بَنیں گے کوئے جاں کی خاک، چھوڑ در نَہ پائیں گے

نور وجدان

لائبریرین
بَنیں گے کوئے جاں کی خاک، چھوڑ در نہ پائیں گے
نگر نگر رلیں گے، یہ جبیں کدھر جھکائیں گے؟

دلِ اُمید! وُہ نہ آئے ہیں، ہے دیپ بجھنے کو
زماں مکاں کی قید سے تو ہم نکل ہی جائیں گے

جگر کے زخموں کا علاج کس سے اور کَرائیں گے؟
نَہ جائیو طَبیبا! چوٹ آپ سے ہی کھائیں گے

بھرم وفا کا رکھ لیے، خموش رہ لیے ہیں ہم
چلیے یہ بتائیے کہ آپ کتنا آزمائیں گے

سِتم کَرے،کَرم کَرے، جبیں نیاز میں جھکی
تِری رَضا پَہ جاں نِثار، سر نَہ ہم اُٹھائیں گے

صَدائے کُن کی یاد میں یہ دل ہے محو آج بھی
ازل کے نغمے کو کَبھی نَہ ہم تو بھول پائیں گے

یہ کائنات کی کتاب اُس کا چہرہ خوبرو
کتاب کی سَطر سَطر میں حسن اس کا پائیں گے

لباسِ درد نےجو. فہم شعرِ گوئی کا دِیا
تو شعر بعدِ مرگ پھر یہ لوگ گنگنائیں گے

اُسی کے جلوے سے ملیں ہیں نور کو بھی خلوَتیں
وصالِ شوق میں ملالِ ہجر کو مٹائیں گے
 

الف عین

لائبریرین
بَنیں گے کوئے جاں کی خاک، چھوڑ در نہ پائیں گے
نگر نگر رلیں گے، یہ جبیں کدھر جھکائیں گے؟
... کوئے جاناں کہنا بہتر ہو گا کہ شاید مفہوم وہی ہے۔ یہ بھی واضح نہیں کیا گیا کہ کس کا در؟ پہلا مصرع بدلو

دلِ اُمید! وُہ نہ آئے ہیں، ہے دیپ بجھنے کو
زماں مکاں کی قید سے تو ہم نکل ہی جائیں گے
... بجھنے کی ے کا اسقاط روانی کے متغائر ہے
چراغ بجھ رہا ہے، وہ نہ آئیں گے، دل امید!
بہتر مصرع ہے

جگر کے زخموں کا علاج کس سے اور کَرائیں گے؟
نَہ جائیو طَبیبا! چوٹ آپ سے ہی کھائیں گے
... اور کا اُر ہو جانا اچھا نہیں۔ طبیبا کیا لفظ ہے، مؤنث طبیبہ ہوتی ہے لیکن طبیبہ کا جواز نہیں

بھرم وفا کا رکھ لیے، خموش رہ لیے ہیں ہم
چلیے یہ بتائیے کہ آپ کتنا آزمائیں گے
.. ہم رکھ لیے محاورہ نہیں، ہم نے رکھ لیا کہا جائے یا
بھرم وفا کا رکھ چکے....
دوسرے مصرعے میں 'چلیے' بحر میں اس وقت درست ہے جب افاعیل فاعلن مفاعلن.. ہوں. یہاں مفاعلن چار بار ہیں۔ ذرا بتائیے کہ اور/آپ کتنا.....
بہتر ہو گا

سِتم کَرے،کَرم کَرے، جبیں نیاز میں جھکی
تِری رَضا پَہ جاں نِثار، سر نَہ ہم اُٹھائیں گے
... پہلے مصرع میں فاعل کی کمی ہے دونوں ٹکڑوں میں

صَدائے کُن کی یاد میں یہ دل ہے محو آج بھی
ازل کے نغمے کو کَبھی نَہ ہم تو بھول پائیں گے
... نغمے کی ے کا اسقاط گوارا نہیں اور نہ 'نہ ہم تو بھول' کی بنت اچھی لگ رہی ہے، الفاظ بدلو

یہ کائنات کی کتاب اُس کا چہرہ خوبرو
کتاب کی سَطر سَطر میں حسن اس کا پائیں گے
... یہاں بھی عجز بیان ہے، کتاب کا دونوں مصرعوں میں دہرایا جانا بھی اچھا نہیں،
ہے کائنات کی کتاب اس کا روئے خوبرو
کہ جس کے ہر ورق ورق میں...
یا اس جیسا کچھ کیا جا سکتا ہے

لباسِ درد نےجو. فہم شعرِ گوئی کا دِیا
تو شعر بعدِ مرگ پھر یہ لوگ گنگنائیں گے
.. دوسرے مصرعے میں ترتیب بدلو
تو بعد مرگ بھی یہ شعر لوگ.....

اُسی کے جلوے سے ملیں ہیں نور کو بھی خلوَتیں
وصالِ شوق میں ملالِ ہجر کو مٹائیں گے
'ملی ہیں' نہ کہ 'ملیں ہیں'
وصالِ شوق یا شوقِ وصال؟
 

نور وجدان

لائبریرین
بَنیں گے کوئے جاں کی خاک، چھوڑ در نہ پائیں گے
نگر نگر رلیں گے، یہ جبیں کدھر جھکائیں گے؟
... کوئے جاناں کہنا بہتر ہو گا کہ شاید مفہوم وہی ہے۔ یہ بھی واضح نہیں کیا گیا کہ کس کا در؟ پہلا مصرع بدلو

دلِ اُمید! وُہ نہ آئے ہیں، ہے دیپ بجھنے کو
زماں مکاں کی قید سے تو ہم نکل ہی جائیں گے
... بجھنے کی ے کا اسقاط روانی کے متغائر ہے
چراغ بجھ رہا ہے، وہ نہ آئیں گے، دل امید!
بہتر مصرع ہے

جگر کے زخموں کا علاج کس سے اور کَرائیں گے؟
نَہ جائیو طَبیبا! چوٹ آپ سے ہی کھائیں گے
... اور کا اُر ہو جانا اچھا نہیں۔ طبیبا کیا لفظ ہے، مؤنث طبیبہ ہوتی ہے لیکن طبیبہ کا جواز نہیں

بھرم وفا کا رکھ لیے، خموش رہ لیے ہیں ہم
چلیے یہ بتائیے کہ آپ کتنا آزمائیں گے
.. ہم رکھ لیے محاورہ نہیں، ہم نے رکھ لیا کہا جائے یا
بھرم وفا کا رکھ چکے....
دوسرے مصرعے میں 'چلیے' بحر میں اس وقت درست ہے جب افاعیل فاعلن مفاعلن.. ہوں. یہاں مفاعلن چار بار ہیں۔ ذرا بتائیے کہ اور/آپ کتنا.....
بہتر ہو گا

سِتم کَرے،کَرم کَرے، جبیں نیاز میں جھکی
تِری رَضا پَہ جاں نِثار، سر نَہ ہم اُٹھائیں گے
... پہلے مصرع میں فاعل کی کمی ہے دونوں ٹکڑوں میں

صَدائے کُن کی یاد میں یہ دل ہے محو آج بھی
ازل کے نغمے کو کَبھی نَہ ہم تو بھول پائیں گے
... نغمے کی ے کا اسقاط گوارا نہیں اور نہ 'نہ ہم تو بھول' کی بنت اچھی لگ رہی ہے، الفاظ بدلو

یہ کائنات کی کتاب اُس کا چہرہ خوبرو
کتاب کی سَطر سَطر میں حسن اس کا پائیں گے
... یہاں بھی عجز بیان ہے، کتاب کا دونوں مصرعوں میں دہرایا جانا بھی اچھا نہیں،
ہے کائنات کی کتاب اس کا روئے خوبرو
کہ جس کے ہر ورق ورق میں...
یا اس جیسا کچھ کیا جا سکتا ہے

لباسِ درد نےجو. فہم شعرِ گوئی کا دِیا
تو شعر بعدِ مرگ پھر یہ لوگ گنگنائیں گے
.. دوسرے مصرعے میں ترتیب بدلو
تو بعد مرگ بھی یہ شعر لوگ.....

اُسی کے جلوے سے ملیں ہیں نور کو بھی خلوَتیں
وصالِ شوق میں ملالِ ہجر کو مٹائیں گے
'ملی ہیں' نہ کہ 'ملیں ہیں'
وصالِ شوق یا شوقِ وصال؟
بہت عمدہ تجاویز ہیں ... دیکھ کے دل خوش ہوگیا ...میں اسکو بہتر کرکے حاضر ہوتی ... آپ کے لیے دعا استادِ محترم
 
ہماری صلاح

نگر نگر رلیں گے، یہ جبیں کدھر جھکائیں گے؟

نَہ جائیو طَبیبا! چوٹ آپ سے ہی کھائیں گے

مندرجہ بالا مصرعوں میں آپ نے ’’رُلنا‘‘ اور’’ طبیبا‘‘ دونوں الفاظ پنجابی کے استعمال کیے ہیں جن کا اردو میں استعمال رائج نہیں۔ مزید یہ کہ ’’نہ جائیو طبیبا، چوٹ آپ ہی سے کھائیں گے‘‘ میں شتر گربہ بھی ہے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
ترے دیار سے کبھی بھی دور ہم نہ جائیں گے
کہ قبر یاں بنے گی، ایسا بخت ہم بھی پائیں گے



چراغ بجھ رہا ہے، وہ نہ آئیں گے، دلِ امید!
زماں مکاں کی قید سے تو ہم نکل ہی جائیں گے


جگر کے زخموں کا علاج کس سے ہم کَرائیں گے؟
مسیحا تیرے منتظر کہ چوٹ تجھ سے کھائیں گے


بھرم وفا کا رکھ چکے، خموش رہتے ہم رہے
ذَرا بَتائیے کہ آپ کتنا آزمائیں گے
.

ستم، کرم تُو جو کرے، جَبیں نیاز میں مری
تِری رَضا پَہ جاں نِثار، سر نَہ ہم اُٹھائیں گے

صَدائے کُن کی یاد میں یہ دل ہے محو آج بھی
ازل کے گیت کو کبھی بھی ہم بھلا نہ پائیں گے

ہے کائنات کی کتاب اس کا روئے خوبرو
کہ جس کے ہر ورق ورق میں حسن اسکا پائیں گے


لباسِ درد نےجو. فہم شعرِ گوئی کا دِیا
تو بعد مرگ بھی یہ شعر لوگ گنگنائیں گے


اُسی کے جلوے سے ملیں ہیں نور کو بھی خلوَتیں
کہ شوقِ وصل سے ملالِ ہجر کو مٹائیں گے
 

نور وجدان

لائبریرین
ہماری صلاح





مندرجہ بالا مصرعوں میں آپ نے ’’رُلنا‘‘ اور’’ طبیبا‘‘ دونوں الفاظ پنجابی کے استعمال کیے ہیں جن کا اردو میں استعمال رائج نہیں۔ مزید یہ کہ ’’نہ جائیو طبیبا، چوٹ آپ ہی سے کھائیں گے‘‘ میں شتر گربہ بھی ہے۔
طبیبا لفظ استعمال کرتے ہوئے تکلم میں "تو، تیرا "کا تاثر ہوتا؟
 

الف عین

لائبریرین
ترے دیار سے کبھی بھی دور ہم نہ جائیں گے
کہ قبر یاں بنے گی، ایسا بخت ہم بھی پائیں گے
... یاں نہ استعمال کیا جائے تو بہتر ہے، 'بھی' بھی بھرتی ہے
یہیں بنے گی قبر اپنی، ایسا بخت...
شاید رواں ہو


چراغ بجھ رہا ہے، وہ نہ آئیں گے، دلِ امید!
زماں مکاں کی قید سے تو ہم نکل ہی جائیں گے
.. درست

جگر کے زخموں کا علاج کس سے ہم کَرائیں گے؟
مسیحا تیرے منتظر کہ چوٹ تجھ سے کھائیں گے
...، زخموں ضروری تو نہیں، زخم واحد ہی بہتر ہے، دونوں مصرعے گے پر ختم ہونا اچھا نہیں، دوسرے مصرعے میں 'ہم' فاعل آ سکے تو بہتر ہے
جگر کے زخم کا علاج کیوں کہیں کرائیں اور
مسیحا منتظر ہیں ہم، تجھی سے چوٹ کھائیں گے
ایک تجویز

بھرم وفا کا رکھ چکے، خموش رہتے ہم رہے
ذَرا بَتائیے کہ آپ کتنا آزمائیں گے
... خموش رہتے ہم رہے، سمجھ نہیں سکا
خموش ہم رہے سدا

ستم، کرم تُو جو کرے، جَبیں نیاز میں مری
تِری رَضا پَہ جاں نِثار، سر نَہ ہم اُٹھائیں گے
.. پہلے مصرع میں بات مکمل نہیں ہو رہی
دوسرے میں بھی میری جاں نثار کی جگہ محض جاں نثار جاں نثار اختر سے تخاطب لگتا ہے۔ عجز بیان اب بھی ہے

صَدائے کُن کی یاد میں یہ دل ہے محو آج بھی
ازل کے گیت کو کبھی بھی ہم بھلا نہ پائیں گے
.... تمام عمر نغمۂ ازل نہ بھول پائیں گے
رواں نہیں؟ اگرچہ اس میں فاعل 'ہم' کی کمی ہے، مگر فوراً یہی مصرع سوجھا
بدلنے کی ضرورت اس لیے کہ دو خامیاں محسوس ہوئیں،
کبھی بھی، بجائے صرف کبھی کے
اور بھول کی جگہ بھلا۔
ہم دوسروں کو بھولتے ہیں لیکن دوسرے ہمیں بھلا دیتے ہیں

ہے کائنات کی کتاب اس کا روئے خوبرو
کہ جس کے ہر ورق ورق میں حسن اسکا پائیں گے
.. درست

لباسِ درد نےجو. فہم شعرِ گوئی کا دِیا
تو بعد مرگ بھی یہ شعر لوگ گنگنائیں گے
... درست

اُسی کے جلوے سے ملیں ہیں نور کو بھی خلوَتیں
کہ شوقِ وصل سے ملالِ ہجر کو مٹائیں گے
... نور کو خلوتیں ملی ہیں تو نور ہی تو ملال ہجر مٹانے گی! نور کو 'بھی' بھرتی ہے، یوں کہو
اسی کے جلوے سے ملی ہیں نور، ہم کو خلوتین
 

نور وجدان

لائبریرین
ترے دیار سے کبھی بھی دور ہم نہ جائیں گے
کہ قبر یاں بنے گی، ایسا بخت ہم بھی پائیں گے
... یاں نہ استعمال کیا جائے تو بہتر ہے، 'بھی' بھی بھرتی ہے
یہیں بنے گی قبر اپنی، ایسا بخت...
شاید رواں ہو


چراغ بجھ رہا ہے، وہ نہ آئیں گے، دلِ امید!
زماں مکاں کی قید سے تو ہم نکل ہی جائیں گے
.. درست

جگر کے زخموں کا علاج کس سے ہم کَرائیں گے؟
مسیحا تیرے منتظر کہ چوٹ تجھ سے کھائیں گے
...، زخموں ضروری تو نہیں، زخم واحد ہی بہتر ہے، دونوں مصرعے گے پر ختم ہونا اچھا نہیں، دوسرے مصرعے میں 'ہم' فاعل آ سکے تو بہتر ہے
جگر کے زخم کا علاج کیوں کہیں کرائیں اور
مسیحا منتظر ہیں ہم، تجھی سے چوٹ کھائیں گے
ایک تجویز

بھرم وفا کا رکھ چکے، خموش رہتے ہم رہے
ذَرا بَتائیے کہ آپ کتنا آزمائیں گے
... خموش رہتے ہم رہے، سمجھ نہیں سکا
خموش ہم رہے سدا

ستم، کرم تُو جو کرے، جَبیں نیاز میں مری
تِری رَضا پَہ جاں نِثار، سر نَہ ہم اُٹھائیں گے
.. پہلے مصرع میں بات مکمل نہیں ہو رہی
دوسرے میں بھی میری جاں نثار کی جگہ محض جاں نثار جاں نثار اختر سے تخاطب لگتا ہے۔ عجز بیان اب بھی ہے

صَدائے کُن کی یاد میں یہ دل ہے محو آج بھی
ازل کے گیت کو کبھی بھی ہم بھلا نہ پائیں گے
.... تمام عمر نغمۂ ازل نہ بھول پائیں گے
رواں نہیں؟ اگرچہ اس میں فاعل 'ہم' کی کمی ہے، مگر فوراً یہی مصرع سوجھا
بدلنے کی ضرورت اس لیے کہ دو خامیاں محسوس ہوئیں،
کبھی بھی، بجائے صرف کبھی کے
اور بھول کی جگہ بھلا۔
ہم دوسروں کو بھولتے ہیں لیکن دوسرے ہمیں بھلا دیتے ہیں

ہے کائنات کی کتاب اس کا روئے خوبرو
کہ جس کے ہر ورق ورق میں حسن اسکا پائیں گے
.. درست

لباسِ درد نےجو. فہم شعرِ گوئی کا دِیا
تو بعد مرگ بھی یہ شعر لوگ گنگنائیں گے
... درست

اُسی کے جلوے سے ملیں ہیں نور کو بھی خلوَتیں
کہ شوقِ وصل سے ملالِ ہجر کو مٹائیں گے
... نور کو خلوتیں ملی ہیں تو نور ہی تو ملال ہجر مٹانے گی! نور کو 'بھی' بھرتی ہے، یوں کہو
اسی کے جلوے سے ملی ہیں نور، ہم کو خلوتین
بہت بہت شکریہ. میں اس کے ساتھ دوبارہ حاضر ہوتی ہوں ...
 

نور وجدان

لائبریرین
معذرت تاخیر کی وجہ سے. امید ہے برا نہیں منائیں گے. دست شفقت رکھتے اصلاح فرمائیں گے



ترے دیار سے کبھی بھی دور ہم نہ جائیں گے
یہیں بنے گی قبر اپنی، ایسا بخت ہم بھی پائیں گے

چراغ بجھ رہا ہے، وہ نہ آئیں گے، دلِ امید!
زماں مکاں کی قید سے تو ہم نکل ہی جائیں گے

جگر کے زخم کا علاج کیوں کہیں کرائیں اور
مسیحا منتظر ہیں ہم، تجھی سے چوٹ کھائیں گے

بھرم وفا کا رکھ چکے، خموش ہم رہے سدا
ذَرا بَتائیے کہ آپ کتنا آزمائیں گے


سِتم کرم تو جو کرے، جبیں جھکی رہے گی یہ
جُڑا رَہے تُجھی سے ناطہ سر نہ یہ اٹھائیں گے

صَدائے کُن کی یاد میں یہ دل ہے محو آج بھی
تمام عمر نغمۂ ازل نہ بھول پائیں گے

ہے کائنات کی کتاب اس کا روئے خوبرو
کہ جس کے ہر ورق ورق میں حسن اسکا پائیں گے


لباسِ درد نےجو. فہم شعرِ گوئی کا دِیا
تو بعد مرگ بھی یہ شعر لوگ گنگنائیں گے

اسی کے جلوے سے ملی ہیں نور، ہم کو خلوتیں
کہ شوقِ وصل سے ملال ہجر کو مٹائیں گے
 
ہماری صلاح
جی ہاں پنجابی میں طبیب کو طبیبا بولا جاتا ہے




مندرجہ بالا مصرعوں میں آپ نے ’’رُلنا‘‘ اور’’ طبیبا‘‘ دونوں الفاظ پنجابی کے استعمال کیے ہیں جن کا اردو میں استعمال رائج نہیں۔ مزید یہ کہ ’’نہ جائیو طبیبا، چوٹ آپ ہی سے کھائیں گے‘‘ میں شتر گربہ بھی ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
ترے دیار سے کبھی بھی دور ہم نہ جائیں گے
یہیں بنے گی قبر اپنی، ایسا بخت ہم بھی پائیں گے
... دوسرے مصرعے میں 'ہم بھی' بحر سے خارج کر رہا ہے

چراغ بجھ رہا ہے، وہ نہ آئیں گے، دلِ امید!
زماں مکاں کی قید سے تو ہم نکل ہی جائیں گے
.. ٹھیک

جگر کے زخم کا علاج کیوں کہیں کرائیں اور
مسیحا منتظر ہیں ہم، تجھی سے چوٹ کھائیں گے
.. پہلا مصرع
کہیں کرائیں اور کیوں جگر کے زخم کا علاج
بہتر ہو گا

بھرم وفا کا رکھ چکے، خموش ہم رہے سدا
ذَرا بَتائیے کہ آپ کتنا آزمائیں گے
.. درست، ویسے تاثر کے لیے دوسرے مصرعے میں 'اور' آ سکے تو
جیسے
بتائیے کہ آپ اور کتنا...
یا ذرا رکھنا ہو تو
ذرا بتائیں، آپ اور کتنا.....

سِتم کرم تو جو کرے، جبیں جھکی رہے گی یہ
جُڑا رَہے تُجھی سے ناطہ سر نہ یہ اٹھائیں گے
... روانی اور تاثر میں اضافہ کیا جا سکتا ہے
کرم کرے، کرے ستم، یہ سر سدا رہے گا خم
بنا رہے یہ رشتہ، ہم اسے نہ اب اٹھائیں گے
ایک صورت

صَدائے کُن کی یاد میں یہ دل ہے محو آج بھی
تمام عمر نغمۂ ازل نہ بھول پائیں گے
.. وہی بات کہ دوسرے مصرعے میں 'ہم' کی کمی ہے

ہے کائنات کی کتاب اس کا روئے خوبرو
کہ جس کے ہر ورق ورق میں حسن اسکا پائیں گے
درست

لباسِ درد نےجو. فہم شعرِ گوئی کا دِیا
تو بعد مرگ بھی یہ شعر لوگ گنگنائیں گے

اسی کے جلوے سے ملی ہیں نور، ہم کو خلوتیں
کہ شوقِ وصل سے ملال ہجر کو مٹائیں گے
تھیک
 

نور وجدان

لائبریرین
ترے دیار سے کبھی بھی دور ہم نہ جائیں گے
یہیں بنے گی قبر اپنی، ایسا بخت ہم بھی پائیں گے
... دوسرے مصرعے میں 'ہم بھی' بحر سے خارج کر رہا ہے

چراغ بجھ رہا ہے، وہ نہ آئیں گے، دلِ امید!
زماں مکاں کی قید سے تو ہم نکل ہی جائیں گے
.. ٹھیک

جگر کے زخم کا علاج کیوں کہیں کرائیں اور
مسیحا منتظر ہیں ہم، تجھی سے چوٹ کھائیں گے
.. پہلا مصرع
کہیں کرائیں اور کیوں جگر کے زخم کا علاج
بہتر ہو گا

بھرم وفا کا رکھ چکے، خموش ہم رہے سدا
ذَرا بَتائیے کہ آپ کتنا آزمائیں گے
.. درست، ویسے تاثر کے لیے دوسرے مصرعے میں 'اور' آ سکے تو
جیسے
بتائیے کہ آپ اور کتنا...
یا ذرا رکھنا ہو تو
ذرا بتائیں، آپ اور کتنا.....

سِتم کرم تو جو کرے، جبیں جھکی رہے گی یہ
جُڑا رَہے تُجھی سے ناطہ سر نہ یہ اٹھائیں گے
... روانی اور تاثر میں اضافہ کیا جا سکتا ہے
کرم کرے، کرے ستم، یہ سر سدا رہے گا خم
بنا رہے یہ رشتہ، ہم اسے نہ اب اٹھائیں گے
ایک صورت

صَدائے کُن کی یاد میں یہ دل ہے محو آج بھی
تمام عمر نغمۂ ازل نہ بھول پائیں گے
.. وہی بات کہ دوسرے مصرعے میں 'ہم' کی کمی ہے

ہے کائنات کی کتاب اس کا روئے خوبرو
کہ جس کے ہر ورق ورق میں حسن اسکا پائیں گے
درست

لباسِ درد نےجو. فہم شعرِ گوئی کا دِیا
تو بعد مرگ بھی یہ شعر لوگ گنگنائیں گے

اسی کے جلوے سے ملی ہیں نور، ہم کو خلوتیں
کہ شوقِ وصل سے ملال ہجر کو مٹائیں گے
تھیک
مرے اشعار کو حسن توجہ دینے کے لیے بیحد شکریہ. میں اصلاح شدہ کو ترتیب دے کے حاضر خدمت ہوتی.
 
Top