1992 کی ایک غزل

1992 میں رشتہ ازدواج میں بندھا تو نکاح اور رخصتی کے درمیانی عرصہ میں (تقریباََ نو ماہ) یہ غزل لکھی، ہر شعر کا پہلا حرف ملاتے جائیں تو جنت مکانی کا نام بن جاتا ہے
محترم الف عین
محترم محمد خلیل الرحمٰن
اور دیگر اساتذہ و احباب کی رہنمائی کی منتظر
اب تو بس انتظار آپ کا ہے
دل پہ اب اختیار آپ کا ہے
ناتواں دل کی دھڑکنوں کی قسم
کچھ تو دل بے قرار آپ کا ہے
یہ نشہ آپ ہی کی چاہ کا ہے
آنکھ میں یہ خمار آپ کا ہے
لذتِ عشق مل گئی ہم کو
مل گیا ہم کو پیار آپ کا ہے
ہے یقیں اب تو اے شکیل ہمیں
دل میں اترا جو وار آپ کا ہے
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ واہ! بہت خوب! کیا اچھے اشعار ہیں !
ایک بہت ہی پرانی صنعت کا اچھا استعمال کیا ہے آپ نے ۔ بہت سالوں پہلے میں بھی یہ حرکت ایک فرمائشی نظم کے ساتھ کرچکا ہوں لیکن اُس میں ہر مصرع کا پہلا حرف استعمال ہوا تھا ۔ اچھی بات ہے کہ آپ نے ایک قدیم روایت کو اپنی شاعری میں زندہ کیا ۔ پرانی روایات کی اس طرح تجدید وقتاً فوقتاً ہوتی رہنی چاہئے ۔ شعر و ادب کی صحت پر اچھا اثر پڑتا ہے ۔ :)
 

الف عین

لائبریرین
صنعت کا استعمال تو بہت پسند آیا، لیکن دو تین مصرعوں میں غلطیاں ہیں
ناتواں دل کی دھڑکنوں کی قسم
کچھ تو دل بے قرار آپ کا ہے
.... واضح نہیں ہوا، ناتواں دل کس کا ہے؟ دل بے قرار شاعر کا ہے یا محبوب کا؟

یہ نشہ آپ ہی کی چاہ کا ہے
.. نشہ کا تلفظ غلط ہے، اس کے علاوہ یہ مصرع بھی 'کا ہے' پر ختم ہو رہا ہے جو ردیف بھی ہے
 
صنعت کا استعمال تو بہت پسند آیا، لیکن دو تین مصرعوں میں غلطیاں ہیں
ناتواں دل کی دھڑکنوں کی قسم
کچھ تو دل بے قرار آپ کا ہے
.... واضح نہیں ہوا، ناتواں دل کس کا ہے؟ دل بے قرار شاعر کا ہے یا محبوب کا؟

یہ نشہ آپ ہی کی چاہ کا ہے
.. نشہ کا تلفظ غلط ہے، اس کے علاوہ یہ مصرع بھی 'کا ہے' پر ختم ہو رہا ہے جو ردیف بھی ہے
استادِ محترم، دو لختی کا عیب تو آج تک بھی در آتا ہے، آپ کی رہنمائی میں سدھارنے کی کوشش کر رہا ہوں، یہ تو ستائیس سال پرانی کاوش تھی۔
ردیف کے حوالے سے ایک وضاحت درکار ہے، میں باقی غزل میں" آپ کا ہے" ردیف استعمال کر رہا ہوں، کیا اس صورت میں اول مصرعے میں صرف "کا ہے" کا آنا بھی نا مناسب ہے؟
نشہ کے تلفظ پر بھی مزید رہنمائی درکار ہے، میں نے یہاں پوسٹ کرنے سے پہلے عروض پر اصلاح کے لیئے ڈالا تو کوئی غلطی نہیں نکلی،
مجھے احساس ہے کہ بعض اوقات میں بہت بنیادی باتوں پر وضاحت مانگ لیتا ہوں وجہ یہ ہے کہ میری اردو کے حوالے سے باقاعدہ تعلیم محض میٹرک تک ہے، آگے گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن انجینئرنگ کی فیلڈ میں رہی، اردو کی ساری سدھ بدھ گھر کے ماحول اور شوقیہ کتب بینی سے حاصل ہوئی
امید ہے آپ سے یا دوسرے اساتذہ سے مزید رہنمائی حاصل رہے گی
جزاک اللہ
 

الف عین

لائبریرین
ردیف جو ایک بار مطلع میں متعین کر دی گئی ہو، اسی پر قائم رہنا چاہیے۔ جب آپ کا ہے ردیف طے ہو گئی۔ تو وہی رہنا چاہیے۔ 'کا ہے' ہو تو پوری غزل میں وہی، اور وہی تقطیع بھی رہنا چاہیے۔ ' کا ہے' دو طرح تقطیع ہو سکتا ہے بطور فعلن، مکمل اور 'کَہے' بطور فعو، دونوں کو خلط ملط کرنا غلط ہے
نشہ کا درست تلفظ نشّہ ہے، ش پر تشدید،
 
ردیف جو ایک بار مطلع میں متعین کر دی گئی ہو، اسی پر قائم رہنا چاہیے۔ جب آپ کا ہے ردیف طے ہو گئی۔ تو وہی رہنا چاہیے۔ 'کا ہے' ہو تو پوری غزل میں وہی، اور وہی تقطیع بھی رہنا چاہیے۔ ' کا ہے' دو طرح تقطیع ہو سکتا ہے بطور فعلن، مکمل اور 'کَہے' بطور فعو، دونوں کو خلط ملط کرنا غلط ہے
نشہ کا درست تلفظ نشّہ ہے، ش پر تشدید،
بہت شکریہ استادِ محترم!
گستاخی معاف، آپ نے " یہ نشہ آپ ہی کی چاہ کاہے" والے مصرعے پر جو کہ شعر کا پہلا مصرع ہے، آخر میں "کا ہے" آنے پر اعتراض کیا تھا، کیا یہ بھی غلط ہے؟ پورا شعر یوں ہے
یہ نشہ آپ ہی کی چاہ کا ہے
آنکھ میں یہ خمار آپ کا ہے
میرا اشکال دور کر کے رہنمائی فرمائیں
شکریہ
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
یہ نشہ آپ ہی کی چاہ کا ہے
.. نشہ کا تلفظ غلط ہے، اس کے علاوہ یہ مصرع بھی 'کا ہے' پر ختم ہو رہا ہے جو ردیف بھی ہے
اعجاز بھائی ، لفظ "نشہ" کی اصل اور اس کا املا اور عروضی وزن تو شروع دن ہی سے مختلف فیہ رہے ہیں ۔ سید احمد دہلوی اور نورالحسن نیر صاحبان دونوں نے اپنی لغات میں اس پر بحث درج کی ہے ۔ شعراء نے نشہ کو بر وزن فعلن ، بروزن فاع اور بروزن فعو باندھا ہے ۔ تقریباً تمام اساتذہ کے ہاں یہ اوزان ملتے ہیں ۔ میر نے متعدد اشعار میں اسےفعلن اور فعو ہر دو اوزان پر باندھا ہے ۔ عصری شاعری میں تو عموماً بروزن فعو ہی باندھا جاتا ہے اور مقبول ہے ۔ اور بول چال میں بھی اب بروزن صبا ہی مستعمل ہے ۔ شین مشدّد کے ساتھ کوئی نہیں بولتا ۔ میں سمجھتا ہوں کہ نشہ بروزن فعلن کو اب متروک ہی سمجھا جانا چاہئے ۔ اگر شعری ضرورت کے تحت کوئی اس طرح استعمال کرلے تو اور بات ہے ۔

بہت شکریہ استادِ محترم!
گستاخی معاف، آپ نے " یہ نشہ آپ ہی کی چاہ کاہے" والے مصرعے پر جو کہ شعر کا پہلا مصرع ہے، آخر میں "کا ہے" آنے پر اعتراض کیا تھا، کیا یہ بھی غلط ہے؟ پورا شعر یوں ہے
یہ نشہ آپ ہی کی چاہ کا ہے
آنکھ میں یہ خمار آپ کا ہے
میرا اشکال دور کر کے رہنمائی فرمائیں
شکریہ
اعجاز بھائی تقابل ردیفین کی بات کررہے ہیں جس کی عام طور پر حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور اسے غزلیہ شعر کےمعمولی عیوب میں شمار کیا جاتا ہے ۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
میرے خیال میں یہ لفظ در اصل نشوة (ن ش و ۃ ۔ عربی الاصل )ہے اور وزن فعلن کے مطابق ہے ۔اپنی اردو میں بولنے کی سہولت لیے اس کو نش شہ بنالیا گیا اور اسے ش مشدد کی شکل دے دی گئی اور شعر میں یوں ہی استعمال ہونے لگا ۔ نش شہ کی شکل کیوں کہ اصل اور خالص نہ تھی سو بول چال میں میں نشہ کثرت کلام سے فعو بھی رائج ہو گیا ۔
اور اس طرح وزن فعلن اور فعو دونوں قابل قبول صورتیں ہو گئیں ۔ جہاں تک فاع کی بات ہے تو وہ ش مشدد کی ہی ایسی صورت ہوگی کہ گویا اس میں ہ دبا کر شعری وزن کی خاطر ساقط کر دیا گیا ہو اور یہ چلن اردو میں دوسری جگہوں میں بھی عام ہے اس لیے اس کی ڈائیورسٹی میں اس فاع کی بھی گنجائش نکل آئی ۔
البتہ میرے خیال میں بہترین استعمال فعلن کا ہی ہے ۔شعری ضرورت میں البتہ گنجائش کے تحت شاعر کی صوابدید بلکہ صواب گوئی پر چھوڑ دینا مباح ہے۔ :)
 

الف عین

لائبریرین
یوں تو
نشہ پلا کے گرانا.....
مشہور شعر ہے لیکن میری اصلاح کا منبع در اصل صرف
میرے والد مرحوم رہے ہیں اور وہ کبھی بغیر شد کے قبول نہیں کرتے تھے!
 

الف عین

لائبریرین
بہت شکریہ استادِ محترم!
گستاخی معاف، آپ نے " یہ نشہ آپ ہی کی چاہ کاہے" والے مصرعے پر جو کہ شعر کا پہلا مصرع ہے، آخر میں "کا ہے" آنے پر اعتراض کیا تھا، کیا یہ بھی غلط ہے؟ پورا شعر یوں ہے
یہ نشہ آپ ہی کی چاہ کا ہے
آنکھ میں یہ خمار آپ کا ہے
میرا اشکال دور کر کے رہنمائی فرمائیں
شکریہ
امید ہے کہ ظہیراحمدظہیر کے جواب سے مطمئن ہو گئے ہوں گے۔ والد محترم اسے بڑا عیب مانتے تھے اور میں بھی ان کے نقش قدم پر چلتا ہوں
 
Top