محشر کو بھول بیٹھے دنیا میں دل لگا کر---برائے اصلاح

الف عین
خلیل الرحمن
@سیّد عاطف علی
-----------
مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن
محشر کو بھول بیٹھے دنیا میں دل لگا کر
ہو گی بہت ہی مشکل اب پاس رب کے جا کر
------------یا
دیں گے جواب کیونکر ہم پاس رب کے جا کر
----------
یہ جان ہے امانت گر ہو سکے یہ تجھ سے
رستے میں رب کے اپنی تُو جان بھی فدا کر
---------یا
جتنا بھی ہو سکے تُو مالک کا حق ادا کر
-------------
باتیں بھی کر خدا سے سنتا ہے تیری باتیں
جب سو رہی ہو دنیا ایسے میں یہ کیا کر
--------یا
جب سو رہی ہو دنیا، سجدے میں سر جھکا کر
------------
سوچو سدا بھلائی سب دوسروں کی خاطر
کرتے رہو دعائیں ہاتھوں کو تم اٹھا کر
--------------
لوگوں سے سیکھ جینا کیسے ہے اس جہاں میں
اپنی ہی کر نہ باتیں اوروں کی بھی سُنا کر
------------
جتنا ہے پاس تیرے سارا نہیں ہے تیرا
اوروں کا حق ہے اس میں خیرات بھی دیا کر
-----------یا
جتنا ہے پاس تیرے سارا ہڑپ نہ کر جا
جو اقربا کا حق ہے وہ بھی انہیں دیا کر
-----------
مجھ کو جفا ملی ہے جتنی بھی کیں وفائیں
میں پوچھتا ہوں خود سے کس نے کہا وفا کر
-----------
اچھا نہیں ہے ہوتا بیکار بیٹھنا بھی
تجھ کو ملے ہیں جتنے زخموں کو ہی سِیا کر
------------
کوئی ملا نہ ایسا میرا جو غم بٹاتا
دکھ ہی مجھے ملا ہے لوگوں کے کام آ کر
------------
تیری بنے گی دنیا ارشد نہ ایسے سوچو
-----------
اپنی سمجھ نہ ارشد دنیا نہیں کسی کی
ان کو خوشی ملے گی تیرا ہی سر جھکا کر
--------------
 
آخری تدوین:
تعمیلِ ارشاد

جب سو رہی ہو دنیا ایسے میں یہ کیا کر

جب سو رہی ہو دنیا، سجدے میں سر جھکا کر

جتنا ہے پاس تیرے سارا نہیں ہے تیرا
غربا کا حق ہے اس میں خیرات بھی دیا

غربا میں ر متحرک ہے۔

تیری بنے گی دنیا ارشد نہ ایسے سوچو

شتر گربہ
 

الف عین

لائبریرین
بھائی ارشد، آپ ایک غزل روزانہ کا معمول چھوڑ نہیں رہے ہیں۔ میں یہ مشورہ دے چکا ہوں کہ آپ کی کہی ہوئی دو ڈھائی سو غزلوں میں سے ایک دو ہی ایسی ہوں گی جس میں دو تین اشعار اچھے ہوں گے۔ وہی دو چار خیالات ہیں جن کو الفاظ بدل بدل کر اشعار کہتے جا رہے ہیں۔ کسی دوسرے کی غزلیں سمجھ کر غور کریں تو آپ کو خود بھی دل کو نہیں لگیں گی، تکنیکی اعتبار سے درست ہونے سے ہی بات نہیں بنتی۔ نئی غزلیں کہنے کی جگہ خود اپنی غزلوں کا انتخاب کریں، جو بہتر محسوس ہوں، ان پر نظر ثانی یا ثالث کریں۔
 
الف عین
السلام علیکم ۔۔نہیں استادِ محترم میں ناراض نہیں ہوں ۔جس طرح اللہ کے جبر میں بھی رحمت پنہاں ہوتی ہے اسی طرح استاد کی سختی یا ڈانٹ ڈپٹ میں بھی محبّت اور بہتری چھپی ہوتی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ کا قول ہے جس نےایک لفظ آپ کو سکھایا ،وہ آپ کا استاد ٹھہرا اور اس کا احترام واجب ہے۔میں نے تو آپ سے بہت کچھ سیکھا ہے بلکہ سیکھا ہی آپ سے ہے۔ مجھے تو یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ بحر اور وزن بھی کوئی چیز ہوتے ہیں ۔آپ نے ٹیکنیکل چیزیں تو سکھا دیں اور میں نے سیکھ لیں اب خیالات تو آپ پِلا نہیں سکتے اس لئے عروض اور دوسری کتابوں کا مطالعہ کر رہا ہوں تاکہ اغلاط کم سے کم ہوں ،پھر بھی جب بھی کوئی مختلف خیال ذہن میں آیا تو انشاء اللہ ضرور لکھوں گا اور آپ کو زحمت دوں گا۔ موجودہ غزل کو کچھ بہتر کرنے کی کوشش کی ہے ایک نظر دیکھ لیں ۔ دل میں کوئی ایسا خیال نہ لائیں ، جب آپ کو استاد اور بڑا بھائی مان لیا تو ناراضگی کیسی۔
-------------
محشر بھلا دیا ہے دنیا میں دل لگا کر
پھر کیا جواب دیں گے ہم رب کے پاس جا کر
----------
یہ جان ہے امانت اتنا خیال رکھنا
جتنا بھی ہو سکے تُو مالک کا حق ادا کر
-------------
باتیں کرو خدا سے سنتا ہے وہ سبھی کی
جب سو رہی ہو دنیا، سجدے میں سر جھکا کر
------------
سوچو سدا بھلائی سب دوسروں کی خاطر
کرتے رہو دعائیں ہاتھوں کو تم اٹھا کر
--------------
لوگوں سے سیکھ کیسے جینا ہے اس جہاں میں
اپنی ہی کر نہ باتیں اوروں کی بھی سُنا کر
------------
جتنا ہے پاس تیرے سارا نہیں ہے تیرا
اوروں کا حق ہے اس میں خیرات بھی دیا کر
-----------
مجھ کو جفا ملی ہے جتنی بھی کیں وفائیں
میں پوچھتا ہوں خود سے کس نے کہا وفا کر
-----------
ہوتا نہیں ہے اچھابیکار بیٹھنا بھی
تجھ کو ملے ہیں جتنے زخموں کو ہی سِیا کر
------------
کوئی ملا نہ ایسا میرا جو غم بٹاتا
دکھ ہی مجھے ملے ہیں لوگوں کے کام آ کر
------------

اپنی سمجھ نہ ارشد دنیا نہیں کسی کی
ان کو خوشی ملے گی تیرا ہی سر جھکا کر
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
محشر بھلا دیا ہے دنیا میں دل لگا کر
پھر کیا جواب دیں گے ہم رب کے پاس جا کر
---------- محشر بھلا دیا؟ بے معنی ہے، محشر کو بھلا دیا ہے ہونا چاہیے تھا بلکہ بہتر ٹکڑا یہ ہوگا ' محشر کو بھول بیٹھے'، باقی درست ہے

یہ جان ہے امانت اتنا خیال رکھنا
جتنا بھی ہو سکے تُو مالک کا حق ادا کر
------------- دو لخت ہے۔ مالک کے حق اور جان کی امانت کا ربط نہیں ۔ رکھنا سے فاعل کی ضمیر تم یا آپ سمجھی جاتی ہے، تو نہیں.۔ اس لیے شتر گربہ ہے

باتیں کرو خدا سے سنتا ہے وہ سبھی کی
جب سو رہی ہو دنیا، سجدے میں سر جھکا کر
------------ دنیا سجدے میں سر جھکا کر سو رہی ہو؟ یہ ٹکڑا، جب سو......، کنفیوژن پیدا کرتا ہے ۔ اسے نکال ہی دیں

سوچو سدا بھلائی سب دوسروں کی خاطر
کرتے رہو دعائیں ہاتھوں کو تم اٹھا کر
-------------- یہ بھی دو لخت، بھلائی سوچنے کی چیز ہے؟

لوگوں سے سیکھ کیسے جینا ہے اس جہاں میں
اپنی ہی کر نہ باتیں اوروں کی بھی سُنا کر
------------ یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ اوروں کی سننا ہی مراد ہے جسے لوگوں سے سیکھنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے

جتنا ہے پاس تیرے سارا نہیں ہے تیرا
اوروں کا حق ہے اس میں خیرات بھی دیا کر
----------- اوروں کا حق بھی ہے. یہ 'بھی ' ضروری ہے

مجھ کو جفا ملی ہے جتنی بھی کیں وفائیں
میں پوچھتا ہوں خود سے کس نے کہا وفا کر
----------- ٹھیک

ہوتا نہیں ہے اچھابیکار بیٹھنا بھی
تجھ کو ملے ہیں جتنے زخموں کو ہی سِیا کر
------------ بھی بھرتی کا ہے، دوسرے مصرعے کی گرامر درست نہیں

کوئی ملا نہ ایسا میرا جو غم بٹاتا
دکھ ہی مجھے ملے ہیں لوگوں کے کام آ کر
------------ دو لخت ہے، دوسرے مصرعے میں 'بھی' ضروری محسوس ہوتا ہے

اپنی سمجھ نہ ارشد دنیا نہیں کسی کی
ان کو خوشی ملے گی تیرا ہی سر جھکا کر
سر جھکا کر کا کیا محل ہے، سمجھ میں نہیں آیا
 
الف عین
(اصلاح کے بعد دوبارا )
--------------
محشر کو بھول بیٹھے دنیا میں دل لگا کر
پھر کیا جواب دیں گے ہم رب کے پاس جا کر
----------
یہ جان ہے امانت مالک خدا ہے اس کا
جتنا بھی ہو سکے اس کا ہی حق ادا کر
-------------
باتیں کرو خدا سے سنتا ہے وہ سبھی کی
دل میں اسے پکارو، سجدے میں سر جھکا کر
------------
کرتے رہو بھلائی دنیا میں سب کی خاطر
کرتے رہو دعائیں ہاتھوں کو تم اٹھا کر
--------------
اچھا نہیں وطیرہ اپنی ہی بات کرنا
عزّت تری ہے اس میں ، اوروں کی بھی سُنا کر
------------ یا
بہتر ہے یہ سلیقہ اوروں کی بھی سنا کر
-------------
جتنا ہے پاس تیرے سارا نہیں ہے تیرا
ہے دوسروں کا حق بھی خیرات بھی دیا کر
-----------
مجھ کو جفا ملی ہے جتنی بھی کیں وفائیں
میں پوچھتا ہوں خود سے کس نے کہا وفا کر
----------- ٹھیک
ہوتا نہیں ہے اچھابیکار بیٹھنا یوں
اللہ کو دل میں اپنے کچھ یاد ہی کیا کر
------------
کوئی ملا نہ ایسا میرا جو غم بٹاتا
دیکھا بہت ہے میں نے لوگوں کے کام آ کر
----------
اپنی سمجھ نہ ارشد دنیا نہیں کسی کی
ان کو خوشی ملے گی تیرا ہی دل دکھا کر
----------
 

الف عین

لائبریرین
یہ جان ہے امانت مالک خدا ہے اس کا
جتنا بھی ہو سکے اس کا ہی حق ادا کر
------------- دوسرے مصرعے میں شاید 'تُو' چھوٹ گیا ہے ٹائپ ہونے سے
تب بھی 'ہی' کا جواز نہیں بنتا
پہلا مصرعہ بھی 'جاں بھی نہیں ہے اپنی..... بہتر ہو گا

کوئی ملا نہ ایسا میرا جو غم بٹاتا
دیکھا بہت ہے میں نے لوگوں کے کام آ کر
---------- دو لخت اب بھی لگتا ہے دوسروں کے کام آنے سے غم بٹانا ضروری تو نہیں

اپنی سمجھ نہ ارشد دنیا نہیں کسی کی
ان کو خوشی ملے گی تیرا ہی دل دکھا کر
------- 'ان' کون لوگ؟ دنیا والے؟ لیکن پہلے مصرع میں فاعل تو واحد دنیا ہے، تب 'اس' ہونا تھا
باقی اشعار ٹھیک ہیں
 
الف عین
---------------
( اصلاح )
--------
جاں بھی نہیں ہے اپنی مالک خدا ہے اس کا
تجھ پر اسی کا حق ہے جتنا بھی ہو ادا کر
------------- یا
تجھ پر جو اُس کا حق ہے ، جتنا بھی ہو ادا کر
---------------
ایسا نہیں تھا کوئی میرے جو کام آتا
مایوس ہو گیا ہوں ، لوگوں کے کام آ کر
---------- یا
مایوس ہو گیا ہوں میں دوستی نبھا کر

اپنی سمجھ نہ ارشد دنیا نہیں کسی کی
اس کو خوشی ملے گی تیرا ہی دل دکھا کر
------- یا
ارشد تو بے وفائی کرتا نہیں کسی سے
تم دیکھ لینا اُس کو جب چاہو آزما کر
 

الف عین

لائبریرین
پہلے دو اشعار میں... تجھ پر جو اس کا... اور لوگوں کے کام آ کر.. بہتر ہے
مقطع پہلا والا درست ہو گیا۔ متبادل مقطع میں شتر گربہ پھر گھس گیا!
 
Top