اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت کا حکم سنایا

خبر فیک ہے لیکن بہت دھڑلے سے پیش کی جا رہی ہے، کئی جگہوں پر کل سے دیکھ چکا ہوں:

quXdJvs.jpg
مشرف 1964 کا بھرتی تھا۔ 1979 میں یقیناً کرنل ہو گا۔
 

زیرک

محفلین
کل جنرل مشرف کو آرٹیکل 6 کے تحت سزا کے اعلان کے بعد ڈی جی آئی ایس پی آر کی ٹویٹ کا ایک حصہ ملاحظہ کیجئے،موصوف فرماتے ہیں کہ "اگر ہم سوچ یہ رکھیں کہ کوئی فرد ادارے سے اور کوئی ادارہ ملک سے اوپر نہیں ہے تو پاکستان کے حالات بہت بہتر ہو جائیں گے"۔ میجر جنرل آصف غفور صاحب! کاش آپ کے 4 عدد جرنیل ملک میں مارشل لاء لگانے سے پہلے بھی یہ سوچ لیتے تو اچھا ہوتا، بہتر ہوتا کہ آپ دوسروں کو نصیحت کرنے کی بجائے اپنا گھر صاف کریں کیونکہ وہاں دوسروں کے معاملات خاص کر حکومتی معاملات میں جرنیل مافیا کی دخل اندازی عام حالات میں بھی جاری رہتی ہے، مارشل لاء تو بالکل اس کی انتہائی صورت سمجھیں جب سارے بنیادی حقوق معطل کر کے ایک 22 گریڈ کا تنخواہ دار ملازم قوم کو مطلقاً غلام بنا لیتا ہے۔ ہم فوج کے خلاف نہیں لیکن وہاں دوسروں کے معاملات میں سب سے زیادہ مداخلت کی جاتی رہی ہے اور کی جا رہی ہے، اس لیے آپ اپنی صفوں میں شامل قانون شکن باہر نکال دیں تو پاکستان جنت نظیر بن سکتا ہے۔ ایسے تناظر میں جبکہ جرنیل مافیا دوسروں کے کام میں روڑے اٹکاتا ہے، آپ کو یہ زیب نہیں دیتا کہ دوسروں کو نصیحت کرنے کی کوشش بھی کریں۔
 

زیرک

محفلین
خبر فیک ہے لیکن بہت دھڑلے سے پیش کی جا رہی ہے، کئی جگہوں پر کل سے دیکھ چکا ہوں:

quXdJvs.jpg
بدقسمتی سے پاکستان میں چور کو سادھ بنانے کے لیے ایسے وحی نما بیان گھڑنے کے لیے شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار طبقہ موجود ہے، جیسا کہ عموماً پیر کی کرامات کو مشہور کرنے کے لیے مرید گاؤں گاؤں گھوم کر ان کی جھوٹی کرامات کی خبریں پھیلاتے ہیں مذکورہ بالا بیان بھی اسی فیک فیکٹری کی فیک خبر ہے۔
 

زیرک

محفلین
جو طبقہ یہ کہہ رہا ہے کہ مشرف نے فلاں جنگ میں حصہ لیا (او بھائی ممکن ہے جنگ میں حصہ لیا ہو، آخر وہ فوج میں اسی مقصد کے لیے ہی بھرتی کیا گیا تھا)۔ آپ اسے میڈل دلوانا چاہتے ہیں تو ہم کسی کو نہیں روکتے، آپ تحقیقات کیجئے اگر اس نے واقعی کوئی جنگی کارنامہ انجام دیا ہے تو اسے کوئی بھی میڈل دے سکتے ہیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں،لیکن آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی پر سزا تو بنتی ہے، کمانڈو سے کہو جرم کیا ہے تو بہادر بن اور سزا بھگت۔
 

زیرک

محفلین
جن بزرجمہروں کو اعتراض ہے کہ صرف جنرل پرویز مشرف کو سزا کیوں دی گئی ہے۔ وہ چاہیں تو 1999 کے ملٹری کُو میں جنرل پرویز مشرف کے تمام سہولت کار جرنیلوں، سیاستدانوں اور ججز کے خلاف بھی آرٹیکل چھ کا مقدمہ بنوا سکتے ہیں ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں، جنرل پرویز مشرف کی سزا بہرحال برقرار رہے گی، بس فرق یہ پڑے گا کہ پھانسی گھاٹ پر زیادہ لوگ لٹکے ہوئے ہوں گے، آپ یہ بھی کر دیکھیں لیکن مشرف پھر بھی سزا سے نہیں بچ سکے گا۔
 

زیرک

محفلین
جسٹس صاحب یہی وہ دوغلہ پن ہے جو اقتدار کے لالچی طالع آزماؤں کو ان کا اپنا اُگلا اور تھوکا ہوا چاٹنے پر مجبور کرتا ہے۔ آپ نے اچھا کیا کہ ان سے دوری اختیار کر لی۔
 

زیرک

محفلین
مشرف نے 3 نہیں 5 جنگیں لڑی تھیں۔
3 بھارت سے اور 2 آئینِ پاکستان سے۔ پاء غفور اور ہمنواؤں کی ہسٹری درست کروانی چاہیے۔
جنرل مشرف کو ایسی ہی ایک جنگ (اپنی ہی حکومت اور عدلیہ کو فتح کرنے) جیتنے پر جو میڈل کل عدالت نے دیا ہے، یہ آگ کا میڈل ان کے گلے میں ایسا پڑا ہے کہ اس سے جلن سے پیدا ہونے والی سڑاندھ دنیا کے چار کونوں میں پھیل رہی ہے۔
 

عثمان

محفلین
جاسم بھائی بات یہ ہے کہ سیاستدان جتنے کرپٹ، غنڈے بدمعاش ہوں، منتخب انھیں یہی عوام کرتی رہی ہے۔ یا پھر انھی اداروں کی مدد سے آتے رہے ہیں۔
آرٹیکل-6 کہتا ہے کہ

1۔ کوئی شخص جو طاقت کے استعمال سے یا دیگر غیر آئینی ذریعے سے دستور کی تنسیخ کرے یا تنسیخ کرنے کی سعی یا سازش کرے، تخریب کرے یا تخریب کرنے کی سعی یا سازش کرے سنگین غداری کا مجرم ہو گا۔
2۔ کوئی شخص جو شق ایک میں مذکورہ افعال میں مدد دے گا یا معاونت کرے گا،اسی طرح سنگین غداری کا مجرم ہوگا۔
3۔ مجلس شوریٰ پارلیمنٹ بذریعہ قانون ایسے اشخاص کے لئے سزا مقرر کرے گی جنہیں سنگین غداری کا مجرم قرار دیا گیا ہے۔

تو اس ضمن میں جوابی طور پر کرپٹ سیاستدانوں کا رونا ڈالنا قطعی غیر متعلقہ بات ہے۔

دوسری بات یہ کہ جب ایک فرد طاقت کے زور پر مندرجہ بالا کام کرتا ہے تو عوام یا خواص کی بڑی تعداد طاقت نہ ہونے کی وجہ سے یا مفادات حاصل کرنے کے لیے اس کی تابع ہو جاتی ہے۔ کم ہی لوگ مزاحمت یا عزیمت کی راہ اختیار کرنے والے ہوتے ہیں۔
طاقت کے زور پر آئین توڑنے والا اور اس کے زور کے ڈر سے یا سائے میں اس کا ساتھ دینے والا ہرگز برابر نہیں گردانے جا سکتے۔
دوسری شق میں وہ افراد گنے جائیں گے جنھوں نے آئین توڑنے میں مدد کی ہو۔ نہ کہ طاقت سے ڈر کر اس کا ساتھ دینے والے، یا مفاد کی وجہ سے ساتھ دینے والے۔
کیا آپ ضیاالحق اور اس کا ساتھ دینے والوں کے بارے میں بھی یہی رائے رکھتے ہیں؟
 

زیرک

محفلین
جنرل مشرف کو آرٹیکل 6 کے تحت ملی سزا کے بعد آرمی چیف جنرل باجوہ کا SSG ہیڈکواٹرز کا دورہ اور یہ پیغام دینا کہ "ایس ایس جی کمانڈوز ہمارا فخر ہیں"۔بظاہر ایک ملفوف دھمکی جیسا لگتا ہے۔ جنرل باجوہ صاحب اگر تو یہ پیغام واقعیSSG کمانڈو گروپ سے متعلق ہے تو ہم آپ کے ساتھ ہیں لیکن اگر یہ ملفوف پیغام کمانڈو جنرل مشرف کی سزا کے تناظر میں ہے تو آپ کو شرم آنی چاہیے کہ ایک صریح مجرم کے حق میں بیان دینا ریاستی قوانین کی رو سے جرم بھی ہو سکتا ہے۔
 

زیرک

محفلین
جنرل مشرف کو آرٹیکل 6 کے تحت ملی سزا پر واویلہ کرنے والے سیاپا بریگیڈ سے عرض خدمت ہے کہ آپ کو بغاوت اور ملک دشمنوں کے ساتھ سزا باز کے جرم میں بریگیڈیئر رضوان راجا کی پھانسی تو یاد ہو گی ناں؟ رضوان راجا نے بھی 3جنگیں لڑی تھیں لیکن جب اس نے ریاستی قانون توڑا پھر یہ نہیں دیکھا گیا کہ اس نے کیا کیا کارہائے نمایاں انجام دئیے تھے، یاد رکھیں اگر ریاستی قانون سے بغاوت، ملکی آئین و قانون کو پامال کرنے اور دشمنوں سے ہاتھ ملانے جیسا جرم کرے گا تو پھر سزا کی معافی نہیں ہے۔ وہ وقت یاد کیجئے جب آقائے نامدار محمدﷺ نے قبیلہ بنی ہشم کی چور عورت کے جرم کی معافی کی درخواست کو رد کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ "اگر میری بیٹی فاطمہ بنت محمدﷺ بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا"۔ کیا جنرل مشرف نبی پاکﷺ اور ان کے اہلِ خانہ سے بھی بڑھ کر کوئی ماورائی مخلوق ہو گیا کہ اسے سزا ہونے سے آسمان ٹوٹ کر گر پڑے گا؟ جرم کرتے وقت کتنے جرنیل تھے جنہوں نے جنرل مشرف کو روکا؟ ایک بھی نہیں، سبھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہے، میری نظر میں سبھی نے جرم کیا، لیکن اسے فی الحال رہنے دیتے ہیں اصل مجرم نے جرم کیا ہے تو پھر سزا بھگتنی ہی پڑے گی۔
 

زیرک

محفلین
جنرل مشرف سزا کے سیناریو میں موجودہ فوجی ترجمان عرف ٹویٹری جرنیل آصف غفور کی ٹویٹ نما دھمکی کو دیکھا جائے تو کوئی شک نہیں رہتا کہ موصوف بھی عادتاً و باطناً اسی قبیلۂ یحیٰوی کے ہی فرد لگتے ہیں، جس کی رنگینی کے قصے ساری دنیا میں مشہور ہیں۔ آپ اگر ماضی میں موصوف کے جنرل مشرف کے ساتھ فوٹو اور پاکستانی فنکاراؤں کے ساتھ سیلفیاں دیکھ لیں تو آپ میری بات کی تہہ میں پہنچ جائیں گے۔ یہ بیک گراؤنڈ اس لیے بتایا گیا کہ ہمیں اور آپ کو ان کی کل کی گئی ٹویٹ کرنے کی وجہ سمجھ میں آ جائے۔ جناب وجہ تو صاف ظاہر ہے کہ جنہوں نے پروموٹ کیا ہو ان کے حق میں ایک آدھ ٹویٹری بیان دینا تو گویا حقِ نمک ادا کرنا بنتا ہی تھا۔ ٹویٹری جرنیل نے جنرل مشرف کی وکالت میں جس ڈرامائی اندازمیں تمام فوجی مصالحوں کا تڑکا لگا کر فوج کے جارحانہ رد عمل کو پیش کیا ہے، اس پر جرنیل مافیا انہیں مستقبل میں کوئی بڑا عہدہ بھی دے سکتی ہے کیونکہ اس ٹویٹ نے بتا دیا ہے کہ موصوف میں بھی ماضی کے طالع آزما جرنیلوں جیسا وائرس بدرجۂ اتم پایا جاتا ہے۔ لیکن ان کی یہ مظہر شاہ و سلطان راہی سٹائل بڑھک آئین و قانون کی نظر میں ریاست سے بغاوت کی طرف بڑھتا قدم قرار دی جا سکتی ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
خدارا پرویز مشرف کو قومی ہیرو نہ بنائیں
(محمد عامر خاکوانی)
ایک بات کی مجھے ابھی تک سمجھ نہیں آ رہی کہ اچانک ہی ہم پاکستانیوں پر جنرل پرویز مشرف کی عظمت کا راز کیسے منکشف ہوا؟
مشرف کی خوبیاں، اس کی صفات اور اس کی عظمت اچانک کس نے ہم لوگوں کو بتا دی ہے؟
ٹوئٹر پر ٹرینڈ چل رہا ہے ، مشرف پاکستان کا ہیرو ۔ ایک اور ٹرینڈ چل رہا ہے جسٹس کھوسہ نے پاک فوج پر اٹیک کیا ہے۔
دونوں ٹرینڈ بے تکے ، بیکار ہیں۔ جسٹس کھوسہ سے اختلاف ممکن ہے، ان کے فیصلوں سے بھی آپ، میں، ہم سب اختلاف کر سکتے ہیں۔ ججوں کے فیصلوں کا احترام تو کرنا چاہیے، مگر ضروری نہیں کہ ان سے ہر کوئی متفق ہو، مگر یہ کہنا کہ جسٹس کھوسہ نے فوج کو نشانہ بنایا ہے یا اس پر اٹیک کیا ہے، یہ تو صریحاً زیادتی ہے۔
دوسری طرف مشرف پاکستان کا یا پاکستانیوں کا ہیرو کیسے ہوگیا؟ یہ بات بھی سمجھ سے باہر ہے۔
مشرف فوجی کمانڈو تھا، بے شمار کمانڈوز اور بھی ہیں، مشرف سے بدرجہا بہتر کیرئر کے مالک، ان کی قربانیاں بے پناہ ہوں گی، ہم ان سب کا احترام کرتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف مگر کیا ہمارے سامنے صرف اس فوجی کمانڈو کے طور پر ہیں جس نے قربانیاں دیں، جنگیں لڑیں، ملک کو سرو کیا۔
ظاہر ہے نہیں ۔ اگرمعاملہ پاک فوج کے کسی کمانڈو کا ہوتا، جس نے جنگیں لڑیں، قربانیاں دیں، اپنی جاں ہتھیلی پر رکھ کر ملک کی حفاظت کی، اگر ایسے کسی فوجی کا معاملہ ہوتا تو یہ عدالت تو کیا پاکستان میں کوئی بھی شخص اس مجاہد کے خلاف کچھ کہتا نہ بات کرتا۔
پرویز مشرف کے ساتھ تنازع ہی یہ ہے کہ اس نے اپنے سولجر کیریکٹر کو چھوڑ کر، آئین توڑا، حکومت کا تختہ الٹا اور یوں وہ سنگین جرم کیا، آئین جسے غداری کہتا ہے اور اس کے لئے موت جیسی سخت سزا تجویز کرتا ہے۔
پرویز مشرف تو بدقسمت ثابت ہوئے، انہوں نے میاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا، ایک سنگین جرم کیا، ان کے اس جرم کو اس وقت کی عدلیہ نے معاف کر دیا، انہیں آئین میں تبدیلیوں کی اجازت بھی دے دی ،صرف یہ شرط رکھی کہ بیسک سٹرکچر کو نہیں چھیڑا جائے گا۔ آنے والی پارلیمنٹ نے مشرف کے ان اقدامات کو تحفظ بھی دے دیا۔ مشرف کا وہ جرم، وہ گناہ تاریخ کےصفحات میں تو محفوظ رہا، مگر عملی طور پر وہ اس سے بچ نکلے۔
افسوس کہ انہوں نے سبق نہ سیکھا۔ طاقت کی ہوس، اقتدار کی حرص نے انہیں اندھا کر دیا۔ دوسری بار پرویز مشرف نے غیر آئینی، غیر قانونی اقدام کیا، ایمرجنسی پلس کے نام پر ایک طرح کا مارشل لا لگایا، پوری عدلیہ ہی کو کلہاڑا چلا کر فارغ کر دیا۔ پی سی او جج لے آیا، میڈیا پر پابندیاں لگا دیں، صرف اس لئے کہ اس کا اقتدار طویل ہو۔ صرف اس لئے کہ جو مستقبل کا منصوبہ اس نے سوچا، اس کے خدوخال میں اپنی مرضی کے رنگ بھر سکے۔ اس کے لئے اس نے آئین شکنی کی۔

پرویز مشرف کو اس جرم کی سزا دی جا رہی ہے، اس کا فوجی ہونا، کمانڈو ہونا، جنگیں لڑنا، ملک کو سرو کرنا تو موضوع بحث ہی نہیں۔ یہ باب ہی ختم ہوچکا۔ فرض کریں کہ مشرف یا کوئی بھی ریٹائر فوجی افسر شاندار جنگی کارناموں کے بعد، اعلیٰ تمغے لینے کے بعد ریٹائرمنٹ کی زندگی میں کوئی جرم کرے، کسی راہ گیر کو گاڑی تلے دے کر مار ڈالے، کسی کے گھر پر قبضہ کر لے، اشتعال میں کسی پر گولی چلا دے یا کوئی اور سنگین جرم کرے تو کیا اسے اس بنا پر معاف کر دیا جائے گا کہ اس نے ماضی میں بڑے اچھے کام کئے ہیں؟ ظاہر ہے نہیں، اسے اس کے جرم کی بنا پر تادیبی کارروائی کا نشانہ بننا پڑے گا، اس کے جرم کی جو سزا بنتی ہے، وہ اسے ملے گی۔ دنیا بھر میں ایسے ہی ہوتا ہے۔ ’’ہیرو کا زیرو ہوجانا‘‘ کا محاورہ اسی لئے تو بنا۔
ویسے تو خیر یہ بھی قابل بحث بات ہے کہ پرویز مشرف کہاں سے ملک کا ہیرو بن گیا، اس کے ایسے کارناموں سے ہم واقف نہیں ۔ چلیں ایک لمحے کے لئے مان ہی لیا جائے تب بھی جب وہ ڈکٹیٹر بنا ، تب اس کی زندگی کا نیا باب شروع ہوا۔ تب اس کے بارے میں حتمی فیصلہ بطور ڈکٹیٹر کئے گئے کاموں کی بنا پر ہوگا۔
بدقسمتی سے مشرف کا یہ ریکارڈ اچھا نہیں۔ کئی تاریک، خوں رنگ باب اس کے اس سفر زندگی کا حصہ ہیں۔ اکبر بگٹی کا قتل، لال مسجد آپریشن، عدلیہ کے خلاف خوفناک ایکشن، آئین توڑنا، اور بھی بہت کچھ ہے۔ بعض اچھے کام بھی اس نے کئے ہوں گے، مگر اس نے جو جرم کیا، ان کی سزا تو اسے ملنی ہی تھی، کوئی اچھا کام کسی دوسرے جرم کی سزا سے بچنے کا جواز نہیں بن سکتا۔
اس لئے براہ کرم مشرف کو پاکستان کا ہیرو نہ بنائیں۔ اس میں وہ خوبیاں نہ ڈھونڈیں، جن کا کل تک ہم میں سے کسی کو علم نہیں تھا۔
میرا اپنا کہنا بھی یہ ہے کہ صرف مشرف کیوں، اس کے ساتھیوں کو بھی سزا ملنی چاہیے۔ یہ مگر جواز نہیں کہ اگر باقیوں کو گرفت میں نہیں لایا جا رہا تو مرکزی ملزم کو سزا نہ دی جائے۔ یہ حقیقت ہے کہ پرویز مشرف ہی وہ مرکزی ملزم تھا، جس نے آئین شکنی کی، جس نے ایمرجنسی پلس کا ڈرامہ کیا، جس نے عدلیہ کو فارغ کر ڈالا۔ یہ سب کچھ صرف پرویز مشرف کی خواہشات کے نتیجے میں تھا، اس کا فائدہ بھی صرف اسے ہی پہنچنا تھا، فیصلہ بھی اسی نے کیا، طاقت بھی تمام اس کے ہاتھ میں تھی۔ باقی اس کے ساتھی اور شریک جرم ضرورتھے، مگر ان میں سے کسی کے پاس فیصلہ کن قوت نہیں تھی۔ وہ پرویز مشرف ہی کے پاس تھی۔ اس لئے پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ آنا منطقی، قابل فہم اور فطری ہے۔ ہم آپ ڈو مور کا مطالبہ تو کر سکتے ہیں، اسے اَن ڈو کرنے یعنی فیصلہ ختم کرنے کا مطالبہ نہیں کر سکتے۔
جو بات جیسی ہے، جتنی ہے، اتنی ہی کرنی چاہیے۔ یہی انصاف، عدل اور توازن ہے۔
 
Top