ڈارون کا نظریہ ارتقا کیوں درست ہے؟

جان

محفلین
سائنس نے ایسا کوئی دعوی نہیں کیا اور نہ ہی کر سکتی ہے کیونکہ خالق، تخلیق، مخلوق وغیرہ سب کے سب فلسفیانہ یا مذہبی نظریات ہیں جو سائنس کی ڈومین سے باہر ہیں۔
سائنس بنیادی طور پر ایمان و یقین کی ڈومین سے باہر کام کرتی ہے۔ جب سائنس کہتی ہے کہ روئے زمین پر اتنا وسیع حیاتیاتی تنوع ارتقا کا نتیجہ ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسے اس پر مکمل ایمان و یقین ہے۔ بلکہ سائنس کا کہنا ہے کہ اسے دستیاب شواہد کی بنیاد پر معلوم ہے کہ ایسا ہی ہوا ہے۔ یعنی اب اسے جھٹلانا ممکن نہیں رہا۔ اور اگر کوئی فلسفہ و مذہب اسے من و عن تسلیم نہیں کرتا تو وہ غلطی پر ہے۔
یہی وہ بنیادی فرق ہے جو فلسفہ و مذہب کو سائنس سے جدا کرتا ہے۔ یعنی کسی چیز پر محض یقین و ایمان ہونا (مذہب)۔ اور کسی چیز کا حتمی علم ہونا (سائنس)۔ اسی لیے یہ دو مختلف ڈومین ہیں اور ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔
حضور بات کو اسی مراسلے پہ لے چلیں جہاں سے شروع ہوئے تھے، ہم بات الف سے شروع کرتے ہیں اور آپ کے جوابات 'ج' سے ہوتے ہوئے 'ی' پہ پہنچ جاتے ہیں! بات شروع ہوئی تھی 'تخلیق' سے نہ کہ سائنس کی اور مذہب کی ڈومین سے تو بات کو وہیں تخلیق کے گرد گھومنا چاہیے نا کہ فضول میں اسے پورے پلے گراؤنڈ کے چکر لگوائے جائیں، سائنس کی ڈومین کیا ہے اور مذہب کی کیا، یہ میں نے اپنے شروع کے ایک مراسلے میں تفصیل سے لکھا ہے! بار بار 'ڈومین' کا لکھنے سے آپ ایسا تاثر دے رہیں کہ یا تو مجھے ان ڈومین کا علم نہیں یا آپ کو ان ڈومین کا مجھ سے زیادہ پتہ ہے حالانکہ بات 'تخلیق' نامی چڑیا سے شروع ہوئی تھی!
 

جاسم محمد

محفلین
ان میں یہ 'فطری طور پر' ارتقائی صلاحیت کیسے وجود میں آ گئی اور ایسی زبر دست صلاحیت کہ وہ اس عمل کو دہراتے ہوئے پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتے ہو گئے! ہم یوں بھی تو کہہ سکتے ہیں کہ کسی نے ان کو ڈیزائن ہی اسی طرزِ عمل پہ کیا ہو؟ یہ کیوں ممکن نہیں؟ یہ دعوی اس فطری دعوے سے زیادہ مضبوط ہے! ظاہر ہے جب آپ 'فطری طور پر' کہہ رہے ہوتے ہیں تو آپ کے پاس خود اس 'فطری' عمل کی توجیہ نہیں ہے اور ایسا کہہ کر 'تخلیق' کو سائیڈ لائن لگانے کی سعی کرنے کے مرتکب ٹھہرتے ہیں! یعنی جہاں سائنسی حدیں زمانہ فی الوقت میں جواب تلاش نہ کر سکیں وہاں 'فطری' کا صیغہ استعمال کرنا ایسے ہی ہے جیسے کسی بات کے سمجھ نہ آنے پر مذہبی طبقہ 'خدا' کی بات کرتا ہے!
یہاں فطرت سے مراد یہ ہے کہ جیسے کسی ستارے میں شدید کشش ثقل اور دباؤ کے باعث ہلکی گیسوں کے ایٹمز آپس میں کرش ہو کر فطری طور پر بھاری ایٹمز میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ بالکل ویسے ہی روئے زمین پر ماضی میں ایسا ماحول فطرتا میسر تھا جس کی وجہ سے کچھ مالیکولز نے ارتقا کرتے ہوئے خود کو کاپی کرنے کی صلاحیت حاصل کر لی اور یوں وہ بے جان سے جاندار ہو گئے۔ یہیں سے زمین پر زندگی کا آغاز ہوا اور فطری انتخاب کے تحت زندہ رہ جانے والے مالیکولز بڑھتے چلے گئے جبکہ ماحول کا مقابلہ نہ کر سکنے والے معدوم ہو گئے۔
 

جاسم محمد

محفلین
حضور بات کو اسی مراسلے پہ لے چلیں جہاں سے شروع ہوئے تھے، ہم بات الف سے شروع کرتے ہیں اور آپ کے جوابات 'ج' سے ہوتے ہوئے 'ی' پہ پہنچ جاتے ہیں! بات شروع ہوئی تھی 'تخلیق' سے نہ کہ سائنس کی اور مذہب کی ڈومین سے تو بات کو وہیں تخلیق کے گرد گھومنا چاہیے نا کہ فضول میں اسے پورے پلے گراؤنڈ کے چکر لگوائے جائیں، سائنس کی ڈومین کیا ہے اور مذہب کی کیا، یہ میں نے اپنے شروع کے ایک مراسلے میں تفصیل سے لکھا ہے! بار بار 'ڈومین' کا لکھنے سے آپ ایسا تاثر دے رہیں کہ یا تو مجھے ان ڈومین کا علم نہیں یا آپ کو ان ڈومین کا مجھ سے زیادہ پتہ ہے حالانکہ بات 'تخلیق' نامی چڑیا سے شروع ہوئی تھی!
اس کا جواب زیک بھائی نے اوپر دے دیا ہے۔
ایک نظام ہے جیسے فزکس کے قوانین بھی ہیں اور کیمسٹری کے اصول بھی۔ خالق اور تخلیق کا اس سے تعلق نہیں کہ آپ کسی بھی نظام کو خالق کا تخلیق کردہ کہہ کر اسے نہیں سمجھ سکتے
 

جاسم محمد

محفلین
ظاہر ہے جب آپ 'فطری طور پر' کہہ رہے ہوتے ہیں تو آپ کے پاس خود اس 'فطری' عمل کی توجیہ نہیں ہے اور ایسا کہہ کر 'تخلیق' کو سائیڈ لائن لگانے کی سعی کرنے کے مرتکب ٹھہرتے ہیں!
ایسی بات نہیں۔ دراصل سائنس زیر مشاہدہ فطرتی عوامل کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہے اور انہی سے حتمی نتائج (تھیوریز و قوانین فطرت) اخذ کرتی ہے۔ اگر ہم بالفرض یہ مان بھی لیں کہ زمین پر غیر پیچیدہ زندگی کی ابتدا کا انتہائی پیچیدہ انواع کی سمت میں ارتقائی سفر تخلیق و ڈیزائن کا نتیجہ ہے۔ تو پھر ہمیں بہت سارے فطرتی عوامل جیسے ستاروں میں ہلکی گیسوں کا بھاری دھاتوں سے تبدیل ہونا اور اس جیسے دیگر پیچیدہ پراسیس پر بھی تخلیق کا لیبل لگانا پڑے گا۔ اسی طرح اگر کل کائنات میں ہر قسم کی پیچیدگی کو تخلیق و ڈیزائن کا نام دے دیں تو پھر اسے بذریعہ سائنس سمجھنا ممکن نہیں رہے گا۔
سائنس کے مطابق کائنات میں پائے جانے والی حالیہ پیچیدگی اربوں سال پر محیط ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے۔ محض پیچیدگی کا موجود ہونا اپنی ذات میں تخلیق، مخلوق و خالق کا ثبوت نہیں۔
 
آخری تدوین:

جان

محفلین
ایسی بات نہیں۔ دراصل سائنس زیر مشاہدہ فطرتی عوامل کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہے اور انہی سے حتمی نتائج (تھیوریز و قوانین فطرت) اخذ کرتی ہے۔ اگر ہم بالفرض یہ مان بھی لیں کہ زمین پر غیر پیچیدہ زندگی کی ابتدا کا انتہائی پیچیدہ انواع کی سمت میں ارتقا تخلیق یا ڈیزائن کا نتیجہ ہے۔ تو پھر ہمیں بہت سارے فطرتی عوامل جیسے ستاروں میں ہلکی گیسوں کا بھاری دھاتوں سے تبدیل ہونا اور اس جیسے دیگر پیچیدہ پراسیس پر بھی تخلیق کا لیبل لگانا پڑے گا۔ اسی طرح اگر کائنات میں ہر قسم کی پیچیدگی کو تخلیق و ڈیزائن کا نام دے دیں تو پھر ان کو بذریعہ سائنس سمجھنا ممکن نہیں رہے گا۔
میں اس سے بالکل متفق ہوں، مجھے یہ ماننے میں قطعی کوئی مسئلہ نہیں چاہے ساری کائنات ہی ارتقائی عمل سے وجود میں آئی ہے، میرا نقطہ تو یہ ہے کہ اس طرح وجود میں آنا خود ایک 'تخلیقی' مرحلہ بھی تو ہو سکتا ہے! یعنی دوسرے لفظوں میں خالق نے کائنات کی ہر چیز کو اسی طریقے سے وجود بخشنا مناسب سمجھا ہو! اب آپ کہیں گے کہ اس کے ثبوت نہیں ملے تو یقیناً میں وہی بات دہراؤں گا کہ کسی چیز کے صحیح یا غلط کے بارے 'ثبوت' کا نہ ملنا حقیقت کا کلی اظہار نہیں ہے!
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
سائنس کے مطابق کائنات میں پائے جانے والی حالیہ پیچیدگی اربوں سال پر محیط ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے۔ محض پیچیدگی کا موجود ہونا اپنی ذات میں تخلیق، مخلوق و خالق کا ثبوت نہیں۔
میں اس سے بالکل متفق ہوں، مجھے یہ ماننے میں قطعی کوئی مسئلہ نہیں چاہے ساری کائنات ہی ارتقائی عمل سے وجود میں آئی ہے، میرا نقطہ تو یہ ہے کہ اس طرح وجود میں آنا خود ایک 'تخلیقی' مرحلہ بھی تو ہو سکتا ہے! یعنی دوسرے لفظوں میں خالق نے کائنات کی ہر چیز کو اسی طریقے سے وجود بخشنا مناسب سمجھا ہو! اب آپ کہیں گے کہ اس کے ثبوت نہیں ملے تو یقیناً میں وہی بات دہراؤں گا کہ 'ثبوت' کا نہ ملنا حقیقت کا کلی اظہار نہیں ہے!
جی یہ ایک غیر سائنسی نظریہ تو ہو سکتا ہے۔ البتہ سائنس کا اسے سائنسی نظریہ بنانے کیلئے فطرت کے مشاہدہ سے ٹھوس شواہد کی ضرورت پڑے گی۔
 

جان

محفلین
سائنس کا اسے سائنسی نظریہ بنانے کیلئے فطرت کے مشاہدہ سے ٹھوس شواہد کی ضرورت پڑے گی۔
سائنسی نظریہ ثبوت کے نہ ملنے تک اسے حتمی طور پر 'صحیح ثابت' یا 'غلط ثابت' دونوں ہی قرار نہیں دے سکتا۔
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
ستاروں میں ہلکی گیسوں کا بھاری دھاتوں سے تبدیل ہونا اور اس جیسے دیگر پیچیدہ پراسیس پر بھی تخلیق کا لیبل لگانا پڑے گا۔
ارے یار مخلوق پر تخلیق کا لیبل لگانے میں شرمانا کیسا ؟
یہ تو ایک بدیہی حقیقت ہوئی ۔ کیا اس پر تخلیق کے بجائے طلسم اور آسیب کا لیبل مناسب رہے گا ؟
 

جاسم محمد

محفلین
ارے یار مخلوق پر تخلیق کا لیبل لگانے میں شرمانا کیسا ؟
یہ تو ایک بدیہی حقیقت ہوئی ۔ کیا اس پر تخلیق کے بجائے طلسم اور آسیب کا لیبل مناسب رہے گا ؟
مسئلہ دراصل یہ ہے کہ سائنس آثار زندگی یعنی خود کی نقل کرتے مالیکولز (self-replicating molecules) کو تخلیق کا مظہر نہیں مانتی۔
حیاتیاتی سائنس کے مطابق اگر زمین جیسا ماحول کسی اور سیارہ کو میسر ہو تو وہاں بھی جلد یا بدیر زندگی کے آثار نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔ یوں زندگی کا کہیں ہونا یا نہ ہونا مکمل طور پر دستیاب فطرتی ماحول پر منحصر ہے۔
First life: The search for the first replicator
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
1۔ انسانوں سے متعلق آپ کے سوالات علم فلسفہ ، دین و مذہب کے زمرہ میں آتے ہیں۔ یہ سائنس کی ڈومین نہیں۔
2۔ اگر اس غیرمرئی مخلوق کے سیلز کو جلا کر یا پیس کر ختم کر دیا جائے تو پھر یقینا مر جائے گی۔ البتہ اسے طبعی طور پر بڑھاپا و موت نہیں آسکتی۔ اس لحاظ سے اس نے دیگر انواع پر فوقیت حاصل کر لی ہے۔
یعنی سائنس کی دخل اندازی کی بھی ایک حد ہے۔۔۔
پھر وہ اپنی حد سے بڑھ کر خدا کا انکار کیوں کرتی ہے؟؟؟
ہم نے بھی یہ سوال سائنس کی رو سے ہی پوچھے ہیں کہ ہر جاندار بشمول انسان کے لیے موت کیوں ضروری ہے، اس کا سائنٹفک ریزن کیا ہے؟؟؟
 

سید عمران

محفلین
زمین پر زندگی کی ابتداء بے جان مادے میں جان پڑنے پر شروع ہوئی۔ جان پڑنے سے مراد یہ ہے کہ کچھ مالیکولز نے فطری طور پرارتقا کرتے ہوئے خود کو دہرانا شروع کر دیا۔ یہ جاندار مالیکولز پھر فطرتی انتخاب کے عمل سے گزر کر پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتے چلے گئے ہیں۔ اور یوں چل سو چل نت نئی اقسام کی انواع روئے زمین پر نظر آنے لگی۔
Evolution 101: From Soup to Cells - the Origin of Life
یہ مالیکیولز آئے کہاں سے؟؟؟
 

سید عمران

محفلین
مفتی صاحب! سائنس خدا کے وجود کا انکار نہیں کرتی ہے، اور نہ ہی اس کا اقرار کرتی ہے۔
واقعی صحیح کہا۔۔۔
سائنس کوئی جاندار شے تو ہے نہیں کہ کچھ کرسکے۔۔۔
یقیناً ہماری مراد اس کو بنیاد بنا کر خدا کا انکار کرنے والے ہیں!!!
 

جاسم محمد

محفلین
یعنی سائنس کی دخل اندازی کی بھی ایک حد ہے۔۔۔
پھر وہ اپنی حد سے بڑھ کر خدا کا انکار کیوں کرتی ہے؟
جی بالکل۔ سائنسی علوم مادی دنیا تک محدود ہیں۔ جو لوگ سائنس کو خدا کے انکار یا اس کی موجودگی ثابت کرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں وہ سائنسی حدود سے تجاوز کرتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
ہم نے بھی یہ سوال سائنس کی رو سے ہی پوچھے ہیں کہ ہر جاندار بشمول انسان کے لیے موت کیوں ضروری ہے، اس کا سائنٹفک ریزن کیا ہے؟؟؟
ہر جاندار کیلئے موت ضروری نہیں ہے۔ اوپر میں ہائیڈرا نامی جانداروں کا حوالہ دے چکا ہوں جنہیں فطرتی طور پر بڑھاپا و موت نہیں آتی۔
 

جاسم محمد

محفلین
صرف ایک کو سب پر لاگو نہیں کیا جاسکتا خصوصا جب معاملہ انسان کا ہو!!!
انسان فطری طور پر ان جانداروں کے گروپ (ممالیہ) سے تعلق رکھتا ہے جنہیں گزرتے وقت کے ساتھ بڑھاپا اور موت آتی ہے۔ اگر انسان ہائیڈرا النسل ہوتا تو اسے نہ فطرتی بڑھاپا آتا نہ موت۔
 
Top