ڈان اخبار پر ’نامعلوم افراد‘ کا قبضہ

جاسم محمد

محفلین
dawn.jpg

ڈان اخبار پر ’نامعلوم افراد‘ کا قبضہ

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ملک کے سب سے معتبر میڈیا ادارے ڈان گروپ کے دفتر پر نامعلوم افراد کے حملے کی پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے مذمت کرتے ہوئے اسے فاشسٹ ہتھکنڈے قرار دیا ہے۔

پیر کی شام ڈان اخبار و ٹی وی چینل کے دفتر کے باہر نامعلوم افراد نے جمع ہو کر دروازوں پر قبضہ کیا اور کسی بھی شخص کو اندر جانے یا باہر آنے کی اجازت دینے سے روکے رکھا۔ ڈان انتظامیہ کی جانب سے ”کسی خبر سے دل آزاری“ پر معذرت کے بعد نعرے بازی کرنے والے اڑھائی گھنٹے بعد منتشر ہوگئے۔

پولیس طلب کیے جانے کے ایک گھنٹہ بعد پہنچی تاہم شرپسند عناصر کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی۔

ڈان نیوز نے دفتر کے باہر جمع ہونے والے افراد کے بارے میں کوئی خبر نشر نہیں کی تاہم ڈان میڈیا گروپ سے وابستہ صحافی سوشل میڈیا پر ٹویٹس کرتے رہے۔

دفتر کے باہر جمع ہونے والے عناصر اخبار کے خلاف اور فوج کے حق میں نعرے بازی کرتے رہے۔

ڈان اخبار کے دفتر کے باہر میگا فون اٹھائے سفید داڑھے والے ایک شخص نے ’نامعلوم افراد‘ سے اپنے خطاب میں کہا کہ ’پاکستان، فوج اور اسلام مخالف عناصر کو ان کے ایجنڈے میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔‘

نامعلوم داڑھی والے مقرر نے کہا کہ ’یہ عناصر پاکستان کو دوبارہ دہشت گردی کی سرنگ میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔‘

روزنامہ ڈان نے لندن برج حملے میں ملوث عثمان خان کو پاکستانی لکھا تھا۔ حکومت اور لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن نے اس خبر کی تاحال تردید نہیں کی۔
 
ڈان اسلام آباد کے دفتر کا گھیراؤ
ڈان اخباراپ ڈیٹ 03 دسمبر 2019

5de5e94709fd0.jpg

میڈیا ہاؤس کی حفاظت پر مامور سیکیورٹی گارڈز کو گیٹ لاک کرنا پڑے—تصویر: پرویز بنبھن ٹوئٹر
اسلام آباد میں موجود ڈان کے دفتر کے باہر کچھ درجن افراد نے لندن برج پر 2 افراد کو چاقو مار کر قتل کرنے والے شخص کے پس منظر کے حوالے سے خبر شائع کرنے پر احتجاج کیا۔

احتجاج کرنے والے مشتعل مظاہرین نے ڈان اخبار کے خلاف بیننرز اٹھا رکھے تھے جبکہ انہوں نے نعرے بازی بھی کی اور عملے کو عمارت کے اندر محصور کر کے 3 گھنٹے تک دفتر کے باہر موجود رہے۔

مظاہرین نے ملازمین کو عمارت کے اندر داخل ہونے اور باہر نکلنے سے بھی روک دیا تھا جبکہ دفتر آنے والے ڈان اخبار اور ڈان نیوز ٹی وی کے کچھ ملازمین کے ساتھ بد تمیزی بھی کی گئی۔

کیپٹل ایڈمنسٹریشن اور پولیس اہلکاروں کے پہنچنے سے قبل مظاہرین کو عمارت میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے میڈیا ہاؤس کی حفاظت پر مامور سیکیورٹی گارڈز کو گیٹ لاک کرنا پڑے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں ڈان اخبار کی ترسیل میں رکاوٹ کی اطلاعات

جس کے بعد ڈپٹی کمشنر کی موجودگی میں اخبار کی انتظامیہ کے ساتھ ہونے والے طویل مذاکرات کے بعد مظاہرین دھمکیاں دیتے ہوئے منتشر ہوگئے۔

دریں اثنا مذکورہ واقعے کی کئی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں، پارلیمنٹیرینز اور صحافتی تنظیموں کی جانب سے مذمت کی گئی۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے چیئرمین مصطفیٰ نواز کھوکھر نے نامعلوم افراد کی جانب سے ڈان کے دفتر کا گھیراؤ کرنے کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے اسلام آباد پولیس کے انسپکٹر جنرل کو 6 دسمبر کو رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔

اس کے علاوہ انہوں نے پولیس سے ان افراد کے خلاف کی گئی کارروائی کی تفصیلات بھی طلب کیں، جنہوں نے میڈیا ہاؤس کا محاصرہ کیا تھا۔

مزید پڑھیں: ڈان اخبار کی ترسیل میں رکاوٹ آئین کے آرٹیکل19 کی خلاف ورزی قرار

ادھر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ایک بیان میں واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’کسی کو بھی احتجاج کے نام پر میڈیا ہاؤس پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے‘۔

بلاول بھٹو زرداری نے مطالبہ کیا کہ ’جن افراد نے اخبار کے دفتر پر حملہ کیا ان کے خلاف کارروائی کی جائے اور صحافی برادری کا ساتھ دینے کے عزم کا اظہار کیا‘۔

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم اورنگزیب نے اس واقعے کی اعلیٰ سطح کی تحقیقات کروا کر اس میں ملوث افراد کی شناخت کرکے ذمہ داروں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا۔

ایک بیان میں مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ اخبار کے دفتر پر حملہ کرنے والوں کو سخت سزا دے کر مثال قائم کی جائے تاکہ مستقبل میں اس قسم کے واقعات کو روکا جاسکے۔

یہ بھی پڑھیں: صحافی برادری کا ڈان اخبار سے اظہار یکجہتی کیلئے کیمپ

ان کا کہنا تھا کہ ’مہذب معاشروں میں اس قسم کی حرکات ناقابلِ قبول ہیں‘، عوام، سیاستدان اور میڈیا ایسے عناصر کے خلاف لڑائی کے لیے پُرعزم ہیں۔

علاوہ ازیں نیشنل پارٹی (این پی) پنجاب کے صدر ایوب ملک نے اس واقع کو ’آزادی صحافت پر حملہ قرار دیا‘۔

انہوں نے اخبار کے عملے کو محصور کرنے پر ’نامعلوم افراد‘ کے خلاف سخت کارروائی اور حکومت سے سوشل میڈیا پر موجود فوٹیجز کی مدد سے ان افراد کی شناخت کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔

علاوہ ازیں پاکستان یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) اور نیشنل پریس کلب کے عہدیداران نے بھی مذکورہ واقعے کی مذمت کی۔

مزید پڑھیں: ڈان اخبار کی ترسیل میں رکاوٹیں پیدا کرنے کا سلسلہ جاری

پی ایف یو جے (افضل بٹ) گروپ کے نو منتخب صدر شہزادہ ذوالفقار اور سیکریڑی جنرل ناصر زیدی نے واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا اور کہا کہ یہ واقعہ حکومت کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے اور اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

دوسری جانب نیشنل پریس کلب کے صدر شکیل قرار نے ایک بیان میں کہا کہ ورکنگ جرنلسٹ آزادی صحافت پر قدغن کی اجازت نہیں دے سکتے، ساتھ ہی انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ صحافیوں کی حفاظت کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

یہ خبر 3 دسمبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔
 

جاسم محمد

محفلین
اسلام آباد میں موجود ڈان کے دفتر کے باہر کچھ درجن افراد نے لندن برج پر 2 افراد کو چاقو مار کر قتل کرنے والے شخص کے پس منظر کے حوالے سے خبر شائع کرنے پر احتجاج کیا۔
احتجاج کرنا ہر پاکستانی کا حق ہے۔ یا کیا یہ حق صرف لبرل بریگیڈ کو حاصل ہے؟
 

جاسم محمد

محفلین
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے چیئرمین مصطفیٰ نواز کھوکھر نے نامعلوم افراد کی جانب سے ڈان کے دفتر کا گھیراؤ کرنے کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے اسلام آباد پولیس کے انسپکٹر جنرل کو 6 دسمبر کو رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔
 

جاسم محمد

محفلین
کرائے کے غنڈوں کے ذریعے دہشت پھیلاکر بعد میں ان میں لفافے تقسیم کردئیے جائیں۔ یہ ہے فاشسٹ حکومت کا اندازِ حکمرانی!
لندن برج والی خبر فاشسٹ حکومت کے خلاف نہیں تھی جس پر احتجاج ہوا۔ یہ کیسے نامعلوم افراد تھے جن کے ساتھ ڈان انتظامیہ نے مذاکرات بھی کئے؟
جس کے بعد ڈپٹی کمشنر کی موجودگی میں اخبار کی انتظامیہ کے ساتھ ہونے والے طویل مذاکرات کے بعد مظاہرین دھمکیاں دیتے ہوئے منتشر ہوگئے۔
 
احتجاج کرنا ہر پاکستانی کا حق ہے۔ یا کیا یہ حق صرف لبرل بریگیڈ کو حاصل ہے؟
ڈان آفس کے گھیراؤ کی مذمت،'اس طرح کے عمل کی اجازت نہیں دی جاسکتی'
ویب ڈیسکاپ ڈیٹ 04 دسمبر 2019

5de7e7225b724.jpg

شہباز شریف نے جھوٹ کے ذریعے من گھڑت بیانیہ پیش کیا، معاون خصوصی — فوٹو: پی آئی ڈی
5de7e7225b724.jpg

وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے اسلام آباد میں ڈان دفتر کے گھیراؤ کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے عمل کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ 'پاکستانی ہونے کے ناطے میں یہ فخر سے کہتی ہوں کہ ہم سبز ہلالی پرچم کے وفادار بھی ہیں اور اس کے بنیادی حقوق اور قومی مفادات کے تحفظ کے ذمہ دار بھی ہیں اور جیسے ہی یہ بات ہمارے علم میں آئی تو ہم نے فوری ایکشن لیا۔'

انہوں نے کہا کہ 'سب کی جان و مال کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے، ریاست کے مفادات کا تحفظ کرنا میڈیا کی ذمہ داری ہے، میرے سیاسی مفادات کو بلکل نقصان پہنچایا جاسکتا ہے لیکن ریاستی مفادات کے حوالے سے سیاست اور ریاست کو علیحدہ علیحدہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'اس قسم کے عمل کی ہم حوصلہ شکنی کرتے ہیں اور اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔'

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں ڈان اخبار کی ترسیل میں رکاوٹ کی اطلاعات

واضح رہے کہ دو روز قبل اسلام آباد میں موجود ڈان کے دفتر کے باہر کچھ درجن افراد نے لندن برج پر 2 افراد کو چاقو مار کر قتل کرنے والے شخص کے پس منظر کے حوالے سے خبر شائع کرنے پر احتجاج کیا تھا۔

احتجاج کرنے والے مشتعل مظاہرین نے ڈان اخبار کے خلاف بیننرز اٹھا رکھے تھے جبکہ انہوں نے نعرے بازی بھی کی اور عملے کو عمارت کے اندر محصور کر کے 3 گھنٹے تک دفتر کے باہر موجود رہے۔

مظاہرین نے ملازمین کو عمارت کے اندر داخل ہونے اور باہر نکلنے سے بھی روک دیا تھا جبکہ دفتر آنے والے ڈان اخبار اور ڈان نیوز ٹی وی کے کچھ ملازمین کے ساتھ بد تمیزی بھی کی گئی۔

انتظامیہ اور پولیس اہلکاروں کے پہنچنے سے قبل مظاہرین کو عمارت میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے میڈیا ہاؤس کی حفاظت پر مامور سیکیورٹی گارڈز کو گیٹ لاک کرنا پڑے تھے۔

مزید پڑھیں: ڈان اخبار کی ترسیل میں رکاوٹ آئین کے آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی قرار
 

جاسم محمد

محفلین
ڈان آفس کے گھیراؤ کی مذمت،'اس طرح کے عمل کی اجازت نہیں دی جاسکتی'
ویب ڈیسکاپ ڈیٹ 04 دسمبر 2019

5de7e7225b724.jpg

شہباز شریف نے جھوٹ کے ذریعے من گھڑت بیانیہ پیش کیا، معاون خصوصی — فوٹو: پی آئی ڈی
5de7e7225b724.jpg

وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے اسلام آباد میں ڈان دفتر کے گھیراؤ کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے عمل کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ 'پاکستانی ہونے کے ناطے میں یہ فخر سے کہتی ہوں کہ ہم سبز ہلالی پرچم کے وفادار بھی ہیں اور اس کے بنیادی حقوق اور قومی مفادات کے تحفظ کے ذمہ دار بھی ہیں اور جیسے ہی یہ بات ہمارے علم میں آئی تو ہم نے فوری ایکشن لیا۔'

انہوں نے کہا کہ 'سب کی جان و مال کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے، ریاست کے مفادات کا تحفظ کرنا میڈیا کی ذمہ داری ہے، میرے سیاسی مفادات کو بلکل نقصان پہنچایا جاسکتا ہے لیکن ریاستی مفادات کے حوالے سے سیاست اور ریاست کو علیحدہ علیحدہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'اس قسم کے عمل کی ہم حوصلہ شکنی کرتے ہیں اور اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔'

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں ڈان اخبار کی ترسیل میں رکاوٹ کی اطلاعات

واضح رہے کہ دو روز قبل اسلام آباد میں موجود ڈان کے دفتر کے باہر کچھ درجن افراد نے لندن برج پر 2 افراد کو چاقو مار کر قتل کرنے والے شخص کے پس منظر کے حوالے سے خبر شائع کرنے پر احتجاج کیا تھا۔

احتجاج کرنے والے مشتعل مظاہرین نے ڈان اخبار کے خلاف بیننرز اٹھا رکھے تھے جبکہ انہوں نے نعرے بازی بھی کی اور عملے کو عمارت کے اندر محصور کر کے 3 گھنٹے تک دفتر کے باہر موجود رہے۔

مظاہرین نے ملازمین کو عمارت کے اندر داخل ہونے اور باہر نکلنے سے بھی روک دیا تھا جبکہ دفتر آنے والے ڈان اخبار اور ڈان نیوز ٹی وی کے کچھ ملازمین کے ساتھ بد تمیزی بھی کی گئی۔

انتظامیہ اور پولیس اہلکاروں کے پہنچنے سے قبل مظاہرین کو عمارت میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے میڈیا ہاؤس کی حفاظت پر مامور سیکیورٹی گارڈز کو گیٹ لاک کرنا پڑے تھے۔

مزید پڑھیں: ڈان اخبار کی ترسیل میں رکاوٹ آئین کے آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی قرار
 

جاسم محمد

محفلین
ڈان آفس کے گھیراؤ کی مذمت،'اس طرح کے عمل کی اجازت نہیں دی جاسکتی'
ویب ڈیسکاپ ڈیٹ 04 دسمبر 2019

5de7e7225b724.jpg

شہباز شریف نے جھوٹ کے ذریعے من گھڑت بیانیہ پیش کیا، معاون خصوصی — فوٹو: پی آئی ڈی
5de7e7225b724.jpg

وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے اسلام آباد میں ڈان دفتر کے گھیراؤ کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے عمل کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ 'پاکستانی ہونے کے ناطے میں یہ فخر سے کہتی ہوں کہ ہم سبز ہلالی پرچم کے وفادار بھی ہیں اور اس کے بنیادی حقوق اور قومی مفادات کے تحفظ کے ذمہ دار بھی ہیں اور جیسے ہی یہ بات ہمارے علم میں آئی تو ہم نے فوری ایکشن لیا۔'

انہوں نے کہا کہ 'سب کی جان و مال کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے، ریاست کے مفادات کا تحفظ کرنا میڈیا کی ذمہ داری ہے، میرے سیاسی مفادات کو بلکل نقصان پہنچایا جاسکتا ہے لیکن ریاستی مفادات کے حوالے سے سیاست اور ریاست کو علیحدہ علیحدہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'اس قسم کے عمل کی ہم حوصلہ شکنی کرتے ہیں اور اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔'

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں ڈان اخبار کی ترسیل میں رکاوٹ کی اطلاعات

واضح رہے کہ دو روز قبل اسلام آباد میں موجود ڈان کے دفتر کے باہر کچھ درجن افراد نے لندن برج پر 2 افراد کو چاقو مار کر قتل کرنے والے شخص کے پس منظر کے حوالے سے خبر شائع کرنے پر احتجاج کیا تھا۔

احتجاج کرنے والے مشتعل مظاہرین نے ڈان اخبار کے خلاف بیننرز اٹھا رکھے تھے جبکہ انہوں نے نعرے بازی بھی کی اور عملے کو عمارت کے اندر محصور کر کے 3 گھنٹے تک دفتر کے باہر موجود رہے۔

مظاہرین نے ملازمین کو عمارت کے اندر داخل ہونے اور باہر نکلنے سے بھی روک دیا تھا جبکہ دفتر آنے والے ڈان اخبار اور ڈان نیوز ٹی وی کے کچھ ملازمین کے ساتھ بد تمیزی بھی کی گئی۔

انتظامیہ اور پولیس اہلکاروں کے پہنچنے سے قبل مظاہرین کو عمارت میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے میڈیا ہاؤس کی حفاظت پر مامور سیکیورٹی گارڈز کو گیٹ لاک کرنا پڑے تھے۔

مزید پڑھیں: ڈان اخبار کی ترسیل میں رکاوٹ آئین کے آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی قرار

ایک ہفتے میں دوسری بار ڈان اخبار کے اسلام آباد بیورو کا گھیراؤ
انعام اللہ خٹک | خلیق کیانی | مبارک زیب خان | نوید صدیقیاپ ڈیٹ 06 دسمبر 2019

مظاہرین نے جمعہ کو پاکستان کے سب سے بڑے انگریزی روزنامہ ڈان اخبار کے اسلام آباد بیورو کا گھیراؤ کر کے ڈان میڈیا گروپ کے خلاف نعرے بازی کی اور رواں ہفتے میں دوسری بار کیے گئے اس محاصرے کے دوران ڈان اخبار کی کاپیاں بھی نذر آتش کی گئیں۔

ڈان اخبار کے اسلام آباد دفتر کے باہر گاڑیوں میں آئے تقریباً 100 افراد نے دفتر کا محاصرہ کیا، پولیس بھی موقع پر پہنچ گئی تھی البتہ 40 منٹ بعد مظاہرین خود ہی منتشر ہو گئے۔

ڈان کے ایڈیٹر ظفر عباس نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ اسلام آباد میں ڈان کے دفتر کے باہر ایک مرتبہ پھر منظم منصوبہ بندی کے تحت مظاہرہ کیا گیا، وہی لوگ، وہی یکساں لہجہ، تعداد میں زیادہ اور داخلی راستے کو بند کردیا، ہم نے پولیس کو مطلع کیا اور انہیں بتایا کہ ہمارے اسٹاف اور املاک کی حفاظت آپ کی ذمہ داری ہے، امید ہے کہ حکومت میں سے کوئی مداخلت کرے گا۔

انہوں نے اپنی دوسری ٹوئٹ میں کہا کہ ڈان کی چند کاپیاں نذر آتش کرنے کے بعد یہ لوگ منتشر ہو گئے ہیں، ہر کسی کو احتجاج کا حق ہے تاہم اس وقت تک جب تک وہ اشتعال نہ پھیلائیں۔

انٹرنیشنل پریس انسٹی ٹیوٹ نے اپنے بیان میں دھمکی آمیز مظاہرے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ڈان، آزادی صحافت کا علمبردار ہے اور پاکستان کو اپنے صحافیوں کی حفاظت یقینی بنانی چاہیے۔

یہ رواں ہفتے کے دوران دوسرا موقع ہے کہ نامعلوم افراد نے ڈان کے اسلام آباد دفتر کا گھیراؤ کیا۔

یہ مظاہرہ ایک ایسے موقع پر کیا گیا جب محض چند گھنٹے قبل ہی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے پولیس کو ہدایت کی تھی کہ وہ پیر کو کیے گئے ڈان کے اسلام آباد دفتر کے محاصرے کی تحقیقات کرے۔

پی ایف یو جے کی مذمت
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (پی ایف یو جے) نے اپنے بیان میں ڈان کے دفتر پر تازہ حملے کی شدید مذمت کی۔

پی ایف یو جے نے مطالبہ کیا کہ ‘لوگوں کے اس گروپ کو گرفتار کیا جائے جس نے حملہ کیا، ڈان میڈیا گروپ کے دروازے بلاک کیے، عملے اور ادارے سے منسلک صحافیوں کو ہراساں کیا’۔

پی ایف یو جے کے صدر شہزادہ ذوالفقار علی اور سیکریٹری جنرل ناصر زیدی نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا کہ ‘اس طرح کا حملہ خاص حلقوں کی جانب سے میڈیا کی زبان بندی کا واضح اور اشارہ ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘واقعہ موجودہ حکومت کی میڈیا کے اداروں اور صحافی برادری کو مکمل طور پر تحفظ اور سیکیورٹی دینے میں ناکامی کو ظاہر ہوتا ہے’۔

حکومت کی خاموشی پر سوالیہ نشان ہے، ترجمان مسلم لیگ (ن)
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے ڈان اخبار کی بندش، دھمکیوں اور عملے کو ہراساں کرنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے پر حکومت کی خاموشی تشویش ناک ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اخباروں پر حملے ہو رہے ہیں اور عمران صاحب اور ان کے جھوٹے ترجمان غائب ہیں، ڈان اخبار پر حملے، محاصرے اور دھمکیاں موجودہ حکومت کی فسطائیت اور آمریت کا کھلا ثبوت ہے'۔

مریم اورنگ ازیب نے کہا کہ 'بات بات پر جھوٹ بولنے والے کرائے کے حکومتی ترجمان ڈان اخبار پر حملوں کے بعد کہاں چھپے ہوئے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'ڈان اخبار کی بنیاد قائد اعظم نے رکھی تھی، اس اخبار کے ساتھ یہ سلوک شرم ناک، قابل مذمت اور افسوس ناک ہے'۔

حملوں آوروں کو بے نقاب کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'میڈیا کی آزادی آئینی اور جمہوری حق ہے جو کسی کو چھیننے نہیں دیں گے، اپوزیشن میڈیا برادری کے ساتھ ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'میڈیا پر حملہ کرنے والے ہاتھ بے نقاب کیے جائیں، فسطائی سوچ رکھنے والی حکومت کو جھوٹ بولنے سے فرصت ملے تو میڈیا پر حملوں، دھمکیوں اور ہراساں کرنے کے واقعات کی تحقیقات کرائے'۔

ترجمان مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ 'میڈیا کو ہراساں کرنے میں ملوث عناصر قانون کے کٹہرے میں نہ آئے تو اس کا صاف مطلب یہ ہو گا کہ یہ سب عمران صاحب کی خواہش پر ہو رہا ہے'۔

ڈان کے خلاف احتجاج اور دھمکیاں
لندن برج پر 2 افراد کو چاقو مار کر قتل کرنے والے شخص کے پس منظر کے حوالے سے خبر شائع کرنے پر مظاہرین نے پیر کو ڈان اخبار کے اسلام آباد آفس کے باہر احتجاج کیا تھا، مظاہرین نے اخبار کے خلاف بینرز اٹھائے ہوئے تھے اور تین گھنٹے تک دفتر کا گھیراؤ کر کے ڈان اخبار کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔

ایک دن بعد کراچی پریس کلب میں چند درجن لوگوں نے ڈان کے خلاف مظاہرہ کیا اور ملازمین کو دھمکیاں دیں اور ساتھ ساتھ یہ دھمکی بھی دی کہ اگر فوری طور پر ادارے اور اس کی انتظامیہ کے خلاف کارروائی نہ کی گئی تو وہ اخبار کے تمام دفاتر کا گھیراؤ کریں گے۔

میڈیا کی تنظیموں، نامور صحافیوں، قانون دانوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان مظاہروں اور دھمکیوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے گھیراؤ کا سامنا کرنے والے ڈان اخبار کے ملازمین سے اظہار یکجہتی کے لیے ایک دن بعد دفتر کا دورہ بھی کیا تھا۔

اس واقعے کے دو دن بعد وزیر اعظم کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے بھی میڈیا سے گفتگو کے دوران ایک سوال کے جواب میں ڈان کے دفتر کے گھیراؤ کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت اس طرح کے اقدامات کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔

عالمی میڈیا کے نگراں ادارے 'کمیٹی ٹو پراٹیکٹ جرنلسٹ' اور 'رپورٹر وِد آؤٹ بارڈرز' نے پاکستانی حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ ڈان کے دفاتر کے محاصروں کی مذمت کریں اور اخبار کے خلاف کیے جانے والے مظاہروں کو پرتشدد ہونے سے روکیں۔

آر ایس ایف ایشیا پیسیفک ڈیسک کے سربراہ ڈینیئل باسٹرڈ نے کہا کہ پاکستان کے صف اول کے روزنامہ کے خلاف طاقت کے استعمال کا یہ دھمکی آمیز اقدام بالکل ناقابل قبول ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں دستیاب معلومات کے مطابق وفاقی حکومت اگر اس معاملے میں اشتعال انگیزی نہیں پھیلا رہی تو کم از کم وہ غیر فعال اتحادی ضرور ہے جو جمہوریت میں ناقابل قبول ہے، ہم وزیر اعظم عمران خان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان اقدامات کی مذمت کریں جہاں آزادی صحافت کی خلاف ورزی پر وہ براہ راست ذمہ دار ٹھہرائے جائیں گے۔
 
Top