سعودی عرب کے دباؤ پر وزیر اعظم نے ملائیشیا کا اہم سرکاری دورہ منسوخ کر دیا

فرقان احمد

محفلین
المیہ یہ ہے کہ شرکت کی یقین دہانی کروانے کے بعد کسی بھی سطح پر اس کانفرنس میں شرکت نہ کی گئی۔ یعنی کہ اگر محترم خان نہ جا سکے تو شاہ محمود قریشی صاحب کو چلے جانا چاہیے تھا۔ پاکستان نے ایک طرف کا ساتھ دے کر، دراصل، خود تفریق کی فضا قائم کی ہے۔ کیا اس کانفرنس میں شریک ہو کر اپنے خدشات اس سمٹ کانفرنس کےرہنماؤں کے سامنے نہ رکھے جا سکتے تھے! تاہم، کیا سعودی عرب سے اربوں ڈالرز لینے کے بعد ہم یہ سب کچھ کہنے اور کرنے کی پوزیشن میں ہیں؟ اس کا جواب شاید نفی میں ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
المیہ یہ ہے کہ شرکت کی یقین دہانی کروانے کے بعد کسی بھی سطح پر اس کانفرنس میں شرکت نہ کی گئی۔ یعنی کہ اگر محترم خان نہ جا سکے تو شاہ محمود قریشی صاحب کو چلے جانا چاہیے تھا۔ پاکستان نے ایک طرف کا ساتھ دے کر، دراصل، خود تفریق کی فضا قائم کی ہے۔ کیا اس کانفرنس میں شریک ہو کر اپنے خدشات اس سمٹ کانفرنس کےرہنماؤں کے سامنے نہ رکھے جا سکتے تھے! تاہم، کیا سعودی عرب سے اربوں ڈالرز لینے کے بعد ہم یہ سب کچھ کہنے اور کرنے کی پوزیشن میں ہیں؟ اس کا جواب شاید نفی میں ہے۔
بنیادی طور پر یہ سمٹ ترکی، ملائیشیا اور پاکستان نے پلان کیا تھا۔ معلوم نہیں کس بنیاد پر دیگر مسلم ممالک کو شمولیت کی دعوت دی گئی جن میں سعودیہ کے شدید ترین مخالف ایران اور قطر بھی شامل تھے۔ پاکستان پر مبینہ سعودی دباؤ ان دو ممالک کی سمٹ میں شمولیت کے بعد پڑا تھا۔ اس سے پہلے تک سعودیہ نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔
 

سید ذیشان

محفلین
بنیادی طور پر یہ سمٹ ترکی، ملائیشیا اور پاکستان نے پلان کیا تھا۔ معلوم نہیں کس بنیاد پر دیگر مسلم ممالک کو شمولیت کی دعوت دی گئی جن میں سعودیہ کے شدید ترین مخالف ایران اور قطر بھی شامل تھے۔ پاکستان پر مبینہ سعودی دباؤ ان دو ممالک کی سمٹ میں شمولیت کے بعد پڑا تھا۔ اس سے پہلے تک سعودیہ نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔
بقول آپ کے اگر مان لیں کہ قطر اور ایران سعودیہ کے دشمن ہیں، تو پھر تو سعودیہ کو اس سمٹ میں شمولیت نہیں کرنی چاہیے تھی۔ اس بات کا پاکستان سے کیا تعلق ہے؟
 

جاسم محمد

محفلین
بقول آپ کے اگر مان لیں کہ قطر اور ایران سعودیہ کے دشمن ہیں، تو پھر تو سعودیہ کو اس سمٹ میں شمولیت نہیں کرنی چاہیے تھی۔ اس بات کا پاکستان سے کیا تعلق ہے؟
سمٹ کا مقصد تین دوست ممالک ملائیشیا، ترکی اور پاکستان کا اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی چینل کا قیام اور امت مسلمہ کو درپیش دیگر چیلنج پر لائحہ عمل تیار کرنا تھا۔ یہ پروگرام کچھ ماہ قبل اقوام متحدہ میں تینوں ممالک کے سربراہان مل بیٹھ کر طے کر چکے تھے۔ درمیان میں اچانک سعودیہ مخالف ممالک ایران اور قطر پتا نہیں کہاں سے ٹپک پڑے۔ اور پھر اس کے ساتھ ہی مہاتیر کے متنازعہ بیانات آنے لگے کہ سمٹ کا مقصد او آئی سی کے مد مقابل مسلم ممالک کی تنظیم نو کرنا ہے۔
ظاہر ہے پاکستان ایسے کسی سمٹ کا حصہ نہیں بن سکتا تھا جہاں امت میں اتحاد کی بجائے مزید پھوٹ کا عنصر شامل ہو۔ اور وہی ہوا۔ اردغان نے سمٹ کو سعودیہ مخالف پراپگنڈہ کیلئے استعمال کیا۔
Turkey, Pakistan, Malaysia unite to fight Islamophobia
Erdogan says Saudi 'put pressure' on Pakistan to withdraw from Malaysia summit: Turkish media - World - DAWN.COM
 

ظفری

لائبریرین
وزیرِ اعظم کی فطری ناعاقبت اندیشی نے بین الاقوامی سیاست میں پاکستان کو ایک خطرناک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ مسلم امہ میں مختلف الخیال گروہ بندی موجود ہے لیکن پاکستانی موقف ہمیشہ اعتدال پسند انداز میں ساری مسلم امہ کے ساتھ، کسی ایک گروہ کی موافقت یا مخالفت کے بغیر اصولوں پر مبنی رہا ہے۔
ملکی سیاست تو خیر جیسی ہے ویسی ہے، لیکن بین الاقوامی سیاست میں جس فہم و فراست کی ضرورت ہے وہ بد قسمتی سے ہمارے موجودہ حکمرانوں میں مفقود ہے۔ انہوں نے یوٹرن کو اپنے لیے ایک بہترین لائحۂ عمل سمجھا ہے۔ بلا سوچے سمجھے ایک فیصلہ کرلیتےہیں، سوشل میڈیا پر مخالفت ہوئی تو فوراً یوٹرن لے لیتے ہیں۔

بین الاقوامی سیاست میں جہاں پاکستان نے ہمیشہ اصولوں کی بات کی ہے اور وہیں آج ہماری حکومت نے ایک فیصلہ کیا جس میں ایک ایسے گروپ میں شرکت کرنی تھی جس کی وجہ سے کئی تنازعات جنم لے سکتے ہیں۔ اگر موجودہ حکومت اس فیصلے کو اصولی طور پر درست تسلیم کرتی تو اس پر ڈٹ کر کھڑے رہنے میں کوئی قباحت نہیں تھی۔ سیاسی فیصلے سیاسی فراست رکھنے والے حلقوں ہی کو زیب دیتے ہیں ناکہ ہم عامیوں کو اس بارے میں نکتہ چینی کا حق حاصل ہے۔ ہمیں تو اعتراض اس یوٹرن کی عادت پر ہے جو کل تک ملکی سیاست میں جلوے بکھیر رہی تھی تو آج بین الاقوامی سیاست میں پاکستان کی شرمندگی کا باعث بن رہی ہے۔

وزیراعظم کی فطری ناعاقبت اندیشی کے سرٹیفیکٹ کون بانٹ رہا ہے مگر اس بحث کے قطعِ نظر غور طلب بات یہ ہے کہ پاکستان کس طرح بین الاقومی سیاست میں ایک خطرناک موڑ پر آن کھڑا ہوا ہے ۔ اس کانفرنس میں شرکت نہ کرکے پاکستان کے لیئے کیا خطرات پیدا ہوگئے ہیں ؟۔ یا اس کانفرنس میں شرکت کرکے پاکستان میں کیا جوہری تبدیلیاں پیدا ہوسکتیں تھیں ۔ ان دونوں مفرضوں پر کسی نے بھی حقیقی اور دلائل پر مبنی کوئی تبصرہ نہیں کیا ۔ صرف اپنے کسی بغض یا اختلاف کا پریشر ریلیز کیا ہے ۔ جیسے عموماً رات کو زیادہ کھانے سے وہ خواب نظر آتے ہیں ۔ جسکی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ عرب دنیا کے اپنے اختلافات اتنے نمایاں ہیں کہ ان سے وابستہ ممالک کو بھی اپنی اقتصادی پالیسوں اور خارجہ پالیسوں میں بھی ردوبدل کرنا پڑتا ہے ۔ گذشتہ 72 سالوں میں پچھلے حکمرانوں نے بھی یہی کیا ہے ۔ اور اب بھی یہی ہورہاہے ۔ گذشتہ 72 سالوں میں ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہیں تھیں اور راوی چین کی داستان لکھ رہا تھا اور عمران خان نے ڈیڑھ سال میں آکر اس جنت کا شیرازہ بکھیر دیا ۔ جب عمران خان کہتا ہے کہ " پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے دورِ حکومت میں اتنا ہزار ارب قرضہ لیا گیا تو کسی کو سانپ بھی نہیں رینگتا ۔ کسی کو بھی اتنی تو فیق نہیں ہوتی کہ کم از کم گوگل جیسے سرچ انجن پر جا کر تو جانچ پڑتال کرلیں کہ اگر اس طرح قرضہ لینے سے ملک کی اقصادیا ت کا کیسے جنازہ نکلتا ہے ۔ پھر واویلا یہ مچایا جاتا ہے کہ ان ڈیڑھ سالوں میں ملک میں قرضوں کا یہ حجم ہوگیا ہے ۔ باپ دادا نے پنڈت سے قرضہ لیا ہو تو اولادوں کے گلے میں قسطیں اسی طرح پھنستیں ہیں ۔ قطعہ نظر اس کے اپنے حصے کا ٹیکس ادا کریں شور اس پر مچایا جاتا ہے کہ ہم سے زبردستی ٹیکس وصول کیا جارہا ہے ۔ وہ بھی یہ جانتے ہوئے کہ اب ادارے زیادہ فعال ہیں اور پریس کانفرسز میں اپنی کارکردگی بتا رہے ہوتے ہیں ۔ پہلے تو ایف بی آر کا پتا ہی نہیں تھا ۔ یہاں تک کہ ملک میں خارجہ پالیسی کا کوئی وزیر بھی مقرر نہیں تھا۔ انڈیا کی خوشنیدی کے لیئے مجرم نواز شریف نے وزیرِ خارجہ کا عہدہ بھی دبایا ہوا تھا تاکہ کشمیر بھی ایک رسمی سا بیان دیا جائے اور بس۔ اس پر مولانا ڈیزل کو کشمیر کمیٹی کو صدر بنا کر دس سال تک کشمیر کے معاملے التوا میں ڈالے رکھا گیا ۔ اربوں کی کرپشن کی گئی اور پھر کہتے ہیں کہ تم ثابت کرو کہ ہمارے پاس یہ پیسہ کہاں سے آیا ۔ یعنی حد ہوگئی کہ قوم کو اس قدر بیوقوف سمجھتے ہیں ۔ گذشتہ 72 سالوں کی خارجہ پالیسوں کی اعلی کارکردگی کا یہ حال تھا کہ گرین پاسپورٹ ہولڈر کو لائن سے نکال کر الگ سے انسویسٹیگیشن کی جاتی تھی اور اب بھی یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے کہ یہ سعادت 72 سال کے ورثہ میں ملی ہے ۔ بجلی ، پیٹرول ، گیس ، آٹا ، گھی اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی چیزوں میں اضافہ عمران خان کے دورِ حکومت سے پہلے کبھی ہوا نہیں ۔
ملک کی اندورنی اور خارجی پالیسی دودھ دہی کی دکان کی طرز پرمرتب نہیں کی جاتی۔ اس دور میں سب کو اپنی اقتصادی مفادات عزیز ہیں ۔ مذہب ایک ثانوی حیثیت اختیار کر گیا ہے ۔ بلکل اسی طرح جیسے جوئے کے پیسے سے کبھی خیرات کردی ۔ آج صرف سرمایہ درانہ نظام ہی دنیا پر مسلط ہے ۔ اگر فالو نہیں کرتے تو شام ، عراق یا پھر وینزیلا بن جاؤ۔ پاکستان میں سبھی طبقات سے منسلک لوگ چین کی عظیم دوستی کے گن گاتے ہیں ۔ کیا کسی کی ہمت ہے کہ چین میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر چین سے بات کرسکیں ۔ اگر ایسا کرنے کی جسارت بھی کی تو ملک میں ایک چھولے بھی بیچنے والے کو علم ہوگا کہ اس کا انجام کیا ہوگا۔ یہ اقصادی جنگ ہے انفرادی نہیں کہ ملک میں بسنے والے کو بس اپنا مفاد چاہیئے ۔ وقت بدل چکا ہے ۔ ترجیحات بدل چکی ہیں ۔ قوم اس بات کو سمجھ چکی ہے ایک دوسرے کا پیٹ پھاڑنے اور چوراہے پر لٹکانے والے کس طرح ایک دوسرے سے سر جوڑے اپنے کرپشن چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
ملائشیا کا دورہ کوئی خدائی حکم نہیں تھا جس پر اتنا واویلا مچایا جا رہا ہے ۔ پاکستان نے بھی وہیں قدم بڑھایا ہے جہاں سے اسے اپنی اقتصادی مفادات کی ترسیل کی بازیابی ہوسکے ۔ جیسے ہم چین کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر خاموش ہیں ۔ اور اپنے مفادات کی تکمیل کر رہے ہوں خواہ وہ سی - پیک ہی کیوں نہ ہو۔ بلکل اسی طرح ملائشیا کے سمبٹ میں شرکت سے معذرت کی ہے ۔ مفادات کی جنگ میں سب کچھ چلتا ہے ۔مہاتیر تو کیا تو ارداگان تو کیا۔ ہاں اگر پاکستان کی اقتصادی طاقت ان دونوں ممالک کے ہم پلہ ہوتی تو تنقید بنتی تھی۔ مگرصرف تنقید کرنا بلا جواز اور بلا استدال تو یہ صرف ایک ذہنی خلفشار کا اظہار ہے اور کچھ بھی نہیں ۔ ابھی اور بھی بہت سے سمبٹس آئیں گے۔ کیوں نہ شروعات خود سے کریں اور ٹیکس دیکر ملک کو کسی اور ملک کے رحم و کرم پر چھوڑنے سے بچائیں ۔ پھر ملائشیا اور ترکی کے ہم پلہ ہوکر کس سمبٹ میں شرکت کرنی ہے اور کس میں نہیں ۔ وہ ہماری اپنی مرضی کے تابع ہو۔


 

جی آ جی آ۔
عرض ہے کہ خاتون بیک وقت سی آئی اے (امریکہ)، ایم آئی سکس (انگلستان)، این ڈی ایس( افغانستان)، ایف ایس بی (رشیا) ، بی این ڈی (جرمنی)، ڈی جی ایس ای (فرانس) ایم ایس ایس (چائنہ) ، آئی ایس آئی (پاکستان) اور کبھی کبھار ن لیگ کی ایجنٹ ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
جی آ جی آ۔
عرض ہے کہ خاتون بیک وقت سی آئی اے (امریکہ)، ایم آئی سکس (انگلستان)، این ڈی ایس( افغانستان)، ایف ایس بی (رشیا) ، بی این ڈی (جرمنی)، ڈی جی ایس ای (فرانس) ایم ایس ایس (چائنہ) ، آئی ایس آئی (پاکستان) اور کبھی کبھار ن لیگ کی ایجنٹ ہیں۔
ریحام خان صرف عمران خان کی (ایکس) ایجنٹ ہے :)
 

ظفری

لائبریرین
جی آ جی آ۔
عرض ہے کہ خاتون بیک وقت سی آئی اے (امریکہ)، ایم آئی سکس (انگلستان)، این ڈی ایس( افغانستان)، ایف ایس بی (رشیا) ، بی این ڈی (جرمنی)، ڈی جی ایس ای (فرانس) ایم ایس ایس (چائنہ) ، آئی ایس آئی (پاکستان) اور کبھی کبھار ن لیگ کی ایجنٹ ہیں۔
میں اپنی کم مائیگی پر شرمندہ ہوں ۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ خاتون اتنی زیادہ صلاحیتوں کی مالک ہیں ۔:thinking:
ویسے صلاحیتوں کے علاوہ ماشاء اللہ اتنی خوبصورت ہیں کہ ہر کوئی ان کی جانبداری کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔ :notworthy:
 
وزیرِ اعظم کی فطری ناعاقبت اندیشی نے بین الاقوامی سیاست میں پاکستان کو ایک خطرناک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ مسلم امہ میں مختلف الخیال گروہ بندی موجود ہے لیکن پاکستانی موقف ہمیشہ اعتدال پسند انداز میں ساری مسلم امہ کے ساتھ، کسی ایک گروہ کی موافقت یا مخالفت کے بغیر اصولوں پر مبنی رہا ہے۔
ملکی سیاست تو خیر جیسی ہے ویسی ہے، لیکن بین الاقوامی سیاست میں جس فہم و فراست کی ضرورت ہے وہ بد قسمتی سے ہمارے موجودہ حکمرانوں میں مفقود ہے۔ انہوں نے یوٹرن کو اپنے لیے ایک بہترین لائحۂ عمل سمجھا ہے۔ بلا سوچے سمجھے ایک فیصلہ کرلیتےہیں، سوشل میڈیا پر مخالفت ہوئی تو فوراً یوٹرن لے لیتے ہیں۔

بین الاقوامی سیاست میں جہاں پاکستان نے ہمیشہ اصولوں کی بات کی ہے اور وہیں آج ہماری حکومت نے ایک فیصلہ کیا جس میں ایک ایسے گروپ میں شرکت کرنی تھی جس کی وجہ سے کئی تنازعات جنم لے سکتے ہیں۔ اگر موجودہ حکومت اس فیصلے کو اصولی طور پر درست تسلیم کرتی تو اس پر ڈٹ کر کھڑے رہنے میں کوئی قباحت نہیں تھی۔ سیاسی فیصلے سیاسی فراست رکھنے والے حلقوں ہی کو زیب دیتے ہیں ناکہ ہم عامیوں کو اس بارے میں نکتہ چینی کا حق حاصل ہے۔ ہمیں تو اعتراض اس یوٹرن کی عادت پر ہے جو کل تک ملکی سیاست میں جلوے بکھیر رہی تھی تو آج بین الاقوامی سیاست میں پاکستان کی شرمندگی کا باعث بن رہی ہے۔
جو باتیں ہم نے اپنے تبصرے میں کی تھین وہی آج روزنامہ ڈان کے مضمون میں زاہد حسین نے بھی کی ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ لکھاری بھی بغضِ عمران کا شکار ہے!!!

Diplomatic debacle - Newspaper - DAWN.COM

Diplomatic debacle
Zahid HussainDecember 25, 2019
Facebook Count120
Twitter Share

24
5e02c75956bd2.jpg

The writer is an author and journalist.
THE latest foreign policy debacle in the shape of Pakistan’s last-minute decision to pull out of the Kuala Lumpur Summit illustrates Imran Khan’s Trumpian-style of dealing with highly sensitive policy issues. It is decision-making driven by whims rather than reason.

While it was unwise to take the decision to attend the summit without deliberating the pros and cons, even worse was backing out of the commitment under pressure from another county. The entire episode reflects a new low in our diplomacy. It happens when institutional processes are set aside to accommodate the quirks of an individual. It is a voodoo foreign policy that has caused us loss of credibility among friendly countries. Yet we are blind to this.

Notwithstanding the Foreign Office claiming otherwise, there is a ring of truth to what Turkish President Recep Tayyip Erdogan said about Saudi pressure being the reason for Pakistan’s abrupt withdrawal. The prime minister’s sudden dash to Riyadh, followed by the announcement of the cancellation of his visit leaves nothing to conjecture. What could be more humiliating for a sovereign nation than to accept the dictates of another country? It has been a loss of face from all sides.

No precedent in recent history comes to mind where Pakistan has allowed some other country to take a decision on its foreign policy imperatives and how to conduct its relations with other states. Despite pressure, Pakistan had previously maintained a balance in its relations with countries hostile to one another. We have kept ourselves out of the civil war in the Middle East and declined to send troops to help Saudi forces in Yemen while withstanding intense pressure from Riyadh. So what has happened now?

A major problem with the PTI government is its non-serious approach to critical foreign policy issues.

Saudi Arabia may have its own reasons to oppose the KL Summit but it could not prevent other countries from participating. Surely, the Saudis have strong leverage over Pakistan because of our increasing financial reliance on the kingdom, and yet we have weathered similar pressure in the past and managed to pursue an independent policy. In fact, Imran Khan should have thought through all aspects before committing himself to attending the conference in the first place.

Interestingly, the agenda of the conference was discussed in the prime minister’s meeting with the Turkish president and the Malaysian prime minister on the sidelines of the UN General Assembly in September. The main objective was to evolve a joint strategy to counter Islamophobia. The prime minister had sounded very enthusiastic about the project.

It was not the first time the KL Summit was held. It was the fifth, and larger, edition of the forum. Apart from the leaders of Turkey, Iran and Qatar, delegates from some 20 Muslim countries participated, including Islamic scholars. Indian action in India-held Kashmir was also part of the agenda.

While the Saudi objection that the forum was meant to undermine the OIC was not legitimate, the Saudi opposition did expose the rivalries among Muslim countries. Saudi Arabia and other Gulf countries see the emerging alliance of Turkey, Iran, and Qatar as detrimental to their interests. The presence of the leaders of these three countries was the main reason for the Saudi opposition to the summit. Surely, Pakistan should not be a party to such rivalries, but the conference was not in any way an anti-Saudi forum.

Succumbing to Saudi pressure has called into question Imran Khan’s talk of mediating between Saudi Arabia and Iran. It is apparent that Pakistan has no clout over these two countries and it is not in any position to make them talk to each other. In fact, the latest episode raises questions about our independence and neutrality in a regional power struggle.

While Saudi support for Pakistan’s cash-strapped economy is important, the latest event underscores the risk of the country being pushed into a regional power game. True, Pakistan had done well by balancing its relations with Iran and Qatar despite its closeness with the kingdom but the latest diplomatic blunder has shaken this balance.

The complex external circumstances surrounding the country demand prudent management of foreign relations. But a major problem with the PTI government is its non-serious approach while dealing with extremely critical foreign policy issues. Imran Khan is in the habit of not engaging in serious discussion with senior officials and other stakeholders before making policy announcements.

Some of his comments during his visit to New York in September this year indicate his limited understanding of complex foreign policy issues. For example, at the Council of Foreign Relations, he reportedly said that the Pakistani intelligence had trained Al Qaeda. He also claimed that it was his idea for the US to negotiate with the Afghan Taliban for ending the Afghan conflict, forgetting that this was Pakistan’s consistent position since the beginning of the US-led war.

Similarly, during one of his visits to Tehran, he reportedly stated that Pakistani soil was used for militant attacks in Iran. It has taken a lot of effort to do damage control. The irresponsible statements of some federal ministers also affected our relations with China at one point. A major problem is the gradual decay in the ability and capacity of institutions to evolve a clear policy direction. The decline is much more rapid under the PTI government.

Pakistan’s diplomatic clout has eroded over the years because of political instability and economic insecurity. The government has failed even to build a national narrative on this critical issue. Imran Khan has been warning the world of catastrophe if the Kashmir problem is not resolved. But he has failed to come out with a clear policy direction on the issue.

Meanwhile, internal political strife in Pakistan and its economic dependency on other countries have raised questions about our ability to effectively fight our case in international forums. The latest foreign policy debacle speaks volumes for the government’s inability to deal with fast-changing regional geopolitics. Unfortunately, we are miserably lacking in skills that require maturity.
 

جاسم محمد

محفلین
صاف ظاہر ہے کہ یہ لکھاری بھی بغضِ عمران کا شکار ہے!!!
It happens when institutional processes are set aside to accommodate the quirks of an individual.
بالکل۔ جب نواز شریف نے تمام سفارتی پروٹوکولز کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مودی کو بغیر ویزہ اپنی نواسی کی شادی پر مدعو کیا تھا۔ اس وقت یہی ڈان اخبار کے لفافے اس کی واہ واہ کر رہے تھے۔
The_Prime_Minister%2C_Shri_Narendra_Modi_visits_the_Prime_Minister_of_Pakistan%2C_Mr._Nawaz_Sharif%27s_home_in_Raiwind%2C_where_his_grand-daughter%27s_wedding_is_being_held%2C_in_Pakistan_on_December_25%2C_2015_%283%29.jpg

The_Prime_Minister%2C_Shri_Narendra_Modi_visits_the_Prime_Minister_of_Pakistan%2C_Mr._Nawaz_Sharif%27s_home_in_Raiwind%2C_where_his_grand-daughter%27s_wedding_is_being_held%2C_in_Pakistan_on_December_25%2C_2015_%281%29.jpg

The_Prime_Minister%2C_Shri_Narendra_Modi_visits_the_Prime_Minister_of_Pakistan%2C_Mr._Nawaz_Sharif%27s_home_in_Raiwind%2C_where_his_grand-daughter%27s_wedding_is_being_held%2C_in_Pakistan_on_December_25%2C_2015.jpg

نواز شریف کا ہر کام درست۔ عمران خان کا ہر کام غلط۔ یہ بغض عمران نہیں ہے تو کیا ہے؟
The Nawaz and Modi show - Pakistan - DAWN.COM
 

جاسم محمد

محفلین
حماقتوں کا ٹیسٹ میچ
جاوید چوہدری بدھ 25 دسمبر 2019

دریا پوٹامک واشنگٹن میں بہتا ہے‘ آپ اگر کبھی واشنگٹن جائیں اور دریا کے کنارے سیر کریں تو آپ کو تاحد نظر چیری کے درخت ملیں گے‘ یہ درخت بہار کے موسم میں پھول دیتے ہیں اور کمال کر دیتے ہیں‘ آپ کو اپنی نگاہوں کے آخری کنارے تک پھول ہی پھول دکھائی دیں گے‘ بہار میں دریا کے کنارے بھی مہک اٹھتے ہیں‘ چیری کے پھول اور مہک کا یہ دور ’’چیری بلاسم‘‘ کہلاتا ہے‘ لاکھوں سیاح ہر سال یہ بلاسم دیکھنے واشنگٹن آتے ہیں۔

یہ دریا کے کنارے واک کرتے ہیں اور پھولوں کی مہک سانسوں کی مالا میں پروتے ہیں‘یہ درخت اور یہ پھول بظاہر عام دکھائی دیتے ہیںلیکن ان کے پیچھے سفارت کاری کی ایک انتہائی دل چسپ کہانی ہے‘ کہانی کی جڑیں دوسری جنگ عظیم میں دفن ہیں‘ امریکا نے 1945 میں ہیرو شیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے‘ یہ انسانی تاریخ کا خوف ناک ترین واقعہ تھا‘ دو بم گرے اور آن واحد میں اڑھائی لاکھ لوگ ہلاک اور تین لاکھ زخمی ہو گئے‘ جاپان نے ایٹمی حملوں کے فوراً بعد سرینڈر کر دیا یوں امریکا جنگ جیت گیا۔

جاپانیوں نے بعد ازاں امریکا سے ایٹم بموں کا خوب صورت بدلا لیا‘ جاپانی بادشاہ ہیروہیٹونے تاوان جنگ میں امریکا کو چیری کے ہزاروں پودے گفٹ کر دیے‘ جاپان کے ماہرین واشنگٹن آئے اور دریا پوٹامک کے کنارے پودے لگا دیے‘ جاپانی شاہ کا کہنا تھا دنیا میں کسی جنگ کا اس سے زیادہ اچھا بدلا نہیں ہو سکتا‘ ہمارے چیری کے پودے بہار کے ہر موسم میں بلاسم کریں گے‘ دنیا جہاں سے لوگ آ کر یہ پودے اور یہ پھول دیکھیں گے‘ ان کی بیک گراؤنڈ پوچھیں گے اور امریکی شرمندہ ہو کر سیاحوں کو بتائیں گے جاپان نے یہ پودے ایٹمی جنگ کے بعد امریکا کو گفٹ کیے تھے یوں ہمارے پھول قیامت تک امریکا کے ایٹم بم کا مقابلہ کریں گے۔

یہ سفارت کاری کی باریکی اور نفاست کا ایک واقعہ ہے اور یہ واقعہ ثابت کرتا ہے ملک ملکوں سے بدلا بھی انتہائی سوچ سمجھ کر لیتے ہیں‘ آپ سفارتی اخلاقیات کی باریکی ملاحظہ کیجیے ‘دنیا کے کسی ملک کا کوئی سربراہ جب دوسرے ملک کے سرکاری وزٹ پر جاتا ہے تو اس ملک کا صدر یا وزیراعظم بھی جوابی وزٹ کرتا ہے‘ فرانس اور امریکا کے درمیان60ء کی دہائی میں اختلافات پیدا ہو گئے‘ جان ایف کینیڈی امریکا اور چارس ڈیگال فرانس کے صدر تھے‘ جان ایف کینیڈی تعلقات ٹھیک کرنے کے لیے اچانک فرانس کے دورے پر آ گیا۔

ڈیگال اسے ریسیو کرنے پر مجبور ہو گیا‘ کینیڈی واپس جانے لگا تو اس نے ڈیگال سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا ’’مسٹر پریذیڈنٹ اب آپ کو بھی مجھے ملنے امریکا آنا پڑے گا‘‘ ڈیگال نے مسکرا کر جواب دیا ’’ ضرور آؤں گا لیکن تاریخ کا فیصلہ میں خود کروں گا‘‘ چارلس ڈیگال نے اپنا وعدہ جان ایف کینیڈی کے جنازے پرپورا کیا‘ آپ دیکھ لیں سفارت کاری کتنا باریک کام ہوتا ہے‘ ملکوں کے ملکوں سے تعلقات بنتے بنتے صدیاں لگ جاتی ہیں‘ سفارت کار ایک ایک اینٹ رکھ کر دیوار کھڑی کرتے ہیں اور پھر حکومتیں ان دیواروں پر محبت اور تعلقات کے گنبد بناتی ہیں لیکن پھر غلط فہمی کا کوئی ایک ہاتھی آتا ہے اور تعلقات کا پورا قلعہ مسمار کر دیتا ہے‘ وزیراعظم عمران خان نے بھی یہی کیا‘ انھوں نے ایک ٹھڈے سے پانچ ملکوں کے ساتھ پاکستان کے 72 سال کے تعلقات خراب کر دیے۔

یہ واقعہ پاکستان کی سفارتی تاریخ میں بارہ اکیس بن گیا (بارہ کا مطلب دسمبر اور 21 تاریخ ہے) اور یہ دہائیوں تک یاد رکھا جائے گا‘ یہ کیا واقعہ تھا میں اس طرف آنے سے پہلے آپ کو ذرا سی بیک گراؤنڈ بتاتا چلوں‘ بھارت نے 5 اگست 2019 کو آئین کا آرٹیکل 370 منسوخ کر کے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو لگا دیا‘ ہمارا خیال تھا برادر اسلامی ملک اور او آئی سی ہماری مدد کرے گی لیکن ہمیں کسی طرف سے ہمدردی کے دو لفظ تک نہ ملے‘ دنیا میں صرف تین ملکوں نے کھل کر ہمارا ساتھ دیا اور وہ ملک تھے ایران‘ ترکی اور ملائیشیا ‘ وزیراعظم عمران خان جنرل اسمبلی سے خطاب کے لیے21 ستمبر کو نیویارک گئے‘ ان کی 25ستمبر کو ترک وزیراعظم طیب اردگان اور ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد سے مشترکہ ملاقات ہوئی‘ عمران خان نے دونوں کو مشورہ دیا ہمیں مل کر اسلامی دنیا کا نیا بلاک بنانا چاہیے‘ ہمیں مشترکہ میڈیا‘ بینک‘ کرنسی اور سفارتی پالیسی بھی طے کرنی چاہیے۔

عمران خان کی تجویز تھی مہاتیر محمد اس وقت اسلامی دنیا کے سینئر ترین حکمران ہیں چناں چہ یہ کام انھیں کرنا چاہیے‘ طیب اردگان اور مہاتیر محمد نے اتفاق کر لیا‘ مہاتیر نے 2014 میں کوالالمپور سمٹ کے نام سے ایک فورم بنایا تھا‘ یہ چار سال سے اس فورم کے تحت عالمی کانفرنس کرا رہے تھے‘ مہاتیر محمد نے اس فورم کا سائز بڑھانے اور اس کے ذریعے نئے اسلامی ایجنڈے کے اعلان کا وعدہ کر لیا‘ وزیراعظم عمران خان نے کانفرنس میں شرکت اور اسلامی ملکوں کو قائل کرنے کا وعدہ کر لیا۔

وزیراعظم نے یہ ’’اینی شیٹو‘‘ لیتے وقت وزارت خارجہ سے کسی قسم کا مشورہ نہیں کیا لیکن وزارت اس کے باوجود وزیراعظم کو روکتی رہ گئی‘وزارت خارجہ کا کہنا تھا سعودی عرب کی طرف سے ردعمل آئے گا اور ہم اس ردعمل کو برداشت نہیں کر سکیں گے مگر وزیراعظم کا جواب تھا ’’میں ولی عہد محمد بن سلمان سے خود بات کر لوں گا‘‘ بہرحال کانفرنس کی تیاریاں شروع ہو گئیں اور سعودی عرب کے پرانے حریف ایران اور ترکی بھی کانفرنس کا حصہ بن گئے اور نیا مخالف قطر بھی‘ ہم نے بھی دھوم دھام کے ساتھ کانفرنس میں شرکت کا اعلان کر دیا۔

آپ ہماری عقل دیکھیے ہمارے وزیراعظم یہ تک نہیں جانتے تھے ترکی اور سعودی عرب میں ہزار سال اور ایران اور سعودی عرب میں 14 سو سال کی دوریاں ہیں‘ ترکی چارسو سال حجاز پر قابض رہا جب کہ عربوں اور ایران کے درمیان حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں تنازع شروع ہو گیا تھا چناں چہ یہ تینوں ایک جگہ نہیں بیٹھ سکیں گے لیکن ہم نے کیوں کہ ورلڈ کپ جیتا تھا لہٰذا ہم سفارت کاری کے بھی چیمپیئن ہیں‘ ہم پوری دنیا کے سربراہوں کو جانتے ہیں چناں چہ ہم وکٹ پر ڈٹ گئے یہاں تک کہ سعودی عرب کی طرف سے ری ایکشن آ گیا‘ ہمیں پوچھ لیا گیا ’’تم کیا کر رہے ہو؟‘‘ ہم پریشان ہو گئے۔

ہم نے11 دسمبر کو شاہ محمود قریشی کوریاض بھجوا دیا‘ سعودی حکومت نے ہمارے وزیر خارجہ کو 9 گھنٹے باہر انتظار کروایا‘ یہ جب تھک کر کھانے کی میز پر بیٹھ گئے تو انھیں ’’فوراً آ جائیں‘‘ کا حکم دے دیا گیا اور یہ کھانا ادھورا چھوڑ کر ملاقات کے لیے دوڑ پڑے‘ وزیر خارجہ کوبتا دیا گیا ’’آپ کو فیصلہ کرنا ہوگا آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے مخالفوں کے ساتھ ‘‘ وزیر خارجہ پیغام لے کر واپس آ گئے لیکن وزیراعظم کو اس واضح پیغام کے باوجود اپنی کمیونی کیشن سکل پر بہت ناز تھا‘ یہ ایک نیا منصوبہ لے کر14 دسمبر کو سعودی عرب پہنچ گئے۔

ہم نے ولی عہد کو کوالالمپور سمٹ کی قیادت کی پیش کش کر دی‘ ہم نے ان کو بتایا مشترکہ اعلامیہ بھی آپ کے نام سے جاری ہو گا اور یہ فورم بھی آپ کا ہو گا‘ ہم نے مہاتیر محمد کو بھی تیار کر لیا یہ سعودی عرب جائیں اور اپنے ہاتھ سے ولی عہد محمد بن سلمان کو دعوت نامہ دیں‘ ملائیشیا نے سعودی عرب سے مہاتیر محمد کے وزٹ کی درخواست کی لیکن سعودی حکومت نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا‘ بہرحال قصہ مختصر ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ وزیراعظم کی ملاقات ہوئی اور ہمارے پاس صرف ایک آپشن بچا‘ ہم کوالالمپور سمٹ میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کر دیں اور ہم نے یہ اعلان کر دیا۔

ہم اگر یہ اعلان نہ کرتے تو ہمیں سعودی عرب کے چھ ارب ڈالر (تین ارب ڈالر نقد اور تین ارب ڈالرکا ادھار تیل)بھی واپس کرنا پڑتے اور سعودی عرب میں کام کرنے والے ہمارے 41لاکھ پاکستانی بھی گھر واپس آ جاتے لہٰذا ہمارے پاس کوئی سیکنڈآپشن نہیں تھا‘ ہم نے بہرحال سعودی عرب کی ’’درخواست‘‘ مان لی اور کوالالمپور سمٹ سے یوٹرن لے لیا‘ ہمارا یوٹرن اگر یہاں تک محدود رہتا تو بھی شاید ’’ڈیمیج کنٹرول‘‘ ہو جاتا مگر ہم نے اس کے بعد اس سے بڑی حماقت کر دی‘ وزیراعظم عمران خان 17 دسمبرکو جنیوا میں طیب اردگان سے ملے اور ان کو سعودی ولی عہد سے اپنے ڈائیلاگ کی تفصیل بتا دی ‘ طیب اردگان نے 20 دسمبر کو پوری دنیا کو بتا دیا سعودی عرب نے پاکستان کو 41 لاکھ ورکرز اور قرض واپس لینے کی دھمکی دی تھی۔

اس انکشاف نے سعودی عرب کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات خراب کر دیے لہٰذا آپ کمال دیکھیے ہم نے مہاتیر محمد کو او آئی سی کے مقابلے میں کھڑا کر کے سعودی عرب سے تعلقات بگاڑ لیے‘ ہم نے کوالالمپور سمٹ سے بھاگ کر مہاتیر محمد اور طیب اردگان کے ساتھ تعلقات خراب کر لیے‘ ہم نے ایران اور قطر کو بھی مزید پھنسا دیا اور ہم نے آخر میں ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ اپنا ڈائیلاگ طیب اردگان کے ساتھ شیئر کر کے سعودی شاہی خاندان کو بھی اپنے آپ سے دور کر دیا چناں چہ ہم نے ایک بال سے ہی اپنی ساری وکٹیں اڑا دیں۔

ہمیں کوئلوں کی دلالی میں کیا ملا؟ ہم نے 94 سال کے بزرگ مہاتیر محمد کو اسلامی دنیا میں تنہا کر دیا‘ ہم نے ترکی اور سعودی عرب کے تعلقات مزید خراب کر دیے‘ ہم ایران اور قطر کو بھی سعودی عرب سے مزید دور لے گئے اور ہم آخر میں خود بھی اپنے دیرینہ دوستوں سے محروم ہو گئے‘ہمیں کتنے نفلوں کا ثواب ملا‘ آخر ہماری حماقتوں کا یہ ٹیسٹ میچ کب ختم ہو گا‘ ہم کہاں جا کر رکیں گے؟ ہمارے سامنے سمندر اور پیچھے کھائی دونوں آ چکے ہیں‘ کیا ہم ان میں کود کر دم لیں گے! جاپان نے دوسری جنگ عظیم میں اپنے دشمن امریکا کو چیری کے پودے دیے اور ہم اپنے دوستوں کے صحن میںکیکر بو رہے ہیں‘ ہم آخر چاہتے کیا ہیں‘کیا ہم خود کو پاگل ثابت کرنا چاہتے ہیں؟
 

سروش

محفلین
چین کے دباؤ کی وجہ سے تائیوان سے روابط قائم نہیں کرتے ، جہاں سے الیکٹرانک کی صنعت میں بیش بہا مدد مل سکتی ہے ۔ سعودی اور امارتی دباؤ کی وجہ سے قطر اور ایران سے روابط نہیں قائم کرتے ۔ اگر یہ مسلم بلاک بن رہا تھا اور اس کا حصہ بن جاتے تو عربوں کی غلامی سے نجات تو ملتی ۔ ایران سے دوستانہ تعلقات ، سعودی مفادات سے قطع نظر ہوکر قائم کریں تو یہ ساری بلیک میلنگ ختم ہوگی ۔
 

ظفری

لائبریرین
چین کے دباؤ کی وجہ سے تائیوان سے روابط قائم نہیں کرتے ، جہاں سے الیکٹرانک کی صنعت میں بیش بہا مدد مل سکتی ہے ۔ سعودی اور امارتی دباؤ کی وجہ سے قطر اور ایران سے روابط نہیں قائم کرتے ۔ اگر یہ مسلم بلاک بن رہا تھا اور اس کا حصہ بن جاتے تو عربوں کی غلامی سے نجات تو ملتی ۔ ایران سے دوستانہ تعلقات ، سعودی مفادات سے قطع نظر ہوکر قائم کریں تو یہ ساری بلیک میلنگ ختم ہوگی ۔
یہ صرف اس حکومت کا مسئلہ نہیں اور نہ ہی آپ اس مقام پر ہیں کہ کوئی حتمی فیصلہ کرکے اس غلامی سے نجات حاصل کرلیں ۔ قوم گردن تک قرضوں میں دھنسی ہوئی ہے ۔ اس کے علاوہ بےتحاشہ ایسے مسائل ہیں ۔ جن پر قابو پانے کے لیئے آپ کو انہی لوگوں سے مدد درکار ہوگی ۔ اس طوق کے ذمہ دار پچھلی حکومتوں کے حواری ہیں ۔ جن میں سول اور فوجی حکمران بھی شامل ہیں ۔ صرف آئی ایم ایف کا قرضہ اتارنا ہو تو عوام کی چنخیں نکل جاتیں ہیں کہ ہم پر اضافی بوجھ ( مہنگائی) ڈالا جارہا ہے ۔ یہ اتنا آسان نہیں ہے کہ سعودیہ سے تعلق قطع کرکے ایران سے تعلق جوڑ دیا جائے جو پہلے ہی اقتصادی پابندیوں کا شکار ہے ۔ اور چور بازار میں اپنا تیل بیچ کر گذارا کر رہا ہے ۔ سعودیہ سے مفادات سے قطع ِ نظر ہو کر ایران سے تعلق جوڑنا ہے تو باقی مسئلوں کو چھوڑیئے پہلے طے ہو کہ سعودیہ میں بیس لاکھ ملازمت کرنے والے پاکستانی کہاں جائیں گے۔ افسوس تو یہ ہوتا ہے کہ یہاں کچھ پڑھے لکھے لوگ ادھر اُدھر سے سن کر اپنی ایک حتمی رائے قائم کرلیتے ہیں ۔ اور اس سے زیادہ بھی افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ اپنی طرف سے بھی کوئی تحقیق نہیں کرتے اور نہ ہی اپنی رائے میں لچک پیدا کرتے ہیں ۔ ان کے پاس صرف ناقص حوالے ہوتے ہیں ۔
ملائشیا کے دورے میں شرکت کرکے ہم کیا حاصل کرلیتے اور سعودیہ سے تعلق خراب کرکے کیا نقصان ہوتا ۔ اس پر بھی حقیقی انداز سے جائزہ لے لیا جاتا تو اپنی حدِ نظر کا بھی اندازہ ہو جاتا ۔ میں تو حیران ہوں کہ آج کل تمام پاکستانی چینلز نے ان تمام کرپٹ ، لوٹ مار کرنے والوں کو جس طرح کوریج دے رہے ہیں اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس نسل کے لیئے لفافہ کیا اہمیت رکھتا ہے ۔ اور انہی کے جھوٹے تبصروں اور ڈھٹائی پر اپنے موقف پر اڑے رہنے کے پروگرامز کی بہتا ت نے لوگوں میں سچ اور جھوٹ کی تمیز مٹا دی ہے ۔
 

ظفری

لائبریرین
جو باتیں ہم نے اپنے تبصرے میں کی تھین وہی آج روزنامہ ڈان کے مضمون میں زاہد حسین نے بھی کی ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ لکھاری بھی بغضِ عمران کا شکار ہے!!!

Diplomatic debacle - Newspaper - DAWN.COM

Diplomatic debacle
Zahid HussainDecember 25, 2019
Facebook Count120
Twitter Share

24
5e02c75956bd2.jpg

The writer is an author and journalist.
THE latest foreign policy debacle in the shape of Pakistan’s last-minute decision to pull out of the Kuala Lumpur Summit illustrates Imran Khan’s Trumpian-style of dealing with highly sensitive policy issues. It is decision-making driven by whims rather than reason.

While it was unwise to take the decision to attend the summit without deliberating the pros and cons, even worse was backing out of the commitment under pressure from another county. The entire episode reflects a new low in our diplomacy. It happens when institutional processes are set aside to accommodate the quirks of an individual. It is a voodoo foreign policy that has caused us loss of credibility among friendly countries. Yet we are blind to this.

Notwithstanding the Foreign Office claiming otherwise, there is a ring of truth to what Turkish President Recep Tayyip Erdogan said about Saudi pressure being the reason for Pakistan’s abrupt withdrawal. The prime minister’s sudden dash to Riyadh, followed by the announcement of the cancellation of his visit leaves nothing to conjecture. What could be more humiliating for a sovereign nation than to accept the dictates of another country? It has been a loss of face from all sides.

No precedent in recent history comes to mind where Pakistan has allowed some other country to take a decision on its foreign policy imperatives and how to conduct its relations with other states. Despite pressure, Pakistan had previously maintained a balance in its relations with countries hostile to one another. We have kept ourselves out of the civil war in the Middle East and declined to send troops to help Saudi forces in Yemen while withstanding intense pressure from Riyadh. So what has happened now?

A major problem with the PTI government is its non-serious approach to critical foreign policy issues.

Saudi Arabia may have its own reasons to oppose the KL Summit but it could not prevent other countries from participating. Surely, the Saudis have strong leverage over Pakistan because of our increasing financial reliance on the kingdom, and yet we have weathered similar pressure in the past and managed to pursue an independent policy. In fact, Imran Khan should have thought through all aspects before committing himself to attending the conference in the first place.

Interestingly, the agenda of the conference was discussed in the prime minister’s meeting with the Turkish president and the Malaysian prime minister on the sidelines of the UN General Assembly in September. The main objective was to evolve a joint strategy to counter Islamophobia. The prime minister had sounded very enthusiastic about the project.

It was not the first time the KL Summit was held. It was the fifth, and larger, edition of the forum. Apart from the leaders of Turkey, Iran and Qatar, delegates from some 20 Muslim countries participated, including Islamic scholars. Indian action in India-held Kashmir was also part of the agenda.

While the Saudi objection that the forum was meant to undermine the OIC was not legitimate, the Saudi opposition did expose the rivalries among Muslim countries. Saudi Arabia and other Gulf countries see the emerging alliance of Turkey, Iran, and Qatar as detrimental to their interests. The presence of the leaders of these three countries was the main reason for the Saudi opposition to the summit. Surely, Pakistan should not be a party to such rivalries, but the conference was not in any way an anti-Saudi forum.

Succumbing to Saudi pressure has called into question Imran Khan’s talk of mediating between Saudi Arabia and Iran. It is apparent that Pakistan has no clout over these two countries and it is not in any position to make them talk to each other. In fact, the latest episode raises questions about our independence and neutrality in a regional power struggle.

While Saudi support for Pakistan’s cash-strapped economy is important, the latest event underscores the risk of the country being pushed into a regional power game. True, Pakistan had done well by balancing its relations with Iran and Qatar despite its closeness with the kingdom but the latest diplomatic blunder has shaken this balance.

The complex external circumstances surrounding the country demand prudent management of foreign relations. But a major problem with the PTI government is its non-serious approach while dealing with extremely critical foreign policy issues. Imran Khan is in the habit of not engaging in serious discussion with senior officials and other stakeholders before making policy announcements.

Some of his comments during his visit to New York in September this year indicate his limited understanding of complex foreign policy issues. For example, at the Council of Foreign Relations, he reportedly said that the Pakistani intelligence had trained Al Qaeda. He also claimed that it was his idea for the US to negotiate with the Afghan Taliban for ending the Afghan conflict, forgetting that this was Pakistan’s consistent position since the beginning of the US-led war.

Similarly, during one of his visits to Tehran, he reportedly stated that Pakistani soil was used for militant attacks in Iran. It has taken a lot of effort to do damage control. The irresponsible statements of some federal ministers also affected our relations with China at one point. A major problem is the gradual decay in the ability and capacity of institutions to evolve a clear policy direction. The decline is much more rapid under the PTI government.

Pakistan’s diplomatic clout has eroded over the years because of political instability and economic insecurity. The government has failed even to build a national narrative on this critical issue. Imran Khan has been warning the world of catastrophe if the Kashmir problem is not resolved. But he has failed to come out with a clear policy direction on the issue.

Meanwhile, internal political strife in Pakistan and its economic dependency on other countries have raised questions about our ability to effectively fight our case in international forums. The latest foreign policy debacle speaks volumes for the government’s inability to deal with fast-changing regional geopolitics. Unfortunately, we are miserably lacking in skills that require maturity.

جی ہاں ۔۔۔ میں ان کو متعدد بار مختلف ٹی وی ٹاک شو پر دیکھ چکا ہوں ۔ ان کا رحجان بھی بہت حد تک عرفان صدیقی اور عطاءالحق قاسمی سے ملتا جلتا ہے ۔ باقی تفصیل جاسم محمد نے بتا دی ہے ۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
میں تو حیران ہوں کہ آج کل تمام پاکستانی چینلز نے ان تمام کرپٹ ، لوٹ مار کرنے والوں کو جس طرح کوریج دے رہے ہیں اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس نسل کے لیئے لفافہ کیا اہمیت رکھتا ہے ۔ اور انہی کے جھوٹے تبصروں اور ڈھٹائی پر اپنے موقف پر اڑے رہنے کے پروگرامز کی بہتا ت نے لوگوں میں سچ اور جھوٹ کی تمیز مٹا دی ہے ۔
میڈیائی لفافوں کا مؤقف ہے کہ تحریک انصاف حکومت کو ہم سابقہ حکومت پر تنقید کر کر کے اقتدار میں لائے ہیں۔ اس لئے یہ ہمیں اب اس کا صلہ لفافوں کی شکل میں دے۔ حکومت نہیں دے رہی اس لئے یہ اسے بلیک میل کرنے کیلئے 24 گھنٹے پراپگنڈہ کر رہے ہیں۔ تاکہ یہ حکومت گرے، نئی حکومت آئے اور پھر دوبارہ ان میڈیائی لفافوں کو ہڈی ڈالے۔
 
Top