مصحفی نہ گیا کوئی عدم کو دل شاداں لے کر

نہ گیا کوئی عدم کو دل شاداں لے کر
یاں سے کیا کیا نہ گئے حسرت و ارماں لے کر

کیا خطا مجھ سے ہوئ رات کہ اس کافر کا
میں نے خود چھوڑ دیا ہاتھ میں داماں لے کر

باغ وہ دست جنوں تھا کبھی جس میں سے
لالہ و گل گئے ثابت نہ گریباں لے کر

طرفہ سوجھی یہ جنوں کو تیرے دیوانے کی
راہ میں پھینک دیے خار مغیلاں لے کر

پھر گئ سوئے اسیران قفس باد صبا
خبر آمد ایام بہاراں لے کر

رنج پہ رنج جو دینے کی ہے خو قاتل کو
ساتھ آیا ہے بہم تیغ و نمکداں لے کر

مصحفی گوشہ عزلت کو سمجھ تخت شہی
کیا کرے گا تو عبث ملک سلیماں لے کر۔
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top