مہنگائی کی سونامی کے اثرات اور غریب عوام کی حالتِ زار

زیرک

محفلین
مہنگائی کی سونامی کے اثرات اور غریب عوام کی حالتِ زار
چلیں ہم حکومت کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ختم کرنے کا دعویٰ مان لیتے ہیں اور وزیراعظم کا یہ بیان بھی سچ مان لیتے ہیں "باہرکی ایجنسیز جب کہتی ہیں کہ معیشت مستحکم ہو گئی ہے تو اعتماد ملتا ہے"۔ وزیراعظم سے صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ حکومتوں کو اعتماد تبھی ملتا ہے جب عوام ان کے ساتھ ہوں، کیا آپ کو اور آپ کے وزراء کو بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے عوام کے کچن کا خسارہ نظر نہیں آ رہا؟ جو کہ آئے دن بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ تنخواہ دار طبقے کو ہی لیں 30 ہزار ماہوار کمانے والوں کے لیے مہنگائی %22 تک بڑھ گئی ہے، 500 روز کے کمانے والے دیہاڑی دار مزدور کے لیے تو یہ شرح %45 سمجھ لیں، ایسے میں وہ کھائے گا کیا؟ حکومت کو مہنگائی کی سونامی کو روکنا ہو گا وگرنہ ان کے جانے کے دن مقرر سمجھیں۔ دفتروں میں بیٹھے وزراء کو یہ علم نہیں کہ مہنگائی نے عوام سے دو وقت کی روٹی تک چھین لی ہے۔ اشیائے خوردو نوش کی قیمتیں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ لوگوں کی پہنچ سے ہی دور ہو تی جا رہی ہیں۔ ان کے پاس وقت ہو تو وہ وفاقی ادارہ شماریات پاکستان کے دفتری بابوؤں کے بنائے ہوئے اعداد و شمار ہی دیکھ لیں تو شاید ان کی آنکھ کھل جائے۔
٭وفاقی ادارہ شماریات پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں %16.53 اضافہ ہوا ہے۔
٭نومبر 2019 میں افراطِ زر کی شرح میں نومبر 2018 کے مقابلے میں %12.28 اضافہ ہوا۔
٭جبکہ اکتوبر 2019 کے مقابلے میں مہنگائی % 1.2 بڑھی ہے۔
٭اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں ایک سال کے دوران %16.53 اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
٭گندم %18، آٹا %17.4، گوشت کی قیمت میں %10.4 اضافہ ہوا۔
٭برائیلر مرغی %11.98، مچھلی %11/33 اور تازہ دودھ %8.11 فیصد مہنگا ہوا۔
٭خوردنی تیل %14.12 اور بناسپتی گھی کی قیمت میں %16.47 اضافہ ہوا۔
٭مسور کی دال کی قیمت %18.2، مونگ کی دال %56.89، ماش کی دال %35.13 اور چنے کی دال %15 مہنگی ہوئی۔
٭پیاز کی قیمت %159 فیصد اور ٹماٹر کی قیمت میں %376 فیصد کا ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا۔
٭تازہ سبزیوں کی قیمتوں میں بھی %37.73 اضافہ دیکھنے میں آیا۔
٭مکانات کے کرائے %9.68 بڑھ گئے۔
٭بجلی کے بلوں میں اوسطاً %3.68، گیس میں %13.43 اور مٹی کے تیل کی قیمت میں %30.9 اضافہ ہوا۔
٭ادویات کی قیمت میں %10.74 طبی آلات کی قیمت میں %7.21 اضافہ دیکھنے میں آیا۔
٭ڈاکٹروں کی فیس میں ٪33۔13 اضافہ ہوا ۔
٭لیبارٹری ٹیسٹ کی فیسوں میں ٪7۔52 اضافہ دیکھنے میں آیا۔
٭موٹر وہیکل ٹیکس، پیٹرول اور گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافے سے ٹرانسپورٹ کے اخراجات ٪7۔21 تک بڑھ گئے ہیں۔

نوٹ: حکومتی حامی خوشی سے اس پوسٹ کو "ناپسندیدہ" قرار دے سکتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
نوٹ: حکومتی حامی خوشی سے اس پوسٹ کو "ناپسندیدہ" قرار دے سکتے ہیں۔
حقائق پر مبنی پوسٹس کو ناپسندیدہ نہیں زبردست کی ریٹنگ دی جاتی ہے۔
حکومت نے ملک کی خارجہ معیشت تو مستحکم کر دی ہے لیکن اس کی وجہ سے داخلی معیشت ڈوب گئی ہے۔ اب ساری توجہ داخلی معیشت ٹھیک کرنے پر مرکوز رہے گی۔
میری پوری توجہ معیشت مستحکم کرنے پر ہے، وزیراعظم
 

زیرک

محفلین
داخلی معیشت ڈوب گئی ہے۔ اب ساری توجہ داخلی معیشت ٹھیک کرنے پر مرکوز رہے گی۔
میری پوری توجہ معیشت مستحکم کرنے پر ہے، وزیراعظم
داخلی معیشت ہی تو کسی ملک کے معاشی سسٹم کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے، یہ وقت اپنی ریڑھ کی ہڈی کمزور کرنے کانہیں بلکہ اسے مضبوط کرنے کا ہے۔ دیکھتے ہیں حکومت کیا کرتی ہے؟
 

جاسم محمد

محفلین
داخلی معیشت ہی تو کسی ملک کے معاشی سسٹم کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے، یہ وقت اپنی ریڑھ کی ہڈی کمزور کرنے کانہیں بلکہ اسے مضبوط کرنے کا ہے۔ دیکھتے ہیں حکومت کیا کرتی ہے؟
داخلی معیشت بہتر کرنے کیلئے شرح سود 13 فیصد سے کم کر کے معمول یعنی 5 فیصد پر لانی ہوگی۔ مگر اس سے بیرونی سرمایہ کاری اور زرمبادلہ ہوا ہو جانے کا خطرہ موجود ہے۔ اور یوں پھر وہی خسارے واپس آجائیں گے جنہیں 15 ماہ محنت کرکے کنٹرول کیا گیا ہے۔
Chasing hot money - Newspaper - DAWN.COM
 

زیرک

محفلین
داخلی معیشت بہتر کرنے کیلئے شرح سود 13 فیصد سے کم کر کے معمول یعنی 5 فیصد پر لانی ہوگی۔ مگر اس سے بیرونی سرمایہ کاری اور زرمبادلہ ہوا ہو جانے کا خطرہ موجود ہے۔ اور یوں پھر وہی خسارے واپس آجائیں گے جنہیں 15 ماہ محنت کرکے کنٹرول کیا گیا ہے۔
Chasing hot money - Newspaper - DAWN.COM
سود پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام غریب پسے ہوئے، بےکس و بے بس افراد کے خون کا آخری قطرے تک نچوڑ کر سارا مال معیشت پر قابض چند سرمایہ داروں کی تجوریوں میں بھر دیتا ہے، جو ٹیکس تو دیتے ہیں مگر مراعات کے نام پر ٹیکس ریٹرنز بھی لیتے ہیں۔ جس سے بدترین قسم کی معاشی تفاوت جنم لیتی ہے جس سے معاشرے میں اضطراب، بے چینی اور بے سکونی میں اضافہ ہوتا ہے۔ نام ریاستِ مدینہ کا لینا اور سود پر تکیہ کرنا کیا یہ تضاد نہیں؟ ایسا کرنے سے دنیاوی نظام تو چل سکتا ہے مگر ایک اسلامی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا۔ سودی نظام سے پیچھا چھڑائیں گے تو بات بنے گی وگرنہ نوشتۂ دیوار سامنے ہے، کسی کو نظر نہ آئے تو یہ اس کا قصور ہوا۔
 

زیرک

محفلین
داخلی معیشت بہتر کرنے کیلئے شرح سود 13 فیصد سے کم کر کے معمول یعنی 5 فیصد پر لانی ہوگی۔ مگر اس سے بیرونی سرمایہ کاری اور زرمبادلہ ہوا ہو جانے کا خطرہ موجود ہے۔ اور یوں پھر وہی خسارے واپس آجائیں گے جنہیں 15 ماہ محنت کرکے کنٹرول کیا گیا ہے۔
Chasing hot money - Newspaper - DAWN.COM
منافقت کسے کہتے ہیں؟ ایاک نعبد و ایاک نستعین پڑھ کر تقریر کا آغاز کرنا، بیچ بیچ میں نام ریاستِ مدینہ کا بھی لینا اور حقیقت میں سود پر تکیہ کرنا ہی تو منافقت ہے، منافقت سے نیا کام شروع کرنے والی حکومت کا نیا پراجیکٹ "اپنا کاروبار خوشحال پاکستان" دیکھ لیں، جس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس سے نوجوانوں کو بااختیار بنانے میں مدد ملے گی۔ اس منصوبے کے لیے تقریباً 100 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں (جو کہ اچھی بات ہے)، بقول حکومت کے "صاف شفاف کرپشن سے پاک منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ چکا ہے"۔ اس پروگرام کے تحت نوجوانوں کو 5 لاکھ سے 50 لاکھ تک کا قرضہ انتہائی کم شرح "سود" پر دیا جائے گا ،یعنی کسی نوجوان نے قرض لے کر چائے کا ڈھابہ یا ٹی سٹال کھولنا ہو تو حکومت نے تو اس کے پاک صاف دودھ میں بسم اللہ پڑھ کر شرحِ سود کی مینگنیاں ڈال دی ناں، جبکہ یہ کام بغیر سود کے شروع کیا جاتا تو اللہ بھی برکت ڈالتا، لیکن حکومت کو تو بس خزانہ بھرنے میں دلچسپی ہے چاہے اس کے لیے غیر اسلامی اقدار کو اپنانا پڑے۔
 

جاسم محمد

محفلین
منافقت کسے کہتے ہیں؟ ایاک نعبد و ایاک نستعین پڑھ کر تقریر کا آغاز کرنا، بیچ بیچ میں نام ریاستِ مدینہ کا بھی لینا اور حقیقت میں سود پر تکیہ کرنا ہی تو منافقت ہے، منافقت سے نیا کام شروع کرنے والی حکومت کا نیا پراجیکٹ "اپنا کاروبار خوشحال پاکستان" دیکھ لیں، جس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس سے نوجوانوں کو بااختیار بنانے میں مدد ملے گی۔ اس منصوبے کے لیے تقریباً 100 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں (جو کہ اچھی بات ہے)، بقول حکومت کے "صاف شفاف کرپشن سے پاک منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ چکا ہے"۔ اس پروگرام کے تحت نوجوانوں کو 5 لاکھ سے 50 لاکھ تک کا قرضہ انتہائی کم شرح "سود" پر دیا جائے گا ،یعنی کسی نوجوان نے قرض لے کر چائے کا ڈھابہ یا ٹی سٹال کھولنا ہو تو حکومت نے تو اس کے پاک صاف دودھ میں بسم اللہ پڑھ کر شرحِ سود کی مینگنیاں ڈال دی ناں، جبکہ یہ کام بغیر سود کے شروع کیا جاتا تو اللہ بھی برکت ڈالتا، لیکن حکومت کو تو بس خزانہ بھرنے میں دلچسپی ہے چاہے اس کے لیے غیر اسلامی اقدار کو اپنانا پڑے۔
ویسےسودی نظام مغربی ممالک میں بھی رائج ہے البتہ یہاں اللہ کے فضل سے بہت برکت ہے۔ شاید اسکی وجہ یہ ہے کہ شرح سود بہت ہی کم ہے۔ بلکہ بعض ممالک میں تو منفی شرح سود ہے۔
http%3A%2F%2Fcom.ft.imagepublish.upp-prod-us.s3.amazonaws.com%2F24395ce6-be74-11e9-b350-db00d509634e
 

زیرک

محفلین
ویسےسودی نظام مغربی ممالک میں بھی رائج ہے البتہ یہاں اللہ کے فضل سے بہت برکت ہے۔ شاید اسکی وجہ یہ ہے کہ شرح سود بہت ہی کم ہے۔ بلکہ بعض ممالک میں تو منفی شرح سود ہے۔
http%3A%2F%2Fcom.ft.imagepublish.upp-prod-us.s3.amazonaws.com%2F24395ce6-be74-11e9-b350-db00d509634e
یہ لوگ شروع شروع میں اپنی عوام کا خوب استحصال کر چکے ہیں، جب گھر کا لیموں نچوڑ لیا تو تھرڈ ورلڈ ممالک کے ایسٹس پر نظر ڈال دی، پہلے پاکستان جیسے غریب ملک کو"امداد" کی چرس کا نشہ لگایا گیا، پھر جب ہم عادی نشئی بن گئے تو کہا گیا "اب امداد ختم، قرض سے کام چلاؤ"۔ اب جس ملک کو بھی قرض دیا جاتا ہے تو پہلے اس ملک کی کرنسی کی ویلیو کو کم کروایا جاتا ہے، اس کے علاوہ سو طرح کی پابندیاں بھی عائد کی جاتی ہیں کہ قرض کو فلاں مد کے علاوہ کہیں اور استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ جب نیا قرضہ لینے کا وقت آتا ہے تو ایک بار پھر سے کرنسی کی ویلیو کم کروائی جاتی ہے، جس سے نہ صرف پچھلا قرضہ بیٹھے بٹھائے بڑھ جاتا ہے بلکہ اس پر سود کی شرح بھی بڑھ جاتی ہے۔ نئے قرض کے ساتھ کیا کیا نئی بیماریاں آتی ہیں، ہمارے تھرڈ ورلڈ حکمران کبھی اپنی عوام کو نہیں بتاتے۔ مغربی ممالک کی جہاں تک بات ہے تو اب یہ لوگ باہر سے ہی اتنا کما لیتے ہیں کہ انہیں اپنے لوگوں کا گلا نہیں کاٹنا پڑتا، اس لیے ان کے ہاں شرحِ سود ماضی کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ لوگ شروع شروع میں اپنی عوام کا خوب استحصال کر چکے ہیں، جب گھر کا لیموں نچوڑ لیا تو تھرڈ ورلڈ ممالک کے ایسٹس پر نظر ڈال دی، پہلے پاکستان جیسے غریب ملک کو"امداد" کی چرس کا نشہ لگایا گیا، پھر جب ہم عادی نشئی بن گئے تو کہا گیا "اب امداد ختم، قرض سے کام چلاؤ"۔ اب جس ملک کو بھی قرض دیا جاتا ہے تو پہلے اس ملک کی کرنسی کی ویلیو کو کم کروایا جاتا ہے، اس کے علاوہ سو طرح کی پابندیاں بھی عائد کی جاتی ہیں کہ قرض کو فلاں مد کے علاوہ کہیں اور استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ جب نیا قرضہ لینے کا وقت آتا ہے تو ایک بار پھر سے کرنسی کی ویلیو کم کروائی جاتی ہے، جس سے نہ صرف پچھلا قرضہ بیٹھے بٹھائے بڑھ جاتا ہے بلکہ اس پر سود کی شرح بھی بڑھ جاتی ہے۔ نئے قرض کے ساتھ کیا کیا نئی بیماریاں آتی ہیں، ہمارے تھرڈ ورلڈ حکمران کبھی اپنی عوام کو نہیں بتاتے۔ مغربی ممالک کی جہاں تک بات ہے تو اب یہ لوگ باہر سے ہی اتنا کما لیتے ہیں کہ انہیں اپنے لوگوں کا گلا نہیں کاٹنا پڑتا، اس لیے ان کے ہاں شرحِ سود ماضی کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔
سب سے اہم بات تو آپ بھول ہی گئے کہ تھرڈ ورلڈ میں لوٹ مار کا سارا پیسا بھی انہی فرسٹ ورلڈ ممالک میں منی لانڈر کیا جاتا ہے :)
 

زیرک

محفلین
سب سے اہم بات تو آپ بھول ہی گئے کہ تھرڈ ورلڈ میں لوٹ مار کا سارا پیسا بھی انہی فرسٹ ورلڈ ممالک میں منی لانڈر کیا جاتا ہے :)
وہ اس موضوع سے الگ تھا، لیکن اب بات چل نکلی ہے تو اس پہ بھی بات کر لیتے ہیں، آپ ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں لندن جیسے شہر میں سب سے زیادہ جائیدادیں کرپٹ مافیا کی ہیں یا عرب شیخوں کی، دونوں صورتوں میں یہ پیسہ وہاں کی عوام کا ہے جہاں کے حکمران یا حکمران طبقہ ان کے ساتھ مختلف منصوبوں میں شریک کار رہا ہے۔ سب سے بڑی بیماری برطانوی حکومت ہے جو نہ صرف چوروں کے ساتھ شراکت کار کرتی ہے، بلکہ چوری کے نت نئے طریقے بھی بتاتی ہے اور سب سے بڑھ کر چوری کا مال چھپانے کے لیے محفوظ پناہ گاہیں بھی فراہم کرتی ہے جسے برطانوی قانون کی چھتری کی حفاظت بھی حاصل ہوتی ہے۔ شکر ہے دنیا کے بیشتر ممالک جو ان کے ڈسے ہوئے ہیں ان کے اور یو این او کے دباؤ پر برطانوی حکومت نے 31 جنوری 2018 کو ’ان ایکسپیلینڈ ویلتھ آرڈر‘ یعنی ایسی دولت جس کی وضاحت نہ کی گئی ہو کا قانون نافد کیا ہے جس کے تحت برطانیہ میں مقیم غیر ملکی افراد سے برطانیہ میں ان کے اثاثوں کے بارے میں پوچھا جا سکتا ہے کہ یہ آپ نے کیسے بنائے ہیں؟۔ لیکن ٪99.9 فی صد مجرم اب بھی اس کی پکڑ میں نہیں آ رہے کیونکہ زیادہ تر نے برطانوی شہریت اختیار کرلی ہے اور برطانوی شہریوں کو قانون کے شکنجے سے بچاؤ کے بہت سے چور طریقے رکھے گئے ہیں۔
 

زیرک

محفلین
حکومت نے ملک کی خارجہ معیشت تو مستحکم کر دی ہے لیکن اس کی وجہ سے داخلی معیشت ڈوب گئی ہے۔
تبدیلی آ نہیں رہی، تبدیلی آ گئی ہے کیونکہ عمران خان اینڈ کمپنی کی لغت میں جھوٹ کو جھوٹ نہیں یو ٹرن کہتے ہیں، ظالموں کے یو ٹرنز نے غریب کے منہ سے دو وقت کی روٹی تک چھین لی ہے۔ یوٹرنز کے نمونے ملاحظہ کیجئے۔
٭ پہلے بھی کئی بار بتا چکا ہوں کہ امپورٹس پر روک لگا کر وقتی فلڈ گیٹ لگایا گیا ہے، جس سے زرمبادلہ کی لیکج کم کی گئی ہے لیکن اس کا الٹا نقصان ہو گیا ہے، امپورٹڈ اشیاء مہنگی کی گئیں، ان پہ ٹیکس لگایا کیا جس سے ملکی کاروبار میں مزید گراوٹ آ گئی۔ چونکہ امپورٹڈ سامان غریب تو استعمال نہیں کرتا، امیر لوگ ہی کرتے ہیں، 25 یا 50 ہزار خریداری پر شناختی کارڈ کی شرط نے بھی خریدار کو خریداری سے دور کر دیا ۔ تو ایسے میں مجھے بتائیں ملکی کاروبار سے ریونیو اکٹھا کیسے ہو گا، اسی وجہ سےموجودہ بجٹ میں 5 بلین ڈالر کا خسارہ سامنے آ گیا ہے، جس کے لیے کشکول پکڑ کر عربوں کی منتیں کی گئیں اور بدلے میں ان کے شرط مانتے ہوئے ملائیشیا کانفرنس میں جانے سے انکار بھی کیا گیا ہے۔
٭٭ریاست کے بیرون ممالک ایسٹس کو خارجہ معیشت کہتے ہیں، پاکستان کے پاس ایسا کچھ بھی نہیں ہے، پاکستان کے پاس سب سے بڑا فارن ایسٹ اس کے بیرون ملک مقیم پاکستانی ہیں، جو سال میں 25 ارب ڈالر کا زرمبادلہ پاکستان کو بھجواتے ہیں اور بدلے میں ان کو چھتر کھانے کو ملتے ہیں، یہ تو حال ہے ہماری حکومتوں اور ان کے معیشت دانوں کی خودکش پالیسیوں کا اور اس پر طرہ کہ ہم شرمندہ بھی نہیں ہوتے اور ببانگِ دُھل کہتے پھرتے ہیں کہ "ہم ورلڈ لیڈر بنیں گے"، عمران خاان سے کہیں اپنا سپیچ رائٹ بدلیں اور اسے کہیں کہ مستقبل میں یہ جملہ تقریر میں شامل نہ کرے کیونکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت بن چکی ہے کہ "ہم ورلڈ بیگر بن چکے ہیں"۔
 

جاسم محمد

محفلین
٭ پہلے بھی کئی بار بتا چکا ہوں کہ امپورٹس پر روک لگا کر وقتی فلڈ گیٹ لگایا گیا ہے، جس سے زرمبادلہ کی لیکج کم کی گئی ہے لیکن اس کا الٹا نقصان ہو گیا ہے، امپورٹڈ اشیاء مہنگی کی گئیں، ان پہ ٹیکس لگایا کیا جس سے ملکی کاروبار میں مزید گراوٹ آ گئی۔ چونکہ امپورٹڈ سامان غریب تو استعمال نہیں کرتا، امیر لوگ ہی کرتے ہیں، 25 یا 50 ہزار خریداری پر شناختی کارڈ کی شرط نے بھی خریدار کو خریداری سے دور کر دیا ۔ تو ایسے میں مجھے بتائیں ملکی کاروبار سے ریونیو اکٹھا کیسے ہو گا، اسی وجہ سےموجودہ بجٹ میں 5 بلین ڈالر کا خسارہ سامنے آ گیا ہے، جس کے لیے کشکول پکڑ کر عربوں کی منتیں کی گئیں اور بدلے میں ان کے شرط مانتے ہوئے ملائیشیا کانفرنس میں جانے سے انکار بھی کیا گیا ہے۔
ریونیو اکٹھا کرنے کا بہترین طریقہ ملک کی ایکسپورٹس بڑھانا ہے امپورٹس نہیں۔ حکومت امپورٹس کم کر کے رفتہ رفتہ ایکسپورٹس بڑھا رہی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
٭٭ریاست کے بیرون ممالک ایسٹس کو خارجہ معیشت کہتے ہیں، پاکستان کے پاس ایسا کچھ بھی نہیں ہے، پاکستان کے پاس سب سے بڑا فارن ایسٹ اس کے بیرون ملک مقیم پاکستانی ہیں، جو سال میں 25 ارب ڈالر کا زرمبادلہ پاکستان کو بھجواتے ہیں اور بدلے میں ان کو چھتر کھانے کو ملتے ہیں، یہ تو حال ہے ہماری حکومتوں اور ان کے معیشت دانوں کی خودکش پالیسیوں کا اور اس پر طرہ کہ ہم شرمندہ بھی نہیں ہوتے اور ببانگِ دُھل کہتے پھرتے ہیں کہ "ہم ورلڈ لیڈر بنیں گے"، عمران خاان سے کہیں اپنا سپیچ رائٹ بدلیں اور اسے کہیں کہ مستقبل میں یہ جملہ تقریر میں شامل نہ کرے کیونکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت بن چکی ہے کہ "ہم ورلڈ بیگر بن چکے ہیں"۔
یہ بالکل صحیح بات ہے۔ جو ملک میں سب سے زیادہ ڈالر بھجواتے ہیں انہی کیلئے حکومت بہت کم کام کر رہی ہے۔
 

یاقوت

محفلین
الفاظ کی گھمن گھیرنیاں ہمیں نہیں آتیں اور ویسے بھی جدید معاشیات الفاظ اور انداز کا وہ گورکھ دھندا ہے جسے سمجھنانے والے بھی نہ سمجھا پائیں۔۔
اتنا عرض کروں گا میرے ایک عزیز ہیں،بے آسرا،بے روزگار،بے حد متفکر ،پچھلے مہینے انکا بجلی کا بل آیا بطور ثبوت تصویر ساتھ لف کرنے کو تیار ہوں۔۔
کل بجلی کا بل تھا 75 روپے اور 765 روپے ٹیکس تھا۔ وہ جو دو وقت کے کھانے کیلئے فکر سے مرا جا رہا ہے وہ صرف ایک بل کے ساتھ اتنا ٹیکس کہاں سے ادا کرے ۔۔۔۔۔۔
شاید یہی ہے ریاست مدینہ جہاں غریب کو ورغلا کر بہکا کر ووٹ لیا گیا لیکن نیّابھی اسی غریب کی ڈبوئی گئی سرمایہ دار تو ویسے ہی دندناتا پھر رہا ہے وزیر خرانہ مل مالکان کے ساتھ تو مذاکرات کرنے پر آجاتے ہیں ان لاچاروں کی دہائی کون سنےگا؟؟؟؟؟؟؟ ان سے مذاکرا ت کون کرے گا؟؟؟؟؟؟
 

جاسم محمد

محفلین
کل بجلی کا بل تھا 75 روپے اور 765 روپے ٹیکس تھا۔ وہ جو دو وقت کے کھانے کیلئے فکر سے مرا جا رہا ہے وہ صرف ایک بل کے ساتھ اتنا ٹیکس کہاں سے ادا کرے ۔۔۔۔۔۔
بجلی چوری کا نقصان ہر صارف پر برابر تقسیم کر دیا گیا ہے۔
 

زیرک

محفلین
الفاظ کی گھمن گھیرنیاں ہمیں نہیں آتیں اور ویسے بھی جدید معاشیات الفاظ اور انداز کا وہ گورکھ دھندا ہے جسے سمجھنانے والے بھی نہ سمجھا پائیں۔۔
اتنا عرض کروں گا میرے ایک عزیز ہیں،بے آسرا،بے روزگار،بے حد متفکر ،پچھلے مہینے انکا بجلی کا بل آیا بطور ثبوت تصویر ساتھ لف کرنے کو تیار ہوں۔۔
کل بجلی کا بل تھا 75 روپے اور 765 روپے ٹیکس تھا۔ وہ جو دو وقت کے کھانے کیلئے فکر سے مرا جا رہا ہے وہ صرف ایک بل کے ساتھ اتنا ٹیکس کہاں سے ادا کرے ۔۔۔۔۔۔
شاید یہی ہے ریاست مدینہ جہاں غریب کو ورغلا کر بہکا کر ووٹ لیا گیا لیکن نیّابھی اسی غریب کی ڈبوئی گئی سرمایہ دار تو ویسے ہی دندناتا پھر رہا ہے وزیر خرانہ مل مالکان کے ساتھ تو مذاکرات کرنے پر آجاتے ہیں ان لاچاروں کی دہائی کون سنےگا؟؟؟؟؟؟؟ ان سے مذاکرا ت کون کرے گا؟؟؟؟؟؟
یہی آج کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ نعرہ تو ریاستِ مدینہ کا لگایا جاتا ہے لیکن عوامل ابوجہل جیسے ہیں، ایک ہی رٹ ہے کہ ٹیکسز بڑھانے ہیں، تلوار چلتی ہے تو غریبوں پر اور مراعات دی جاتی ہیں تو سرمایہ داروں بزنس مینوں اور اقرباء کو۔ میں خود اس وقت دو گھروں کی بل کی مد میں امداد کر رہا ہوں، مجھے سب پتہ ہے کہ غریب کس حال میں زندہ ہیں لیکن حکمرانوں کو کوئی خوفِ خدا نہیں ہے، یہ صرف حکومت بچانے کے لیے "مذاقرات" کر سکتے ہیں۔
 

زیرک

محفلین
بجلی چوری کا نقصان ہر صارف پر برابر تقسیم کر دیا گیا ہے۔
ایسا انصاف کیا ہے ہے بے غیرت تاریک انصاف حکومت نے کہ لوگ توہ لعنت ہی کر رہے ہیں، ایسے طریقے سے بجلی چوری کا نقصان پورا کیا گیا ہے کہ سرکاری اداروں اور ان کے ملازمین، تاجروں، کارخانے داروں، کنڈہ مافیا وغیرہ کا نقصان غریب عوام پہ ڈال دیا گیا ہے تم جیسے حکومتی بھونپو اسے انصاف قرار دینے کی پوری کوشش کر رہے ہیں، لگتا ہے حکومت کو ملنے والے لعنت ادھر بھی ٹرانسفر ہونے لگی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ایسا انصاف کیا ہے ہے بے غیرت تاریک انصاف حکومت نے کہ لوگ توہ لعنت ہی کر رہے ہیں، ایسے طریقے سے بجلی چوری کا نقصان پورا کیا گیا ہے کہ سرکاری اداروں اور ان کے ملازمین، تاجروں، کارخانے داروں، کنڈہ مافیا وغیرہ کا نقصان غریب عوام پہ ڈال دیا گیا ہے تم جیسے حکومتی بھونپو اسے انصاف قرار دینے کی پوری کوشش کر رہے ہیں، لگتا ہے حکومت کو ملنے والے لعنت ادھر بھی ٹرانسفر ہونے لگی ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام میں بالآخر سارا نقصان اکثریت جو کہ غریب ہے پر ڈال دیا جاتا ہے اور سارا منافع امیر اور اشرافیہ طبقہ جو کہ اقلیت ہے سمیٹ لیتا ہے۔
 
Top