سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹی فکیشن معطل کردیا

جاسم محمد

محفلین
واقعاتی طور پر یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ نواز شریف کو خود وزیر اعظم نے جانے کی اجازت دی۔ بعد میں یوتھیوں کا ردعمل آیا تو 7 ارب کی غیر قانونی شرط عاید کی۔ چیف جسٹس پر غلط الزام لگایا اور ان کا جواب سن کر کھسیانے سے ہوگئے۔ پھر میڈیکل رپورٹس کو غلط قرار دے دیا اور اپنے ڈاکٹروں، بشمول یاسمین راشد اور شوکت خانم کے ڈاکٹروں پر بداعتمادی کا اظہار کردیا۔

چیف کی مدت میں توسیع کا اختیار صدر کے پاس ہے، نمائشی ہی سہی۔ لیکن اس نمائشی اختیار کو بھی اپنے غرور کے زعم میں اٹھاکر پھینک دیا اور خود نوٹیفیکیشن جاری کیا۔
اسی لیے تو آج ایک چھوڑ دو دو ابو بچانے پڑ گئے ہیں :)
 
بھائی، یہ فیصلہ اگست کو ہی کر لیا گیا تھا کہ اگلا آرمی چیف کون ہوگا۔ بس نوٹیفکیشن جاری کرتے وقت ٹیکنیکل غلطیاں ہوئیں جو چیف جسٹس نےپکڑ لی اور یوں حکومت کو ذلیل ہونے کا موقع دیا۔ :)

جسٹس آصف کھوسہ نے جواز یہ دیا ہے کہ یہ از خود نوٹس آرٹیکل 184(3) کو بنیاد بنا کر کیا ہے۔ اس کی وجہ ٹیکنیکل غلطی نہیں ہے۔ یہ وہی آرٹیکل ہے جس کو بنیاد بنا کر چیف جسٹس ثاقب نثار اور چیف جسٹس افتخار چوہدری اپنی من مانیاں کرتے رہے اور ازخود نوٹس لے کر، امیر المومنین بن کر، گیلانی کو احکامات جاری کرتے رہے۔ یہ آرٹیکل ہے کیا؟

پاکستان سپریم کورٹ کی تین جیورسڈکشن، ہیں ، 1) اپیل یعنی شکایتیں۔ 2) اصل اڈوائزری یعنی جو ریفرنس یا ایڈوائزحکومت کی طرف سے آئیں ، ان پر غور کرکے فیصلہ دیا جائے۔ اور 3) وہ معاملات جو عوام کے مفادات کو متاثر رتے ہوں، ان معاملات پر از خود نوٹس لے کر غور کریں، سماعت کریں اور فیصلہ کریں۔

گو کہ پاکستان کے آئین کے مطابق، پاکستان کی 1) اسمبلی اور سینیٹ، 2) حکومت یعنی ایگزیکیوٹیو برانچ ، صدر، وزیر اعظم اور کابینہ اور3) عدالتیں، یہ تینوں مکمل طور پر آزاد ادارے ہیں ، یہ ادارے ایک دوسرے کو پاکستان کے آئین کے مطابق چیک اور بیلنس فراہم کرتے ہیں ۔

ملٹری، وزیر دفاع کے ماتحت کام کرتی ہے، تمام وزارتوں کی کابینہ کسی بھی محکمہ (ادارے نہیں) کے اصول اور قواعد، پاکستان کے قوانین کے مطابق طے کرتی ہے۔ وزارتوں کے تمام اصول و قواعد اس وزارت یا محکمہ کا سربراہ بناتا ہے اور کابینہ ان اصول و قواعد کی توثیق کرتی ہے، جس کی توثیق اسمبلی اور سینیٹ کرتی ہے اور اس توثیق پر صدر کے دستخط ہونے کے بعد یہ قانون بن جاتا ہے۔ یہ حق وزیروں کی کابنیہ اور وزیر اعظم اور صدر کو پاکستان کے آئین نے دیا ہے۔ یہ حق چھیننا، پاکستان کے آئین کو پامال کرنے کے مطابق ہے۔

چیف باجوہ ، وزارت دفاع کا ملازم ہے، جس کی ملازمت کا فیصلہ پوری طرح سے اس وزارتی محکمہ کا حق ہے۔ جس کے قواعد اور ضوابط وزارت دفاع آزادنہ طور پر لیکن پاکستان کے قانون کے مطابق طے کرتی ہے۔ وزیر دفاع ، کابینہ سے مشورے کا پابند ہے اور یہ سب وزیر اعظم کے فیصلے کے پابند ہیں۔ وزیر اعظم ، عوام کا منتخب نمائندہ ہے، جس پر کسی کا حکم نہیں چلتا، وہ پاکستان کے قانون کے مطابق کاقم کرتا ہے، یہ قوانین، پاکستان کی مقننہ یعنی اسمبلی اور سینیٹ بناتے ہیں۔

اگر وزیر دفاع نے فیصلہ کیا ، کہ باجوہ صاحب کی مدت ملازمت میں ایکسٹینش کی جائے تو یہ ایک خالص ، ایگزیکیوٹیو یعنی حکومتی معاملہ ہے، وزیر دفاع کو یہ حق پاکستان کا قانون دیتا ہے کہ وہ اصول؛ و قواعد کے مطابق جس کو چاہے ملازم رکھے ، ترقی دے یا برطرف کردے، ان فیصلوں کی توثیق، کابینہ، پھر وزیر اعظم اور پھر صدر کرتے ہیں، ایسے فیصلوں کو نا تو عدلیہ کی توثیق کی ضرورت ہے اور نا ہی مققنہ کی۔ کہ یہ حکومت کو آئینی حق ہے۔ یہ حق چھیننا ، آئین کو پامال کرنے کے مترادف ہے۔

عدلیہ کا اپائنٹمنٹ بھی ، مقننہ کرتی ہے،

یہاں چیف جسٹس آصف کھوسہ نے ، سابقہ 'امیر المومنین' کی طرح یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ ، ملٹری کے چیف کی مدت ملازمت میں توسیع، عوام کے فائیدے کا ایک معاملہ ہے لہذا وہ حکومت (اگزیکیٹیو) برانچ کے فیصلے میں دخل دینے کا حق رکھتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں، یہ حکومت کا آئینی حق ہے۔ لہذا چیف جسٹس آصف کھوسہ نے اپنی من مانی اور ذاتی خواہشات کی پیروی کرتے ہوئے، حکومت کی ایگزیکیوٹیو برانچ کا فیصلہ کرنے کا حق معطل کردیا ہے۔ حکومت (ایگزیکیوٹیو برانچ) کو یہ حق پاکستان کے آئین نے دیا ہے ۔ اس طرح جسٹس آصف کھوسہ نے پاکستان کے آئین کو پامال کیا ہے ، اس لئے کہ حکومت کے فیصلے اگر پاکستان کے آئین اور قانون کے مطابق نہیں ہیں تو اس پر مزید قانون سازی ، پاکستان کی مقننہ کا حق ہے نا کہ عدلیہ کا حق۔ پاکستان کی مققنہ ایسے کسی بھی فیصلے کو معطل کرسکتی ہے جو پاکستان کے آئین اور قانون کے مطابق نا ہو۔ چیف باجوہ کے مدت ملازمت میں توسیع ، سابقہ ملازمتوں کی توسیع سے مختلف نہیں ہے۔

اس معاملے میں پاکستان کی حکومت (وزیر اعظم، کابینہ اور وزیر دفاع ) کو یہ حق پاکستان کا آئین دیتا ہے کہ وہ حکومت کے ملازمین کو پاکستان کے قوانین کے مطابق ملازم رکھیں، پروموشن دیں ، توسیع کریں یا ان کی ملازمت ختم کردیں۔

پاکستان کی مققنہ کے علاوہ، اگر کوئی بھی فرد ، پاکستان کا شہری ، یا غیر ملکی، پاکستان کی حکومت (وزیر اعظم، کابینہ یا وزیر ) سے یہ حق چھینتا ہے تو وہ پاکستان کے آئین کے خلاف کام کررہا ہے۔ اگر ایسا فرد پاکستانی ہے تو اس نے آئین کو پامال کرکے پاکستان سے غداری (ٹریژن) کا مجرم ہوا ہے ، جس کی سزا موت ہے۔ اور اگر ایسا فرد، ملک یا ادارہ ، غیر ملکی ہے تو اس سے جنگ کی جائے گی۔

جسٹس افتخار چوہدری نے ، از خود نوٹس لیتے ہوئے ، وزیراعظم پاکستان ، گیلانی کو حکم دیا کہ وہ "ایک خط " لکھیں، اس "خط " کے نا لکھنے پر ان کو توہین عدالت کی سزا دی گئی اور اس سزا کی پاداش میں ، گیلانی صاحب ، ایک سزا یافتہ مجرم قرار پائے، چونکہ ایک سزا ہافتہ مجرم ، پاکستان کو وزیر اعظم نہیں ہوسکتا، لہذا ان کو وزارت عظمٰی سے معزول کردیا گیا۔

حقیقت یہ ہے کہ وزیر اّعظم پاکستان ، پاکستان کے قانون کے علاوہ کسی کے بھی حکم کی فرمانبرداری کا پابند نہیں ہے، اس کو صرف اور صرف مقننہ ہٹا سکتی ہے۔ وزیر اعظم کو حکم دینا، پاکستان کے آئین کو پامال کرنے کے مترادف ہے ، افتخار چوہدری کے ان اقدامات پر ان پر آئین کی توہین کا مقدمہ چلا کر ، ان کر سزائے موت دی جانی چاہئیے تھی ،

اب جسٹس آصف کھوسہ کی باری ہے، حکومت کے فیصلے کو معطل کرنے کا حق، اور از خود نوٹس لینے کا حق دو الگ الگ نکات ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ جسٹس آصف کھوسہ کو آرٹیکل 184(3) کی آڑ میں حکومت کے فیصلے کرنے کے آئینی حق کو معطل کرکے ، پاکستان کے آئین کو پامال کرنے کے جرم میں فوری طور پر معزول کرکے گرفتار کیا جائے ، اور ان پر پاکستان سے غداری کا مقدمہ چلایا جائے۔ ثابت ہونے کی صورت میں ، جسٹس آصف کھوسہ کو سزائے موت دی جائے۔ پاکستان کی چیف جسٹس بھی پاکستان کے قانون سے اوپر نہیں ہے۔ اور کسی طور بھی امیر المومنین نہیں ہے۔ حکومت کے فیصلے کرنے کو حق کو ختم کرنا کسی طور بھی پاکستان کے آئین کے مطابق نہیں ۔ اگر عدلیہ ایسا سمجھتی ہے تو اپنا ریفرنس مققنہ کو بھیج سکتی ہے تاکہ مقننہ ، حکومت کرنے کے حق میں مناسب ترمیم کرسکے کہ ملٹری چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی توثیق عدلیہ بھی کرے گی۔ جو کہ ایک غیر منطقی ڈیمانڈ ہے کہ اس سے حکومت اور عدلیہ آزاد نہیں رہ سکتے

جنرل باجوہ کی ملازمت کی توسیع ، کا فیصلہ ، وزارت دفاع کرچکی ہے، اس کی توثیق کابینہ کرچکی ہے ، جس کی توسیق، وزیر اعظم اور صدر پاکستان ، کرچکے ہیں ، جس کی طاقت ان سب کو پاکستان کے آئین اور مقننہ نے دی ہے۔

چیف جسٹس ، آصف کھوسہ کا یہ قدم، پاکستان کے آئین کو توڑنے کے مترادف ہے، جس کی سزا پاکستان کے آئین میں موت ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ جیت پاکستن کے آئین اور قانون کی ہوتی ہے یا جیف جسٹس کے امیرالمومنین بننے کے حق کی ہوتی ہے۔ اگر یہ معاملہ اس طرح افتخار چوہدری بمقابلہ گیلانی ہوجاتا تو آج عدلیہ کے ایک چیف کو اس تلوار بازی کی ہمت نہیں ہوتی۔
 
آخری تدوین:
جسٹس آصف کھوسہ نے جواز یہ دیا ہے کہ یہ از خود نوٹس آرٹیکل 184(3) کو بنیاد بنا کر کیا ہے۔ اس کی وجہ ٹیکنیکل غلطی نہیں ہے۔ یہ وہی آرٹیکل ہے کس کو بنیاد بنا کر چیف جسٹس ثاقب نثار اور چیف جسٹس افتخار چوہدری اپنی من مانیاں کرتے رہے اور ازخود نوٹس لے کہ امیر المومنین بن کر گیلانی کو احکامات جاری کرتے رہے۔ یہ آرٹیکل ہے کیا؟

پاکستان سپریم کورٹ کی تین جیورسڈکشن، ہیں ، 1) اپیل یعنی شکایتیں۔ 2) اصل اڈوائزری یعنی جو ریفرنس یا ایڈوائزحکومت کی طرف سے آئیں ، ان پر غور کرکے فیصلہ دیا جائے۔ اور 3) وہ معاملات جو عوام کے مفادات کو متاثر رتے ہوں، ان معاملات پر از خود نوٹس لے کر غور کریں، سماعت کریں اور فیصلہ کریں۔

گو کہ پاکستان کے آئین کے مطابق، پاکستان کی 1) اسمبلی اور سینیٹ، 2) ایگزیکیوٹیو برانچ ، صدر، وزیر اعظم اور کابینہ اور3) عدالتیں، یہ تینوں مکمل طور پر آزاد ادارے ہیں ، یہ ادارے ایک دوسرے کو پاکستان کے آئین کے مطابق چیک اور بیلنس فراہم کرتے ہیں ۔

ملٹری، وزیر دفاع کے ماتحت کام کرتی ہے، تمام وزارتوں کی کابینہ کسی بھی دوسرے محکمہ (ادارے نہیں) کے اصول اور قواعد طے کرتی ہے۔ وزارتوں کے تمام اصول و قواعد اس وزارت یا محکمہ کا سربراہ بناتا ہے اور کابینہ ان اصول و قواعد کی توثیق کرتی ہے، جس کی توثیق اسمبلی اور سینیٹ کرتی ہے اور اس توثیق پر صدر کے دستخط ہونے کے بعد یہ قانون بن جاتا ہے۔

چیف باجوہ ، وزارت دفاع کا ملازم ہے، جس کی ملازمت کا فیصلہ پوری طرح سے اس وزارتی محکمہ کا حق ہے۔ جس کے قواعد اور ضوابط وزارت دفاع آزادنہ طور پر لیکن پاکستان کے قانون کے مطابق طے کرتی ہے۔ وزیر دفاع ، کابینہ سے مشورے کا پابند ہے اور یہ سب وزیر اعظم کے فیصلے کے پابند ہیں۔ وزیر اعظم ، عوام کا منتخب نمائندہ ہے، جس پر کسی کا حکم نہیں چلتا، وہ پاکستان کے قانون کے مطابق کاقم کرتا ہے، یہ قوانین، پاکستان کی مقننہ یعنی اسمبلی اور سینیٹ بناتے ہیں۔

اگر وزیر دفاع نے فیصلہ کیا ، کہ باجوہ صاحب کی مدت ملازمت میں ایکسٹینش کی جائے تو یہ ایک خالص ، ایگزیکیوٹیو معاملہ ہے، وزیر دفاع کو یہ حق پاکستان کا قانون دیتا ہے کہ وہ اصول؛ و قواعد کے مطابق جس کو چاہے ملازم رکھے ، ترقی دے یا برطرف کردے، ان فیصلوں کی توثیق، کابینہ، پھر وزیر اعظم اور پھر صدر کرتے ہیں، ایسے فیصلوں کو نا تو عدلیہ کی توثیق کی ضرورت ہے اور نا ہی مققنہ کی۔

عدلیہ کا اپائنٹمنٹ بھی ، مقننہ کرتی ہے،

یہاں چیف جسٹس آصف کھوسہ نے ، سابقہ 'امیر المومنین' کی طرح یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ ، ملٹری کے چیف کی مدت ملازمت میں توسیع، عوام کے فائیدے کا ایک معاملہ ہے لہذا وہ حکومت (اگزیکیٹیو) برانچ کے فیصلے میں دخل دینے کا حق رکھتے ہیں۔ لہذا چیف جسٹس آصف کھوسہ نے اپنی من مانی اور ذاتی خواہشات کی پیروی کرتے ہوئے، حکومت کی ایگزیکیوٹیو برانچ کا فیصلہ کرنے کا حق معطل کردیا ہے۔ حکومت (ایگزیکیوٹیو برانچ) کو یہ حق پاکستان کے آئین نے دیا ہے ۔ اس طرح جسٹس آصف کھوسہ نے پاکستان کے آئین کو پامال کیا ہے ، اس لئے کہ حکومت کے فیصلے اگر پاکستان کے آئین اور قانون کے مطابق نہیں ہیں تو اس پر مزید قانون سازی ، پاکستان کی مقننہ کا حق ہے۔ پاکستان کی مققنہ ایسے کسی بھی فیصلے کو معطل کرسکتی ہے جو پاکستان کے آئین اور قانون کے مطابق نا ہو۔

اس معاملے میں پاکستان کی حکومت (وزیر اعظم، کابینہ اور وزیر دفاع ) کو یہ حق پاکستان کا آئین دیتا ہے کہ وہ حکومت کے ملازمین کو پاکستان کے قوانین کے مطابق ملازم رکھیں، پروموشن دیں ، توسیع کریں یا ان کی ملازمت ختم کردیں۔

پاکستان کی مققنہ کے علاوہ، اگر کوئی بھی فرد ، پاکستان کا شہری ، یا غیر ملکی، پاکستان کی حکومت (وزیر اعظم، کابینہ یا وزیر ) سے یہ حق چھینتا ہے تو وہ پاکستان کے آئین کے خلاف کام کررہا ہے۔ اگر ایسا فرد پاکستانی ہے تو اس نے آئین کو پامال کرکے پاکستان سے غداری (ٹریژن) کا مجرم ہوا ہے ، جس کی سزا موت ہے۔ اور اگر ایسا فرد، ملک یا ادارہ ، غیر ملکی ہے تو اس سے جنگ کی جائے گی۔

جسٹس افتخار چوہدری نے ، از خود نوٹس لیتے ہوئے ، وزیراعظم پاکستان ، گیلانی کو حکم دیا کہ وہ "ایک خط " لکھیں، اس "خط " کے نا لکھنے پر ان کو توہین عدالت کی سزا دی گئی اور اس سزا کی پاداش میں ، گیلانی صاحب ، ایک سزا یافتہ مجرم قرار پائے، چونکہ ایک سزا ہافتہ مجرم ، پاکستان کو وزیر اعظم نہیں ہوسکتا، لہذا ان کو وزارت عظمٰی سے معزول کردیا گیا۔

حقیقت یہ ہے کہ وزیر اّعظم پاکستان ، پاکستان کے قانون کے علاوہ کسی کے بھی حکم کی فرمانبرداری کا پابند نہیں ہے، وزیر اعظم کو حکم دینا، پاکستان کے آئین کو پامال کرنے کے مترادف ہے ، افتخار چوہدری کے ان اقدامات پر ان پر آئین کی توہین کا مقدمہ چلا کر ، ان کر سزائے موت دی جانی چاہئیے تھی ،

اب جسٹس آصف کھوسہ کی باری ہے، حکومت کے فیصلے کو معطل کرنے کا حق، اور از خود نوٹس لینے کا حق دو الگ الگ نکات ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ جسٹس آصف کھوسہ کو آرٹیکل 184(3) کی آڑ میں حکومت کے فیصلے کرنے کے آئینی حق کو معطل کرکے ، پاکستان کے آئین کو پامال کرنے کے جرم میں فوری طور پر گرفتار کیا جائے ، اور ان پر پاکستان سے غداری کا مقدمہ چلایا جائے۔ پاکستان کی چیف جسٹس بھی پاکستان کے قانون سے اوپر نہیں ہے۔ اور کسی طور بھی امیر المومنین نہیں ہے۔ حکومت کے فیصلے کرنے کو حق کو ختم کرنا کسی طور بھی پاکستان کے آئین کے مطابق نہیں ۔

جنرل باجوہ کی ملازمت کی توسیع ، کا فیصلہ ، وزارت دفاع کرچکی ہے، اس کی توثیق کابینہ کرچکی ہے ، جس کی توسیق، وزیر اعظم اور صدر پاکستان ، کرچکے ہیں ، جس کی طاقت ان سب کو پاکستن کے آئین اور مقننہ نے دی ہے۔

چیف جسٹس ، آصف کھوسہ کا یہ قدم، پاکستان کے آئین کو توڑنے کے مترادف ہے، جس کی سزا پاکستان کے آئین میں موت ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ جیت پاکستن کے آئین اور قانون کی ہوتی ہے یا جیف جسٹس کے امیرالمومنین بننے کے حق کی ہوتی ہے۔ اگر یہ معاملہ اس طرح افتخار چوہدری بمقابلہ گیلانی ہوجاتا تو آج عدلیہ کے ایک چیف کو اس تلوار بازی کی ہمت نہیں ہوتی۔
مطلب عدلیہ وہ ناجائز بچہ ہے جو اپنی پیدائش کا بدلہ اپنے باپ سے لے رہا ہے
 
آرمی چیف توسیع کیس؛ ماضی میں جرنیل دس دس سال توسیع لیتے رہے، کسی نے پوچھا تک نہیں، چیف جسٹس
ویب ڈیسک ایک گھنٹہ پہلے

1896674-generalqamerjawedbajwa-1574831914-199-640x480.jpg

درخواست گزار ریاض حنیف راہی اور اٹارنی جنرل انورمنصور عدالت میں پیش فوٹو:فائل

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف از خود نوٹس کی سماعت جاری ہے۔

چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس مظہر عالم اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف ازخود نوٹس کی سماعت کی۔ درخواست گزار ریاض حنیف راہی عدالت میں پیش ہوئے۔

درخواست زندہ رکھی

چیف جسٹس نے کہا کہ ریاض حنیف راہی صاحب آپ کہاں رہ گئے تھے، کل آپ تشریف نہیں لائے ،ہم نے آپ کی درخواست زندہ رکھی۔ ریاض حنیف راہی نے کہا کہ حالات مختلف پیدا ہو گئے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم انہی حالات میں آگے بڑھ رہے ہیں،آپ تشریف رکھیں۔

کابینہ ارکان کا جواب نہ آنے کا مطلب ہاں ہے

اٹارنی جنرل انورمنصور بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ ہم نے کل چند سوالات اٹھائے تھے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں کچھ وضاحت پیش کرنا چاہتا ہوں، کل کے عدالتی حکم میں بعض غلطیاں ہیں جس میں کہا گیا تھا کہ صرف 11 ارکان نے کابینہ میں توسیع کی منظوری دی، کابینہ سے متعلق نقطہ اہم ہےاس لیے اس پربات کروں گا، رول 19 کے مطابق جواب نہ آنے کا مطلب ہاں ہے، حکومت نے کہیں بھی نہیں کہا کہ ان سے غلطی ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹی فکیشن معطل کردیا

وقت مقرر کرنے پر ہی ہاں تصور کیا جاتا ہے

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کابینہ کے ارکان کے مقررہ وقت تک جواب نہیں دیا گیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اب تو حکومت اس کارروائی سے آگے جا چکی ہے، رول 19 میں وقت مقرر کرنے کی صورت میں ہی ہاں تصور کیا جاتا ہے، اگرکابینہ سرکولیشن میں وقت مقررنہیں تھا تواس نقطے کوچھوڑدیں، اگر حالات پہلے جیسے ہیں تو قانون کے مطابق فیصلہ کردیتے ہیں۔

صدر مملکت مسلح افواج کا سربراہ تعینات کرتے ہیں

اٹارنی جنرل نے کابینہ کی نئی منظوری عدالت میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 243 کے مطابق صدرمملکت افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر ہیں جو وزیراعظم کی سفارش پرافواج کے سربراہ تعینات کرتے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ازسرنواورتوسیع کے حوالے سے قانون دکھائیں جس پرعمل کیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آرٹیکل 243 میں تعیناتی کا ذکر ہے،کیا تعیناتی کی مدت کابھی ذکر ہے اور کیا ریٹائرڈ جنرل کوآرمی چیف لگایا جاسکتا ہے؟۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ شاید ریٹائر جنرل بھی بن سکتا ہو لیکن آج تک ایسی کوئی مثال نہیں، جبکہ مدت تعیناتی نوٹیفکیشن میں لکھی جاتی ہے جو صوابدید ہے اور آرمی ریگولیشن آرمی ایکٹ کے تحت بنائے گئے ہیں۔

5،7 جنرل دس دس سال توسیع لیتے رہے، کسی نے نہیں پوچھا

چیف جسٹس نے کہا کہ انتہائی اہم معاملہ ہے اور اس میں آئین خاموش ہے، 5،7 جنرل دس دس سال تک توسیع لیتے رہے، کسی نے پوچھا تک نہیں، آج یہ سوال سامنے آیا ہے،اس معاملے کو دیکھیں گےتاکہ آئندہ کے لیے کوئی بہتری آئے، تاثر دیا گیا کہ آرمی چیف کی مدت 3 سال ہوتی ہے۔

آرمی ریگولیشنز کا مکمل مسودہ نہیں دیا گیا

جسٹس منصورعلی شاہ نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ نے آج بھی ہمیں آرمی ریگولیشنز کا مکمل مسودہ نہیں دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جو صفحات آپ نے دیئے وہ نوکری سے نکالنے کے حوالے سے ہیں۔

آرمی چیف کی مدت کا ذکر نہیں

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ آرمی چیف کی مدت 3 سال کہاں مقرر کی گئی ہے، کیا آرمی چیف 3 سال بعد گھر چلا جاتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرمی چیف کی مدت تعیناتی کا کوئی ذکر نہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا دستاویزات کے ساتھ آرمی چیف کا اپائنٹمنٹ لیٹر ہے، جنرل قمر باجوہ کی بطورآرمی چیف تعیناتی کا نوٹیفکیشن کہاں ہے، کیا پہلی بارجنرل باجوہ کی تعیناتی بھی 3 سال کے لئے تھی، آرمی چیف کی مدت تعیناتی طے کرنے کا اختیار کس کو ہے۔

تعیناتی کی مدت پرقانون خاموش

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرمی چیف کی تعیناتی کی مدت پرقانون خاموش ہے اور آرٹیکل 243 کے تحت کابینہ سفارش نہیں کرسکتی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کابینہ کی سفارش ضروری نہیں تو 2 بار معاملہ کابینہ کو کیوں بھیجا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کو قائل کرنے کی کوشش کروں گا کہ تعیناتی میں توسیع بھی شامل ہوتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ریٹائرمنٹ 2 اقسام کی ہوتی ہے، ایک مدت ملازمت پوری ہونے پراوردوسری وقت سے پہلے ریٹائرمنٹ، ہمیں بتائیں آرمی چیف ریٹائرکیسے ہوگا، نارمل ریٹائرمنٹ توعمر پوری ہونے پرہوجاتی ہے، آرمی ریگولیشن کی شق 255 کوریٹائرمنٹ کے معاملے کےساتھ پڑھیں تو صورتحال واضح ہوسکتی ہے۔

سابق فروغ نسیم بھی عدالت میں پیش ہوئے اور دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جنگی صورتحال میں کوئی ریٹائرہورہا ہو تو اسے کہتے ہیں آپ ٹہرجائیں۔

سارے آرمی چیف ایسے ہی تعینات ہوئے

چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 255 اے کہتا ہے اگر جنگ لگی ہو تو چیف آف آرمی اسٹاف کسی کی ریٹائرمنٹ کوروک سکتا ہے، یہاں تو آپ چیف کو ہی سروس میں برقراررکھ رہے ہیں، قانون کے مطابق آرمی چیف دوران جنگ افسران کی ریٹائرمنٹ روک سکتے ہیں، لیکن حکومت آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کو روکنا چاہتی ہے، آپ کا سارا کیس 255 اے کے گرد گھوم رہا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ 1948 سے آج تک تمام آرمی چیف ایسے ہی تعینات ہوئے اور ریٹائرمنٹ کی معطلی عارضی نہیں ہوتی۔

عدالت میں قہقے

ایک موقع پر دلائل دیتے ہوئے اٹارنی جنرل نے سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو جسٹس کیانی کہہ دیا جس پر چیف جسٹس نے انہیں ٹوکا کہ وہ جسٹس نہیں جنرل کیانی تھے۔ اس پرعدالت میں قہقے گونج اٹھے۔

رات تک دلائل دینے کے لیے تیار

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا 3 سالہ مدت کے بعد آرمی چیف فوج میں رہتا ہے یا گھر چلاتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فوجی افسران سروس کی مدت اور مقررہ عمر کو پہنچنے پرریٹائر ہوتے ہیں، قانون سمجھنا چاہتے ہیں ہمیں کوئی جلدی نہیں۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں تو رات تک دلائل دینے کے لیے بھی تیار ہوں۔

توسیع آرمی ریگولیشنز کے تحت نہیں

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ آئینی عہدے پرتوسیع آئین کے تحت نہیں،عارضی سروس رولز کے تحت دی گئی، بظاہر تعیناتی میں توسیع آرمی ریگولیشنز کے تحت نہیں دی گئی۔

سپریم کورٹ میں آرمی چیف کی مدت میں توسیع سے متعلق کیس کی سماعت میں دن ایک بجے تک وقفہ ہوگیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کاحکم نامہ معطل کرتے ہوئے اسے عوامی اہمیت کا معاملہ قراردیتے ہوئے ازخود نوٹس لیا تھا۔

انصافی پریس کی یہ رپورٹ درست اور مکمل نہیں۔ ڈان کی رپورٹ ملاحظہ فرمائیے۔

Dawn News Television

ماضی میں جنرلز 10سال تک توسیع لیتے رہے، کسی نے پوچھا تک نہیں، چیف جسٹس
ویب ڈیسک | حسیب بھٹی | نوید صدیقیاپ ڈیٹ 27 نومبر 2019

سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن معطل کردیا

یہاں یہ بات یاد رہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت 29 نومبر کو پوری ہورہی ہے اور اس ملازمت میں وزیراعظم عمران خان نے توسیع کردی تھی۔

تاہم عدالت نے اس نوٹیفکیشن کو معطل کرتے ہوئے کیس میں جنرل قمر جاوید باجوہ کو خود فریق بناتے ہوئے آرمی چیف، وفاقی حکومت اور وزارت دفاع کو نوٹس جاری کردیے تھے۔

ہم نے ازخود نوٹس نہیں لیا، چیف جسٹس
آج اس کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے ساتھ ہی ریمارکس دیے کہ میڈیا پر غلط چلا کہ ہم نے ازخود نوٹس لیا ہے، میڈیا کو سمجھ نہیں آئی تھی کہ ہم ریاض حنیف راہی کی درخواست پر ہی سماعت کر رہے ہیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ نے درخواست واپس لینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 184 (سی) کے تحت عوامی مفاد میں اس درخواست پر سماعت کی تھی، ساتھ ہی یہ رپورٹ کیا گیا تھا کہ اس درخواست کو ازخود نوٹس میں تبدیل کردیا گیا۔

تاہم آج سماعت میں چیف جسٹس نے اس معاملے پر واضح کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا گمشدہ درخواست گزار کا علم ہوا؟ اس پر عدالت میں موجود ریاض حنیف راہی کو روسٹرم پر بلایا گیا۔

روسٹرم پر آنے کے بعد چیف جسٹس نے پوچھا کہ ریاض راہی صاحب آپ کہاں رہ گئے تھے، کل آپ تشریف نہیں لائے، ہم نے آپ کی درخواست زندہ رکھی، جس پر ریاض راہی نے کہا کہ حالات مختلف پیدا ہوگئے ہیں۔

اس پر چیف جسٹس نے جواب دیا کہ ہم انہی حالات میں آگے بڑھ رہے ہیں، آپ تشریف رکھیں۔

خامیاں تسلیم نہیں کیں تو تصحیح کیوں کی گئی، عدالت
دوران سماعت چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل انورمنصور خان سے پوچھا کہ یہ بات طے ہے کہ کل جن خامیوں کی نشاندہی کی گئی تھی ان کو تسلیم کیا گیا، خامیاں تسلیم کرنے کے بعد ان کی تصحیح کی گئی تھی، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ انہیں خامیاں تسلیم نہیں کیا گیا، ساتھ ہی چیف جسٹس نے کہا کہ اگر خامیاں تسلیم نہیں کی گئیں تو تصحیح کیوں کی گئی۔

اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ میں اس کی وضاحت کرتا ہو، توسیع کے حوالے سے قانون نہ ہونے کا تاثر غلط ہے، یہ تاثر بھی غلط ہے کہ صرف11ارکان نے ہاں میں جواب دیا تھا، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ اگر باقیوں نے ہاں میں جواب دیا تھا تو کتنے وقت میں دیا تھا یہ بتا دیں، کل جو آپ نے دستاویز دی تھی اس میں 11ارکان نے ہاں لکھا ہوا تھا، نئی دستاویز آپ کے پاس آئی ہے تو دکھائیں۔

جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ کل کے عدالتی حکم میں بعض غلطیاں ہیں، میں نے کل آرمی رولز کا حوالہ دیا تھا، عدالت نے حکم نامے میں قانون لکھا،عدالت نے کہا صرف 11 ارکان نے کابینہ میں توسیع کی منظوری دی۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اب تو حکومت اس کارروائی سے آگے جاچکی ہے،جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کابینہ سے متعلق نکتہ اہم ہے اس لیے اس پر بات کروں گا۔

انور منصور کی بات پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے تو وہی لکھا جو آپ نے دستاویزات میں دیا، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جن اراکین کے جواب کا انتظار ہے ان کا جواب ہاں میں نے تصور کیا جانا چاہیے، اس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ کس قانون میں ہے کہ جن کے جوابات کے انتظار ہو وہ ہاں تصور ہوگا۔

اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ رول 19 میں لکھا ہے کہ جن کے جواب کا انتظار ہو وہ ہاں تسلیم ہوگا، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ اس رول میں یہ بھی واضح ہے کہ جواب کے انتظار میں وقت کا تعین ہوگا، آپ ہمیں دستاویزات میں تعین کردہ وقت دکھا دیں۔

ساتھ ہی چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ رول 19 میں وقت مقرر کرنے کی صورت میں ہی ہاں تصور کیا جاتا ہے۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 18ویں ترمیم کے بعد آرمی ایکٹ میں تبدیلیاں ہوئی ہیں، اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرمی چیف ملٹری کو کمانڈ کرتا ہے۔

صدر، وزیراعظم کے مشورے پر افواج کے سربراہ تعینات کرتے ہیں، اٹارنی جنرل
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرٹیکل 243 کے مطابق صدر مملکت، افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر ہیں، آرٹیکل 243 کے تحت ہی صدر، وزیراعظم کے مشورے پر افواج کے سربراہ تعینات کرتے ہیں۔

اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آرٹیکل 243 مراعات و دیگر معاملات سے متعلق ہے، کیا تعیناتی کی مدت کی بات کی گئی ہے، آرمی چیف کتنے عرصے کے لیے تعینات ہوتے ہیں، کیا آرمی چیف حاضر سروس افسر بن سکتا ہے یا ریٹائر جنرل بھی، اس معاملے میں قواعد کو دیکھنا ضروری ہے۔

عدالتی ریمارکس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرے پاس ترمیمی مسودہ ابھی آیا ہے، جس پر جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ ہمارے پاس وہ بھی نہیں آیا۔

ساتھ ہی چیف جسٹس نے پوچھا کہ آئین و قانون کی کس شق کے تحت قواعد تبدیل کیے گئے، آرٹیکل 255 ان لوگوں کے لیے ہے، جو سروس سے نکالے جاچکے یا ریٹائر ہوچکے ہیں۔

آرمی چیف کی مدت ملازمت کا معاملہ انتہائی اہم ہے، چیف جسٹس
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ آرمی چیف کی مدت ملازمت کا انتہائی اہم معاملہ ہے، اس میں سب کی بات سنیں گے، یہ سوال آج تک کسی نے نہیں اٹھایا، اب اگر سوال اٹھ گیا ہے تو اسے دیکھیں گے، ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی ریمارکس دیے کہ ماضی میں 5 یا 6 جنرلز خود کو توسیع دیتے رہے ہیں، مستقبل میں ایسے مسائل پیدا نہ ہواس لیے اس معاملے کو تسلی سے دیکھتے ہیں کیونکہ یہ معاملہ اب واضح ہونا چاہیے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ انتہائی اہم معاملہ ہے مگر اس میں آئین خاموش ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مدت تعیناتی نوٹیفکیشن میں لکھی جاتی ہے جو صوابدیدی ہے۔

اٹارنی جنرل کی بات پر چیف جسٹس نے کہا کہ بہت سارے قوانین خاموش ہیں، کچھ روایتیں بن گئی ہیں، ماضی میں 5، 6 جنرل خود کو توسیع دیتے رہے، 10، 10 سال تک توسیع لی گئی لیکن کسی نے پوچھا تک نہیں، تاہم آج یہ سوال سامنے آیا ہے، اس معاملے کو دیکھیں گے تاکہ آئندہ کے لیے کوئی بہتری آئے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ تاثر دیا گیا کہ آرمی کی چیف کی مدت ملازمت 3 سال ہوتی ہے، ساتھ ہی جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ نے آج بھی ہمیں آرمی ریگولیشنز کا مکمل مسودہ نہیں دیا۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو صفحات آپ نے دیے وہ نوکری سے نکالنے کے حوالے سے ہیں، آرمی ریگولیشنز کے مطابق ریٹائرمنٹ معطل کرکے افسران کو سزا دی جاسکتی ہے، حال ہی میں 3 سینئر افسران کی ریٹائرمنٹ معطل کر کے سزا دی گئی تھی۔

اسی دوران عدالت میں موجود بینچ کے رکن جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ آرمی چیف کی مدت 3 سال کہاں مقرر کی گئی ہے، کیا آرمی چیف 3 سال بعد گھر چلا جاتا ہے۔

آرمی چیف کی تعیناتی کی مدت پر قانون خاموش ہے، اٹارنی جنرل
عدالتی سوال پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ لیفٹیننٹ جنرل 57 سال کی عمر میں 4 سال کی مدت مکمل کر کے ریٹائر ہوتے ہیں،اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ لیفٹیننٹ جنرل کے علاوہ کہیں بھی مدت کا تعین نہیں کیا گیا، بعض لیفٹیننٹ جنرلز کو تعیناتی کے بعد 4 سال کی مدت نہیں ملتی جبکہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کی مدت کا ذکر ہی نہیں۔

جس پر اٹارنی جنرل نے بھی کہا کہ جی آرمی چیف کی مدت تعیناتی کا کوئی ذکر نہیں، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا دستاویزات کے ساتھ آرمی چیف کا اپوانٹمنٹ لیٹر ہے، جنرل قمر باجوہ کی بطور آرمی چیف تعیناتی کا نوٹیفکیشن کہاں ہے، کیا پہلی بار جنرل باجوہ کی تعیناتی بھی 3 سال کے لیے تھی، آرمی چیف کی مدت تعیناتی کا اختیار کس کو ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ اگر ریٹائرمنٹ سے 2 دن قبل آرمی چیف کی توسیع ہوتی ہے تو کیا وہ جاری رہے گی، اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ٹرم کا استعمال کی جاتا ہے لیکن اس کا تعین کہیں نہیں، فوجی افسران کو کمیشن ملتا ہے جب ان کی تعیناتی ہوتی ہے، آرٹیکل 243/3 کے تحت کمیشن ملتا ہے تاہم آرمی چیف کی تعیناتی کی مدت پر قانون خاموش ہے، آرٹیکل 243 کے تحت کابینہ سفارش نہیں کر سکتی، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی کی سفارش وزیراعظم نے کرنی ہے۔

اٹارنی جنرل کی بات پر چیف جسٹس نے کہا کہ کابینہ کی سفارش ضروری نہیں تو 2 مرتبہ معاملہ کابینہ کو کیوں بھیجا؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کو قائل کرنے کی کوشش کروں کہ تعیناتی میں توسیع بھی شامل ہوئی ہے۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ نارمل (عام) ریٹائرمنٹ سے متعلق آرمی کے قواعد پڑھیں، آرمی ایکٹ کے رول 262 سی کو پڑھیں، جنرل کی ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سال دی گئی ہے،ساتھ ہی جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ 262 میں جنرل کی ریٹائرمنٹ کا ذکر نہیں۔

اس پر انور منصور نے عدالت کو بتایا کہ آرمی چیف پبلک سرونٹ نہیں ہیں، ان کی تعیناتی پبلک سرونٹ کرتے ہیں، آرمی چیف افسر سے بالاتر گریڈ میں ہوتے ہیں۔

اٹارنی جنرل کی بات پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ معاملہ توسیع اور نئی تعیناتی کا ہے، اس کو کیسے قانونی طور پر ثابت کریں گے، جس پر انور منصور خان نے کہا کہ تعیناتی کی تعریف میں دوبارہ تعیناتی بھی آتی ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ریٹائرمنٹ اور ڈسچارج کا ذکر رولز میں ہے، جب مدت مکمل ہوجائے پھر نارمل ریٹائرمنٹ ہوتی ہے، 253 کے ایک چیپٹر میں واضح ہے کہ گھر کیسے جائیں گے یا فارغ کیسے کریں گے۔

حالت جنگ میں آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ میں عارضی تاخیر ہوسکتی، چیف جسٹس
اس موقع پر چیف جسٹس کے ریمارکس کے دوران اٹارنی جنرل نے بولنا چاہا تو چیف جسٹس نے پوچھا کہ انور منصور آپ جلدی میں تو نہیں، جس پر جواب دیا گیا کہ نہیں میں رات تک یہاں ہوں، آرٹیکل 255 میں ایک ایسا لفظ ہے جو اس معاملے کا حل ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس آرٹیکل میں حالات کے تحت اگر ریٹائرمنٹ نہ دی جاسکے تو 2 ماہ کی توسیع دی جاسکتی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایک بندہ اپنی ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ چکا ہے تو اس کی ریٹائرمنٹ کو معطل کیا جاسکتا ہے، اگر جنگ ہورہی ہو تو پھر آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ میں عارضی تاخیر کی جاسکتی ہے۔

عدالتی ریمارکس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ریٹائرمنٹ کی حد کا کوئی تعین نہیں، اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ ان کی ریٹائرمنٹ نہیں ہوسکتی، مدت پوری ہونے پر محض غیر متعلقہ قاعدے پر توسیع ہوسکتی ہے، یہ تو بہت عجیب بات ہے۔

ساتھ ہی چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 255 جس پر آپ انحصار کررہے ہیں وہ تو صرف افسران کے لیے ہے، جس میں آپ نے ترمیم کی وہ تو آرمی چیف سے متعلق ہے ہی نہیں، آپ کے آرمی چیف اس میں نہیں آتے۔

اٹارنی جنرل نے جنرل کیانی کو جسٹس کیانی کہہ دیا
دوران سماعت آرمی چیف کی جانب سے پیش ہونے والے فروغ نسیم نے کہا کہ جنگی صورتحال میں کوئی ریٹائر ہورہا ہو تو اسے کہتے ہیں، آپ ٹھہرجائیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 255 اے کہتا ہے کہ اگر جنگ ہورہی ہو تو چیف آف آرمی اسٹاف کسی کی ریٹائرمنٹ کو روک سکتا ہے، یہاں آپ چیف کو سروس میں برقرار رکھ رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کا سارا کیس 255 اے کے گرد گھوم رہا ہے، اس پر اٹارنی جنرل انور منصور خان نے عدالت کو بتایا کہ 1948 سے آج تک تمام آرمی چیف ایسے ہی تعینات ہوئے، 'جسٹس کیانی کی توسیع بھی ایسے ہی ہوئی'۔

عدالت میں اٹارنی جنرل کی جانب سے سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو جسٹس کیانی کہہ دیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ جسٹس نہیں جنرل کیانی تھے، چیف جسٹس کی اس بات پر عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔

تاہم اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے اٹارنی جنرل نے کہا کہ جن فوجی افسران کو توسیع دی گئی ان کی فہرست دے چکا ہوں، اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا ریٹائرڈ جنرل کو آرمی چیف تعینات کیا جا سکتا ہے.

عدالتی سوال پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ شاید ریٹائر جنرل بھی بن سکتا ہو لیکن آج تک ایسی کوئی مثال نہیں، اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا 3 سالہ مدت کے بعد آرمی چیف فوج میں رہتا ہے یا گھر چلاتا ہے۔

ہم قانون سمجھنا چاہتے ہیں ہمیں کوئی جلدی نہیں، چیف جسٹس
ساتھ ہی چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فوجی افسران سروس کی مدت اور مقررہ عمر کو پہنچنے پر ریٹائر ہوتے ہیں، ہم قانون سمجھنا چاہتے ہیں ہمیں کوئی جلدی نہیں، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں تو رات تک دلائل دینے کے لیے بھی تیار ہوں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وفاقی حکومت ریٹائرمنٹ کے بعد ہی ریٹائرمنٹ کو معطل کر سکتی ہے۔

اس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ دوران جنگ ممکن ہے کہ افسران کو ریٹائرمنٹ سے روک جاتا ہے، ساتھ ہی چیف جسٹس نے کہا کہ قانون کے مطابق آرمی چیف دوران جنگ افسران کی ریٹائرمنٹ روک سکتے ہیں، حکومت آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کو روکنا چاہتی ہے۔

عدالتی ریمارکس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریٹائرمنٹ کی معطلی عارضی نہیں ہوتی،اس پر جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ آئینی عہدے پر تعیناتی میں توسیع آئین کے تحت نہیں، عارضی سروس رولز کے تحت دی گئی، بظاہر تعیناتی میں توسیع آرمی ریگولیشنز کے تحت نہیں دی گئی۔

بعد ازاں عدالت نے مذکورہ معاملے پر سماعت کو ایک بجے تک ملتوی کردیا۔

چیف جسٹس کی اٹارنی جنرل کے دلائل کی تعریف
وقفے کے بعد کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپ کو اجازت دیتے ہیں، جو بولنا ہے بولیں، پھر ہم قانونی نکات پر بات کریں گے، ہم آپ کے دلائل کی تعریف کرتے ہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں آپ کے تمام سوالات کے جوابات دیتا رہوں گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ کو دلائل مکمل کرنے دیں، پھر قوانین پڑھیں، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ پہلے قانون پر بات کر لیں، پھر اپنا موقف دیں، اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ عدالت کے ہرسوال کا جواب دوں گا۔

انور منصور کی بات پر چیف جسٹس نے کہا کہ ٹکڑوں میں جواب کا کوئی فائدہ نہیں، آرمی ایکٹ کو سمجھے بغیر ہمیں دلائل کیسے سمجھ آئیں گے، آپ کا ایک ایک لفظ سن کر سمجھنے کی کوشش کریں گے۔

اٹارنی جنرل کی بات پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ان رولز اور ریگولیشن کو پڑھتے ہیں، پاک فوج کے تقسیم ہند سے پی کے کے رولز کو روزانہ کی روشنی میں دیکھتے ہیں، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جیسے عدالت کہے گی ویسے کہیں گے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جو کہنا ہے کہیں ایک ایک لفظ نوٹ کر رہے ہیں۔

یہ قانون کی عدالت ہے یہاں شخصیات معنیٰ نہیں رکھتیں، چیف جسٹس
اس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ پہلا سوال یہ ہے کہ آرمی چیف کی مدت تعیناتی کیا ہوگی، آرمی چیف کی مدت تعیناتی پر آئین خاموش ہے، دوبارہ آرمی چیف کی تعیناتی کس قانون کے تحت ہوگی، کیا ریٹائرمنٹ کے بعد ریٹائرڈ جنرل کو دوبارہ آرمی چیف بنایا جا سکتا ہے؟

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آرمی چیف کی تعیناتی وزیراعظم کی صوابدید ہے، اصل مسئلہ آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی کا ہے، اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرمی چیف کی تعیناتی آرٹیکل 243 کے تحت ہوتی ہے، مدت مقرر نہ ہو تو کیا آرمی چیف تاحیات عہدے پر رہیں گے، 1947 سے تعیناتی کی یہی روایت رہی ہے، عوام کو آگاہ کروں گا تعیناتی کی مدت کا تعین کیسے ہوتا ہے۔

اٹارنی جنرل کی بات پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ قانون کی عدالت ہے، یہاں شخصیات معنیٰ نہیں رکھتیں، جو کام قانونی طور پر درست نہیں اسے کیسے ٹھیک کہہ سکتے ہیں، اگر قانون کے مطابق درست نہیں تو پھر ہم فیصلہ دیں گے، اس پر انور منصور خارن نے جواب دیا کہ بعض اوقات سختی سے چھڑی ٹوٹ جاتی ہے،عدالت کو قانون پر اتنا سخت نہیں ہونا چاہیے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانون کو اتنا سخت نہیں ہونا چاہیے کہ اس میں کوئی لچک نہ ہو، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے قانون سے دلائل کا آغاز کریں۔

عدالتی ریمارکس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں فوج کے قانون کو پڑھ کر سنانا چاہتا ہوں، ایکٹو سروس سے متعلق سیکشن 2 پڑھ کر سناؤں گا، جنرل قوم کا افسر ہوتا ہے، اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہمارے سامنے سوال چیف کا ہے جنرل کا نہیں، اس پر انور منصور نے کہا کہ عدالت کو میں تعیناتی کی دیگر مثالیں بھی پیش کروں گا۔

اٹارنی جنرل نے بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ چیف آف آرمی اسٹاف آرمی کے کمانڈنگ افسر ہیں، اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ چیف آف آرمی اسٹاف میں اسٹاف کا مطلب کیا ہے، خالی چیف آف آرمی بھی تو ہوسکتا تھا۔

اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس بارے میں مجھے علم نہیں، پڑھ کر بتا سکتا ہوں، کمانڈنگ افسر وہ ہوتا ہے جو آرمی کے کسی الگ یونٹ کا سربراہ ہو۔

4 ممکنہ منظرنامے
علاوہ ازیں ڈان اخبار کی ایک رپورٹ میں تمام معاملے پر 4 منظرناموں کے حوالے سے بتایا گیا تھا۔

جنرل قمر جاوید باجوہ جو آئندہ سال 60 برس کی عمر کو پہنچ جائیں گے، بطور آرمی چیف ان کے عہدے 3 سالہ مدت رواں ہفتے کے اواخر میں مکمل ہورہی ہے اور وہ اپنی سروس اسی صورت میں جاری رکھ سکتے ہیں اگر سپریم کورٹ 29 نومبر سے قبل آرمی چیف کے حق میں فیصلہ سناتی ہے۔

اس صورتحال سے متعلق، جب تک اس معاملے کو کوئی نتیجہ سامنے نہیں آجاتا بہت سے امکانات موجود ہیں۔

پہلا امکان یہ ہے کہ اگر عدالت عظمیٰ حکومت کی جانب سے اصل نوٹی فکیشن میں قانونی خامیوں کو دور کرنے کے حکومتی اقدامات کو منظور کرتی ہے اور نئے نوٹی فکیشن کو درست قرار دیتی ہے تو صورتحال واپس جمود میں تبدیل ہوجائے گی اور جنرل قمر جاوید باجوہ بطور چیف آف آرمی اسٹاف(سی او اے ایس ) اپنی آئندہ 3 برس کی مدت کا آغاز کریں گے۔

دوسرا یہ کہ سپریم کورٹ نئے نوٹی فکیشن کو درست قرار نہیں دیتی تو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع نہیں ہوگی جس سے عندیہ ملے گا کہ وہ 29 نومبر کو ریٹائر ہوجائیں گے۔

تیسرا یہ کہ اگر عدالتی بینچ آج کوئی فیصلہ نہیں کرتا اور مزید دلائل پیش کرنے کا حکم دیتا ہے اور اگر اگلی سماعت جمعے (29نومبر) کے بعد ہوتی ہے جب جنرل قمر جاوید باجوہ ریٹائر ہورہے ہیں تو حکومت کو نئے چیف آف آرمی اسٹاف کا اعلان کرنےکی ضرورت ہوگی۔

چوتھا یہ کہ حکومت نئے آرمی چیف کے تقرر کے لیے مزید وقت لینے کا آپشن لے سکتی ہے اور اس دوران متعین کردہ قانون کے تحت فوج کی ہائی کمانڈ میں موجود کسی اور شخص کو آرمی چیف کا چارج دے سکتی ہے۔

26 نومبر کو جاری عدالتی حکم نامہ
واضح رہے کہ گزشتہ روز سماعت کے بعد عدالتی حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ وزیراعظم نے 19 اگست کو اپنے طور پر آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن جاری کیا، جب اس نوٹیفکیشن میں غلطی کا احساس ہوا تو وزیراعظم نے سمری صدر کو بھجوائی جس کی صدر نے منظوری دی۔

سپریم کورٹ نے حکم نامے میں کہا تھا کہ علاقائی سیکیورٹی کی صورتحال کے پیش نظر آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع دی جارہی ہے، خطے کی سیکیورٹی صورت حال والی بات عمومی ہے، علاقائی سیکیورٹی سے نمٹنا فوج کا بطورادارہ کام ہے کسی ایک افسر کا نہیں، علاقائی سیکیورٹی کی وجہ مان لیں تو فوج کا ہر افسر دوبارہ تعیناتی چاہے گا۔

عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ اٹارنی جنرل مدت ملازمت میں توسیع یا نئی تعیناتی کا قانونی جواز فراہم نہ کرسکے، اٹارنی جنرل نے قانون کی کوئی ایسی شق نہیں بتائی جس میں چیف آف آرمی اسٹاف کی مدت ملازمت میں توسیع اور دوبارہ تعیناتی کی اجازت ہو۔

حکم نامے میں عدالت نے کہا تھا کہ آرمی رولز کے تحت صرف ریٹائرمنٹ کو عارضی طورپر معطل کیا جاسکتا ہے، ریٹائرمنٹ سے پہلے ریٹائرمنٹ معطل کرنا گھوڑے کے آگے گاڑی باندھنے والی بات ہے۔

آرمی ریگولیشنز کے رول 255 میں ترمیم
اس تمام صورتحال کے بعد وزیراعظم اور ان کے وزرا کا ہنگامی اجلاس ہوا اور آرمی ریگولیشنز کے رول 255 میں ترمیم کردی گئی۔ وفاقی وزیرتعلیم شفقت محمود نے اس بارے میں بتایا کہ وفاقی کابینہ نے آرمی ریگولیشنز کے رول 255 میں ترمیم کردی گئی اور آرٹیکل میں الفاظ 'مدت میں توسیع' کا اضافہ کردیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے استعفیٰ دے دیا

انہوں نے بتایا تھا کہ ' کابینہ اجلاس میں آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کا جائزہ لیا گیا، آئین کے آرٹیکل 243 کے تحت وزیر اعظم کا یہ اختیار ہے کہ وہ صدر کو ایڈوائس کریں، اس طریقے پر عمل کیا گیا اور صدر نے آرٹیکل 243 کے تحت آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی منظوری دی۔'

شفقت محمود نے کہا تھا کہ 'سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو بھی آرمی ریگولیشنز کے رول 255 کے تحت توسیع دی گئی تھی۔'

وزیر قانون کا استعفیٰ
یہی نہیں بلکہ اسی پریس کانفرنس کے دوران وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے بتایا تھا کہ وزیر قانون فروغ نسیم نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور وہ سپریم کورٹ میں جنرل قمر جاوید باجوہ کا کیس لڑیں گے۔

اس موقع پر معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا تھا کہ ‘وزیرقانون نے رضاکارانہ طور پر استعفیٰ اس لیے دیا کہ وفاقی وزیر کی حیثیت سے وہ عدالت میں پیش نہیں ہوسکتے اور حکومت کا موقف کو واضح کرنے کے لیے رضاکارانہ استعفیٰ دیا ہے تاکہ اٹارنی جنرل کی معاونت کریں گے’۔

آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کب ہوئی؟
یاد رہے کہ رواں سال 19 اگست کو چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع کردی گئی تھی۔

وزیراعظم آفس سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے موجودہ مدت مکمل ہونے کے بعد سے جنرل قمر جاوید باجوہ کو مزید 3 سال کے لیے آرمی چیف مقرر کیا۔

نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ علاقائی سیکیورٹی کی صورتحال کے تناظر میں کیا گیا۔

مزید پڑھیں: وفاقی کابینہ نے آرمی ریگولیشنز کے رول 255 میں ترمیم کردی، شفقت محمود

آرمی چیف کو مزید 3 برس کے لیے پاک فوج کا سربراہ مقرر کرنے کے فیصلے کا مختلف سیاستدانوں اور صحافی برادری نے خیر مقدم کیا تھا۔

تاہم چند حلقوں کی طرف سے حکومت کے اس فیصلے پر تنقید بھی کی جارہی تھی۔

خیال رہے کہ 29 نومبر 2016 کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت مکمل ہونے کے بعد ان کی جگہ پاک فوج کی قیادت سنبھالی تھی، انہیں اُس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے فوج کا سربراہ تعینات کیا تھا۔
 
جو عدالتیں ایک سابق آمر کے خلاف محفوظ فیصلہ سنانے کی ہمت نہیں رکھتی وہ ایک حاضر سروس آرمی چیف کو ایکسٹینشن لینے سے کیسے روک سکتی ہیں۔ آخر میں چیف جسٹس نے یہی کہنا ہے۔۔۔

ہم نے آپ کے ساتھ مذاق کیا ہے، ذرا کیمرے کی طرف دیکھ کر :wave: ہلا دیں۔
 
72707526_2693856047337406_1420873879865262080_o.jpg

سب ٹھیک ہے سوائے اس قوم کی یاد داشت کے....

اگر ہمت ہے تو یہ پڑھو.....

2008 میں مشرف گیا اور کیانی آرمی چیف بن گئے.... 2011 میں انکی ریٹائرمنٹ ہونی تھی مگر یوسف رضا گیلانی اس وقت کے وزیراعظم نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار آرمی چیف کو 3 سال کیلیئے مذید توسیع دے دی... پھر 2013 میں راحیل شریف آئے اور انہیں نوازشریف نے توسیع کی پیشکش کی جسکو ٹھکرا کر انہوں نے ریٹائرمنٹ لے لی اور جنرل باجوہ آگئے....
اب عمران خان نے انکو توسیع کی پیشکش کی جسکو آرمی چیف نے قبول کیا..... یعنی ظاہر ہے وہ جنرل راحیل شریف کی طرح پیشکش ٹھکرا بھی سکتے تھے....
اب سوال صرف یہ ہے...

- کیا اس وقت کے چیف جسٹس کو نہیں پتہ چل سکا کہ یہ فوج کے آئین میں شق ہے یا نہیں؟
- کیا یوسف رضا گیلانی وزیراعظم نہیں تھے؟
- کیا اس وقت تمام وکلاء سو رہے تھے؟

کوئی راز کی بات نہیں عوام جانتی ہے کہ اس وقت عدلیہ، وفاق اور اپوزیشن سب مل کر عوام کو ماموں بنا رہے تھے مطلب کون نہیں جانتا جسٹس افتخار چوہدری صاحب کو.... لیکن.... لیکن... لیکن...

اب.... میں کروں تو سالا، کریکٹر ڈھیلا ہے...
 
مگر یوسف رضا گیلانی اس وقت کے وزیراعظم نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار آرمی چیف کو 3 سال کیلیئے مذید توسیع دے دی
بطور ’آرمی چیف‘ تک تو ٹھیک ہے لیکن وزیر اعظم محمد علی بوگرہ اور فیروز خان نون نے ایک ایک بار ’کمانڈر انچیف‘ ایوب خان کو توسیع دی۔
 
Top