کو دھمکاتی اور دہشت زدہ کرتی رہے، بلوچستان میں خانہ جنگی کرتی رہے اور معصوم افراد کو قتل کرتی رہے۔ امریکہ زمینی فوج اس وقت نہیں بھیجے گا جب تک اس ایرانی نفری کو برابر نا کردے ۔ یہ صرف ہوائی حملوں سے ہی ہو سکتا ہے۔
امریکی شہری کے پروپگنڈا کا تجزیہ:
1- سرخ تحریر ایک نام نہاد جسٹی فیکیشن جواز ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں جس کو عام آدمی کے لیے فیکٹ بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ یہ امریکہ کا پروپگنڈا ہو سکتا ہے لیکن پاکستان ایسا نہیں سمجھتا اور ہمارا بیک ڈور دفاعی تعاون ہمیشہ اور ہر حال میں خطے کے امن کے لیے عمل کرے گا۔

2- ہوائی حملوں کا جواز پیش کرنے سے قبل اس بات کا جواز پیش کر دیتے کہ:
ایک سٹیٹ ایکٹر (امریکہ ) نے ایک دوسرے سٹیٹ ایکٹر (جنرل قاسم سلیمانی) کو نان سٹیٹ ایکٹر کی طرح قتل کیا ہے جس کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
 

جاسم محمد

محفلین
ایک سٹیٹ ایکٹر (امریکہ ) نے ایک دوسرے سٹیٹ ایکٹر (جنرل قاسم سلیمانی) کو نان سٹیٹ ایکٹر کی طرح قتل کیا ہے جس کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
جب ایران کے حامی دہشت گرد عراق میں امریکیوں کو قتل کریں گے تو ظاہر ہے امریکہ بھی جوابی کاروائی کرے گا۔
Several American troops wounded and a US contractor killed in rocket attack on Kirkuk base
 

جاسم محمد

محفلین

جاسم محمد

محفلین
امریکا نے بغداد سے اپنی فوج واپس بلانے کی تردید کردی
ویب ڈیسک منگل 7 جنوری 2020
1943104-iraqx-1578347761-146-640x480.jpg

ہم عراق سے اپنی فوج واپس امریکا نہیں بلارہے، امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر . فوٹو : فائل

واشنگٹن: عراقی دارالحکومت بغداد سے امریکی فوجیوں کی غیر معمولی نقل و حرکت پر امریکا نے عراق سے اپنی فوج واپس بلانے کی خبروں کی تردید کردی۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق عراق میں جنرل قاسم کی ہلاکت پر امریکی فوج کی نقل و حرکت میں غیر معمولی تیزی آگئی، امریکی و اتحادی افواج کو کویت اور بغداد سے باہر اڈوں میں منتقلی کی اطلاعات سامنے آرہی ہیں۔

امریکی میڈیا کے مطابق امریکا کے وزیر دفاع مارک ایسپر نے کہا ہے کہ ہم عراق سے اپنی فوج واپس امریکا نہیں بلارہے بلکہ بغداد میں فوجی اڈے میں موجود اہلکاروں کو ایک اڈے سے دوسرے اڈے منتقل کیا جارہا ہے، امریکی افواج کا عراق سے باہر جانے کا کوئی منصوبہ زیر غور نہیں، ہماری افواج آپریشنز کے لیے موجود رہیں گی۔
 

جاسم محمد

محفلین
قاسم سلیمانی ہزاروں ہلاکتوں کےذمےدارتھے، موت پر کوئی افسوس نہیں، برطانیہ
ویب ڈیسک پير 6 جنوری 2020
1942190-borisjhonsonbelongtomuslimfamily-1578290914-345-640x480.jpg

برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کا امریکا اور ایران پر باہمی کشیدگی کم کرنے کے لیے زور فوٹو:فائل

لندن: برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے کہا ہے کہ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی ہزاروں افراد کی ہلاکتوں کےذمےدارتھے جن کی موت پر کوئی افسوس نہیں۔

برطانوی میڈیا کے مطابق وزیراعظم بورس جانسن نے امریکی ڈرون حملے میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت پر ردعمل میں کہا کہ جنرل قاسم سلیمانی ہزاروں معصوم لوگوں کی ہلاکتوں میں ملوث اور ہمارےمفادات کےلیےخطرہ تھے۔

بورس جانسن نے کہا کہ جنرل قاسم سلیمانی خطےمیں خلل ڈالنےاورغیرمستحکم کرنےکےذمےدارتھے، لہذا برطانیہ جنرل قاسم سلیمانی کی موت پرافسوس کااظہارنہیں کرےگا۔

برطانوی وزیراعظم نے امریکا اور ایران دونوں پر باہمی کشیدگی کم کرنے کے لیے زور دیتے ہوئے کہا کہ جوابی اورانتقامی کارروائیاں زیادہ تشددکاباعث بنیں گی۔
 

عدنان عمر

محفلین
مشرقِ وسطیٰ کے اہم ملک ایران پر امریکی حملے کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے کچھ عرصہ قبل ہی مشرقِ وسطیٰ سے فوجیں واپس بلانے کا عندیہ دیا تھا۔ لیکن اب وہ خطے کو ایک نئی جنگ کا تحفہ دیتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ امریکا کے
مشرقِ وسطیٰ کو خیرباد کہنے کے عہد اور اس پر مولانا زاہد الراشدی کا تبصرہ ملاحظہ فرمائیے اور سر دھنیے۔

کیا امریکہ مشرق وسطیٰ سے نکلنا چاہتا ہے؟

ماہنامہ نصرۃ العلوم، گوجرانوالہ
نومبر ۲۰۱۹ء

روزنامہ اسلام لاہور میں ۲۵ اکتوبر ۲۰۱۹ء کو شائع ہونے والی یہ خبر ملاحظہ فرمائیے:

’’امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ کو خون آلود مٹی قرار دیتے ہوئے خطے سے نکلنے کا عہد کیا ہے، وائٹ ہاؤس میں خصوصی خطاب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ مشرق وسطیٰ کی خون آلود مٹی چھوڑ دے گا، امریکی صدر نے مشرق وسطیٰ کے تعلقات کی نوعیت تبدیل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں بہت امریکی سروسز کے ممبران مارے گئے، امریکہ کو اب مزید دنیا کے پولیس مین کے طور پر رہنے کی ضرورت نہیں ہے، ہم باہر نکل رہے ہیں اور اب کسی اور کو اس خون آلود زمین پر لڑنے دیں، ہماری فوج کی نوکری دنیا کی پولیس کی نہیں ہے۔

ٹرمپ کا کہنا تھا کہ دیگر اقوام لازمی آگے آئیں اور اپنے حصے کے مطابق کام کریں، میں مختلف طریقے سے انتخاب پر قائم ہوں جو امریکہ کو کامیاب کر سکیں، امریکی صدر نے مزید کہا کہ شام سے بڑے پیمانے پر انخلا کے باوجود کچھ فوجی دستے شام کی آئل تنصیبات پر موجود رہیں گے کیونکہ ہم نے تیل کو محفوظ کر دیا ہے اور اسی لیے امریکی افواج کی کم تعداد ایسے علاقوں میں موجود رہے گی جہاں تیل موجود ہے۔

یاد رہے کہ ترکی کی جانب سے شمالی شام میں ۸ اکتوبر سے کرد باغیوں کے خلاف بہار امن (پیس اسپرنگ) کے نام سے فوجی آپریشن شروع کیا گیا تھا، ترکی اپنی سرحد سے متصل ۳۲ کلومیٹر تک کے شامی علاقے کو محفوظ بنا کر ترکی میں موجود کم و بیش ۲۰ لاکھ سے زائد شامی مہاجرین کو وہاں ٹھہرانا چاہتا ہے اور ترکی کا مطالبہ ہے کہ کرد ملیشیا شمالی شام کی ۳۲ کلومیٹر کی حدود سے باہر چلی جائے اور یہ علاقہ ’’سیف زون‘‘ کہلا سکے۔‘‘

یہ خبر پڑھتے ہوئے ایک دفعہ اس خیال سے ہم نے خود کو چیک کیا کہ کہیں نیند کی حالت میں خواب تو نہیں دیکھ رہے؟ پھر یہ شک ہوا کہ شاید صدر ٹرمپ اس گفتگو کے دوران نارمل حالت میں نہ ہوں۔ مگر یہ سوچ کر اصل بات سمجھ آگئی کہ یہ صدر ٹرمپ کی منظم حکمت عملی کا حصہ ہے جس کا ایک مظاہرہ افغانستان سے ان کے نکل جانے کے اعلان کے حوالہ سے ہم دیکھ چکے ہیں، کیونکہ اسی نوعیت کے ارادے کا اظہار انہوں نے افغانستان کے بارے میں کیا تھا اور اس کے لیے افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کا ایک لمبا سلسلہ بھی شروع کر دیا تھا، مگر جب دیکھا کہ افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی ان کے طے کردہ منصوبے اور مستقبل کے عزائم کے حوالہ سے نہیں ہو رہی تو اچانک ان مذاکرات کو ختم کرنے کا اعلان بھی کر دیا۔ ہمارے خیال میں ان کے ذہن میں یہ منصوبہ ہے کہ افغانستان سے امریکی اتحاد کی باوردی افواج کی تو واپسی ہو جائے مگر اس خطہ کا کنٹرول بدستور ان کے بے وردی رضاکاروں کے ہاتھ میں رہے تاکہ ان کے مقاصد اور پالیسیوں کا تسلسل ٹوٹنے نہ پائے۔ مگر افغان طالبان نے اس حکمت عملی کو بھانپ کر حکمت و تدبیر اور حوصلہ و جرأت کے ساتھ اس کا سامنا کیا جس کے نتیجے میں اب امریکہ بہادر طالبان کے ساتھ مذاکرات کا نیا دور شروع کرنے سے پہلے اپنی حکمت عملی کو ’’میک اپ‘‘ دینے میں مصروف ہے۔

اس دوران مشرق وسطیٰ کے بارے میں صدر ٹرمپ کا مذکورہ بالا ارشاد گرامی سامنے آیا ہے تو ہمیں یہ بھی ان کی اسی پالیسی کا تسلسل دکھائی دے رہا ہے جو افغانستان کے حوالہ سے ہم دیکھ چکے ہیں بلکہ ابھی دیکھ رہے ہیں۔ چنانچہ شام میں ’’تیل کی حفاظت‘‘ کے لیے کچھ امریکی فوجی دستوں کی مستقل موجودگی کو انہوں نے ابھی سے ضروری قرار دے دیا ہے اس لیے اس سے مشرق وسطیٰ کی صورتحال میں کسی بہتر تبدیلی کی توقعات کی کوئی وجہ کم از کم ہمیں سمجھ میں نہیں آرہی۔

امریکہ بہادر نے دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست اور یورپی قوتوں کے متحدہ محاذ کی فتح کے بعد برطانیہ اور دیگر مغربی استعماری قوتوں کے مضمحل ہو جانے کے باعث ’’عالمی پولیس مین‘‘ کا کردار سنبھالا تھا، جس کا آغاز ناگاساکی اور ہیروشیما میں اس کی طرف سے ایٹمی بمباری سے کیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے مغرب کے استعماری عزائم اور ایجنڈے کی قیادت ابھی تک امریکہ کے ہاتھ میں ہے اور اس نے تائیوان، کوریا، جاپان، ویتنام، افغانستان، عراق، شام، فلسطین، بوسنیا، صومالیہ اور دنیا کے دیگر خطوں میں جو کردار اس حیثیت سے سر انجام دیا ہے وہ سب کے سامنے ہے جس پر کسی تبصرے کی ضرورت نہیں ہے۔

اب مسئلہ صرف یہ ہے کہ اسے اس کے تناظر اور میک اپ کو بدلنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے جس کے لیے صدر ٹرمپ ماضی کے امریکی صدور سے مختلف روپ دکھا کر دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ امریکہ بدل رہا ہے، بدلنا چاہتا ہے اور بدلنے کی حکمت عملی بروئے کار لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ جبکہ وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ’’تبدیلی‘‘ تقریروں اور رسمی اعلانات سے نہیں آتی، اس کے لیے اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرنا پڑتی ہے، دوسری طرف کے اصل فریقوں کو اعتماد میں لینا پڑتا ہے اور عملی اقدامات کرنا پڑتے ہیں۔ اس سب کچھ کیے بغیر تبدیلی کی کوئی بات دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے سوا آخر اور کیا کہلا سکتی ہے؟
 
Top