زیرک کی پسندیدہ اردو نظمیں

زیرک

محفلین
چلو کچھ منفرد لکھیں

محبت کو سزا لکھیں
اذیت کو جزا لکھیں
تجھے اب بیوفا لکھیں
عدم کو پارسا لکھیں
چلو کچھ منفرد لکھیں

گلی کوچوں کو گھر لکھیں
قفس کو بال و پر لکھیں
خرد کو بے خبر لکھیں
جنوں کو معتبر لکھیں
چلو کچھ منفرد لکھیں

شبِ غم کا فغاں لکھیں
حریفِ جاں کو جاں لکھیں
'نہیں' کو مثلِ ہاں لکھیں
زمیں کو آسماں لکھیں
چلو کچھ منفرد لکھیں​
 

زیرک

محفلین
کھیل ہے مقدر کا
ملنا اور بِچھڑ جانا
زِیست کی جو گاڑی ہے
یہ تو بس مقدر کے
راستوں پہ چلتی ہے
راستے جدا سب کے
منزلیں الگ سب کی
اور یہاں مقدر بھی
کس کا کس سے مِلتا ہے
راستوں کی مرضی ہے
جس طرف بھی لے جائیں
سامنے مقدر کے
زور کس کا چلتا ہے​
 

زیرک

محفلین
پاس آیا کبھی اوروں کے کبھی دور ہوا
گو کہ معمولی سا مہرہ تھا
مگر جیت گیا
یوں اک روز وہ بڑا مہرہ بنا
اب وہ محفوظ ہے اک خانے میں
اتنا محفوظ کہ دشمن تو الگ
دوست بھی پاس نہیں آ سکتے
اس کے اک ہاتھ میں ہے جیت اس کی
دوسرے ہاتھ میں تنہائی ہے

جاوید اختر​
 

زیرک

محفلین
اعتراف

سچ تو یہ ہے کہ قصور ہمارا ہے
چاند کو چھونے کی تمنا کی
آسمان کو زمین پر مانگا
پھول چاہا کہ پتھروں پہ کھلے
کانٹوں میں کی تلاش خوشبو کی
آگ سے مانگتے رہے ٹھنڈک
خواب جو دیکھا
چاہا سچ ہو جائے
اس کی ہم کو سزا تو ملنی تھی

جاوید اختر​
 

زیرک

محفلین
نیا حکم نامہ

کسی کا حکم ہے ساری ہوائیں
ہمیشہ چلنے سے پہلے بتائیں
کہ ان کی سمت کیا ہے؟
ہواؤں کو بتانا یہ بھی ہو گا
چلیں گی جب تو کیا رفتار ہو گی
کہ آندھی کی اجازت اب نہیں ہے
ہماری ریت کی سب یہ فصیلیں
یہ کاغذ کے محل جو بن رہے ہیں
حفاظت ان کی کرنا ہے ضروری
اور آندھی ہے پرانی ان کی دشمن
یہ سب ہی جانتے ہیں
کسی کا حکم ہے دریا کی لہریں
ذرا یہ سرکشی کم کر لیں
اپنی حد میں ٹھہریں
ابھرنا پھر بکھرنا
اور بکھر کر پھر ابھرنا
غلط ہے ان کا یہ ہنگامہ کرنا
یہ سب ہے صرف وحشت کی علامت
بغاوت کی علامت
بغاوت تو نہیں برداشت ہو گی
یہ وحشت تو نہیں برداشت ہو گی
اگر لہروں کو ہے دریا میں رہنا
تو ان کو ہو گا اب چپ چاپ بہنا
کسی کا حکم ہے اس گلستاں میں
بس اب اک رنگ کے ہی پھول ہوں گے
کچھ افسر ہوں گے
جو یہ طے کریں گے
گلستاں کس طرح بننا ہے کل کا
یقیناً پھول یکرنگی تو ہوں گے
مگر یہ رنگ ہو گا کتنا گہرا، کتنا ہلکا
یہ افسر طے کریں گے
کسی کو کوئی یہ کیسے بتائے
گلستاں میں کہیں بھی پھول یکرنگی نہیں ہوتے
کبھی ہو ہی نہیں سکتے
کہ ہر اک رنگ میں چھپ کر بہت سے رنگ رہتے ہیں
جنہوں نے باغ یکرنگی بنانا چاہے تھے ان کو ذرا دیکھو
کہ جب اک رنگ میں سو رنگ ظاہر ہو گئے ہیں تو
وہ اب کتنے پریشاں ہیں وہ کتنے تنگ رہتے ہیں
کسی کو کوئی یہ کیسے بتائے
ہوائیں اور لہریں کب کسی کا حکم سنتی ہیں
ہوائیں حاکموں کی مٹھیوں میں
ہتھکڑی میں قید خانوں میں نہیں رکتیں
یہ لہریں روکی جاتی ہیں
تو دریا جتنا بھی ہو پر سکوں بے تاب ہوتا ہے
اور اس بے تابی کا اگلا قدم سیلاب ہوتا ہے
کسی کو یہ کوئی کیسے بتائے

جاوید اختر​
 

زیرک

محفلین
آپ اگر سمجھتے ہیں
راستہ بدلنے سے
جان چھوٹ جاتی ہے
ساتھ چھوڑ دینے سے
ساتھ چھوٹ جاتا ہے
آپ اگر سمجھتے ہیں
ہجر کاٹ لینے سے
ہجر کٹ ہی جاتا ہے
جان کو نہیں آتا
آپ اگر سمجھتے ہیں
وقت کے گزرنے سے
زخم بھرنے لگتے ہیں
آپ کو خدا سمجھے

افتخار حیدر​
 

زیرک

محفلین
بات تو بگڑنا تھی
بات ہی کچھ ایسی تھی
اس طرح نہیں ہوتا
دو دلوں کی دنیا میں
تیسرا نہیں ہوتا

افتخار حیدر​
 

زیرک

محفلین
سنو
گر
زندگی تم کو ملے
تو اس سے کہہ دینا
کہ ہم نے اس کو ٹھکرا کر
فقط سانسوں کو جھیلا ہے
کبھی ہم جی نہیں پائے
سزائے عمر کاٹی ہے
رہا بھی ہو نہیں پائے​
 

زیرک

محفلین
نمی دے کر جو مٹی کو
مسلسل گوندھتے ہو تم
بتاؤ
کیا بناؤ گے؟
کوئی کوزہ، کوئی مورت
یا پھر محبوب کی صورت؟
سخنور ہوں
کہو تو مشورہ اک دوں؟
یہ گھاٹے کا ہی سودا ہے
یہاں مٹی کی مورت کی
اگر آنکھیں بناؤ گے
تمہیں آنکھیں دکھائیں گی
تراشو گے زبان اس کی
تو تُرشی جھیل پاؤ گے؟
اگر جو دل بنایا تو
ہزاروں خواہشیں بن کر
تمہیں تم سے ہی مانگیں گی
عطائے خلعت احمر
اسے خود سر بنا دے گی
اسے اپنی محبت کا
جو نادر تاج پہنایا
خدا خود کو یہ سمجھے گی
ابھی بھی وقت ہے
مانو
ارادہ ملتوی کر دو​
 

زیرک

محفلین
آج تیسرا دن ہے

تیز دھوپ کی کرنیں
آ رہی ہیں بستر پر
چبھ رہی ہیں چہرے میں
اس قدر نکیلی ہیں
جیسے رشتے داروں کے
طنز میری غربت پر
آنکھ کھل گئی میری
آج کھوکھلا ہوں میں
صرف خول باقی ہے
آج میرے بستر میں
لیٹا ہے مِرا ڈھانچہ
اپنی مردہ آنکھوں سے
دیکھتا ہے کمرے کو
آج تیسرا دن ہے​
 

زیرک

محفلین
زہزنوں کا بسیرا ہے جہاں ہم تم ہیں
ہر طرف ایک اندھیرا ہے جہاں ہم تم ہیں
اور بہت دور سویرا ہے جہاں ہم تم ہیں
یہ تبسم کی سپر کام نہیں آ سکتی
راہ پر گردشِ ایام نہیں آ سکتی

عزیز حامد مدنی​
 

زیرک

محفلین
ترے ہجراں نصیبوں پر گراں یہ رات بھی کب ہے
چمک اٹھتی ہیں کلیاں درد کی وہ نالۂ شب ہے
نہ پوچھ اے دوست کس منزل پہ دل کا قافلہ اب ہے
سحر کی لاگ، چشمِ خوں فشاں تھی، نارسائی تک
پہنچنے ہی کو ہے دستِ جنوں، دستِ حنائی تک

عزیز حامد مدنی​
 

زیرک

محفلین
کج کلاہی پہ ہنسیں بندہ پناہی پہ ہنسیں
جرم و عصیاں کی اس آوارہ نگاہی پہ ہنسیں
صبح تک رات کی پر ہول سیاہی پہ ہنسیں
اور اک زندہ حقیقت کے پرستار بنیں
زندگی جرم ابھی تک ہے خطاکار بنیں
اور اک زہر کا جام، ایک صلیب اور سہی
آج سقراط و مسیحا کا نصیب اور سہی

عزیز حامد مدنی​
 

زیرک

محفلین
سانس اب خار و خس سے الجھی ہے
دل الجھتا ہے نکتہ چینوں سے
آدمی کو پرکھ سکے نہ کبھی
دیکھنے والے خوردبینوں سے
کس قدر دردناک منظر ہے
غمگساروں نے راستے بدلے
سنگِ طفلاں ہے اور مرا سر ہے

عزیز حامد مدنی​
 

زیرک

محفلین
بیتے دنوں کی یادیں

اے دوست بتا سب کیسا ہے
کیا محلہ اب بھی ویسا ہے
وہ لوگ پرانے کیسے ہیں
کیا اب بھی سب وہیں رہتے ہیں
جن کو میں تب چھوڑ گیا تھا
کارنر پہ دکان تھی اک چھوٹی سی
جہاں بوڑھا چاچا ہوتا تھا
کیا چیزیں اب بھی ہیں ملتی
بسکٹ، پاپڑ، کھٹی میٹھی گولیاں
وہ سب متروں کی بولیاں
اور بچوں کے ٹولیاں
کیا سب ابھی تک ویسے ہیں
مری یادوں میں جو بستے ہیں

تُک بندی​
 

زیرک

محفلین
شقی القلب ہمسایہ کے نام

اس خون کو ارزاں مت سمجھو
اس دھرتی پر کچھ رحم کرو
ہم دنیا کو بتلائیں گے
اور تم کو بھی جتلائیں گے
تم باہر سے بھی وحشی ہو
تم اندر سے بھی وحشی ہو
اب کتنی عزتیں لوٹو گے
اور کتنے گھر اجاڑو گے
یہ دنیا کب تک دیکھے گی
بہتا ہوا خون جوانوں کا
یہ عالم کب تک دیکھے گا
اڑتا ہوا رنگ چناروں کا
اب باتیں قصے بہت ہوئے
یہ وقت ہے اب آزادی کا
اب دنیا کو بتلانا ہے
اور عالم کو دکھلانا ہے
تم باہر سے بھی وحشی ہو
تم اندر سے بھی وحشی ہو
ہوئی مسلم کی ہمشیر لہو
ہوا سارا ہی کشمیر لہو
تم قاتل عصمت و حرمت کے
تم عادی ظلم و ظلمت کے
اب سن لو اے ظالم انسان
تم سے شرماتا ہے شیطان
کہے بوڑھا بچہ اور جوان
کشمیر بنے گا پاکستان
کشمیر بنے گا پاکستان​
 

زیرک

محفلین
نظم کا یہ بند ہمارے عہد المیہ کی عکاسی کرتا ہے
رستہ کوئی واضح ہے، نہ منزل کا نشاں ہے
سب نفع کے پیچھے ہیں یہی سب کا زیاں ہے
سونے کی نظر ہے یہاں پیسے کی زباں ہے
ارزاں ہے کوئی چیز تو اک خوابِ گراں ہے
الجھی ہوئی باتوں میں بہت پیچ ہیں، خم ہیں
بت خانۂ مذہب میں تخیل کے صنم ہیں​
 

زیرک

محفلین
وہی شاعری میں کہا کرو
کوئی واردات کہ دن کی ہو
کوئی سانحہ کسی رات ہو
نہ امیرِ شہر کا ذکر ہو
نہ غنیمِ وقت کی بات ہو
کہیں تار تار ہوں عصمتیں
میرے دوستوں کو نہ دوش دو
جو کہیں ہو ڈاکہ زنی اگر
تو نہ کوتوال کا نام لو
کسی تاک میں ہیں لگے ہوئے
میرے جاں نثار گلی گلی

احمد فراز​
 

جاسمن

لائبریرین
پریتم ایسی پریت ناں کریو جیسی کہ کھجور
دھوپ لگے تو سایہ ناہیں، بھوک لگے پھل دُور
پریت ناں کریو پنچھی جیسی جل سوکھے اُڑ جائے
پریت تو کریو مچھلی جیسی جل سوکھے مر جائے
پریت کبیرا! ایسی کریو جیسی کرے کپاس
جیو تو تن کو ڈھانپے مرو تو نہ چھوڑے ساتھ

بھگت کبیر​
خوب!
 

مقبول

محفلین
ذرا دیکھ کے چال ستاروں کی
کوئی زائچہ کھینچ قلندر سا
کوئی ایسا جنتر منتر پڑھ
جو کر دے بخت سکندر سا

کوئی چِلہ ایسا کاٹ کہ پھر
کوئی اس کی کاٹ نہ کر پائے
کوئی ایسا دے تعویذ مجھے
وہ مجھ پر عاشق ہو جائے

کوئی فال نکال کرشمہ گر
مِری راہ میں پھول گلاب آئیں
کوئی پانی پھُوک کے دے ایسا
وہ پیئے تو میرے خواب آئیں

کوئی ایسا کالا جادو کر
جو جگمگ کر دے میرے دن
وہ کہے مبارک جلدی آ
اب جیا نہ جائے تیرے بِن

کوئی ایسی رہ پہ ڈال مجھے
جس راہ سے وہ دلدار ملے
کوئی تسبیح دم درود بتا
جسے پڑھوں تو میرا یار ملے

کوئی قابو کر بے قابو جن
کوئی سانپ نکال پٹاری سے
کوئی دھاگہ کھینچ پراندے کا
کوئی منکا اِکشا دھاری سے

کوئی ایسا بول سکھا دے نا
وہ سمجھے خوشگفتارہوں میں
کوئی ایسا عمل کرا مجھ سے
وہ جانے، جان نثار ہوں میں

کوئی ڈھونڈھ کے وہ کستُوری لا
اسے لگے میں چاند کے جیسا ہوں
جو مرضی میرے یار کی ہے
اسے لگے میں بالکل ویسا ہوں

کوئی ایسا اسمِ اعظم پڑھ
جو اشک بہا دے سجدوں میں
اور جیسے تیرا دعویٰ ہے
محبوب ہو میرے قدموں میں

پر عامل رک، اک بات کہوں
یہ قدموں والی بات ہے کیا؟
محبوب تو ہے سر آنکھوں پر
مجھ پتھر کی اوقات ہے کیا

اور عامل سن یہ کام بدل
یہ کام بہت نقصان کا ہے
سب دھاگے اس کے ہاتھ میں ہیں
جو مالک کل جہان کا ہے​
خوبصورت شاعری
شاعر کون ہیں
 
Top