کھُدائی کے 100 سال بعد بھی موئن جو دڑو کی زبان کا راز کھل نہ سکا

جاسم محمد

محفلین
کھُدائی کے 100 سال بعد بھی موئن جو دڑو کی زبان کا راز کھل نہ سکا
سندھ حکومت نے موئن جو دڑو کی کھُدائی کو100 سال مکمل ہونے پر مختلف ممالک سے آثار قدیمہ کے ماہرین کو بلا لیا جو اس قدیم شہر کے سکرپٹ کی گُتھی سلجھانے کی کوشش کریں گے۔
امر گرُڑو نامہ نگار amarguriro@
ہفتہ 4 جنوری 2020 7:00

62476-794187930.JPG

قدیم شہر سے ملنے والے نوادرات موئن جو دڑو میوزیم میں رکھے ہیں (تصویر امر گُرڑو)

وادی سندھ کی تہذیب کے ڈھائی ہزار سال قبل مسیح میں بسنے والے اس دور کے سب سے بڑے اور منظم منصوبہ بندی سے بننے والے قدیم شہر موئن جو دڑو کی کھُدائی کو 2020 میں ایک سو سال مکمل ہو گئے ہیں۔

ساڑھے چار ہزار سال قدیم شہر موئن جو دڑو کی باضابطہ کھُدائی کرکے دنیا کو اس پراسرار شہر کے بارے میں آگاہی دینے کا سہرا تو سر جان مارشل کو جاتا ہے، مگر ماہرین کے مطابق اس شہر کو حقیقی معنوں میں ماہر آثار قدیمہ راکھلداس باندھو پادھیائے المعروف آر ڈی بینرجی نے دریافت کیا تھا، جنھوں نے 1920 میں یہ خیال پیش کیا تھا کہ موئن جو دڑو کے مقام پر ممکنہ طور پربدھا کا مجسمہ ہوسکتا ہے اور شروعاتی کھُدائی کے دوران انھیں چقماک پتھر کی کھرچنی اور کچھ دیگر چیزیں ملی تھیں۔

بعد میں 1922 میں سر جان مارشل نے ان کی اس دریافت کی تصدیق کی اور 1924 میں باضابطہ کھُدائی کا آغاز ہوا جبکہ بڑے پیمانے پر کھُدائی 1930 کی دہائی میں کی گئی۔

9_2.jpg

برٹش میوزیم میں رکھی ہوئی سر جان مارشل اور کھُدائی میں حصہ لینے والے دوسرے ماہرین کی تصویر (سعید میمن)


سر جان مارشل 1902 سے 1931 تک آرکیولوجیکل سروے آف انڈیا کے ڈائریکٹر جنرل رہے۔

موئن جو دڑو کی کھُدائی 1920 میں ہونے کی تصدیق صوبائی وزیر ثقافت، سیاحت و نوادرات سید سردار علی شاہ نے بھی کی۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’موئن جو دڑو کی کھُدائی کے کام کو 2020 میں ایک سو سال مکمل ہوگئے ہیں- وادی سندھ کی تہذیب کے عظیم شہر پر بہت کام ہوا ہے مگر اب بھی کافی کام باقی ہے جس میں اس قدیم شہر کی قدیم زبان کو سمجھنا شامل ہے۔‘

’کھُدائی کے ایک سو سال پورے ہونے پر ہم نو سے 11 جنوری تک تین روزہ عالمی کانفرنس موئن جو دڑو پر منعقد کررہے ہیں جس میں مختلف ممالک کے آثار قدیمہ کے ماہرین سرجوڑ کر اس قدیم سکرپٹ کی گُتھی سلجھانے کی کوشش کریں گے۔‘

موئن جو دڑو پر ہونے والی کانفرنس میں فرانس، امریکہ، جاپان، جرمنی، اٹلی، ڈنمارک اور دیگر ممالک کے ماہرین آثار قدیمہ شرکت کر رہے ہیں۔

سردار شاہ نے کہا 2020 کے پورے سال کو موئن جو دڑو کے نام سے منایا جائے گا، جس میں مختلف تقریبات منعقد کی جائیں گی تاکہ عوامی آگاہی کے ساتھ اس قدیم ورثے کو محفوظ بنانے کے لیے کام کیا جاسکے۔

محکمہ ثقافت سندھ نے فروری 2017 میں موئن جو دڑو اور وادی سندھ کی تہذیب پر تین روزہ عالمی کانفرنس منعقد کرائی تھی، جس میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، سپین، جاپان، اٹلی اور دیگر ممالک سے ماہر آثار قدیمہ نے شرکت کی تھی۔

اس سوال پرکہ 2017 والی عالمی کانفرنس کا کیا نتیجہ نکلا؟ سردار شاہ نے بتایا: ’وہ کانفرنس مختلف موضوعات مثلاً موئن جو دڑو کی سائٹ بچانے اور محفوظ بنانے، سیاحت کے فروغ اور دیگر موضوعات پر تھی۔ مگر اس کانفرنس میں ہم نے عالمی ماہرین آثار قدیمہ کو ایک ہدف دیا تھا، ایک روڈ میپ دیا تھا کہ وہ موئن جو دڑو سے ملنے والےسکرپٹ پر کام کریں اور کانفرنس میں مختلف ممالک کی ماہرین آپس میں بیٹھ کر اس قدیم زبان کو سمجھنے کی گُتھی سلجھائیں۔‘

’اس مقصد کے لیے یہ کانفرنس بلائی جارہی ہے۔ اگر اس بار قدیم زبان سمجھ نہ بھی آئی تب بھی اس کی بنیاد تو رکھ دی جائے گی۔‘

انھوں نےالزام عائد کیا کہ کھُدائی کے 100 سال پورے ہونے کے باجود قدیم زبان کا سکرپٹ نہ سمجھنے کی ذمےداری مکمل طور پر وفاقی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔

’موئن جو دڑو کو اقوام متحدہ کے تعلیمی سائنسی و ثقافتی ادارے (یونیسکو) نے 1980 میں عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا اور اٹھارویں ترمیم سے پہلے وفاقی حکومت ہی یونیسکو سے معاہدے کرتی تھی مگر وفاقی حکومت نے کبھی بھی اس معاملے کو یونیسکو کے سامنے نہیں اٹھایا۔‘

’اٹھارویں ترمیم کے فوری بعد ہم نے اس پر کام شروع کر دیا ہے اور بہت جلد زبان کو سمجھنے والی گُتھی بھی سلجھ جائے گی۔‘

موئن جو دڑو کی کھُدائی کے ایک سو سال مکمل ہونے کے باجود صدیوں پُرانے اس قدیم آثار کے متعلق بہت سے راز ابھی افشاں نہیں ہوئے۔ اس شہر کی زبان کے علاوہ ابھی تک حتمی طور پر یہ بھی پتہ نہیں چلا کہ اتنے قدیم زمانے کا جدید اور پلاننگ سے بنا شہر تباہ کیسے ہوا؟

13_0.jpg

کھُدائی کے شروعاتی دنوں میں نظر آنے والا موئن جو دڑو (تصویر بشکریہ کتاب ’موئن جو دڑو اور انڈس سویلائزیشن‘)

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایک تباہ کُن زلزلے کے باعث یہ شہر ’مرُدوں کا ٹیلہ‘ بن گیا جبکہ کچھ ماہرین تباہی کو کسی حملے سے جوڑتے ہیں اور کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ دریائے سندھ کے بہاؤ کے بدلنے یا سیلاب کے باعث یہ شہر تباہ ہوا۔

اس حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں سردار شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’اگر شہر کی تباہی کسی حملے یا زلزلے سے ہوتی تو بہت بڑی تعداد میں انسانی لاشیں ملتیں مگر کھُدائی کے دوران اب تک صرف سات انسانی لاشوں کے ڈھانچے ملے ہیں۔‘

’محتلف ماہرین کے مختلف رائے ہے مگر زیادہ تر ماہرین متفق ہیں کہ یہ شہر دریائے سندھ کے بہاؤ کے بدلنے یا سیلاب کے باعث تباہ ہوا اور وہ لوگ اتنی عجلت میں تھے کہ اپنے زیورات بھی نہیں اٹھاسکے۔‘

کھُدائی کے دوران موئن جو دڑو سے سیکڑوں کی تعداد میں مہریں ملیں ہیں جن پر لکھی پُراسرار تحریر کو تاحال کوئی پڑھ نہیں پایا ۔ ان مہروں پر جانوروں اور دیو مالائی شکلیں بنی ہیں۔

کھُدائی کے دوران ملنے والے سینکڑوں نوادرات میں سے پروہت راجہ یعنی کنگ پریس، رقاصہ اور ایک سینگ والے گھوڑے کے جسم جیسے جانور یونی کورن کے مجسمے والی مہریں انتہائی اہم سمجھی جاتی ہیں۔

داڑھی والے پُجاری کے کنگ پریسٹ مجسمے نے ایک چادر اوڑھی ہوئی ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے وہ موجودہ دور کی اجرک سے مشابہت رکھتی ہے۔

ڈانسنگ گرل یعنی رقاصہ جو برہنہ ہے اور جسے سمبارا کے نام سے جانا جاتا ہے، مجسمے کی ایک ٹانگ ٹوٹی ہوئی تھی اور ایک بازو میں کندھے سے کلائی تک چوڑیاں پہنی ہوئی ہیں اور اس طرح کی چوڑیاں تھر کی خواتین میں آج بھی پہننے کا رواج ہے۔

8_2.jpg

برٹش میوزیم میں رکھی ہوئی رقاصہ کی تصویر (سعید میمن)

گھوڑے کے جسم اور ایک لمبے سینگ والے جانور یونی کورن کے مجسمے والی مہریں بھی ملیں۔

خیال ہے کہ یہ جانور صرف موئن جو دڑو میں ہی پایا جاتا تھا۔ کچھ عرصہ قبل محکمہ ثقافت سندھ نے کنگ پریسٹ، یونی کورن اور رقاصہ کے مجسمے موئن جودڑو کے داخلی دروازے پر نصب کیے ہیں۔

1922 سے 1927 تک کھُدائی کے دوران سر جان مارشل اور ان کی ٹیم نے سٹوپا، نوادرات، شہر سے ملنے والے انسانی ڈھانچوں کے تصاویر لیں اور ان تصاویر کے ساتھ شہر کا نقشہ اور کھُدائی کے طریقہ کار کے ہدایت نامے والے نقشے بھی محفوظ کیے جو بعد میں 1931 میں سر جان مارشل کی کتاب ’موئن جو دڑو اینڈ انڈس سول لائزیشن‘ میں شامل کیے گئے۔

11_2.jpg

کھُدائی کرنے والی ٹیم کی جانب سے جاری موئن جو دڑو سائٹ کا اصلی نقشہ (تصویر بشکریہ کتاب ’موئن جو دڑو اور انڈس سویلائزیشن‘)

ایک سوال کے جواب میں سردار شاہ نے کہا کہ اس قدیم شہر کی عمر سائنسی طریقے سے جاننے کے لیے کاربن ڈیٹنگ ہوچکی ہے اور قدیم شہر کو موسمیاتی تبدیلیوں سے بچانے کے لیے مستقل طور پر پورا سال کام جاری رہتا ہے۔

موجودہ دریافت شدہ موئن جو دڑو کے مکمل شہر کا رقبہ ناپنے کے لیے یونیسکو نے 2006 میں حکومت پاکستان کو سروے کرنے کا کہا مگر اس پر عمل نہیں ہوا اور آخر کار 2015 میں ڈرائے کور ڈرلنگ کے ذریعے جب سروے ہوا تو پتا چلا کہ موئن جو دڑو موجودہ شہر سے دوگنا بڑا شہر ہے۔

بقول سردار شاہ: ’کھُدائی کیا ہوا موجودہ شہر کا رقبہ ساڑھے چھ ایکڑ ہے جبکہ آخری سروے کے مطابق اس شہر کا کُل رقبہ 12 سو ایکڑ سے بھی زیادہ ہے، مگر پورے شہر کی مکمل کھُدائی کا فی الحال کوئی پروگرام نہیں ،کیوں کہ کھُدائی کے بعد اس شہر کی حفاظت کرنا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔‘
 

وجی

لائبریرین
مجھے یاد پڑتا ہے کہ موئن جو دڑو کی زبان سے متعلق ٹیڈ (TED)میں کسی بھارتی نے پریزنٹیشن دی تھی ۔
 

جاسم محمد

محفلین
’موئن جو دڑو کو اقوام متحدہ کے تعلیمی سائنسی و ثقافتی ادارے (یونیسکو) نے 1980 میں عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا اور اٹھارویں ترمیم سے پہلے وفاقی حکومت ہی یونیسکو سے معاہدے کرتی تھی مگر وفاقی حکومت نے کبھی بھی اس معاملے کو یونیسکو کے سامنے نہیں اٹھایا۔‘
’اٹھارویں ترمیم کے فوری بعد ہم نے اس پر کام شروع کر دیا ہے اور بہت جلد زبان کو سمجھنے والی گُتھی بھی سلجھ جائے گی۔‘
18 ویں ترمیم کا چورن بھی تو بیچنا تھا :)
 

عدنان عمر

محفلین
موجودہ و گزشتہ حکومتیں اپنی عوام دشمن پالیسیوں کے باعث عوام کو آثارِ قدیمہ بنانے پر تلی رہیں۔ ایسی حکومتوں سے یہ شکوہ کہ وہ آثارِ قدیمہ پر تحقیق کریں گی، کسی لطیفے سے کم نہیں۔
ویسے حکومتِ سندھ کو موجودہ و ماقبل وفاقی حکومتوں کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انھوں نے صوبۂ سندھ میں نافذ منفرد کوٹا سسٹم آج تک ختم نہیں کیا، حالانکہ یہ 2013 میں اپنی مدت پوری کرچکا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اس کا موہنجو دڑو میں کوئی رول نہیں بنتا، جہاں بنتا ہو گا وہاں پوچھ لیجیےگا۔
امید کی کرن

موہن جو دڑو کی تحریرشناسی پرعالمی کانفرنس، 12 ممالک کے اسکالرکی آمد کا اعلان
ویب ڈیسک 3 گھنٹے پہلے
1942885-mohenjodaro-1578336895-857-640x480.jpg

پاکستان میں انڈس اسکرپٹ کو پڑھنے کے لیے پہلی بین الاقوامی کانفرنس جمعرات 9 جنوری سے شروع ہورہی ہے (فوٹو: فائل)


کراچی: موہن جو دڑو اور ہڑپہ کی تحریر یا اسکرپٹ پر ماہرین کی بین الاقوامی کانفرنس موہن جو دڑو میں 9 سے 11 جنوری تک منعقد ہوگی جس میں بارہ ممالک کے اسکالرز شرکت کریں گے۔

وزیر ثقافت، سیاحت اور آرکائیوز سردار علی شاہ نے کہا ہے کہ محکمہ نوادرات سندھ اور نیشنل فنڈ فار موہن جو دڑو کی مشترکہ کاوشوں سے تین روزہ انڈس اسکرپٹ کانفرنس موہن جو دڑو لاڑکانہ میں منعقد کی جا رہی ہے، یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا موقع ہے کہ وادی سندھ کی تہذیب خاص طور پر موہن جو دڑو سے ملنے والی مہروں پر نقش رسم الخط کو پڑھنے کے لیے عالمی کانفرنس منعقد کی جا رہی ہے۔

اپنے دفتر میں میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے انہوں ںے کہا کہ موہن جو دڑو لاڑکانہ میں 9 سے 11 جنوری تک جاری رہنے والی انڈس اسکرپٹ کانفرنس میں 12 ممالک سے محققین تشریف لا رہے ہیں جو کہ وادی سندھ کی تہذیب کے قدیم ترین رسم الخط کو ڈی کوڈ کرنے کے حوالے سے کی گئی اپنی اپنی تحقیق پیش کریں گے۔

سردار علی شاہ نے بتایا کہ اس کانفرنس میں امریکا، برطانیہ، جرمنی، ڈنمارک، جاپان، فرانس، اٹلی سمیت دیگر ممالک سے ریسرچ اسکالرز شرکت کریں گے۔ ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ 2017ء میں محکمے کی جانب سے منعقد کی گئی کانفرنس کا عنوان انڈس سویلائزیشن اور موہن جو دڑو تھا جس میں اس خطے کی تہذیب، آثار قدیمہ کی تاریخ اور آثارِقدیمہ کے مختلف زاویوں کے حوالے سے وسیع پیمانے پرتحقیقات پیش کی گئیں جبکہ 9 جنوری سے شروع ہونے والی انڈس اسکرپٹ کانفرنس کا فوکس فقط موہن جو دڑو کی رسم الخط کو ڈی کوڈ کرنا ہے۔

ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ وہ پرامید ہیں کہ محکمے کی طرف سے کی گئی یہ حقیر سی کوشش سے اگر ماہرین انڈس اسکرپٹ کو ڈی کوڈ کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ اس صدی کی سب سے بڑی خوشخبری ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ یہ کام بہت پہلے ہوجانا چاہیے تھا مگر افسوس ہے کہ 1947ء سے 2010ء تک آرکیالوجی کا محمکہ وفاقی حکومت کے پاس رہا جنہیں موہن جو دڑو کی تہذیب سے کوئی غرض نہیں اب یہ محکمے صوبوں کے پاس ہیں۔

اس موقع پر ڈائریکٹر اینٹی کوئٹیز منظور احمد کناسرو نے صحافیوں کو بتایا کہ انڈس اسکرپٹ کانفرنس کا انعقاد بہت ہی خوش آئند ہے اور کانفرنس کے پہلے دو روز میں تمام اسکالرز سر جوڑ کر بیٹھیں گے اور اپنی اپنی تحقیق سے رسم الخط کو پڑھنے کی حتی الامکان کوشش کریں گے جبکہ کانفرنس کے تیسرے دن اختتامی تقریب منعقد ہوگی جس میں کانفرنس کی تمام کاوشوں سے عوام کو آگاہ کیا جائے گا۔

انہوں نے کانفرنس میں دلچسپی رکھنے والے افراد کے لیے بتایا کہ کانفرنس کے آخری روز کی اختتامی تقریب میں شرکت کے خواہش مند محکمے سے رجوع کر سکتے ہیں۔
 
Top