’پاکستان سائنس کلب‘ میں سائنس پڑھائی نہیں سکھائی جاتی ہے

جاسم محمد

محفلین
’پاکستان سائنس کلب‘ میں سائنس پڑھائی نہیں سکھائی جاتی ہے
کریم الاسلام بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
  • ایک گھنٹہ پہلے
p07x2n9h.jpg

کراچی کا سائنس کلب جہاں بچے عملی تجربے کر کے سیکھتے ہیں

عبدالرؤف کو بچپن ہی سے چاند پر جانے کا شوق تھا۔

پچیس سال پہلے سیالکوٹ کے ایک چھوٹے سے گاؤں ہرناہ میں ایسا سوچنا کسی دیوانے کا خواب لگتا تھا۔

لیکن نوجوان عبدالرؤف نے کسی کی ایک نہ سُنی اور اپنی دھن میں مگن رہے۔ چاند پر جانے کے لیے دوستوں کے ساتھ مل کر راکٹ بنانے کی ٹھانی لیکن شومئی قسمت کہ اُڑنے سے پہلے ہی راکٹ ہاتھ میں ہی پھٹ گیا۔ اِس حادثے میں عبدالرؤف کا چہرہ اور بال جلے اور ساتھ ہی ان کے تمام ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے۔

مگر پھر وہ کراچی آ گئے اور اپنے اِس خواب کی تعبیر اپنے جیسے دوسرے سر پھروں کے ساتھ مل کر ڈھونڈنے لگے۔ اب وہ کورنگی کے علاقے میں ایک سائنس کلب چلاتے ہیں اور نئے عبدالسلام اور سلیم الزمان صدیقی پیدا کرنے کی کوششوں میں جُتے ہیں۔

خفیہ لیب
عبد الرؤف یاد کرتے ہیں کہ بچپن میں جب کبھی اُن کے والد کوئی نیا کھلونا لا کے دیتے تو اُس سے کھیلنے کے بجائے وہ اُسے کھول کر پُرزے پُرزے کر دیا کرتے تھے۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ کھلونے کے اندر کونسا جِن ہے جو اُسے چلا رہا ہے۔

’ہمارا دوستوں کا ایک گروپ تھا اور ہم مل کر عام استعمال کی گھریلو اشیا سے سائنسی تجربات کیا کرتے تھے۔ ایک بار ہم نے سکول کی چھوٹی سی لیب سے کچھ ٹیسٹ ٹیوبز اور سائنس کا دوسرا سامان چوری کیا اور اپنی ایک خفیہ تجربہ گاہ بھی بنا لی۔‘

_110027596_scienceclubimage7.jpg

’بورنگ‘ سائنس


کراچی آنے کے بعد عبدالرؤف مختلف سکولوں میں پڑھاتے رہے۔ اُن کا مضمون سائنس تھا اور اُنھیں یہ دیکھ کر حیرت ہوتی تھی کہ سکول انتظامیہ اور ٹیچرز سائنس جیسے عملی مضمون کو صرف کتابوں تک محدود کیے بیٹھے تھے۔

’سٹوڈنٹس کو جس طرح سائنس پڑھائی جا رہی تھی وہ کافی غیر دلچسپ تھا۔ طلبا کو سائنس کے بنیادی اصول سمجھانے کے بجائے اساتذہ کا سارا زور درسی کُتب کے سبق رٹوانے اور نمبر دینے پر تھا۔‘

یہ بات کچھ ایسی غلط بھی نہیں۔

نامور پاکستانی سائنسدان اور فزکس کے استاد ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کا دعویٰ ہے کہ ملک میں سائنس کی زبوں حالی کا اصل ذمہ دار نصاب نہیں بلکہ نااہل اساتذہ اور ناقص طریقہِ امتحان ہے۔

’سب سے بڑا مسئلہ اساتذہ کا ہے۔ کیونکہ اساتذہ کی موجودہ نسل اِسی نظامِ تعلیم سے گزر کر آئی ہے لہذا اُس میں بھی وہ تمام خرابیاں موجود ہیں جو اُس سے پہلے کے اساتذہ میں تھیں۔ اِس طرح نسل در نسل ہم تنزلی کی طرف جا رہے ہیں۔‘

_110027475_scienceclubimage5.jpg


’رٹا فکیشن‘

پرویز ہود بھائی امتحانات کے متروک طریقہِ کار کو بھی طلبہ میں سائنس کے غیر مقبول ہونے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ اُن کے مطابق ہمارا طریقہِ امتحان طلبا کے علم سے زیادہ اُن کا حافظہ پرکھتا ہے۔

عبدالرؤف نے اِن مسائل کا حل یوں نکالا کہ سائنس کے مضمون کو کتاب سے نکال کر کلاس روم میں لے آئے۔

'میں نے نصاب میں دیے گئے سائنسی اصول تجربات کی شکل میں طلبا کے سامنے عملی طور پر کر کے دکھانا شروع کر دیے۔ اِس طرح بچوں نے سائنس کے مضمون میں دلچسپی لینا شروع کر دی اور جس پیریڈ سے وہ کبھی بھاگا کرتے تھے اب اُس کا بے چینی سے انتظار کرنے لگے۔'

بس اسی طرح سنہ 2008 میں 'پاکستان سائنس کلب' کی بنیاد پڑی۔

سوال ضروری ہے
جس معاشرے میں سوال کرنے پر تیوریاں چڑھائی جاتی ہوں وہاں سائنس رو بہ زوال ہو تو کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کو دکھ ہے کہ پاکستانی معاشرے میں ابتدا سے ہی بچے کا قدرتی تجسس ختم کر دیا جاتا ہے۔ اُسے سوال کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی لہذا بظاہر نظر آنے والے حقائق کو من و عن تسلیم کرنے کے علاوہ بچے کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا۔

'ہمارے سکولوں میں رائج رٹّے کی عادت سائنس کو ختم کر رہی ہے۔ سائنس تجسس کو پروان چڑھاتی ہے اور کیوں اور کیسے جیسے سوالات پوچھنے پر مجبور کرتی ہے۔ اگر بچے کو سوال کرنے پر ٹوکا جائے اور کہا جائے کہ جو کچھ کتاب میں لکھا ہے صرف وہی یاد کرنا ہے تو پھر سائنس کی بنیاد ہی ختم ہو جاتی ہے۔'

_110027478_scienceclubimage4.jpg


ایک سائز کا دماغ

عبدالرؤف مانتے ہیں کہ بچہ خواہ دنیا کے کسی بھی حصے میں ہو پیدائشی طور پر متجسس ہوتا ہے جس کے پاس ایک ہی سائز کا دماغ اور ایک ہی طرح کی صلاحیت ہوتی ہے۔

'فرق آ جاتا ہے ماحول کا۔ بحیثیت قوم ہماری سائنس و ٹیکنالوجی میں پیچھے رہ جانے کی وجہ بھی یہی ہے کہ ہمارا نظامِ تعلیم تنقیدی سوچ کو فروغ دینے میں ناکام رہا ہے۔'

اِس کے برعکس عبدالرؤف مغرب کی مثال دیتے ہیں جہاں سائنس کو ایک تجرباتی مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے جس میں تمام تر زور عملی تجربے پر ہوتا ہے۔

'مثلاً اگر نباتات کا مضمون پڑھانا ہے تو طلبا کو کسی باغ میں لے جایا جاتا ہے۔ اِسی طرح اگر فزکس پڑھائی جائے گی تو بچے کو کوئی گاڑی یا مشین کھول کر دکھائی جائے گی تاکہ وہ خود تجربہ کر کے سائنسی اصولوں کو پرکھے۔'

سائنس کا میجک شو
اب عبدالرؤف سارا سال سائنس کے تجربات کا سامان اُٹھائے شہر شہر گھومتے ہیں اور سرکاری اور پرائیویٹ سکولوں میں سائنس شوز کرتے ہیں۔

'ہم کھیل ہی کھیل میں سائنس کے مختلف بنیادی اصول بچوں کو ازبر کرا دیتے ہیں۔ سمجھ لیں یہ ایک طرح کا میجک شو ہے۔ ہم اِسی نوعیت کے سٹریٹ شوز اور سمر کیمپس بھی منعقد کرتے ہیں۔ اِس کے علاوہ ہم سکولوں میں سائنس کلبز اور میکرز سپیس بھی قائم کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں جہاں بچے مستقل بنیادوں پر اپنے سائنس کے شوق کو پروان چڑھا سکتے ہیں۔'

_110027599_scienceclubimage3.jpg


سورج کی شعاؤں پر تَلا انڈا

'پاکستان سائنس کلب' کے اکثر ممبرز متوسط یا کم آمدنی والے علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن جو بات اُنھیں دوسرے بچوں سے ممتاز کرتی ہے وہ اُن کی ذہانت اور سائنس سے لگن ہے۔

'آپ دیکھیں گے کہ ہمارے سائنس کلب میں کوئی بچہ وِنڈ ٹربائن بنا رہا ہے تو کوئی سولر کار تیار کر رہا ہے اور کوئی سولر کوکر پر انڈا تَل رہا ہے۔ کچھ ممبرز بائیو گیس پلانٹ اور ہوائی جہاز بنانے کی کوششوں میں لگے ہیں۔ ہمارے بچے آرٹیفیشل انٹیلیجنس، روبوٹکس اور کمپیوٹر پروگرامنگ جیسے پیچیدہ پراجیکٹس پر کام کرکے اپنے آئیڈیاز کو عملی شکل دیتے ہیں۔'

'پاکستان سائنس کلب' انٹرنیٹ کی دنیا میں بھی مقبول ہے اور اُس کے یوٹیوب چینل کے دنیا بھر میں 70 ہزار سے زائد فالورز ہیں۔ اِس چینل پر 'ڈی آئی وائی' یعنی اپنی مدد آپ کے تحت سائنس پراجیکٹس تیار کرنا سکھایا جاتا ہے۔

پروفیسر ہود بھائی مانتے ہیں کہ بچوں میں سائنس کا رجحان پیدا کرنے میں سائنس کلبز اور میلے اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن اُن کے نزدیک درس گاہ کی اپنی منفرد حیثیت ہے۔

'سائنس میلوں اور سائنس کلب کی اہمیت اپنی جگہ لیکن معیاری تعلیم کا کوئی نعم البدل نہیں۔ سب سے ضروری بات یہ ہے کہ روایتی تعلیمی نظام کو سدھارا جائے۔'

_110027479_scienceclubimage2.jpg


بدلتا زمانہ

عبدالرؤف کا دعوی ہے کہ موجودہ تعلیمی نظام عہدِ حاضر کی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔

’اب زمانہ بدل چکا ہے۔ اب آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور روبوٹکس کا زمانہ ہے۔ یہ اور اِن جیسے دیگر جدید مضامین بچے کے ذہن میں ابھرنے والے سوالات کے جواب تلاش کرنے میں مدد دیتے ہیں۔‘

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کے نزدیک کامیابی کا نسخہ وہی ہے جو مغرب نے کئی صدیوں پہلے اپنا لیا تھا۔

’ہمیں تنقیدی سوچ کو پروان چڑھانا ہو گا۔ صرف نئی یونیورسٹیاں بنانے اور پی ایچ ڈی سکالرز کی کھیب تیار کرنے سے قابل سائنسدان نہیں ملیں گے۔‘

عبدالرؤف بھی چاہتے ہیں کہ اربابِ اختیار مستقبل کے چیلنجز کو مدِنظر رکھ کر تعلیمی پالیسیاں بنائیں۔

’اُنھیں آنے والے وقت کی جاب مارکیٹ کو ذہن میں رکھ کر تعلیمی نظام کو ازسرِنو ترتیب دینا ہو گا۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو ہم سائنس و ٹیکنالوجی کی فیلڈ میں مزید پیچھے چلے جائیں گے۔‘

رہی بات چاند پر جانے کی تو عبدالرؤف کو اپنے اِس مشن کے نامکمل رہ جانے پر کوئی خاص افسوس نہیں۔ بچپن میں راکٹ، پٹاخے اور بم بنانے پر مار کھانے والے عبدالرؤف کے بے شمار شاگرد آج دنیا بھر میں سائنس کے میدان میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں۔ کیا پتا اُن میں سے ہی کوئی خلانورد نکل آئے اور ایک دن چاند پر پہنچ کر اُن کا ادھورا خواب پورا کر دے۔
 

محمد سعد

محفلین
عبد الرووف صاحب زبردست آدمی ہیں۔ کراچی کے ایک چکر میں ان سے بالمشافہ ملاقات کا موقع بھی ملا ہے۔ ان کے سائنس کلب میں اپنا روز مرہ کے سامان سے بنایا ہوا ایک وان ڈی گراف جنریٹر پڑا ہے جس کا اوپری گول حصہ ایک دیگچی کو الٹا کر بنایا گیا ہے۔ اس کو ہم ہانڈی گراف جنریٹر کہتے ہیں۔
 
Top