برطانیہ ملک ریاض کے19 کروڑ پاؤنڈز پاکستان کو دے گا

فرقان احمد

محفلین
ملک ریاض حسین کے روابط ریٹائرڈ جرنیلوں اور ججز کے علاوہ شاید حاضر سروس جرنیلوں اور ججز کے علاوہ با اثر سیاست دانوں سے ہیں اور ایک زمانے میں تو انہیں کنگ میکر تک تصور کیا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ان شخصیات میں سے شاید بعض کو ضامن بنا کر مقتدر قوتوں کے ساتھ کوئی نہ کوئی ڈیل کر لی ہو گی جس کے باعث کچھ دولت واپس آ رہی ہے اور ہمیں اس پر بھی صبر شکر کرنا ہو گا۔ ویسے، انصاف کے تقاضے تو ہرگز پورے نہ ہوئے اور بے لاگ احتساب کا نعرہ محض اک خواب ہی رہا۔ اب یہی ہے کہ جو کچھ آ رہا ہے، اس پر ہی اکتفا کرنا ہو گا کیونکہ بظاہر ملک ریاض حسین نے اپنی بچت کا کافی سامان کر لیا ہے۔
 
آخری تدوین:

جان

محفلین
ملک ریاض حسین کے روابط ریٹائرڈ جرنیلوں اور ججز کے علاوہ شاید حاضر سروس جرنیلوں اور ججز کے علاوہ با اثر سیاست دانوں سے ہیں اور ایک زمانے میں تو انہیں کنگ میکر تک تصور کیا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ان شخصیات میں سے شاید بعض کو ضامن بنا کر مقتدر قوتوں کے ساتھ کوئی نہ کوئی ڈیل کر لی ہو گی جس کے باعث کچھ دولت واپس آ رہی ہے اور ہمیں اس پر بھی صبر شکر کرنا ہو گا۔ ویسے، انصاف کے تقاضے تو ہرگز پورے نہ ہوئے اور بے لاگ احتساب کا نعرہ محض اک خواب ہی رہا۔ اب یہی ہے کہ جو کچھ آ رہا ہے، اس پر ہی اکتفا کرنا ہو گا کیونکہ بظاہر ملک ریاض حسین نے اپنی بچت کا کافی سامان کر لیا ہے۔
انصاف کا تو بال بھی بھیگا نہیں ہوا، یہ جو سب چل رہا ہے محض 'پروپیگنڈہ' ہے! شریف فیملی نے ملک ریاض سے لین دین کی، اس وجہ سے پی ٹی آئی پروپیگنڈہ ونگ اپنے کام میں جت گیا! یہ کہنے کا مقصد شریف فیملی کا دفاع کرنا نہیں بلکہ خان صاحب کا کھوکھلا 'کرپشن' کا نعرہ واضح کرنا ہے۔ اصل کیس ملک ریاض پہ تھا کہ رقم کا حساب دینا پڑنا تھا، کرمنل کاروائی ہوتی، پاکستانی حکومت سے ملک ریاض کے اثاثوں کی تفصیلات طلب کی جاتیں اور یوں اصل کرپشن کی داستان تو اس وقت سامنے آنے تھی۔ پی ٹی آئی نے اپنے کرپشن کے نعرے کے برعکس ملک ریاض کو اس طریقے سے لیگل کور دے کر اس کی جان بخشی کروائی ہے! ملک ریاض نے بھی اس رقم کو سپریم کورٹ کیس کے تحت طے شدہ رقم کی قسط کے طور پر دینے پہ آمادگی ظاہر کی اور پی ٹی آئی جو آجکل 'پیسے پیسے' کی پیاسی ہے اس معاہدے پہ راضی ہو گئی ہے کہ چلو کچھ آ ہی رہا ہے! باقی 'انصاف' صرف میڈیائی پروپیگنڈہ ہے!
 

عدنان عمر

محفلین
تین سال قبل انگریزی روزنامہ ڈان نے کراچی بحریہ ٹاؤن کے لئے حاصل کی گئی زمین کے حوالے سے غیر قانونی سرگرمیوں کا پردہ فاش کیا تھا لیکن اس وقت بھی اس رپورٹ پر میڈیا میں چرچا کرنے کی بجائے ملک ریاض کے اس وضاحتی بیان کو زیادہ توجہ کا مستحق سمجھا گیا تھا کہ ڈان گروپ نے ان سے گراں قدر اشتہار مانگے تھے۔ یہ اشتہار نہ ملنے کی صورت میں بحریہ ٹاؤن کے بارے میں منفی رپورٹنگ کی گئی تھی۔
جب تک وطنِ عزیز میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس یعنی طاقت کا قانون رائج رہے گا، تب تک ظلم کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو ایسے ہی دبایا جاتا رہے گا۔ بحریہ ٹاؤن کے حقیقی وارثین پر کیا گزری، ملاحظہ فرمائیے۔
سپریم کورٹ کے فیصلہ کو عوام نے صرف اس لئے خوش دلی سے قبول کیا تھا کہ انہیں لگا کہ اس طرح قوم کو کثیر وسائل حاصل ہوجائیں گے۔ سپریم کورٹ کے ججوں کے نزدیک بھی اس معاملہ میں رقم کے عوض قانون شکنی کو نظر انداز کرنے کے فیصلہ کی ایک بنیاد یہ بھی رہی ہوگی کہ بحریہ ٹاؤن کراچی میں ہزاروں شہریوں کا سرمایہ پھنسا ہؤا تھا۔ اس لئے ملک ریاض یا ان کے ساتھیوں کے خلاف عدالتی کارروائی کے نتیجہ میں ان بے گناہ لوگوں کو ہی اصل نقصان برداشت کرنا پڑتا۔
بحریہ ٹاؤن کراچی میں آنکھیں بند کر کے سرمایہ لگانے والے شہری بے گناہ نہیں، خود غرض ہیں۔ ان میں سے بیشتر نے اپنا پیسہ اس لیے انویسٹ کیا ہے تا کہ آگے جا کر ان کے لگائے لاکھوں روپے کروڑوں میں بدل جائیں۔ اس بہتی گنگا میں پراپرٹی ڈیلرز نے بھی خوب ہاتھ دھوئے ہیں۔ اور رہ گئے وہ غریب جو اس زمین کے اصل وارث ہیں، ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
تبدیلی آ نہیں رہی، تبدیلی آ گئی ہے! اب کم از کم شخصیت پرست مذہبی طبقے پہ تنقید کا جواز آپ کے پاس نہیں رہا!
مجھے تو 'آدھا تیتر، آدھا بٹیر' والی مثال یاد آ رہی ہے! :)
اب محسوس ہو رہا ہے کہ 'لنڈے کے لبرلز' والی اصطلاح ایسے ہی وجود میں نہیں آ گئی! :)
عمران خان اور تحریک انصاف حکومت پر تنقید ضرور کریں لیکن تنقید برائے تنقید غلط روش ہے۔ جن لوگوں نے پہلے دن سے یہ گردان پکڑی ہوئی ہے کہ حکومت فیل ہو گئی یعنی لبرل اور لفافے ان کی تنقید کوئی اہمیت نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
ملک ریاض حسین کے روابط ریٹائرڈ جرنیلوں اور ججز کے علاوہ شاید حاضر سروس جرنیلوں اور ججز کے علاوہ با اثر سیاست دانوں سے ہیں اور ایک زمانے میں تو انہیں کنگ میکر تک تصور کیا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ان شخصیات میں سے شاید بعض کو ضامن بنا کر مقتدر قوتوں کے ساتھ کوئی نہ کوئی ڈیل کر لی ہو گی جس کے باعث کچھ دولت واپس آ رہی ہے اور ہمیں اس پر بھی صبر شکر کرنا ہو گا۔ ویسے، انصاف کے تقاضے تو ہرگز پورے نہ ہوئے اور بے لاگ احتساب کا نعرہ محض اک خواب ہی رہا۔ اب یہی ہے کہ جو کچھ آ رہا ہے، اس پر ہی اکتفا کرنا ہو گا کیونکہ بظاہر ملک ریاض حسین نے اپنی بچت کا کافی سامان کر لیا ہے۔
۲۰۰۸ میں جن بڑے اور طاقتور اقتصادی اداروں کی وجہ سے امریکہ میں مالیاتی بحران آیا۔ وہ آج بھی سرکاری سیٹلمنٹ کے بعد جوں کے توں موجود ہیں۔ انہیں مورخین نے مجرم ہونے کے باوجود Too Big To Fail کا نام دیا تھا۔
Too big to fail - Wikipedia

پاکستان میں ملک ریاض ایک ایسا طاقتور کردار ہے جسے فیل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس کو سزا دینے کی بجائے ہمیشہ سیٹلمنٹ ہی کی جاتی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اصل کیس ملک ریاض پہ تھا کہ رقم کا حساب دینا پڑنا تھا، کرمنل کاروائی ہوتی، پاکستانی حکومت سے ملک ریاض کے اثاثوں کی تفصیلات طلب کی جاتیں اور یوں اصل کرپشن کی داستان تو اس وقت سامنے آنے تھی۔
ملک ریاض کے خلاف بحریہ ٹاؤن اراضی کیس میں ۴۶۵ ارب روپے کے عوض کرمنل کاروائی روک دی گئی تھی۔ تحریک انصاف حکومت کے دائر کردہ کیسز کا انجام بھی یہی ہونا تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
پی ٹی آئی نے اپنے کرپشن کے نعرے کے برعکس ملک ریاض کو اس طریقے سے لیگل کور دے کر اس کی جان بخشی کروائی ہے! ملک ریاض نے بھی اس رقم کو سپریم کورٹ کیس کے تحت طے شدہ رقم کی قسط کے طور پر دینے پہ آمادگی ظاہر کی اور پی ٹی آئی جو آجکل 'پیسے پیسے' کی پیاسی ہے اس معاہدے پہ راضی ہو گئی ہے کہ چلو کچھ آ ہی رہا ہے! باقی 'انصاف' صرف میڈیائی پروپیگنڈہ ہے!
اگر پی ٹی آئی برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کو بحریہ ٹاؤن اراضی کیس میں کئے گئے ۴۶۵ ارب روپے جرمانے کا حوالہ نہ دیتی تو یہ پیسے ریکور کرنے میں کئی سال لگ جاتے۔ اب چونکہ ملک ریاض کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود تھا تو ریکوری کے پیسے اسی کے نام سے واپس منگوا لئے ہیں۔ ساتھ ہی سپریم کورٹ میں پٹیشن بھی کر دیا ہے کہ یہ لوٹی ہوئی دولت عوام کی فلاح بہبود پر خرچ کرنے کی اجازت دی جائے۔ ویسے بھی پیسا پاکستانی سپریم کے پاس جمع ہے۔ بھوٹان کی سپریم کورٹ کے پاس نہیں :)
 

جاسم محمد

محفلین
جب تک وطنِ عزیز میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس یعنی طاقت کا قانون رائج رہے گا، تب تک ظلم کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو ایسے ہی دبایا جاتا رہے گا۔ بحریہ ٹاؤن کے حقیقی وارثین پر کیا گزری، ملاحظہ فرمائیے۔

بحریہ ٹاؤن کراچی میں آنکھیں بند کر کے سرمایہ لگانے والے شہری بے گناہ نہیں، خود غرض ہیں۔ ان میں سے بیشتر نے اپنا پیسہ اس لیے انویسٹ کیا ہے تا کہ آگے جا کر ان کے لگائے لاکھوں روپے کروڑوں میں بدل جائیں۔ اس بہتی گنگا میں پراپرٹی ڈیلرز نے بھی خوب ہاتھ دھوئے ہیں۔ اور رہ گئے وہ غریب جو اس زمین کے اصل وارث ہیں، ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔
آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے کیا کر سکتے ہیں؟ :(
 

جاسم محمد

محفلین
اگر ظلم کو روک نہیں سکتے تو اس کے خلاف حتی المقدور آگاہی تو پھیلا سکتے ہیں۔
ملک ریاض کے پاس آج اتنا پیسا ہے کہ وہ جب چاہے پورا نظام خرید کر حکومت گرا سکتا ہے۔ حکومت ایسے طاقتور ترین شخص کے خلاف جائے گی تو ملک میں رہی سہی کاروباری ایکٹیویٹی بھی ختم ہو جائے گی۔ پھر میڈیا میں ملک ریاض کے لفافے تو پہلے ہی سخت حکومت دشمن ہیں۔ اس حوالہ سے مزید سختی کی تو پورا نظام ہی نہ لپٹا جائے۔
اس لئے بہتر یہی ہے کہ ملک ریاض سے جتنا لوٹا ہوا پیسا ریکور کیا جا سکتا ہے سیٹلمنٹ کے ذریعہ کر لیا جائے۔ اور یوں اس کے خلاف قانونی چارا جوئی سے گریز کیا جائے۔
ویسے بھی حکومت پر اندھا دھند تنقید کرنے والے لبرل، لفافے اور اپوزیشن والے بتائیں کہ ملک ریاض جب ایک عام ٹھیکے دار سے آج قانون سے بالا تر ہونے کا سفر طے کر رہا تھا اس وقت وہ سب ستو پی کر سوئے ہوئے تھے؟ اب جو ان کو شدید دکھ ہو رہا ہے کہ حکومت ملک ریاض کے خلاف کچھ نہیں کر رہی۔ یہی دکھ اس وقت کیوں نہیں ہوا جب ملک ریاض جج، جرنیل اور جرنلسٹ خرید کر ملک کی سب سے طاقتور شخصیت بن رہا تھا؟ اس وقت تو وہ معاشرتی ناسور رشوت، کرپشن اور منی لانڈرنگ کو جائز تصور کرتے تھے۔
اب تحریک انصاف نے آکر جگادیاہے تو کہتے ہیں حکومت ۷۲ سالہ لوٹ مار کی ریکوری ایک دن میں کرکے دکھائے۔ یعنی ایک طرف عمران خان کے قوم کو خواب غفلت سے جگانے پر ناخوش ہیں تو دوسری طرف شدید غمگین بھی ریکوری ہماری مرضی کے مطابق کیوں نہیں ہوئی :)
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
یہ بات کچھ سمجھ نہیں آئی۔
ملک کا صنعتی سیکٹر منافع بخش نہ بنا سکنے کے باعث پچھلے کئی دہائیوں سے سارا پیسا ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں جا رہا ہے۔ ملک ریاض اس کاروبار میں صحیح وقت پر اینٹر ہوئے اور آج اتنے طاقتور ہیں کہ قانون بھی ان کا بال بیکا نہیں کر سکتا۔
اب یہ حکومت کا کام ہے کہ صنعتی سیکٹر کو منافع بخش بنانے کی کوشش کرے تاکہ ساری سرمایہ کاری ریئل اسٹیٹ سے صنعتی ترقی میں منتقل ہو جو ملک کی معیشت مستحکم کرنے کا واحد طریقہ ہے۔
اس وقت اگر ملک ریاض پر ہاتھ ڈالا تو اس کے توسط سے چلنے والا ریئل اسٹیٹ سیکٹر زمین بوس ہو جائے گا۔ قومی سرمائے کو بچانا ملک ریاض کو سزا دلوانے سے زیادہ اہم ہے۔
 

زیرک

محفلین
ملک کا صنعتی سیکٹر منافع بخش نہ بنا سکنے کے باعث پچھلے کئی دہائیوں سے سارا پیسا ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں جا رہا ہے۔ ملک ریاض اس کاروبار میں صحیح وقت پر اینٹر ہوئے اور آج اتنے طاقتور ہیں کہ قانون بھی ان کا بال بیکا نہیں کر سکتا۔
اب یہ حکومت کا کام ہے کہ صنعتی سیکٹر کو منافع بخش بنانے کی کوشش کرے تاکہ ساری سرمایہ کاری ریئل اسٹیٹ سے صنعتی ترقی میں منتقل ہو جو ملک کی معیشت مستحکم کرنے کا واحد طریقہ ہے۔
اس وقت اگر ملک ریاض پر ہاتھ ڈالا تو اس کے توسط سے چلنے والا ریئل اسٹیٹ سیکٹر زمین بوس ہو جائے گا۔ قومی سرمائے کو بچانا ملک ریاض کو سزا دلوانے سے زیادہ اہم ہے۔
آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ رئیل سٹیٹ سے جڑا ہوا کنسٹرکشن کا کاروبار 20 سے زائد انڈسٹریز کو پروان چڑھاتا ہے، جس میں سب سے زیادہ فائدہ سروسز انڈسٹری کو ہوتا ہے۔ سروسز انڈسٹری مطلب روزگار کمانے والے، آپ اسے جڑ سے کاٹ دیں گے تو سب سے بڑا نقصان یہ ہو گا کہ بیروزگاری بڑھے گی، اس کے ساتھ ساتھ 20 سے زائد وہ انڈسٹریز جو کنسٹرکشن سے متعلق ہیں یعنی تعمیراتی مٹیریل بناتی ہیں وہ بند ہو جائیں گی۔ حکومت کے اکھاڑ پچھاڑ اقدامات سے ہر طرف بے چینی، افراتفری اور بیروزگاری پھیلنے کا خطرہ ہے۔اس لیے حکومت کو سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا ہوں گے، وہ پہلے ہی معیشت جیسے نازک سیکٹر میں پینک پیدا کر چکی ہے۔ مزید اکھاڑ پچھاڑ سے سسٹم زمین بوس ہونے کا خطرہ ہے۔
 

عدنان عمر

محفلین
ملک کا صنعتی سیکٹر منافع بخش نہ بنا سکنے کے باعث پچھلے کئی دہائیوں سے سارا پیسا ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں جا رہا ہے۔ ملک ریاض اس کاروبار میں صحیح وقت پر اینٹر ہوئے اور آج اتنے طاقتور ہیں کہ قانون بھی ان کا بال بیکا نہیں کر سکتا۔
اب یہ حکومت کا کام ہے کہ صنعتی سیکٹر کو منافع بخش بنانے کی کوشش کرے تاکہ ساری سرمایہ کاری ریئل اسٹیٹ سے صنعتی ترقی میں منتقل ہو جو ملک کی معیشت مستحکم کرنے کا واحد طریقہ ہے۔
اس وقت اگر ملک ریاض پر ہاتھ ڈالا تو اس کے توسط سے چلنے والا ریئل اسٹیٹ سیکٹر زمین بوس ہو جائے گا۔ قومی سرمائے کو بچانا ملک ریاض کو سزا دلوانے سے زیادہ اہم ہے۔
بھائی یہ تو نظریۂ ضرورت کے تحت کسی قانون شکن کو مزید ڈھیل دینا ہے۔
اگر نظریۂ ضرورت پر ہی عمل کرنا ہے تو پھر کیا خیال ہے ملک ریاض کے ریئل اسٹیٹ بزنس کو نہ قومیا لیا جائے۔ :)
 

زیرک

محفلین
بھائی یہ تو نظریۂ ضرورت کے تحت کسی قانون شکن کو مزید ڈھیل دینا ہے۔
اگر نظریۂ ضرورت پر ہی عمل کرنا ہے تو پھر کیا خیال ہے ملک ریاض کے ریئل اسٹیٹ بزنس کو نہ قومیا لیا جائے۔ :)
عمران خان کے ساتھ انیل مسرت جیسے لوگوں کی نظریں اسی پر ہیں، مگر وہ شاید یہ بھول رہے ہیں کہ ملک ریاض صرف فرنٹ مین ہے، اصل مالکان وہ ہیں جن کا نام لینا پاکستان میں جرم ہے، مگر میں بتا رہا ہوں کہ کسی میں ہمت نہیں کہ ریٹائرڈ جرنیلوں کے اصل کاروبار کو ہاتھ لگا سکے، اس لیے ملک ریاض سے صرف سیٹلمنٹ ہو سکتی ہے، اسے نہ سزا دی جا سکتی ہے نہ اس کا کھمبا اکھاڑا جا سکتا ہے، کاروبار ہتھیانا تودور کی بات ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
بھائی یہ تو نظریۂ ضرورت کے تحت کسی قانون شکن کو مزید ڈھیل دینا ہے۔
اگر نظریۂ ضرورت پر ہی عمل کرنا ہے تو پھر کیا خیال ہے ملک ریاض کے ریئل اسٹیٹ بزنس کو نہ قومیا لیا جائے۔ :)
۶۰ کی دہائی میں جنرل ایوب نے صنعتوں کو منافع بخش کاروبار بنایا لیکن بھٹو جیسے سرخوں کو یہ معاشی ترقی پسند نہیں آئی۔ اور اقتدار میں آتے ساتھ ہی ملک کے ۲۲ طاقتور ترین صنعتی خاندانوں کے کاروباری اثاثے جبرا نیشنلائز کر دیے۔ وہ دن اور آج کا دن ملک دوبارہ صنعتی ترقی نہ کر سکا۔ اب کیا حکومت بھی ملک ریاض کا منافع بخش ریئل اسٹیٹ کاروبار قومیا کر صنعتوں کی طرح تباہ کر دے؟ :)
 

جاسم محمد

محفلین
عمران خان کے ساتھ انیل مسرت جیسے لوگوں کی نظریں اسی پر ہیں، مگر وہ شاید یہ بھول رہے ہیں کہ ملک ریاض صرف فرنٹ مین ہے، اصل مالکان وہ ہیں جن کا نام لینا پاکستان میں جرم ہے، مگر میں بتا رہا ہوں کہ کسی میں ہمت نہیں کہ ریٹائرڈ جرنیلوں کے اصل کاروبار کو ہاتھ لگا سکے، اس لیے ملک ریاض سے صرف سیٹلمنٹ ہو سکتی ہے، اسے نہ سزا دی جا سکتی ہے نہ اس کا کھمبا اکھاڑا جا سکتا ہے، کاروبار ہتھیانا تودور کی بات ہے۔
حکومت انیل مسرت، ملک ریاض، فوجی فاؤنڈیشن وغیرہ کے ساتھ مل کر پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کے ذریعہ ۵۰ لاکھ گھر بنانے جا رہی ہے۔ ظاہر ہے اپنے ہی کاروباری پارٹنر کے خلاف قانونی کاروائی نہیں ہو سکتی۔
 

عدنان عمر

محفلین
ملک ریاض صرف فرنٹ مین ہے
یہ مجھے آج پتہ چلا ہے۔ :)
اب کیا حکومت بھی ملک ریاض کا کاروبار قومیا کر صنعتوں کی طرح تباہ کر دے؟
نہیں! حکومت بلکہ قوم ملک صاحب سے ہاتھ جوڑ کر عرض کرے: تسی لنگھ جاؤ، ساڈی خیر اے۔ :)
 
Top