بچوں کے لئے نظمیں ، کیسے لکھی جائیں؟

جاسمن

لائبریرین
اچھا موضوع ہے۔
بعض اوقات آپ کو وقت پڑنے پہ اپنی کچھ خفیہ صلاحیتوں کا اندازہ ہوتا ہے۔
اپنے بیٹے کو لوریاں سنانی شروع کیں تو کئی لوریاں/نظمیں خود گڑھیں۔:)
کئی گانے اپنے بچوں کے لیے گاتی رہی بلکہ اب بھی کبھی کبھی گانے لگ جاتی ہوں۔۔۔:)
کافی کہانیاں بھی خود سے انھیں سنایا کرتی تھی۔۔۔:)
 

فاخر

محفلین
بچوں کے لیے نظمیں کیسے لکھی جائیں؟ نظموں ہی پر کچھ موقوف نہیں ، بچوں کا ادب کیسے لکھا جائے؟ ہمارے نزدیک اس کا ایک نہایت آسان فارمولہ ہے۔آپ آسان پر ضرور چونک اٹھے ہیں۔جی ہاں، بہت آسان ۔ اساتذہ اور معزز محفلین کے بیان کیے گئے تکنیکی بیانات اپنی جگہ پر بالکل درست ہیں لیکن ان سے بھی پہلے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بچوں کے لیے لکھتے وقت خود بچے بن جائیں۔ خود کو ایک بچے کے روپ میں مکمل ڈھال لیں۔ نہ صرف الفاظ و تراکیب کے لحاظ سے بلکہ اس حیرت کو بھی اپنا لیں جو بچوں کے مزاج کا خاصہ ہے۔ بڑوں کے لیے روزمرہ واسطہ پڑنے والی کوئی بات حیرت انگیز نہیں۔ البتہ ناقابلِ یقین قسم کی کسی بھی بات یا واقعے کو تسلیم کرنے سے وہ انکار کردیتے ہیں۔ بچوں کے لیے اس دنیا کی ہر بات نئی اور قابلِ یقین ہے۔ وہ ہر واقعے کو قبول کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔

ایمان صاحبہ ایک دن گھر تشریف لائیں تو ان کے بارے سے کچھ فلیش کارڈز نکلے۔ ہم والدین کی زمہ داری بچے کو ان فلیش کارڈز کی مشق کروانا تھی۔ وہ الفاظ یہ تھے؛

نرم۔ بلی۔ پسند۔ لال۔گلابی۔کالا۔ میری۔ میں۔ ہوں ۔ ہرا۔ نیلا۔ پیلا۔
پہلے تو کچھ دیر مشق کرواتے رہے۔ پھر ہم نے انہیں بغیر کیس ترتیب کے الماری کے شیشے پر چپکادیا۔

اب ہمارے اندر کا شاعر جاگا اور ہم نے مندرجہ ذیل نظم ایک خاص دھن میں بنائی اور گانے لگے۔ کچھ ہی دیر میں ایمان بھی ہمارے ساتھ یہ نظم اسی جوش و خروش سے گارہی تھیں۔ نظم پیشِ خدمت ہے؛

نرم پسند میری
میں ہوں بلی
لال کالا ہرا،
نیلا پیلا گلابی
لال کالا ہرا،
نیلا پیلا گلابی
نیلا پیلا گلابی
پیلا گلابی
کتنا اچھا گانا پپا نے بنایا
ہم دونوں نے بنایا
ہم سب نے بنایا
ہے۔

یہ بے معنی نظم ہمارے بچوں، بھتیجوں بھجیجیوں سب کو آج بھی یاد ہے اور کبھی کبھی جب ہم مل بیٹھتے ہیں، یا کبھی پکنک وغیرہ پر موقع ملتا ہے تو اسی جوش سے ایک مرتبہ یہ گیت ضرور گاتے ہیں۔

بچوں کی جتنی نظمیں ہم نے محفل میں پیش کی ہیں ، پہلے اپنے بیوی بچوں کو ان گنت مرتبہ لہک لہک کر سناچکے ہیں۔

مزید کیا کہیں!!!

محترم خليل صاحب كى كئی نظمیں میں مستقل پڑھ چکا ہوں،بالخصوص ’’گول کچالو‘‘ والی نظم ؛لیکن کسی طرح کے ردعِمل سے گریز بھی کررہا تھا ۔ میں اس ضمن میں تذبذب کا شکار تھا کہ حضرت نظم کے شاعر ہیں یا پھر غزل کے ؟ آج یہ تحریر پڑھ کر آشکارا ہوا کہ وہ تو ’’بچوں کے شاعر‘‘ ہیں۔ سبحان اللہ! کیا کہنے۔ بچوں کا شاعر ہونا میرے نزدیک خود ایک صنف ہے اور یہ صنف میں دسترس یا مہارت بالخصوص انہیں ہوتی ہے،جو فکر وخیال اور شعور و وجدان کے موافق وہ خود’’بچے ہوں‘‘۔ظاہر یہ وجدان و شعور انہیں ہی ملتا ہے ،جو بچوں کے ذہن کے بالکل قریب ہوں۔
میری ادنیٰ رائے کے مطابق :’ وارث صاحب نے بہت کچھ باتیں کہی ہیں، جو قابلِ عمل اور قابلِ تقلید ہیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
بچوں کو لے کے خود ریل گاڑی بن کر:D
ٹرین پہ چلیں گے بھئی ٹرین پہ چلیں گے
ٹرین یہ لاہور سے چلتی ہے بھئی چلتی ہے۔
چھک چھک چھک چھک چھک چھک چھک
پووووووووں
پووووووووں
چھک چھک چھک چھک چھک چھک چھک
پووووووووں
پووووووووں
خانیوال آیا بھئی خانیوال آیا
خانیوال آیا بھئی خانیوال آیا
رک رک رک رک رکتی ہے(ہم بھی آہستہ آہستہ رک گئے)
اترو گے؟
نہیں بھئی نہیں
چھک چھک چھک چھک چھک چھک چھک
پووووووووں
پووووووووں
ملتان آیا بھئی ملتان آیا
ملتان آیا بھئی ملتان آیا
رک رک رک رک رکتی ہے
اترو گے؟
نہیں بھئی نہیں
چھک چھک چھک چھک چھک چھک چھک
پووووووووں
پووووووووں
بہاولپور آیا بھئی بہاولپور آیا
بہاولپور آیا بھئی بہاولپور آیا
رک رک رک رک رکتی ہے
اترو گے؟
ہاں بھئی ہاں
بابا جانی سٹیشن پہ لینے کے لیے ے ے
آئے ہوئے ہیں بھئی آئے ہوئے ہیں
بابا جانی کے کاندھے پہ چڑھ کے
گھر جائیں گے بھئی گھر جائیں گے
لو جی ی ی ہم گھر آگئے
ہم گھر آگئے
 
کاش ہم بچہ ہی رہتے
عبیداللہ علیم


فلسفی بولے
زمیں کے ہاتھ میں اک شاخ ہے زیتون کی
بجھ گئی تو بجھ گئی اور کھِل اٹھی تو کھِل اٹھی
ہم ہی مر جائیں گے اک دن وقت تو مرتا نہیں
کاش ہم بچہ ہی رہتے
اور کبھی نہ ٹوٹنے والے کھلونے کھیلتے
 

محمداحمد

لائبریرین
بچوں کے لیے نظمیں کیسے لکھی جائیں؟ نظموں ہی پر کچھ موقوف نہیں ، بچوں کا ادب کیسے لکھا جائے؟ ہمارے نزدیک اس کا ایک نہایت آسان فارمولہ ہے۔آپ آسان پر ضرور چونک اٹھے ہیں۔جی ہاں، بہت آسان ۔ اساتذہ اور معزز محفلین کے بیان کیے گئے تکنیکی بیانات اپنی جگہ پر بالکل درست ہیں لیکن ان سے بھی پہلے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بچوں کے لیے لکھتے وقت خود بچے بن جائیں۔ خود کو ایک بچے کے روپ میں مکمل ڈھال لیں۔ نہ صرف الفاظ و تراکیب کے لحاظ سے بلکہ اس حیرت کو بھی اپنا لیں جو بچوں کے مزاج کا خاصہ ہے۔ بڑوں کے لیے روزمرہ واسطہ پڑنے والی کوئی بات حیرت انگیز نہیں۔ البتہ ناقابلِ یقین قسم کی کسی بھی بات یا واقعے کو تسلیم کرنے سے وہ انکار کردیتے ہیں۔ بچوں کے لیے اس دنیا کی ہر بات نئی اور قابلِ یقین ہے۔ وہ ہر واقعے کو قبول کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔

ایمان صاحبہ ایک دن گھر تشریف لائیں تو ان کے بارے سے کچھ فلیش کارڈز نکلے۔ ہم والدین کی زمہ داری بچے کو ان فلیش کارڈز کی مشق کروانا تھی۔ وہ الفاظ یہ تھے؛

نرم۔ بلی۔ پسند۔ لال۔گلابی۔کالا۔ میری۔ میں۔ ہوں ۔ ہرا۔ نیلا۔ پیلا۔
پہلے تو کچھ دیر مشق کرواتے رہے۔ پھر ہم نے انہیں بغیر کیس ترتیب کے الماری کے شیشے پر چپکادیا۔

اب ہمارے اندر کا شاعر جاگا اور ہم نے مندرجہ ذیل نظم ایک خاص دھن میں بنائی اور گانے لگے۔ کچھ ہی دیر میں ایمان بھی ہمارے ساتھ یہ نظم اسی جوش و خروش سے گارہی تھیں۔ نظم پیشِ خدمت ہے؛

نرم پسند میری
میں ہوں بلی
لال کالا ہرا،
نیلا پیلا گلابی
لال کالا ہرا،
نیلا پیلا گلابی
نیلا پیلا گلابی
پیلا گلابی
کتنا اچھا گانا پپا نے بنایا
ہم دونوں نے بنایا
ہم سب نے بنایا
ہے۔

یہ بے معنی نظم ہمارے بچوں، بھتیجوں بھجیجیوں سب کو آج بھی یاد ہے اور کبھی کبھی جب ہم مل بیٹھتے ہیں، یا کبھی پکنک وغیرہ پر موقع ملتا ہے تو اسی جوش سے ایک مرتبہ یہ گیت ضرور گاتے ہیں۔

بچوں کی جتنی نظمیں ہم نے محفل میں پیش کی ہیں ، پہلے اپنے بیوی بچوں کو ان گنت مرتبہ لہک لہک کر سناچکے ہیں۔

مزید کیا کہیں!!!

بہت خلیل بھائی!

یعنی بچوں سی معصومیت اختیار کی جائے اور معصومانہ تحیر کے ساتھ سوچا جائے۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
اچھا موضوع ہے۔
بعض اوقات آپ کو وقت پڑنے پہ اپنی کچھ خفیہ صلاحیتوں کا اندازہ ہوتا ہے۔
اپنے بیٹے کو لوریاں سنانی شروع کیں تو کئی لوریاں/نظمیں خود گڑھیں۔:)
کئی گانے اپنے بچوں کے لیے گاتی رہی بلکہ اب بھی کبھی کبھی گانے لگ جاتی ہوں۔۔۔:)
کافی کہانیاں بھی خود سے انھیں سنایا کرتی تھی۔۔۔:)

زبردست!
 
مجھے بیگم نے تحریک دینے کی کوشش کی تھی کہ حروفِ تہجی پر بچوں کے لیے نظم لکھیں، میں نے نیٹ سے ڈھونڈ کر دو، تین نظمیں پکڑا دیں کہ جب اتنا کچھ لکھا ہوا ہے تو میں کیا لکھوں۔ :)
 
Top