اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت کا حکم سنایا

زیرک

محفلین
جنرل مشرف غداری مقدمے میں سزا پر ممتاز آئینی ماہر سلمان اکرم راجہ کا مفصل تجزیہ​
ممتاز آئینی ماہر سلمان اکرم راجہ کا جنرل مشرف کو غداری کے الزام میں سزا کے بعد کہنا ہے کہ "جسٹس وقار احمد سیٹھ والے پیراگراف 66 سے ہٹ کر باقی فیصلہ بہت متوازن ہے، فیصلے کے مطابق جنرل مشرف نے آئین کی پامالی کی۔ کسی جج کے ایک فیصلے سے دماغی حالت کا تعین نہیں کیا جا سکتا، دماغی حالت کا تعین کرنے کے لیے ایک مکمل میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جاتا ہے، محض ایک پیراگراف کی بنیاد پر ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر نہیں کیا جا سکے گا۔ جنرل مشرف کیس فیصلے پر یا پیراگراف پر اپیل کی جاتی ہے تو اپیل کیے جانے کے بعد اعلیٰ عدلیہ غلطی کو درست کرا دیتی ہے، اس لیے اعلیٰ عدلیہ رکھی گئی ہے۔اپیل پراسس کے بعد اس پیراگراف کو حذف کروایا جا سکتا ہے، لیکن فیصلہ وہی رہے گا فیصلے میں سوائے پیراگراف 66 کے کوئی اور غلطی نہیں ہے۔ یہ افسوسناک اور قومی بدقسمتی ہے کہ ایک پیراگراف اتنے اہم فیصلے پر حاوی ہو گیا ہے۔ یہ پیراگراف آئین و قانون کے مطابق نہیں ہے لیکن اس کے سوا یہ بھاری بھرکم فیصلہ ہے، اس میں 3 نومبر 2007 کی ایمرجنسی کے تمام پہلوؤں کا مکمل احاطہ کیا گیا ہے۔ فیصلے میں جنرل مشرف کے لیے لفظ غداری کا مطلب یہ ہرگز نہیں لیا گیا کہ انہوں نے ملک کے راز کسی کو دئیے ہیں بلکہ انہیں آئین و قانون کی پامالی سے جوڑا گیا ہے۔ خصوصی عدالت کا فیصلہ جلدبازی میں لکھا ہوا نہیں ہے بلکہ یہ انتہائى سوچ سمجھ کر لکھا گیا بہترین فیصلہ ہے جس میں دنیا بھر کے بہترین عدالتی فیصلوں سے رہنمائى لی گئى ہے۔ فیصلے پر تنقید کو برداشت کرنا چاہیے کیونکہ بالآخر یہ فیصلہ اپیل کی صورت میں سپریم کورٹ جائے گا جہاں اس کی صحت کے بارے میں بہتر فیصلہ کیا جائے گا۔ اپیل کی صورت میں اس کیس کو لٹکایا تو جا سکتا تھا لیکن اس کا فیصلہ یہی آنا تھا۔ اپیل کے معاملے پر ابھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اپیل میں وزن ہے یا نہیں ہے۔ اس کے تکنیکی معاملات پر مزید بحث ہو سکتی ہے جن میں یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ ملزم کو سننے کے اور مواقع دیے جا سکتے ہیں یا نہیں۔ ادارے حساسیت سے نہیں چلتے، نہ ہی فیصلے اداروں کی حساسیت کی بنیاد پر کیے جا سکتے ہیں۔ اگر جذبات کی بنیاد پر فیصلے کیے جائیں گے تو پھر سے نظریۂ ضرورت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تمام اداروں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ پاکستان قانون اور آئىن کے مطابق چلے گا اور آئین توڑنے کو جرم سمجھا جائے گا۔ ورنہ ہر طالع آزما کو یہ دعوت ہو گی کہ وہ جب چاہے آئین کو پامال کر ے اور پھر حساسیت اور جذبات کا سہارا لے کر جرم معاف کروا لے۔
 

زیرک

محفلین
سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ "جسٹس وقار احمد سیٹھ نے فوجی عدالتوں کے74 ایسے فیصلے کالعدم قرار دئیے جن میں ایک ہی قلم اور ایک ہی رائٹنگ سے 74 لوگوں سے اقرار جرم کروایا گیاتھا"۔ ماوراء آئین قوتوں کو جسٹس وقار احمد سیٹھ پر اصل غصہ انہی مقدمات کی سزائیں کالعدم کرنے پر تھا۔ وہ اپنی بنائی ہوئی عدالتوں کی تحقیر کرنے والے جج کو کیسے برداشت کرسکتے تھے جس نے ان کے 74 فیصلوں کو کالعدم قرار دیا ہو، ظاہر ہے جو قانون کو موم کی ناک سمجھتے ہوں وہ مشرف جیسی مقدس گائے کو سزا دئیے جانےپر چراغ پا تو ہوں گے ہی ناں۔ سلمان اکرم راجہ کی بات کے تناظر میں دیکھا جائے تو جسٹس وقار احمد سیٹھ سیٹھ کا اصل جرم یہ بنتا ہے کہ انہوں نے مقدس آرمی کورٹس کے سزائے موت کے فیصلوں کو ناکافی شواہد کے ساتھ ساتھ، ایک ہی ہینڈ رائٹنگ اور ایک ہی رائٹنگ پیڈ پر لیے گئے ملزمان کے دو سطری مشکوک اعترافی بیانات کی کمزور بنیاد پر کالعدم قرار دیا تھا۔
 

زیرک

محفلین
جنرل مشرف کو سزا دینے والی خصوصی عدالت کے سربراہ چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس وقار احمد سیٹھ کے خلاف ریفرنس سپریم وڈیشل کونسل کو ارسال کرنے کی خبر آئی تھی لیکن اب وزارتِ قانون حکومت پاکستان کی طرف سے اس کی تردید آ گئی ہے۔
جسٹس وقار سیٹھ کیخلاف کوئی ریفرنس نہیں بھیجا، وزارت قانون
 
آخری تدوین:

زیرک

محفلین
سینئر قانون دان و سینئر پی ٹی آئی رہنما حامد خان نے کہا ہے کہ "وزیر قانون یا اٹارنی جنرل عدالتی فیصلے پر اپنا فیصلہ نہیں دے سکتے، جج کا کچھ جملے لکھنا اس کی ذہنی فٹنس یا مس کنڈکٹ کے زمر ے میں نہیں آتا، اپیل سے پہلے جسٹس وقار احمد سیٹھ کے خلاف ریفرنس آئین اور قانون کی خلاف ورزی ہو گی"۔

جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الحسن بھی کیا بھگو بھگو کر عمران خان کی چھترول کر رہے ہیں آپ بھی ملاحظہ کیجئے،فرماتے ہیں "غیرت مند انسان کے لیے یہ موت سے کم نہیں ہو گا کہ پہلے جسے وہ ماضی میں غدارِ وطن کہتا رہے پھر اسی کو محبِ وطن ثابت کرنے کی ذمہ داری سونپی جائے"۔

آئین بنانے والے کو پھانسی دی جا سکتی ہے، لیکن آئین پامال کرنے والے کو پھانسی دینے سے ریاست کی سلامتی کو خطرہ ہے۔ زندہ قوم کا آئین شکنوں کے ساتھ علامتی اور حقیقتاً دونوں صورتوں میں عبرتناک سزا یا علامتی سزا دے کر دل میں بغاوت کا بیج رکھنے والوں کو متنبہ کیا کرتی ہیں، جیسے برطانیہ میں اولیور کرومویل نامی برطانوی جنرل کو مارشل لاء لگانے کے جرم میں بعد از مرگ قبر سے نکال کر پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا۔

حُسن اتفاق کہہ لیں یا گوشمالی کہ جیسے ہی "بلاول بھٹو زرداری نے مشرف کے خلاف عدالتی فیصلے کو سراہا، نیب کی طرف سے نوٹس موصول ہو گیا کہ "بیٹا جی بہت بول لیے، اب نیب میں حاضر ہوں"۔ مجھے بلاول کے نیب کی جانب سے نہ بلائے جانے پر بھی اعتراض تھا کہ نیب کیوں سویا ہوا ہے، لیکن چونکہ بلاول نے مقدس گائے کی سزا کے حق میں بات کر کے سنگین گستاخی کا مظاہرہ کیا ہے تو ماوراء قوتوں کا تلملا کر اس کو سمن کرنا بددیانتی ظاہر کرتا ہے۔
 

زیرک

محفلین
بلاول پر جعلی اکاؤنٹس کیس بہت عرصہ سے چل رہا ہے۔ پہلے باپ اندر گیا، پھر پھپھو اور اب خود جائے گا۔
جنے کھادیاں گاجراں انہاں ٹِہڈ پیڑ
اگرکھایا ہے تو بدہضمی تو ہو گی، یہ الگ بات کہ نیب کے حکیم حاذق جسٹس صاحب سے جسٹس نہیں ہو رہا، وہ چند افراد کے علاوہ باقیوں کو مقدس گائے بنائے بیٹھے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جس دن انہوں نے سب کا خاص کر حکومت میں شامل کرپٹ افراد کا احتساب کرنا شروع کیا، ایک آدھ وڈیو سامنے لائی جائے گی اور یوں حکومت حکیم حاذق کا علاج کرنا شروع کر دے گی،وجہ سب جانتے ہیں کہ حکومت کو بچانے کے لیے سب چلتا ہے، یو ٹرن بھی اور کھوہ ٹرن بھی۔
 

زیرک

محفلین
اسٹیبلشمنٹ اور ان کی لے پالک حکومت کا اصل مسئلہ کچھ اور نہیں بلکہ یہ ہے کہ جس ملک میں ساری عوام سر جھکانے والی بھیڑوں جیسی ہو جو بغیر چوں چراں کیے ان کا حکم بجا لائیں، اس ملک میں ایک مطلق العنان آمر کو موت کی سزا سنانے والا شیر جج پاکستان میں کیسے پیدا ہو گیا؟
 

زیرک

محفلین
اٹارنی جنرل انورمنصور خان فرماتے ہیں کہ "وفاقی حکومت نے مشرف غداری کیس میں ابھی تک سپریم جوڈیشل کونسل میں جانے کا فیصلہ نہیں کیا اور سپریم کورٹ میں اپیل کے حوالے سے بھی ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے"۔
 

زیرک

محفلین
پی ٹی آئی کے سینئر لیڈر حامد خان نے وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم اور اٹارنی جنرل کے بارے میں کہا ہے کہ "اگر یہ پرویز مشرف کی اتنی خیر خواہی کر رہے ہیں تو میرا ان کے لیے مشورہ ہے آپ سرکاری عہدے سے استعفی دیں اور پرویز مشرف کی وکالت شروع کر دیں"۔ میں بحیثیت ایک ٹیکس پیئنگ پاکستان حامد خان کی تائید کروں گا کیونکہ یہ دونوں قومی خزانے سے تنخواہ لیتے ہیں اور وکالت ایک سزا یافتہ سابق جنرل کی کر رہے ہیں جو کہ ایک سیاسی جماعت کا سربراہ بھی ہے۔ اگر وہ ایسا کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اس عہدے سے فوراً استعفیٰ دے کر ان کا مقدمہ لڑنا چاہیے کیونکہ آپ کو تنخواہ عوام کی خدمت کے لیے دی جا رہی ہے، اگر آپ کو ایک طالع آزما، قانون و آئین شکن کی خدمت کرنی ہے تو استعفیٰ دیں اور شوق سے مقدمہ لڑیں۔
 

زیرک

محفلین
ایک محفل میں اٹارنی جنرل آف پاکستان کییٹن ریٹائرڈ انور منصور خان صاحب نے لن ترانی چھوڑی کہ ؛
"بغاوت کے الزام میں صرف جنرل مشرف کو پھانسی دینا انتہائی ظلم ہے، پھانسی دینی ہے تو پوری کابینہ کو دیں"۔
اب ذرا جنرل مشرف کی کابینہ کے چند نام ملاحظہ فرمائیے جو عمران خان کی کابینہ میں بھی شامل ہیں
شیخ رشید احمد، غلام سرور خان، حفيظ شیخ، فروغ نسیم، فردوس عاشق اعوان، زبیدہ جلال، اعجاز شاہ، فواد چوہدری، شفقت محمود، طارق بشیر چیمہ، مخدوم خسرو بختیار، اعظم خان سواتی، عمر ایوب خان، محمد میاں سومرو، پیر نورالحق قادری اور صاحبزادہ محبوب سلطان وغیرہ۔ ان وزراء میں سے کئی بہت چیخ و پکار کر رہے ہیں، اگر ان کے نام ایک تواتر سے سوشل میڈیا میں آنے لگے اور کوئی ایسی صورت حال پیدا ہو گئی کہ عدالت کی طرف سے تمام ذمہ داران کو جلد ازجلد کٹہرے میں لانے کا آرڈر دہرایا جائے تو دیکھیے گا شام تک ان میں سے کئی جان بچانے کے لیے ملک چھوڑ جانے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔
 

جان

محفلین
یہی سزا اگر نواز شریف کے فیصلے پہ آئی ہوتی تو تحریک انصاف کا بیانیہ بالکل اس کے متضاد ہونا تھا اور پوری پارٹی نے یک زبان ہو کر کہنا تھا کہ ملکی 'چوروں' کا یہی انجام ہونا چاہیے! بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے!
 

جاسم محمد

محفلین
یہی سزا اگر نواز شریف کے فیصلے پہ آئی ہوتی تو تحریک انصاف کا بیانیہ بالکل اس کے متضاد ہونا تھا اور پوری پارٹی نے یک زبان ہو کر کہنا تھا کہ ملکی 'چوروں' کا یہی انجام ہونا چاہیے! بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے!
یہ محض آپ کا بغض ہے۔ اس حکومت نے تو قومی چوروں کا اے سی اور ٹی وی نکالنا تھا۔ اس کی بجائے ان کو علاج کی غرض سے جیلوں سے نکال کر ملک سے باہر بھجوا رہی ہے۔ حالانکہ قانون میں اس رحم دلی کی بھی کوئی گنجائش نہیں۔
 

زیرک

محفلین
حرفِ آخر
آئین شکن جنرل مشرف کو سزائے موت سنانے والے جسٹس وقار احمد سیٹھ کو جنونی قرار دینے والوں سے عرض ہے کہ اسی شاہ دماغ جج کے فیصلوں نے کلبھوشن کیس میں پاکستان کی بین الاقوامی عدالت انصاف میں جیت کی بنیاد رکھی تھی اور بھارت کا یہ مؤقف رد کروایا تھا کہ "فوجی عدالت نے کلبھوشن کو قانونی تقاضے پامال کر کے سزا سنائی گئی ہے"۔ پاکستانی وکیل خاور قریشی نے اس کے جواب میں دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ "اگر فوجی عدالت قانون کے کسی اصول کو نظر انداز کر کے فیصلہ سنائے تو پاکستان کی اعلٰی عدالتیں ایسا فیصلہ منسوخ کر دیتی ہیں"۔ اس سلسلے میں انہوں نے پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس وقار احمد سیٹھ کا وہ فیصلہ پیش کیا گیا جس کے تحت انہوں نے فوجی عدالتوں کی جانب سے دی گئی ستر (70) سزایئں منسوخ کر دی تھیں۔ اس حوالے سے بین الاقوامی عدالت انصاف نے اپنے فیصلے کے پیراگراف 130 میں پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس وقار احمد سیٹھ کے فیصلہ کا تذکرہ کرتے ہوئے کلبھوشن یادو کو پاکستانی تحویل سے نکالنے کی بھارتی استدعا مسترد کردی تھی اور پاکستان سے کہا گیا تھا کہ "کلبھوشن کے خلاف فیصلے پر اپنی اعلٰی عدالتوں میں اس کیس کی نظرثانی کا اہتمام کرے"۔ اسی جج کے مشرف غداری کیس فیصلے کی وجہ سے بین الاقوامی عدالتی دنیا میں پاکستانی عدلیہ کی بہادری اور انصاف پسندی کو جہاں دنیا سراہ رہی ہے، وہیں فوجی جنتا کے بوٹ پالشئے فیصلے میں چند سخت الفاظ کی بنا پر اب فاتر العقل قرار دے رہے ہیں تو ان ست عرض ہے کہ وہ اپنا دماغی علاج کروائیں۔ جنہوں نے قوم کو 70 سال تک سولی پہ ٹانگے رکھا، وہ اپنے سابقہ سربراہ جو کہ اب ایک سیاسی پارٹی کا سربراہ بھی ہے اور اسی مقدمے میں مفرور بھی رہا ہے، اس کے لیے محض تین دن ٹانگے جانے کے الفاظ پر واویلا کرتے پھر رہے ہیں، ارے ظالمو 70 سال قوم کو رلایا، قوم میں ہمت تھی وہ ظلم سہہ گئی، ارے اپنی ہی قوم کو بار بار بندوق کے زور پر فتح کرنے والو کیسے بہادر ہو کہ تم تو محض لفظی و علامتی سزا پر ہی چیں بول گئے ہو۔
 

زیرک

محفلین
سابق چیف جسٹس آصف کھوسہ نے سچ کہا تھا "عدلیہ اور میرے خلاف محاذِ جنگ کھل گیا ہے"
خواجہ صفدر روڈ سیالکوٹ میں دو نقاب پوش افراد بغیر نمبر پلیٹ موٹر سائیکل رکشے پر عدلیہ کے خلاف اور سزا یافتہ غدار مشرف کے حق میں پینا فلیکس آویزاں کر رہے ہیں، اور پوچھنے کرنے پر کہتے ہیں؛
"ہمیں آرڈر کسی اور نے دیا ہے، یہ نہیں پتہ لگوا کون رہا ہے؟"
فکر نہ کرو عوام کو پتہ ہے کون کروا رہاہے؟
 
Top