بھول جاتے ہیں خطائیں جب کسی سے پیار ہو ---برائے اصلاح

الف عین
شاہد شاہنواز
خلیل الرحمن
--------------
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
-----------
بھول جاتے ہیں خطائیں جب کسی سے پیار ہو
اس قدر ہی سوچتے ہیں کس طرح دیدار ہو
-------------
سوچنا ہو جب تمہیں تو بات اچھی سوچئے
تب نہ ایسا ہو سکے گا ذہن جب بیمار ہو
-------------
غیر کو جب دیکھتے ہیں ساتھ اپنے یار کے
تب دعائیں مانگتے ہیں اس کو بھی انکار ہو
------------
سہل جینا ہو سبھی کا دل سے اُٹھتی ہے دعا
کیا مزا ہے زندگی کا ، جینا جب دشوار ہو
-------
نفرتوں کے دور میں اب پیار کرنا چاہئے
بھول جاتی ہیں خطائیں گر دلوں میں پیار ہو
-------------
دو دلوں میں چاہتوں کو ہم کہیں گے دوستی
وہ محبّت خام ہے جب اک طرف انکار ہو
--------------
ہے یہ ارشد کی تمنّا وہ مٹائے دوریاں
دوسروں کو پاس لانا ہی مرا کردار ہو
--------------
 

الف عین

لائبریرین
پھر بتائی جائیں وہی غلطیاں جو آپ ہمیشہ کرتے ہیں؟
بھول جاتے ہیں خطائیں جب کسی سے پیار ہو
اس قدر ہی سوچتے ہیں کس طرح دیدار ہو
------------- فاعل کون؟ کس کا دیدار؟

سوچنا ہو جب تمہیں تو بات اچھی سوچئے
تب نہ ایسا ہو سکے گا ذہن جب بیمار ہو
-------------شتر گربہ

غیر کو جب دیکھتے ہیں ساتھ اپنے یار کے
تب دعائیں مانگتے ہیں اس کو بھی انکار ہو
------------ فاعل؟

سہل جینا ہو سبھی کا دل سے اُٹھتی ہے دعا
کیا مزا ہے زندگی کا ، جینا جب دشوار ہو
------- کس کے دل سے؟ جینا کا الف؟ کیا یہ مصرع یوں رواں نہیں
کیا مزا جینے کا ہے جب زندگی دشوار ہو

نفرتوں کے دور میں اب پیار کرنا چاہئے
بھول جاتی ہیں خطائیں گر دلوں میں پیار ہو
------------- اب؟ کس کی خطائیں؟

دو دلوں میں چاہتوں کو ہم کہیں گے دوستی
وہ محبّت خام ہے جب اک طرف انکار ہو
-------------- ٹھیک

ہے یہ ارشد کی تمنّا وہ مٹائے دوریاں
دوسروں کو پاس لانا ہی مرا کردار ہو
-------------- شتر گربہ
 
الف عین
(غزل دوبارا)
-----------
اس کی خامی بھی گوارا جب کسی سے پیار ہو
جس طرح بھی ہو سکے محبوب کا دیدار ہو
-------------
جس میں سب کا ہو بھلا وہ بات اچھی سوچئے
تب نہ ایسا ہو سکے گا ذہن جب بیمار ہو
-------------
جب کسی کو دیکھتے ہیں ساتھ اپنے یار کے
تب دعائیں مانگتے ہیں اس کو بھی انکار ہو
----------
سہل جینا ہو سبھی کا میرے دل کی ہے دعا
کیا مزا جینے کا ہے جب زندگی دشوار ہو
----------------
نفرتوں کو دور کر کے پیار کرنا چاہئے
ہر کسی کو چاہئے وہ ہر کسی کا یار ہو
---------------
دو دلوں میں چاہتوں کو ہم کہیں گے دوستی
وہ محبّت خام ہے جب اک طرف انکار ہو
--------------
ہے یہ ارشد کی تمنّا وہ مٹائے دوریاں
دوسروں کو پاس لانا اس کا یہ کردار ہو
--------------
 

الف عین

لائبریرین
ابھی بھی مجھے تو اکثر ویسی ہی اغلاط محسوس ہو رہی ہیں

اس کی خامی بھی گوارا جب کسی سے پیار ہو
جس طرح بھی ہو سکے محبوب کا دیدار ہو
------------- دونوں مصرعوں میں ربط نہیں لگتا۔ پھر پہلے مصرع میں بات بھی نا مکمل لگتی ہے، 'ہم کو اس کی ہر خامی گوارا لگتی ہے جس سے پیار کیا جائے' شاید یہ بات کہنا تھی لیکن الفاظ درست نہیں لگتے

جس میں سب کا ہو بھلا وہ بات اچھی سوچئے
تب نہ ایسا ہو سکے گا ذہن جب بیمار ہو
------------- اچھی بات سوچیے' اچھا اندازِ بیاں نہیں لگتا

جب کسی کو دیکھتے ہیں ساتھ اپنے یار کے
تب دعائیں مانگتے ہیں اس کو بھی انکار ہو
---------- واضح نہیں ہوا، اس کو انکار سے مراد؟

سہل جینا ہو سبھی کا میرے دل کی ہے دعا
کیا مزا جینے کا ہے جب زندگی دشوار ہو
---------------- درست، 'سہل ہو جینا' زیادہ رواں لگ رہا ہے، یہاں ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے مشق چھوڑ دی!

نفرتوں کو دور کر کے پیار کرنا چاہئے
ہر کسی کو چاہئے وہ ہر کسی کا یار ہو
--------------- ٹھیک مگر بات بنی نہیں

دو دلوں میں چاہتوں کو ہم کہیں گے دوستی
وہ محبّت خام ہے جب اک طرف انکار ہو
--------------
ہے یہ ارشد کی تمنّا وہ مٹائے دوریاں
دوسروں کو پاس لانا اس کا یہ کردار ہو
-------------- یہ دونوں درست ہو گئے اگرچہ کوئی خاص بات نہیں۔ سارے اشعار ہی بس تک بندیاں لگتے ہیں
 
Top