برطانوی انتخابات: وزیر اعظم بورس جانسن واضح اکثریت سے کامیاب

جاسم محمد

محفلین
برطانوی انتخابات: وزیر اعظم بورس جانسن کی فتح کے واضح امکانات
ووٹنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد کیے جانے والے سروے کے مطابق پیش گوئی کی جا رہی ہے کہ کنزرویٹو پارٹی کو 650 کے ایوان میں 368 نشستوں کے ساتھ واضح برتری حاصل ہو جائے گی جبکہ لیبر پارٹی محض 191 نشستیں جیت پائے گی۔
انڈپینڈنٹ اردو
جمعہ 13 دسمبر 2019 8:00

58136-1833435461.jpg



برطانوی وزیراعظم بورس جانسن 10 دسمبر کو انتخابی مہم کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے (اے ایف پی)

برطانیہ میں انتخابات کے بعد جمعرات کی شام تک سامنے آنے والے ایگزٹ پولز کے مطابق وزیر اعظم بورس جانسن کی کنزرویٹو پارٹی کی جیت کے واضح امکانات ہیں۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ووٹنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد کیے جانے والے سروے کے مطابق پیش گوئی کی جا رہی ہے کہ کنزرویٹو پارٹی کو 650 کے ایوان میں 368 نشستوں کےساتھ واضح برتری حاصل ہو جائے گی جبکہ لیبر پارٹی محض 191 نشستیں جیت پائے گی۔ 2017 کے انتخابات میں لیبر پارٹی نے 262 نشستیں حاصل کی تھیں جبکہ کنزرویٹو پارٹی 318 نشستوں پر فتح یاب ہوئی تھی۔

اس ممکنہ فیصلہ کن فتح سے بورس جانسن کے لیے ممکن ہوگا کہ وہ اگلے ماہ کے آخر تک برطانیہ کو یورپی یونین سے الگ کرنے کے اپنے بریگزٹ پلان پر عمل کر سکیں۔

یہ فتح بورس جانسن کو مارگریٹ تھیچر کے بعد اب تک کا سب سے کامیاب کنزرویٹو رہنما بنا دے گی۔ مارگریٹ تھیچر کو بھی بورس جانسن کی طرح تقریباً برابر تعداد میں تعریف اور تنقید کرنے والے افراد کا سامنا رہا تھا۔

یہ 1980 کے ہے ڈے میں مارگریٹ تھیچر کے بعد کنزرویٹو پارٹی کی سب سے بڑی فتح ہو گی۔ جبکہ لیبر پارٹی کے لیے یہ 1935 کے بعد کم ترین نشستیں ہوں گی۔

ان نتائج سے بورس جانسن کو فتح جبکہ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے لیبر رہنما جیرمی کوربن کو شکست ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ ابتدائی نتائج سامنے آتے ہی جیرمی کوربن پر فوری طور پر مستعفی ہونے کا دباؤ بڑھ رہا ہے جس کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ اگلے انتخابات میں پارٹی کی قیادت نہیں کریں گے۔

تاحال ووٹوں کی گنتی جاری ہے اور امکان ہے کہ آج نتائج کا سرکاری طور پر اعلان ہو جائے گا۔ ابتدائی نتائج کے مطابق کنزرویٹو پارٹی کی حمایت میں اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ لیبر پارٹی کے گڑھ سمجھے جانے والے شمالی انگلینڈ میں بھی کنزرویٹو پارٹی کئی نشستوں پر آگے ہے۔ گذشتہ ایک صدی سے لیبر جماعت کا مضبوط قلعہ سمجھے جانے والا ورکنگ ٹاون کے علاقے میں بھی کنزرویٹو پارٹی کو کامیابی حاصل ہو چکی ہے۔

کنزرویٹو پارٹی کی واضح فتح جمعرات کو ہونے والے قبل از وقت انتخابات کے بورس جانسن کے فیصلے کو درست ثابت کر دے گی۔ یہ انتخابات مقررہ وقت سے دو سال پہلے کروائے گئے۔ انتخابات سے قبل بورس جانسن کا کہنا تھا کہ کنزرویٹو جماعت کی فتح بریگزٹ کے معاملے پر ان کے موقف کی حمایت ہو گی۔ بورس جانسن 31 جنوری 2020 کی ڈیڈ لائن تک برطانیہ کو یورپی یونین سے علیحدہ کرنا چاہتے ہیں۔

پول سے ظاہر ہوتا ہے کہ بورس جانسن کے اس وعدے نے کہ وہ ’بریگزٹ کر گزریں گے‘ نے لوگوں کو عمومی طور پر لیبر پارٹی کے حامی سمجھے جانے والے علاقوں میں بھی کنزرویٹو پارٹی کے پلڑے میں ڈال دیا۔

بورس جانسن نے اپنی ایک ٹویٹ میں اپنے ووٹرز کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: ’پورے ملک کے تمام لوگوں کا شکریہ۔ ووٹ ڈالنے والے، رضاکاروں، اور امیدواروں سب کا شکریہ۔ ہم دنیا کی سب سے عظؓیم جمہوریت میں رہتے ہیں۔‘ انہوں نے ایگزٹ پول کا ذکر نہیں کیا۔


یورپی یونین کونسل کے صدر چارلس مائیکل نے وعدہ کیا ہے کہ جمعے کو پورپی رہنماؤں کی ملاقات میں برطانوی حکومت اور پارلیمنٹ کو مستقبل کے لائحہ عمل کے حوالے سے ’سخت پیغام‘ بھیجا جائے گا۔

یورپی کمیشن کی صدر ارسلا وون ڈیر لین کا کہنا تھا: ’ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔‘

ایگزٹ پولز کی پیش گوئیوں کے ساتھ ہی برطانوی پاؤنڈ کی قدر میں بھی اضافہ ہوا اور ڈالر کے مقابلے میں اس کی قیمت دو سینٹ بڑھ گئی۔ یہ ڈیرھ سال میں پاؤنڈ کی بلند ترین قدر ہے۔ سرمایہ کار پرامید ہیں کہ کنزرویٹو پارٹی کی فتح بریگزٹ کے عمل کو تیز کرے گی اور 2016 کے بعد سے چلی آتی غیر یقینی صورتحال کے خاتمے سے کاروبار کو فائدہ ہو گا۔

2016 میں بریگزٹ پر ووٹنگ میں 52 فی صد افراد نے علیحدگی کے حق میں جبکہ 48 فی صد نے 28 رکنی یورپی یونین کے ساتھ رہنے کا ووٹ دیا تھا۔ قانون ساز علیحدگی کی شرائط طے کرنے میں مسلسل ناکام رہے ہیں۔

بورس جانسن نے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کیا تو یہ 1923 کے بعد سے پہلی بار دسمبر میں ہونے والے برطانوی انتخابات تھے۔ انتخابات میں بورس جانسن کی فتح کے بعد 2016 ریفرنڈم کے فیصلے پر عمل ہوتا دکھائی دیتا ہے اور برطانیہ اور 27 یورپی ممالک کے درمیان مذاکرات کا نیا دور شروع ہو سکتا ہے۔

انتخاب کے لیے ووٹنگ جمعرات کو مکمل ہوئی۔ یہ گذشتہ پانچ برس سے بھی کم عرصے میں برطانیہ میں ہونے والے تیسرے عام انتخابات ہیں۔ انگلینڈ، ویلز اور شمالی آئرلینڈ میں 650 حلقوں میں مقامی وقت کے مطابق صبح سات بجے ووٹنگ کا آغاز ہوا جو رات دس بجے تک جاری رہا۔

خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق برطانوی شہریوں نے شدید سردی اور ٹھنڈی ہوا میں قطاریں بنا کر ووٹ ڈالا۔ وزیر اعظم بورس جانس اور لیبر پارٹی کےجیریمی کوربن نے موجودہ الیکشن کو برطانوی شہریوں کی ایک نسل کے اہم ترین انتخابات قرار دیا ہے۔

اے ایف پی کے مطابق برطانوی عام انتخابات بے حد منقسم ماحول میں ہوئے۔ ووٹروں کے سامنے تاریخی نوعیت کا انتخاب تھا۔ پہلی صورت میں یورپی یونین سے برطانیہ کی ناگزیر علیحدگی کا راستہ تھا جبکہ دوسری صورت یہ تھی ایک بار پھر ریفرنڈم کروایا جائے جو بریگزٹ کے تمام منصوبے کو ردی کی ٹوکری میں ڈال سکتا ہے۔

58126-1371155613.jpg

برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن اور لیبر پارٹی کے لیڈر جیریمی کوربن 12 دسمبر کو عام انتخابات کے موقعے پر ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ سٹیشن پر موجود ہیں (اے ایف پی)

ٹوری جماعت کے وزیراعظم بورس جانسن کی فیصلہ کن فتح کی صورت میں جنوری کے آخر تک برطانیہ کے 46 برس تک یورپی یونین کا رکن رہنے کے بعد اس کی یونین سے علیحدگی تقریباً یقینی ہو گی۔

دوسری جانب حزب اختلاف کی کامیابی کی صورت میں بریگزٹ کا تمام عمل الٹا ہو سکتا۔ اس صورت میں کوربن کی قیادت میں برطانیہ کو دہائیوں میں انتہائی بائیں بازو کی حکومت ملے گی۔

کوربن ایک معروف سوشلسٹ ہیں جو اداروں کو دوبارہ قومی تحویل میں لینے اور سرکاری شعبے میں بڑے پیمانے پر اخراجات کے عزم پر کاربند ہیں۔

لندن کی رہائشی ووٹر ناؤمی بیوتھے کا کہنا ہے کہ حکومت کو طویل عرصے سے ایک مشکل صورت حال کا سامنا تھا اور ہمیں معاملات کو آگے بڑھانےکی ضرورت تھی۔

رائے عامہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جانسن کی قیادت میں کنزرویٹو پارٹی کو بہت تھوڑے مارجن سے برتری حاصل ہے لیکن ووٹر 2017 کے عام انتخابات کے بارے میں تقریباً متفقہ طور پر غلطی پر تھے۔

جانسن نے آج ووٹ کاسٹ کرتے وقت اپنا کتا اٹھا رکھا تھا۔ انہوں نے ووٹ ڈالنے کے بعد کتے کو چوما اور کہا کہ انتخابی نتائج چھری کی دھار پر ٹکے ہوئے ہیں۔

یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے ریفرنڈم کے بعد برطانوی پارلیمنٹ 2016 سے تعطل کا شکار ہے جس کی وجہ سے یہ ہے ریفرنڈم میں بریگزٹ کے لیے اکثریتی ووٹ بہت کم تھے۔

ایسے نتائج سے مالیاتی مارکیٹیں بری طرح متاثر ہوئیں اور برطانیہ میں سیاسی عمل مفلوج ہو کر رہ گیا۔
 

جاسم محمد

محفلین

برطانوی انتخابات میں 15 پاکستانیوں سمیت 24 مسلم امیدواروں کی تاریخی فتح
ویب ڈیسک جمع۔ء 13 دسمبر 2019
1915650-muslimsvotersinbirtishelection-1576236287-696-640x480.jpg

مسلمان ووٹرز نے بھی انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، فوٹو : فائل


muslim-candidates-won-in-birtish-1-1576254161.jpg

لندن: برطانیہ میں قبل از وقت ہونے والے عام انتخابات میں وزیراعظم بورس جانسن کی جماعت کنزرویٹو پارٹی نے فتح حاصل کرلی ہے جب کہ پہلی بار 24 مسلمان امیدواروں نے میدان مار لیا ہے جن میں سے 15 پاکستانی نژاد برطانوی شہری ہیں۔

برطانیہ میں آج ہونے والے عام انتخابات کی ایک خاص اس بار انتخابی دنگل میں پہلی بار اتنی بڑی تعداد یعنی 70 مسلمان امیدواروں کا حصہ لینا تھا،ان مسلم امیدواروں میں سے زیادہ تر کا تعلق پاکستان کے علاوہ بنگلہ دیش اور ترکی سے ہے۔ 70 میں 24 مسلم امیدواروں نے کامیابی حاصل کر کے برطانیہ کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں پارلیمنٹ کا حصہ بنیں گے۔

ان انتخابات میں اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی کی جانب سے ریکارڈ 33 پاکستانی نژاد برطانوی امیدواروں کو ٹکٹیں دی گئیں تھیں جب کہ حکمراں جماعت نے ماضی کی روایت توڑتے ہوئے پہلی بار 2 پاکستانیوں حنا بخاری اور حمیرہ ملک کو ٹکٹ دیا تھا۔

اب تک حاصل ہونے والے نتائج کے تحت پاکستان سے تعلق رکھنے والے 15 امیدواروں نے میدان مارلیا ہے، جن میں لیبر پارٹی کی ناز شاہ، خالد محمود، یاسمین قریشی، افضل خان، طاہر علی، محمد یاسین، عمران حسین، زارا سلطانہ اور شبانہ محمود جب کہ کنزرویٹو کے نصرت غنی، عمران احمد، ساجد جاوید، رحمان چشتی اور ثاقب بھٹی شامل ہیں۔ اسی طرح دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے 9 مسلم امیدواروں نے بھی فتح اپنے نام کرلی ہے۔
 

جان

محفلین
معلوم پڑتا ہے دنیا کے بڑے ممالک کی اکثریت میں اس وقت آمریت پسند طبقہ اقتدار میں ہے۔ :)
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
معلوم پڑتا ہے دنیا کے بڑے ممالک کی اکثریت میں اس وقت آمریت پسند طبقہ اقتدار میں ہے۔ :)
میں اسے ’ضرورت سے کچھ زیادہ قوم پرست‘ طبقہ کہوں گا۔
There are no perfect political parallels between different countries, but in the UK as in the USA, we see how polarization distorts democracies and elevates the most extreme voices - depriving voters of representative policies and often a functioning government
The record of the past half-century makes a compelling case that the center holds when it's given a strong voice...but in its absence, right-wing populism beats left-wing populism
The UK election is a warning sign for Democrats (opinion) - CNN
 

زیک

مسافر
برطانوی انتخابات میں 15 پاکستانیوں سمیت 24 مسلم امیدواروں کی تاریخی فتح
ویب ڈیسک جمع۔ء 13 دسمبر 2019
1915650-muslimsvotersinbirtishelection-1576236287-696-640x480.jpg

مسلمان ووٹرز نے بھی انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، فوٹو : فائل


muslim-candidates-won-in-birtish-1-1576254161.jpg

لندن: برطانیہ میں قبل از وقت ہونے والے عام انتخابات میں وزیراعظم بورس جانسن کی جماعت کنزرویٹو پارٹی نے فتح حاصل کرلی ہے جب کہ پہلی بار 24 مسلمان امیدواروں نے میدان مار لیا ہے جن میں سے 15 پاکستانی نژاد برطانوی شہری ہیں۔

برطانیہ میں آج ہونے والے عام انتخابات کی ایک خاص اس بار انتخابی دنگل میں پہلی بار اتنی بڑی تعداد یعنی 70 مسلمان امیدواروں کا حصہ لینا تھا،ان مسلم امیدواروں میں سے زیادہ تر کا تعلق پاکستان کے علاوہ بنگلہ دیش اور ترکی سے ہے۔ 70 میں 24 مسلم امیدواروں نے کامیابی حاصل کر کے برطانیہ کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں پارلیمنٹ کا حصہ بنیں گے۔

ان انتخابات میں اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی کی جانب سے ریکارڈ 33 پاکستانی نژاد برطانوی امیدواروں کو ٹکٹیں دی گئیں تھیں جب کہ حکمراں جماعت نے ماضی کی روایت توڑتے ہوئے پہلی بار 2 پاکستانیوں حنا بخاری اور حمیرہ ملک کو ٹکٹ دیا تھا۔

اب تک حاصل ہونے والے نتائج کے تحت پاکستان سے تعلق رکھنے والے 15 امیدواروں نے میدان مارلیا ہے، جن میں لیبر پارٹی کی ناز شاہ، خالد محمود، یاسمین قریشی، افضل خان، طاہر علی، محمد یاسین، عمران حسین، زارا سلطانہ اور شبانہ محمود جب کہ کنزرویٹو کے نصرت غنی، عمران احمد، ساجد جاوید، رحمان چشتی اور ثاقب بھٹی شامل ہیں۔ اسی طرح دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے 9 مسلم امیدواروں نے بھی فتح اپنے نام کرلی ہے۔
24 مسلمان؟ انہیں عام سیٹوں پر انتخاب لڑنے کی اجازت کس نے دی؟ ان کے لئے صرف اقلیتی سیٹیں ہونی چاہئیں
 
آخری تدوین:
Top