ظہیر کاشمیری تری چشمِ طرب کو دیکھنا پڑتا ہے پرنم بھی ۔ ظہیر کاشمیری

فرخ منظور

لائبریرین
تری چشمِ طرب کو دیکھنا پڑتا ہے پرنم بھی
محبت خندۂ بے باک بھی ہے گریہ غم بھی

تھکن تیرے بدن کی عذرکوئی ڈھونڈ ہی لیتی
حدیثِ محفلِ شب کہہ رہی ہے زلفِ برہم بھی

بقدرِ دل یہاں سے شعلۂ جاں سوز ملتا ہے
چراغِ حسن کی لو شوخ بھی ہے اور مدہم بھی

مری تنہائیوں کی دل کشی تیری بلا جانے
مری تنہائیوں سے پیار کرتا ہے ترا غم بھی

بہاروں کے غزلخواں آج یہ محسوس کرتے ہیں
پسِ دیوارِ گل روتی رہی ہے چشمِ شبنم بھی

قریب آتے مگر کچھ فاصلہ بھی درمیاں رہتا
کمی یہ رہ گئی ہے باوجودِ ربطِ باہم بھی

ظہیر ، ان کو ہمارے دل کی ہر شوخی گوارا تھی
انہیں کرنا پڑے گا اب ہمارے دل کا ماتم بھی

(ظہیر کاشمیری)
 
Top