ڈیل کا تاثر درست نہیں ہے احتساب کا عمل جاری رہے گا، وزیراعظم

جاسم محمد

محفلین
این ار او کا سلسلہ وار ڈرامہ ختم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان سیاسی بیماریوں کا ڈرامہ کب ختم ہوگا؟
cee01867-6425-41a2-9d05-99ebf8650a7e.jpg
 

آورکزئی

محفلین
نیازی پاکستان کے نوجوانوں میں مراد سعید جیسے جنون کا خواہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا
 

فرقان احمد

محفلین
خان صاحب بہت جلد جذباتی ہو جاتے ہیں۔ ایک بڑے رہنما میں کبھی یہ صفت پائی نہیں جاتی ہے۔ جناح فرماتے تھے کہ میں بھی جذبات رکھتا ہوں، مگر 'جذباتی' نہیں ہوتا ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہاں جو حادثاتی رہنما سامنے آتے رہے ہیں، خان صاحب اُس میں ایک اہم اور دلچسپ اضافہ ہیں۔ اُن کی گزشتہ تقریر اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ وہ گزشتہ دو روز تک مولانا صاحب کی تقاریر ہی سنتے رہے ہیں۔ یہ تقریر سچ مچ اس عظیم منصب کی توہین ہے تاہم ہمیں خان صاحب سے اسی طفلانہ اور مضحکہ خیز رویے کی توقع رہتی ہے۔ کرکٹ کھیلتے ہوئے بھی وہ آف دی فیلڈ اسی طرح کے جارحانہ رویے کا مظاہرہ کرتے تھے۔ کئی کھلاڑی ان کے مسلسل عتاب کا شکار رہے۔ تاہم، اُن کی عادت ہے کہ اپنے 'منصور اختر'کو مسلسل ناکامیوں کے بعد بھی کھلانا جاری رکھنا چاہیں گے تاہم 'قاسم عمر'کو ٹیلنٹ رکھنے کے باوجود ٹیم سے ذاتی عناد کے باعث باہر رکھیں گے۔ خان صاحب بلاشبہ کرکٹ کے عظیم کھلاڑی اور کپتان رہے، تاہم، اُن کی بعض عادات صحیح معنوں میں اُن کی شخصیت کو باوقار نہیں رہنے دیتی ہیں؛ منتقم مزاجی ان میں سے ہے۔ اب یہ عمر ایسی بھی نہیں ہے کہ ہم یہ توقع رکھیں کہ وہ خود کو سُدھار لیں۔ دُکھ ہوتا ہے کہ کیسے کیسے افراد ہمارے حکمران بن گئے، شاید یہ ہمارے گناہوں کی سزا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
خان صاحب بہت جلد جذباتی ہو جاتے ہیں۔ ایک بڑے رہنما میں کبھی یہ صفت پائی نہیں جاتی ہے۔ جناح فرماتے تھے کہ میں بھی جذبات رکھتا ہوں، مگر 'جذباتی' نہیں ہوتا ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہاں جو حادثاتی رہنما سامنے آتے رہے ہیں، خان صاحب اُس میں ایک اہم اور دلچسپ اضافہ ہیں۔ اُن کی گزشتہ تقریر اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ وہ گزشتہ دو روز تک مولانا صاحب کی تقاریر ہی سنتے رہے ہیں۔ یہ تقریر سچ مچ اس عظیم منصب کی توہین ہے تاہم ہمیں خان صاحب سے اسی طفلانہ اور مضحکہ خیز رویے کی توقع رہتی ہے۔ کرکٹ کھیلتے ہوئے بھی وہ آف دی فیلڈ اسی طرح کے جارحانہ رویے کا مظاہرہ کرتے تھے۔ کئی کھلاڑی ان کے مسلسل عتاب کا شکار رہے۔ تاہم، اُن کی عادت ہے کہ اپنے 'منصور اختر'کو مسلسل ناکامیوں کے بعد بھی کھلانا جاری رکھنا چاہیں گے تاہم 'قاسم عمر'کو ٹیلنٹ رکھنے کے باوجود ٹیم سے ذاتی عناد کے باعث باہر رکھیں گے۔ خان صاحب بلاشبہ کرکٹ کے عظیم کھلاڑی اور کپتان رہے، تاہم، اُن کی بعض عادات صحیح معنوں میں اُن کی شخصیت کو باوقار نہیں رہنے دیتی ہیں؛ منتقم مزاجی ان میں سے ہے۔ اب یہ عمر ایسی بھی نہیں ہے کہ ہم یہ توقع رکھیں کہ وہ خود کو سُدھار لیں۔ دُکھ ہوتا ہے کہ کیسے کیسے افراد ہمارے حکمران بن گئے، شاید یہ ہمارے گناہوں کی سزا ہے۔
خان صاحب کی صفات اس کالم میں منظر کشی کی گئی ہیں

سینئر پائلٹ کی مے ڈے مے ڈے کال
صابر شاکر

مے ڈے‘ مے ڈے‘ مے ڈے پائلٹ مے ڈے کی کال دے چکا ہے۔ 342 مسافر سوار ہیں‘ پرواز کی سکیو ر ٹی پر معمور سکیورٹی اہلکاروں سمیت عملے کے ارکان اس کے علاوہ ہیں۔ پرواز کے ٹیک آف کے وقت موسم مثالی حد تک قابل رشک تھااور کسی بُرے موسمی حالات کی پیش گوئی بھی نہیں کی گئی تھی‘ معمول کے خراب موسم کا اندازہ تھا۔ بڑا جہاز ہے‘ ڈبل ڈیکر‘پرواز سے پہلے ہر طرح کا فٹنس سرٹیفکیٹ لے لیا گیا تھا‘تمام شعبوں نے اچھی طرح جانچ پڑتال کے بعد'' اوکے‘‘ کی رپورٹ دی تھی۔پائلٹ کافی سینئرہے اور اس سے پہلے جہاز اڑانے کا وسیع تجربہ بھی رکھتا ہے‘ یہاں تک کہ معاون پائلٹ کے عدم تعاون اور دو نمبر یوں کے باوجود انتہائی خراب موسم اور طوفانوں سے بھی جہاز کو نکالنے کے فن سے واقف ہے اور سخت گرج چمک یہاں تک کہ جب آسمانی بجلی گررہی تھی‘ تب بھی جہاز کوتن تنہا بحفاظت اتارنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ زمینی عملے اور ماہرین نے بھی تب پائلٹ کی مکمل مدد اور رہنمائی کی تھی۔پائلٹ کے سینئر ہونے کی وجہ سے پرواز کے راستے میں آنے والے کم وبیش تمام ممالک کے سول اور ملٹری ایوی ایشنز اور ائیر ٹریفک کنٹرول کرنے والے اعلیٰ حکام اور زمینی عملے کے ساتھ اس کے مثالی تعلقات تھے اور ان کے تجربے اور ان کے اچھے رویے کی وجہ سے سب ہی ان کی عزت اور احترام کرتے تھے اور قد کاٹھ اور تگڑا ہونے کی وجہ سے لوگ ان سے ڈرتے بھی تھے۔
نئی پرواز کے ٹیک آف کرنے سے پہلے معاون پائلٹ کا انتخاب بھی اچھی طرح سوچ بچار کے بعد کیا گیا تھا۔ پہلے سے موجود تمام معاون پائلٹ کسی نہ کسی وجہ سے فٹنس سرٹیفکیٹ حاصل نہیں کرپائے تھے۔کچھ کرپشن کی وجہ سے فارغ ہوگئے‘ کْچھ سزاا پاگئے اور کْچھ ان کے رویوں کی وجہ سے تحریری امتحان اور انٹرویو میں فیل قرار پائے۔جس نئے معاون پائلٹ کا انتخاب کیا گیا‘ وہ بین الاقوامی پرواز سے پہلے کے لازمی گھنٹے پورے کرچکے تھے اور کئی ایک اندرون ملک آزمائشی پروازوں میں بھی وہ اپنے سینئرز کو مطمئن کرچکے تھے۔کیرئیر بھی بے داغ تھا‘ ایمانداری کے چرچے تو عام تھے‘ سب سے بڑھ کر معاون پائلٹ بہت پرعزم تھا کہ اسے جب بھی موقع ملا وہ ماضی کے ریکارڈ توڑدے گا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کا سٹیمنا بھی بہتر تھا‘لیکن معاون پائلٹ کے بارے میں ایک کنسرن پر تمام شعبے متفق تھے کہ معاون پائلٹ لچکدار رویہ نہیں رکھتا اور سب کچھ کے بارے میںدو اور دو چار کی طرح سوچتا ہے۔ ناگہانی حالات میں کچھ لو اور کْچھ دو کی پالیسی اختیار نہیں کرے گا ۔بائیس سال کا فیلڈ تجربہ بھی رکھتا ہے۔دورانِ پرواز دیگر ممالک سے راستہ بھی لینا پڑتا ہے تو مزاج کی وجہ سے مشکلات ہوسکتی ہیں۔یہ تمام کنسرنز معاون پائلٹ کی سیکرٹ فائل میں لکھے ہونے کے باوجود سینئر پائلٹ کا خیال تھا کہ نہیں اس وقت جہاز کیلئے نیا معاون پائلٹ وقت کی ضرورت ہے۔نئے خون کی ضرورت ہے ‘قابلِ رشک قیادت کی ضرورت ہے۔
یہ بھی کہا گیا کہ معاون پائلٹ کو جہاز اڑانے کا عملی تجربہ اس سے پہلے کا نہیں ہے‘ اس لئے اتنے بڑے جہاز میں فی الوقت معاون پائلٹ کی خدمات نہ لی جائیں‘تا ہم سینئر پائلٹ نے تمام اعتراضات مسترد کرتے ہوئے نئے معاون پائلٹ کا انتخاب کیا۔کو پائلٹ کی یہ پہلی بین الاقومی انڈی پینڈنٹ پرواز ہے۔ پائلٹ نے معاون پائلٹ کو کئی طویل لیکچر دئیے۔اپنے تجربے کی روشنی میں اس پروفیشن کی کئی ایک باریکیوں کے بارے میں اور دوران پرواز پیش آنے والی مشکلات سے نمٹنے کیلئے اہم رموز سے بھی آگاہ کیا۔بہت سے گُر سکھائے‘ خاص طور پر لچکدار رویے کے فوائد سے بھی بریف کیا اور یہ بھی بتایا کہ کبھی بھی ایر پاکٹس اور طوفان سے قبل از وقت بچنا ہے۔سامنے سے آنے والے طوفانوں سے مقابلہ کرنے کی بجائے اپنا رخ وقتی طور پر موڑ لینااور خراب موسموں سے کبھی نہ ٹکرانا‘اور جب بھی متعلقہ شعبے آپ کو رپورٹس ارسال کریں‘ ان پر اعتماد کرنا اور ان پر غور کرکے اگلی منصوبہ بندی کرنا اورجن پائلٹس کو مسترد کیا گیا ہے اور جنہیں آف لوڈ کیا گیا ہے‘ ان کے داؤ پیچ سے بچنا اور کبھی بھی ان کو اکٹھے نہ ہونے دینا ‘کیونکہ ان کی ٹریڈ یونین بہت بڑا مافیا ہے۔وہ آپ کو چلتے جہاز سے اتارنے کی کوشش کریں گے۔
سب کْچھ سمجھنے اور سننے کے بعد پائلٹ اور معاون پائلٹ نے سفر شروع کیا۔پرواز بالکل ہموار تھی اور اپنا سفر جاری رکھے ہوئے تھی‘ پانچ گھنٹے پرواز کا دورانیہ تھا کہ اچانک سوا گھنٹے کے بعد ہی پرواز انتہائی ناہموار ہوگئی۔دوران ِپرواز خراب موسم کی اطلاع قبل ازوقت کنٹرول ٹاور سے موصول ہوچکی تھی۔راستے میں آنے والے دیگر ممالک کے حکام نے بھی بچ بچا کر نکل جانے کا مشورہ دیا اور کْچھ آف لوڈ کئے گئے مسافروں کی طرف سے کی گئی منصوبہ بندی اور ان سے درگزر کرنے کا مشورہ بھی دیا ۔سینئر پائلٹ نے بھی ان باتوں پر دھیان دینے اور ان مشوروں پر عمل کرنے کا مشورہ دیا‘ لیکن معاون پائلٹ نے کسی کی ایک نہ سنی اور یہی کہا کہ جن کہ وجہ سے پرواز کا یہ حال ہوا ‘ان سے مدد نہیں لی جائے گی اور سفر جاری رکھا جائے گا۔پرواز کا رخ موڑنے کا کہا گیا۔ دوران پرواز سینئر پائلٹ بھی ایک خاص حد سے زیادہ اپنی من مانی نہیں کرسکتا۔جہاز میں کثیرالجہتی قسم کے ایشوز پیدا ہوچکے ہیں‘ سوفٹ ویئر اور کمیونی کمیشن سسٹم میں بھی وائرس آچکا ہے۔پیغامات جو بھیجے جارہے ہیں ‘وہ صحیح طور سمجھے نہیں جارہے یا پھر معاون پائلٹ سمجھنے کے باوجود سمجھنا نہیں چاہ رہااور اپنے آئی ٹی انجینئرز کے ذریعے سسٹم کو صحیح کرنا چاہتا ہے۔ مسئلہ صرف عام مسافروں کا نہیں ہے‘ بلکہ جہاز میں سینئر پائلٹ اور سکیو رٹی کے اعلیٰ حکام بھی سوار ہیں‘ جن کی اپنی زندگیاں بہت قیمتی ہیں۔ائیر پورٹ ابھی دور ہے کنٹرول ٹاور کنفیوژ ہے‘ پائلٹ کنٹرول ٹاور سے بدستور رابطے میں ہے‘ کبھی کبھی یہ رابطہ منقطع بھی ہوجاتا ہے‘پھر بحال ہوتا ہے پھر منقطع ہوتا ہے ۔غیر یقینی کی صورتحال ایسی ہے کہ پرواز کو لینڈنگ کی اجازت نہیں مل رہی‘ کیونکہ موسم بے اعتبار بھی ہے اور بدستور بدلتا ہوا بھی‘موسم کے معمول پر آنے کی کوئی مستند پیش گوئی کرنا ممکن نہیں۔
پرواز کے دورانئے میں ابھی بھی پونے چار گھنٹے پڑے ہیں۔فیول کا کوئی ایشو نہیں‘ بس پرواز کو کْچھ دیر کیلئے موسمی طوفان سے نکال کر محفوظ روٹ پر لے جائیں‘کیونکہ زمینی عملے کے کْچھ حکام بھی عدم تعاون پر ہیں۔ گو کہ سول اور ملٹری ایوی ایشن کا محکمہ ابھی بھی رہنمائی کررہا ہے اور متبادل روٹ میپ دے رہا ہے‘ لیکن معاون پائلٹ اپنی بات پر بضد ہے۔ اچانک معمولی آسمانی بجلی گرنے سے کمیونی کمیشن نظام بھی معمولی سا متاثر ہوا ہے‘ لیکن یہ ٹھیک ہوسکتا ہے۔سینئر پائلٹ نے معاون پائلٹ کو مشورہ دیا ہے کہ آپ دو گھنٹے آرام کریں اور آن لائن اپنے ساتھی ماہرین سے مشورہ بھی کرلیں۔معاون پائلٹ ریٹائرنگ روم میں دو گھنٹے آرام اور مشاورت کے بعد واپس آیا اور پھر اپنا موقف دُہرایا کہ وہ اکیلے ہی اس پرواز کو لے کر آگے جائیں گے اور سفر جاری رکھیں گے۔سینئر پائلٹ کو بھی انہوں نے جواب دے دیا ہے اور مسافروں سے براہ راست مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ انہیں طوفانوں سے ڈرایا جارہا ہے۔ زمینی عملے کی طرف سے عدم تعاون کی دھمکی دی جارہی ہے اور کہا جارہا ہے کہ میں ان کی باتیں مان لُوں‘ صورتحال انتہائی گمبھیر ہے ۔سینئر پائلٹ کو بار بار کہا جارہا ہے کہ آپ فضا میں چکر لگاتے رہیں‘نیچے بھی صورتحال غیر معمولی ہے۔
محکمہ سیاسی موسمیات کے مطابق ‘اسلام آباد اور راولپنڈی کے مضافات میں مطلع بدستور ابر آلود ہے‘ گرج چمک اور طوفان کا یہ سلسلہ مزید 9 دن تک جاری رہے گا۔اس لئے سینئر پائلٹ معاون پائلٹ کو پیار محبت سے ہینڈل کررہا ہے ‘تاکہ موسم بہتر ہوتے ہی وہ اکیلے فیصلہ کریں اور جہاز کو بحفاظت اتار لیں‘تاکہ مسافر بھی بچ جائیں اور پائلٹ اور معاون پائلٹ بھی۔ مے ڈے کال آن ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
خان صاحب بہت جلد جذباتی ہو جاتے ہیں۔ ایک بڑے رہنما میں کبھی یہ صفت پائی نہیں جاتی ہے۔ جناح فرماتے تھے کہ میں بھی جذبات رکھتا ہوں، مگر 'جذباتی' نہیں ہوتا ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہاں جو حادثاتی رہنما سامنے آتے رہے ہیں، خان صاحب اُس میں ایک اہم اور دلچسپ اضافہ ہیں۔ اُن کی گزشتہ تقریر اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ وہ گزشتہ دو روز تک مولانا صاحب کی تقاریر ہی سنتے رہے ہیں۔ یہ تقریر سچ مچ اس عظیم منصب کی توہین ہے تاہم ہمیں خان صاحب سے اسی طفلانہ اور مضحکہ خیز رویے کی توقع رہتی ہے۔ کرکٹ کھیلتے ہوئے بھی وہ آف دی فیلڈ اسی طرح کے جارحانہ رویے کا مظاہرہ کرتے تھے۔ کئی کھلاڑی ان کے مسلسل عتاب کا شکار رہے۔ تاہم، اُن کی عادت ہے کہ اپنے 'منصور اختر'کو مسلسل ناکامیوں کے بعد بھی کھلانا جاری رکھنا چاہیں گے تاہم 'قاسم عمر'کو ٹیلنٹ رکھنے کے باوجود ٹیم سے ذاتی عناد کے باعث باہر رکھیں گے۔ خان صاحب بلاشبہ کرکٹ کے عظیم کھلاڑی اور کپتان رہے، تاہم، اُن کی بعض عادات صحیح معنوں میں اُن کی شخصیت کو باوقار نہیں رہنے دیتی ہیں؛ منتقم مزاجی ان میں سے ہے۔ اب یہ عمر ایسی بھی نہیں ہے کہ ہم یہ توقع رکھیں کہ وہ خود کو سُدھار لیں۔ دُکھ ہوتا ہے کہ کیسے کیسے افراد ہمارے حکمران بن گئے، شاید یہ ہمارے گناہوں کی سزا ہے۔
یہ ہمارے گناہوں کی نہیں، آپ کے ہر دلعزیز اسٹیبلشمنٹ کے گناہوں کی سزا ہے جوپوری قوم بھگت رہی ہے۔
جب دن دھیاڑے ہٹے کٹے نواز شریف کو ایئر ایمبولنس کے نام پر چونا لگا کر قطری شاہی جہاز میں بیٹھا کر ملک سے فرار کروایا جائے گا تو کپتان جیسے مضبوط اعصاب کا مالک بھی آپے سے باہر ہوگا۔ یہ عین فطری رد عمل ہے۔
Whats-App-Image-2019-11-19-at-14-48-36.jpg
 
دُکھ ہوتا ہے کہ کیسے کیسے افراد ہمارے حکمران بن گئے، شاید یہ ہمارے گناہوں کی سزا ہے۔
درست کہتے ہیں۔ نظام سقے کو ایک دن کی بادشاہت دینے کے بجائے اگر پانچ سال تک مسلط کردیا جائے تو اسے ہمارے گناہوں کی سزا سے ہی تعبیر کرسکتے ہیں۔

ایک کھلاڑی جس نے کرکٹ کھیلنے کے علاؤہ آج تک کوئی اور کام کیا ہی نہ ہو، اسے اچانک چیف ایگزیکیٹیو کی پوسٹ پر بٹھادیا جائے تو ایسی ہی بونگیاں مارے گا جیسی کپتان صاحب گزشتہ چودہ ماہ سے ماررہے ہیں۔ تقریباً ہر فیصلے پر وقت گزرنے کے بعد ہو ٹرن لینا ان کی فطرتِ ثانیہ بن چکا ہے۔

کیا ملک ایسے چلتے ہیں؟ فارن پالیسی کا یہ عالم ہے کہ دنیا کا ہر ملک آپ کے خلاف ہوچکا ہے۔ معیشت کا بیڑہ غرق ہونے میں کوئی کسر نہیں رہ گئی۔ گزشتہ چودہ ماہ میں کوئی ایک ڈھنگ کا کام کیا ہو تو ہم جانیں۔ ملک میں اقربا پروری عروج پر ہے۔ زلفی بخاری، ابرار الحق، کس کس کو نہیں نوازا جارہا۔ فارن فنڈنگ کیس کو ایک انچ آگے بڑھنے نہیں دیا جارہا۔
 

جاسم محمد

محفلین
۔ معیشت کا بیڑہ غرق ہونے میں کوئی کسر نہیں رہ گئی۔
جب ملک کی معیشت ریکارڈ خساروں کی وجہ سے دیوالیہ پن کی جانب رواں دواں تھی قوم ستو پی کر سو رہی تھی۔ کیونکہ روز مرہ کی اشیا سستی اور کاروبار کی ریل پیل تھی۔ اس کا عوام نے یہ مطلب نکال لیا کہ معیشت بالکل ٹھیک ہے۔ حالانکہ وہ مصنوعی سستے ڈالر کی وجہ سے سستے امپورٹ پر استوار تھی۔
جب نئی حکومت نے آکر سستی امپورٹ پر قائم معیشت ٹھپ کرکے ا اسے مستحکم کیا تو ساری جعلی معیشت کی حقیقت مہنگائی کی صورت میں کھل کر سامنے آگئی۔ بجائے قوم اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے پچھلی حکومت کے نمائندوں کو پکڑتی۔ یہ الٹا اپوزیشن کے ساتھ مل کر نئی حکومت کے دیوالے ہیں جو پچھلے 15 ماہ سے انتھک محنت کر کے معیشت کو خساروں سے نکال رہی ہے۔
اس قوم کا حال اس نشئی جیسا ہے جو دوران علاج دوسرے نشئی کے ساتھ مل کر نشہ چھڑوانے والے ڈاکٹر کو گالیاں دیتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
زلفی بخاری، ابرار الحق، کس کس کو نہیں نوازا جارہا۔
جب تک عدالتوں میں ن لیگ کے حامی جج بیٹھے ہیں اس حکومت میں کسی کو نوازا جانا ممکن ہی نہیں۔ حکومت جس بڑے عہدہ سے کسی پرانے افسر کو ہٹائے تو عدالتیں وہ فیصلہ ہی کالعدم کر دیتی ہیں۔ اور اگر کہیں کوئی نیا بندہ لگاؤ تو اسے فوری معطل۔ ابرار الحق بھی ہلال احمر کی سربراہی سے اگلے ہی روز فارغ کر دیا گیا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
فارن پالیسی کا یہ عالم ہے کہ دنیا کا ہر ملک آپ کے خلاف ہوچکا ہے۔
عمران خان کی اقوام متحدہ والی تقریر کو دنیا میں سب سے زیادہ پذیرائی ملی ہے۔ وہیں پر ترکی اور ملائیشیا نے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
بھارت کی بارہا کوششوں کے باوجود اتحادیوں سے بہترین تعلقات کی بنا پر پاکستان کا نام ایف اے ٹی ایف میں تا حال بلیک لسٹ نہیں کیا جا سکا۔
چین، سعودی ارب، امارات، ایران الغرض تمام علاقائی قوتوں کے ساتھ پاکستان کے اچھے تعلقات جا رہے ہیں۔ بھارت نے کرتارپور کھول دیا۔ افغانستان نے ترخام کھول دیا۔ ٹرمپ عمران خان کی تعریفیں کئے تھکتا نہیں۔ ان تمام کامیابیوں کے باوجود الزام ہے کہ ہر ملک پاکستان کے خلاف ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
فارن فنڈنگ کیس کو ایک انچ آگے بڑھنے نہیں دیا جارہا۔
جس اسٹیبلشمنٹ نے چھٹی والے دن عدالتیں کھلوا کر ایک سزا یافتہ قومی چور کو 50 روپے کے بانڈ پر ملک سے فرار کروایا ہے۔ وہ یہ فارن فنڈنگ والا کیس بھی ضرورت پڑنے پر کھول دیں گے۔ اور اس کا فیصلہ بھی متوقع آئے گا۔
 
Top