اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت کا حکم سنایا

زیرک

محفلین
کچھ خاص: میں اردشیر کاؤس جی سکول آف جرنل ازم سے ہوں، بے لاگ لکھتا ہوں، میرے کسی لفظ سے کسی کی دلآزاری ہو تو درگزر کر دیا کیجئے، جن موصوف کو کچھ کہا تھا، ان سے پہلے میں ان کی بغض بغض کی رٹ لگانے پر منع کر چکا تھا کہ میرا مقصد تنقید برائے اصلاح ہے مگر موصوف منع کرنے کے باوجود وہی رٹ لگا رہے تھے، پھر مجھے انہی کی زبان میں سمجھانا پڑ گیا۔ سچی بات ہے مجھ سے منافقت نہیں ہو سکتی، جب ہم اصل زندگی میں کالم گلوچ کرتے ہیں تو کیا یہ فورمز مساجد ہیں کہ یہاں ایسا ہو جائے تو پوسٹ ہی ختم کر دی جائے، آپ جانتے ہیں کہ ماڈرن سوشل میڈیا نارمل اولڈ سٹائل سوشل میڈیا سے زیادہ کیوں کامیاب فورم ہے؟ اس لیے کہ وہاں رکاوٹیں ہیں بھی اور نہیں بھی، لیکن بات کہنے کی آزادی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ساری زندگی نواز شریف پر کیس بناتے رہے۔ نواز شریف نے صرف ایک کیس بنایا اور بندہ پھانسی کے پھندے پر پہنچا دیا۔

اسے کہتے ہیں 'سو سنار کی ایک لوہار کی'
۔۔۔۔
منقول
نواز شریف کو بھی طیارہ سازش کیس میں پھانسی لگ گئی تھی۔ دعا دیں ان سعودیوں کو جو آل شریف کو بچا کر اپنے ساتھ جدہ لے گئے۔ وگرنہ ان کا انجام بھی بھٹو والا ہونا تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
کوئی بھی ہوشمند انسان یہ منظور نہیں کرسکتا کہ آرمی چیف آئین معطل کرکے گیارہ یا آٹھ سال کیلئے صدر بن جائے۔ حالات جتنے مرضی خراب ہوں، تین ماہ کے اندر اندر انتخابات کروا کر نئی حکومت کو اقتدار منتقل کرنا ہی واحد حل ہوتا ہے۔
اس حساب سے جنرل ایوب، جنرل ضیا اور جنرل مشرف، تینوں نے اپنے عہدوں اور حلف نامے کی خلاف ورزی کی۔
اس کے ساتھ ساتھ ہر ڈکٹیٹر کو عدالت کی شکل میں کنیز میسر رہی جو ان کے فیصلوں کو قانونی اور آئینی تحفظ دیتے رہے، اس لئے جرنیلوں کے ساتھ ساتھ جج بھی اتنے ہی بڑے مجرم ہیں۔
ہر دور میں ڈکٹیٹروں کو سیاستدان بھی میسر آتے رہے جو ان کے دور حکومت میں ان سے فوائد سمیٹتے رہے۔ ان میں بھٹو، شریف برادران، جماعت اسلامی، جے یو آئی، ایم کیو ایم اور ق لیگ شامل ہیں۔ یہ سب جماعتیں اور ان کی قیادتیں بھی اتنی ہی بڑی مجرم ہیں جتنے کہ ڈکٹیٹر۔
ادھورا انصاف مکمل ناانصافی سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے کیونکہ یہ بذات خود ایک ناانصافی کی ہی شکل ہوتی ہے۔
صرف مشرف نہیں بلکہ اس سے جڑے ہر کردار کو پھانسی کی سزا سنائیں
بقلم خود باباکوڈا
 

جاسم محمد

محفلین
انتہائی اہم بیان ہے۔
فیصلہ کر لیں جھوٹ ن لیگ کا جیو نیوز بول رہا ہے یا جسٹس کھوسہ:
Justice Khosa opened with a quote from The Godfather
The popular 1969 novel ‘The Godfather’ by Mario Puzo recounted the violent tale of a Mafia family and the epigraph selected by the author was fascinating: Behind every great fortune there is a crime. — Balzac
The judgement continues: “The novel was a popular sensation which was made into an acclaimed film. It is believed that this epigraph was inspired by a sentence that was written by Honoré de Balzac… as follows

(The secret of a great success for which you are at a loss to account is a crime that has never been found out, because it was properly executed)

It is ironical and a sheer coincidence that the present case revolves around that very sentence attributed to Balzac...

Justice Khosa later added
"I may, therefore, be justified in raising an adverse inference in the matter. The fortune amassed by respondent No. 1 is indeed huge and no plausible or satisfactory explanation has been advanced in that regard. Honoré de Balzac may after all be right when he had said that behind every great fortune for which one is at a loss to account there is a crime
"In the above mentioned sorry and unfortunate state of affairs a conclusion has appeared to me to be unavoidable and inescapable that in the matter of explaining the wealth and assets respondent No. 1 has not been honest to the nation, to the nation’s representatives in the National Assembly and even to this Court
13 damning remarks made by Justice Khosa on Panamagate - Pakistan - DAWN.COM
 
کوئی بھی ہوشمند انسان یہ منظور نہیں کرسکتا کہ آرمی چیف آئین معطل کرکے گیارہ یا آٹھ سال کیلئے صدر بن جائے۔ حالات جتنے مرضی خراب ہوں، تین ماہ کے اندر اندر انتخابات کروا کر نئی حکومت کو اقتدار منتقل کرنا ہی واحد حل ہوتا ہے۔
اس حساب سے جنرل ایوب، جنرل ضیا اور جنرل مشرف، تینوں نے اپنے عہدوں اور حلف نامے کی خلاف ورزی کی۔
اس کے ساتھ ساتھ ہر ڈکٹیٹر کو عدالت کی شکل میں کنیز میسر رہی جو ان کے فیصلوں کو قانونی اور آئینی تحفظ دیتے رہے، اس لئے جرنیلوں کے ساتھ ساتھ جج بھی اتنے ہی بڑے مجرم ہیں۔
ہر دور میں ڈکٹیٹروں کو سیاستدان بھی میسر آتے رہے جو ان کے دور حکومت میں ان سے فوائد سمیٹتے رہے۔ ان میں بھٹو، شریف برادران، جماعت اسلامی، جے یو آئی، ایم کیو ایم اور ق لیگ شامل ہیں۔ یہ سب جماعتیں اور ان کی قیادتیں بھی اتنی ہی بڑی مجرم ہیں جتنے کہ ڈکٹیٹر۔
ادھورا انصاف مکمل ناانصافی سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے کیونکہ یہ بذات خود ایک ناانصافی کی ہی شکل ہوتی ہے۔
صرف مشرف نہیں بلکہ اس سے جڑے ہر کردار کو پھانسی کی سزا سنائیں
بقلم خود باباکوڈا
کوڈے نوں آکھیں، یہ ایک نیا کام ہوا ہے، اسے بھی اپنی نام نہاد 'تبدیلی' کا حصہ مان لے۔
 

جاسم محمد

محفلین
انتہائی اہم بیان ہے۔
جسٹس کھوسہ نے اپنے 20 اپریل 2017 کے فیصلہ میں نواز شریف کو گاڈ فادر سے تشبیہ دی تھی۔ آج تک اس ن لیگی مافیا سے معافیاں مانگتا پھر رہاہے۔
sc-1492687440.jpg

https://tribune.com.pk/story/1389065/godfather-reference-begins-scs-panamagate-judgment/
 

جاسم محمد

محفلین
کوڈے نوں آکھیں، یہ ایک نیا کام ہوا ہے، اسے بھی اپنی نام نہاد 'تبدیلی' کا حصہ مان لے۔
یعنی 72 سالوں میں اگر کسی حاضر سروس آرمی چیف کا ایکسٹینشن معطل ہوا ہے یا کسی سابق آرمی چیف کو آئین توڑنے پر سزاہوئی ہے تو وہ تبدیلی حکومت میں ہوا ہے۔
لیکن پھر بھی آپ لوگ اس کا کریڈٹ احسن اقبال عرف ارسطو کے مصداق اپنی حکومت کو دے دیں گے :)
 

جاسم محمد

محفلین
پرویز مشرف کو سزائے موت: کیا پاکستان میں اب مارشل لا کا راستہ واقعی رک جائے گا؟
فرحت جاویدبی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
  • 32 منٹ پہلے
_110211296_mush.jpg

تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image caption'فوج میرے ساتھ ہے، اگر میں یونیفارم میں نہ بھی ہوا تب بھی فوج میرے ساتھ ہو گی، یہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں'

پاکستان کے سابق آرمی چیف اور صدر پرویز مشرف نے ایک بار صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اپنے مخصوص انداز میں کہا تھا ’فوج میرے ساتھ ہے، اگر میں یونیفارم میں نہ بھی ہوا تب بھی فوج میرے ساتھ ہو گی، یہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں۔‘

سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی اور سنگین غداری کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے گذشتہ روز انھیں سزائے موت دینے کا حکم دیا ہے۔

اس سزا پر سیاسی حلقوں، تجزیہ کاروں اور سوشل میڈیا پر مختلف قسم کا ردعمل دیکھنے میں آیا ہے لیکن تاحال سب سے شدید ردعمل ملک کی مسلح افواج ہی کی جانب سے سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’خصوصی عدالت کے فیصلے پر افواجِ پاکستان میں شدید غم و غصہ اور اضطراب ہے اور یہ کہ جنرل (ر) پرویز مشرف نے 40 سال سے زیادہ عرصہ پاکستان کی خدمت کی ہے، انھوں نے ملک کے دفاع کے لیے جنگیں لڑی ہیں اور وہ کسی صورت بھی غدار نہیں ہو سکتے۔‘

حکمراں جماعت پاکستان تحریکِ انصاف نے مؤقف اپنایا ہے کہ وہ عدالت کے فیصلے کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد ردعمل دے گی جبکہ اپوزیشن کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ خصوصی عدالت کے فیصلے کے بعد ملک میں آئین توڑنے کی روایت کا خاتمہ ممکن ہو پائے گا۔

یہاں پاکستان کی تاریخ کا یہ پہلو بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ سنہ 1972 میں پاکستان کی سپریم کورٹ نے جنرل یحییٰ خان کی جانب سے سنہ 1969 میں لگائے گئے مارشل لا کو غیر قانونی قرار دیا تھا مگر اس مارشل لا کے ساڑھے چار سال بعد ہی سابق فوجی صدر جنرل (ر) ضیا الحق نے ایک اور مارشل لگا دیا تھا۔

_110211298_mush1.jpg

تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES

کیا مارشل لا کا راستہ رک جائے گا؟

بی بی سی نے ماہرین، تجزیہ کاروں اور سیاستدانوں سے اس فیصلے کے اثرات سے متعلق سوال کیے کہ کیا واقعی اس فیصلے سے مارشل لا کا راستہ رک جائے گا؟

سینیئر صحافی ضیا الدین سمجھتے ہیں کہ اس فیصلے کی وجہ سے وقتی طور پر یہ راستہ بند ہوا ہے۔

وہ کہتے ہیں ’یہ ایسا فیصلہ ہے جسے ایمبیشیئس جنرلز کو خاص پیغام گیا ہے مگر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جب کسی جنرل میں حکومت پر قبضہ کرنے کی خواہش ہو گی تو وہ ایسا کر لے گا، کیونکہ آرمی کے لیے بندوق کے زور پر حکومت کا تختہ الٹنا آسان ہے۔ تاہم میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ اس فیصلے سے آئندہ چند برسوں تک تو کچھ جھجک آئے گی۔‘

انھوں نے اس رائے سے اتفاق کیا کہ خصوصی عدالت کے فیصلے میں عدلیہ یا سیاست کے بعض کرداروں کو شامل نہ کرنے سے احتساب کے عمل پر سوال اٹھتے ہیں۔

انھوں نے کہا ’بدقسمتی سے گذشتہ 72 برسوں میں عدلیہ کا کردار بہت مثالی نہیں رہا، ججز ہمیشہ فوج کے ساتھ رہے ہیں، جو فوج چاہتی ہے وہ کرتے رہے ہیں، اب یہ جو صورتحال پیدا ہوئی ہے ممکن ہے کہ اس کی وجہ دونوں اداروں کے درمیان کوئی تصادم یا اختلاف ہو۔‘

دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنما پرویز رشید سمجھتے ہیں کہ مارشل لا کے راستے میں اب ایک بہت بڑی دیوار کھڑی ہو چکی ہے۔

_110209834_gettyimages-51345152.jpg

تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionمئی 1999 میں پاکستان کے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف پرویز مشرف دورہ سعودی عرب کے دوران

ان کے خیال میں اب اس دیوار کو پھلانگنا ویسے ممکن نہیں جیسے پہلے وزیراعظم ہاؤس یا ریڈیو اور ٹی وی کی دیوار پھلانگ کر ایک اعلان کے ذریعے پاکستانی عوام کا حق حکمرانی چھین کر آمریت کا نفاذ ہو جاتا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ اب اس دیوار کو پھلانگنے کے لیے ’جو جرات درکار ہے وہ نظر نہیں آتی۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ عدالت کا یہ فیصلہ سامنے آنے کے بعد ’آئندہ ایسا قدم اٹھانے والوں اور ان کے معاونین کے لیے ایک خدشے کا موجب بنا رہے گا کہ اس سے قبل غدار بھی قرار دیا گیا، اور موت کی سزا بھی سنائی گئی۔‘

اسی سوال پر جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کہتے ہیں کہ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ جب مارشل لا لگائے جاتے ہیں تب حالات کیا ہوتے ہیں اور عوام انھیں ’خوش آمدید‘ کیوں کرتی ہے، یہاں تک کہ اعلی عدلیہ کے ججز بھی انھیں جائز قرار دیتے ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے مزید کہا کہا ’اگر دوبارہ کوئی مارشل لگائے اور اس کو جج اور سیاستدان بھی مل جائیں تو کیا فائدہ ایسے فیصلے کا جس میں نہ کسی جج کو سزا ہوئی نہ کسی سیاستدان کو۔‘

امجد شعیب کہتے ہیں ’جو اصل مارشل لا تھا جس سے نواز شریف کی حکومت ختم ہوئی، اس فیصلے میں اُس مارشل لا کو تو کچھ نہیں کہا گیا۔ یہاں تو یہ بھی واضح کرنا ہو گا کہ کیا سنہ 2007 میں جو ایمرجنسی نافذ کی گئی، کیا وہ واقعی آئین شکنی تھی یا کابینہ کی ایڈوائس پر صدر کا آئینی اختیار؟‘

انھوں نے مزید کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ کارروائی ایک شخص کو نشانہ بنانے کے لیے کی گئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج فوج نے بھی اس پر سخت ردعمل دیا ہے۔ اس لیے ان حالات، ان افراد اور عوام کے ردعمل کا جائزہ لینا چاہیے، اگر سیاستدان ملک پر اپنے مفادات کو مقدم جاننے لگ جائیں تو عوام مارشل لا کا مطالبہ کرتی ہے۔

پاکستان کی مسلح افواج میں اس فیصلے کو کیسے دیکھا جائے گا؟
_110211300_mush2.jpg

تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES

اس ضمن میں اگرچہ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ یعنی آئی ایس پی آر کی جانب سے ردعمل پہلے ہی سامنے آ چکا ہے۔

تاہم سینیئر صحافی محمد ضیا الدین سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں مارشل لا سے متعلق فوج کے سٹاف کالجز کے نصاب میں پڑھایا نہیں جاتا ہے۔

’یہ نہیں بتایا جاتا کہ مارشل لاز کیا ہیں، ان میں خرابی کیا ہے، یہ عوام میں مقبول کیوں ہوتے ہیں، اس لیے میں نہیں کہہ سکتا کہ مسلح افواج کے اندر اس فیصلے کا اثر کیا ہو گا۔‘

وہ کہتے ہیں افواج میں ایک چھوٹا مگر مضبوط طبقہ ہی یہ سمجھ لے کہ اب انھوں نے یہ (مارشل لا) نہیں کرنا، ہو سکتا ہے کہ یہ سوچا جائے کہ اس سلسلے کو (نصاب کے ذریعے) کیسے ختم کرنا ہے۔‘

دوسری جانب مسلم لیگ ن کے رہنما پرویز رشید کہتے ہیں کہ اس فیصلے سے فوج کی سوچ میں تبدیلی آنا شروع ہو گی۔

وہ کہتے ہیں ’زمانہ، وقت، حالات، پاکستان کے معاشرے اور اداروں کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے، جیسا کہ یہی عدالتیں پہلے آئین شکنی کا حق تک دے دیتی تھیں، اب اداروں میں تبدیلی آ رہی ہے، پہلے پارلیمان میں تبدیلی آئی اور اب عدالتوں میں کہ اب انھوں نے نظریہ ضرورت کی تنسیخ کی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں ’پاکستان کی فوج بھی اسی سماج کا حصہ ہے اور سوچ کی تبدیلی کا اثر فوج کی سوچ پر بھی پڑے گا۔‘

مگر جنرل (ر) امجد شعیب کہتے ہیں کہ یہ غصہ برقرار رہے گا۔ ان کے مطابق اس کی سب سے بڑی وجہ افواج میں کمانڈ کے ساتھ بے مثال وفاداری بھی ہے۔

’بعض ایسے کمانڈر ہوتے ہیں جو فوجی دستوں کے ساتھ قریبی رابطے رکھتے ہیں اور یہ وفاداری ہی وہ اہم ترین وجہ ہے جو فوج کو اکٹھا رکھتی ہے کہ وہ اپنی کمانڈ کے حکم پر میدان جنگ کی طرف چل پڑتے ہیں، تو ایسے میں اگر ان کے کسی سربراہ کو غدار کہا جائے گا تو اضطراب تو ہو گا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اس مقدمے میں ضروری تھا کہ یہ ’تشریح دیکھی جاتی کہ کیا پرویز مشرف کا عمل واقعی غداری ہے؟‘

امجد شعیب کہتے ہیں کہ فوج میں بے چینی کی وجہ یہ ہے کہ اس مقدمے میں ’صرف ایک شخص کو نشانہ بنانے کا تاثر ملتا ہے، نہ کہ اس کابینہ کو جس نے اس فیصلے میں صدر مشرف کا ساتھ دیا اور نہ ہی اس سے پہلے سنہ 1999 میں مارشل لا کو جائز قرار دینے والے ججز کا کہیں نام ہے۔‘

کیا حکومت اس فیصلے پر عملدرآمد کروا پائے گی؟
_110209844_gettyimages-51344649.jpg

تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES

پاکستان کی موجودہ حکومت پر اپوزیشن جماعتیں خصوصاً مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی یہ الزام لگاتی ہیں کہ اسے فوج کی حمایت حاصل ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پرویز رشید سمجھتے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت اس عدالتی فیصلے پر عملدرآمد نہیں کرائے گی۔

وہ کہتے ہیں ’یہ واضح ہے کہ حکومت فیصلہ رکوانے کے لیے حیلے بہانے کرتی رہی ہے۔ جو حکومت فیصلہ نہیں چاہتی تھی وہ عملدرآمد کیسے کرائے گی۔‘

مگر صحافی محمد ضیاالدین کے خیال میں ابھی یہ مقدمہ چلے گا اور مستقبل میں کوئی بھی شکل اختیار کر سکتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ابھی اس مقدمے کی سپریم کورٹ میں اپیل کا وقت بھی ہے جس کے بعد سماعتوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔

’شاید سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے میں بھی مزید چھ یا سات سال لگ جائیں، اور یہ بھی ممکن ہے کہ فیصلہ ہی نہ آئے۔‘

انھوں نے کہا کہ اگر حکومت اپیل لے کر عدالت عظمیٰ میں نہیں جاتی تو ہو سکتا ہے کہ پرویز مشرف کو پاکستان لانے کی زیادہ کوشش بھی نہ کی جائے۔

کیا پرویز مشرف پاکستان آئیں گے؟
صحافی محمد ضیا الدین کہتے ہیں کہ پرویز مشرف روایتی ردعمل دینے والے انسان نہیں ہیں۔

’ان کا ردعمل غیرروایتی بھی ہو سکتا ہے، وہ بہت ہمت والے اور رسک لینے والی طبیعت کے مالک بھی ہیں لیکن اس کے باوجود مجھے اس بات کا امکان کم ہی نظر آتا ہے کہ وہ پاکستان آئیں گے۔‘

پرویز رشید کے مطابق سابق صدر پرویز مشرف پاکستان نہیں آئیں گے۔ وہ کہتے ہیں ’پرویز مشرف نے مقدمے کا سامنا نہیں کیا تھا وہ فیصلے کا سامنا بھی نہیں کریں گے۔‘

واضح رہے کہ پرویز مشرف اس وقت دبئی میں مقیم ہیں اور زیرِ علاج ہیں۔ جنرل (ر) امجد شعیب کے مطابق ’انھیں خطرناک بیماری لاحق ہے جو ان کے پٹھوں کو ختم کر رہی ہے۔‘
 

جاسم محمد

محفلین
مشرف کے خلاف فیصلہ غیر آئینی ہی نہیں متعصبانہ بھی ہے، اٹارنی جنرل
ویب ڈیسک منگل 17 دسمبر 2019
1920447-anwar-1576595135-518-640x480.jpg

پرویز مشرف کی سزا کے خلاف اپیل دائر کرنے کا ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا، اٹارنی جنرل (فوٹو: فائل)


اسلام آباد: اٹارنی جنرل پاکستان انور منصور نے کہا ہے کہ خصوصی عدالت کا سابق آرمی چیف پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ غیر قانونی اور غیر آئینی ہی نہیں بلکہ متعصبانہ بھی ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق پروگرام ’ٹودی پوائنٹ‘ میں منصورعلی خان سے بات کرتے ہوئے اٹارنی جنرل انور منصور کا کہنا تھا کہ خصوصی عدالت کا سابق آرمی چیف پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ غیر قانونی ہے، فیصلہ غیر آئینی ہی نہیں بلکہ متعصبانہ بھی ہے۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ خصوصی عدالت کا فیصلہ درست نہیں، کسی بھی مرحلے پر آئین پرعمل نہیں ہوا، وفاقی حکومت نے شکایت کی منظوری ہی نہیں دی، جب کیس فائل کرنے کی منظوری کابینہ نے نہیں دی تو شکایت ہی غیر قانونی تھی پھر سزا کیسے قانونی ہوسکتی ہے؟ سزایافتہ لوگوں کو تو آپ نے باہر بھجوادیا ہے۔

انور منصور نے کہا کہ پرویز مشرف کے خلاف فیصلے پر اپیل دائر کرنے کا فی الحال کوئی فیصلہ نہیں ہوا، اگر اپیل ہوئی تو اپیل میں غیرقانونی معاملے کی حمایت نہیں کروں گا۔
 
Top