غزل برائے اصلاح: چھت ہے تو سر نہیں ہمارے پاس

السلام علیکم سر الف عین عظیم شاہد شاہنواز اصلاح فرما دیجئے۔۔۔

فاعلاتن مفاعلن فعلن

چھت ہے تو سر نہیں ہمارے پاس
کچھ بھی یکسر نہیں ہمارے پاس

خاک آزادیاں ملی ہیں ہمیں
اپنے جب پر نہیں ہمارے پاس

ہم تو خود سے لپٹ کے سوتے ہیں
گرم چادر نہیں ہمارے پاس

دیس پردیس لگ رہا ہے ہمیں
اب کوئی گھر نہیں ہمارے پاس

مٹ لکیریں گئیں مشقت سے
اب مقدر نہیں ہمارے پاس

تم میں کشش نہیں رہی یا پھر
اپنا محور نہیں ہمارے پاس

اینٹ کا دیں جواب پتھر سے
اب تو پتھر نہیں ہمارے پاس

صدقہ خیرات کیا کریں ، کوئی بھی
چیز وافر نہیں ہمارے پاس

وقت اپنا گزر رہا ہے فقط
کچھ بھی بہتر نہیں ہمارے پاس

ہو گیا ہے ہمارا چہرہ مسخ
پگڑی ہے سر نہیں ہمارے پاس

اپنی ہم نبض کاٹ دیں عمران
اپنا خنجر نہیں ہمارے پاس

شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
مطلع میں ایطا ہے، قافیہ بدل دو

دیس پردیس لگ رہا ہے ہمیں
اب کوئی گھر نہیں ہمارے پاس
... اب؟ یعنی پہلے تھا؟ میرے خیال میں اسے پرانی تاریخ سے نہ جوڑا جائے
کوئی گھر ور نہیں....
کر دو

مٹ لکیریں گئیں مشقت سے
اب مقدر نہیں ہمارے پاس
.. لکیریں مٹ گئیں کی یہ ترتیب ناپسندیدہ ہے، وضاحت کے لیے 'ہاتھ' کا اضافہ بھی بہتر ہے، یہ مصرع بدلو

تم میں کشش نہیں رہی یا پھر
اپنا محور نہیں ہمارے پاس
... کشش بحر میں نہیں، محور سے ربط کے لیے کو
کوئی بہتر لفظ لایا جائے

اینٹ کا دیں جواب پتھر سے
اب تو پتھر نہیں ہمارے پاس
... پتھر دونوں مصرعوں میں استعمال ہو رہا ہے
اینٹ کا ہم جواب کیسے دیں
یا اس قسم کا کوئی مصرع بہتر ہو گا

صدقہ خیرات کیا کریں ، کوئی بھی
چیز وافر نہیں ہمارے پاس
... کوئی' کُئی' تقطیع ہو رہا ہے، کچھ بھی شاید بہتر ہو
باقی اشعار درست ہیں
 
بہت شکریہ سر الف عین
مطلع میں ایطا ہے، قافیہ بدل دو

دیس پردیس لگ رہا ہے ہمیں
اب کوئی گھر نہیں ہمارے پاس
... اب؟ یعنی پہلے تھا؟ میرے خیال میں اسے پرانی تاریخ سے نہ جوڑا جائے
کوئی گھر ور نہیں....
کر دو

مٹ لکیریں گئیں مشقت سے
اب مقدر نہیں ہمارے پاس
.. لکیریں مٹ گئیں کی یہ ترتیب ناپسندیدہ ہے، وضاحت کے لیے 'ہاتھ' کا اضافہ بھی بہتر ہے، یہ مصرع بدلو

تم میں کشش نہیں رہی یا پھر
اپنا محور نہیں ہمارے پاس
... کشش بحر میں نہیں، محور سے ربط کے لیے کو
کوئی بہتر لفظ لایا جائے

اینٹ کا دیں جواب پتھر سے
اب تو پتھر نہیں ہمارے پاس
... پتھر دونوں مصرعوں میں استعمال ہو رہا ہے
اینٹ کا ہم جواب کیسے دیں
یا اس قسم کا کوئی مصرع بہتر ہو گا

صدقہ خیرات کیا کریں ، کوئی بھی
چیز وافر نہیں ہمارے پاس
... کوئی' کُئی' تقطیع ہو رہا ہے، کچھ بھی شاید بہتر ہو
باقی اشعار درست ہیں


وہ حسیں تر نہیں ہمارے پاس
کچھ بھی یکسر نہیں ہمارے پاس

چھت ہے تو سر نہیں ہمارے پاس
کچھ بھی بہتر نہیں ہمارے پاس

خاک آزادیاں ملی ہیں ہمیں
اپنے جب پر نہیں ہمارے پاس

ہم تو خود سے لپٹ کے سوتے ہیں
گرم چادر نہیں ہمارے پاس

دیس پردیس لگ رہا ہے ہمیں
کوئی گھر ور نہیں ہمارے پاس

گو کہ فرصت ہے پھر بھی اپنے لئے
وقت اکثر نہیں ہمارے پاس

مٹ گئیں ہاتھ کی لکیریں بھی
اب مقدر نہیں ہمارے پاس

اس لئے تو ہم میں کشش نہ رہی
اپنا محور نہیں ہمارے پاس

اینٹ کا ہم جواب کیسے دیں
اب تو پتھر نہیں ہمارے پاس

جنگ ہم لڑ رہے ہیں تن تنہا
لاؤ لشکر نہیں ہمارے پاس

صدقہ خیرات کیا کریں ، کچھ بھی
چیز وافر نہیں ہمارے پاس

وقت اپنا گزر رہا ہے فقط
کچھ بھی بہتر نہیں ہمارے پاس

ہو گیا ہے ہمارا چہرہ مسخ
پگڑی ہے سر نہیں ہمارے پاس

اپنی ہم نبض کاٹ دیں عمران
اپنا خنجر نہیں ہمارے پاس
 

الف عین

لائبریرین
پہلا مطلع پسند نہیں آیا، بات بنی نہیں۔ دوسرا مصرع تو ایسا ہے کہ اس میں کچھ بھی گرہ لگ سکتی ہے، جیسے
یاد بھی اس کی کھو گئی ہم سے
کچھ بھی یکسر.....
مطلع ہی بنایا جائے تو
دیدۂ تر نہیں....
بھی شاید چل جائے
حسن مطلع میں تو کا طویل کھنچنا نا گوار ہے لیکن مطلع میں ایسی خامیاں گوارا بھی کی جا سکتی ہیں
کشش والا مصرع اب بھی وزن میں نہیں، یہ فعو کے وزن پر یے۔
ہم میں اس وجہ سے کشش نہ رہی
کءا جا سکتا ہے
تنِ تنہا درست محاورہ ہے، بغیر کسرہ کے نہیں۔ یہ مصرع بھی بدل دیا جائے
باقی اشعار درست ہیں
 
پہلا مطلع پسند نہیں آیا، بات بنی نہیں۔ دوسرا مصرع تو ایسا ہے کہ اس میں کچھ بھی گرہ لگ سکتی ہے، جیسے
یاد بھی اس کی کھو گئی ہم سے
کچھ بھی یکسر.....
مطلع ہی بنایا جائے تو
دیدۂ تر نہیں....
بھی شاید چل جائے
حسن مطلع میں تو کا طویل کھنچنا نا گوار ہے لیکن مطلع میں ایسی خامیاں گوارا بھی کی جا سکتی ہیں
کشش والا مصرع اب بھی وزن میں نہیں، یہ فعو کے وزن پر یے۔
ہم میں اس وجہ سے کشش نہ رہی
کءا جا سکتا ہے
تنِ تنہا درست محاورہ ہے، بغیر کسرہ کے نہیں۔ یہ مصرع بھی بدل دیا جائے
باقی اشعار درست ہیں
بہت شکریہ سر۔۔۔

ہم میں اس وجہ سے کشش نہ رہی
اپنا محور نہیں ہمارے پاس

ہم اکیلے بھی لڑ رہے ہیں یہ جنگ
لاؤ لشکر نہیں ہمارے پاس

اب درست ہے سر؟؟؟
 
آخری تدوین:
بہت شکریہ سر۔۔۔

ہم میں اس وجہ سے کشش نہ رہی
اپنا محور نہیں ہمارے پاس

ہم اکیلے بھی لڑ رہے ہیں یہ جنگ
لاؤ لشکر نہیں ہمارے پاس

اب درست ہے سر؟؟؟

عمران بھائی، دوسرے شعر میں بھی کو ہی سے تبدیل کردیں۔

دعاگو،
راحل۔
 
سر الف عین

چھت ہے تو سر نہیں ہمارے پاس
کچھ بھی بہتر نہیں ہمارے پاس

خاک آزادیاں ملی ہیں ہمیں
اپنے جب پر نہیں ہمارے پاس

ہم تو خود سے لپٹ کے سوتے ہیں
گرم چادر نہیں ہمارے پاس

دیس پردیس لگ رہا ہے ہمیں
کوئی گھر ور نہیں ہمارے پاس

گو کہ فرصت ہے پھر بھی اپنے لئے
وقت اکثر نہیں ہمارے پاس

مٹ گئیں ہاتھ کی لکیریں بھی
اب مقدر نہیں ہمارے پاس

ہم میں اس وجہ سے کشش نہ رہی
اپنا محور نہیں ہمارے پاس

اینٹ کا ہم جواب کیسے دیں
اب تو پتھر نہیں ہمارے پاس

ہم اکیلے بھی لڑ رہے ہیں یہ جنگ
لاؤ لشکر نہیں ہمارے پاس

خط تصاویر کھو گئیں ہم سے
کچھ بھی یکسر نہیں ہمارے پاس

صدقہ خیرات کیا کریں ، ہر چیز
کم ہے وافر نہیں ہمارے پاس

وقت اپنا گزر رہا ہے فقط
کچھ بھی بہتر نہیں ہمارے پاس

ہو گیا ہے ہمارا چہرہ مسخ
پگڑی ہے سر نہیں ہمارے پاس

اپنی ہم نبض کاٹ دیں عمران
اپنا خنجر نہیں ہمارے پاس
 
آخری تدوین:
Top